علم و کتاب
علم و کتاب
June 15, 2025 at 03:11 PM
کیا ہم مسلمان ہیں (٣٥) عرش رسا آوازیں ( دوسری قسط ) تحریر: شمس نوید عثمانی جب کوہِ اُحد پر اہلِ ایمان کے اُن قدموں میں ڈگمگا ہٹ آئی جو ہمیشہ جمے رہنے کے لیے بنے تھے! جب خود پہاڑ لرز اُٹھا ___ جب کُفر نے اسلام کے کُھلے ہوئے سینے پر نا کام مشقِ ستم کے بعد اسلام کی پیٹھ میں خنجر اُتار دینے کے لیے دستِ ستم بڑھایا تو گھن گرج کو کُچل ڈالنے والی ایک آواز فضا میں لہرا رہی تھی ۔ یہ حضرت انس بن نضر رضى اللہ عنہ کی پُر شوق آواز تھی ۔ "اے سعد ؓ ! کہاں چلے ؟ کیا تم نہیں محسوس کرتے ۔ مُجھے تو جنّت کی خوشبو اِسی اُحد کے پہاڑ سے آرہی ہے _____!" پھر انھوں نے جواب کا انتظار کہاں کیا __ ؟ تابِ انتظار تھی کس کو __ ؟ جنّت کی خوشبو سے جو دماغ و دل میں بس گئے ہوں وہ دنیا کی عفونت میں کتنی دیر ٹِک سکتے ہیں؟ دوسرے ہی لمحے حضرت انس ؓ موت سے لشکر پر خود ٹوٹ پڑے تھے ۔ تلوار ان کے ہاتھ میں تھی اور جان ہتھیلی پر __ ! اور نگاہ اس جنّت پر جس کی محض خوشبو سونگھ کر وہ دنیا و ما فیہا سے دامن جھٹک کر چل دیے تھے ۔ جب ان کی رُوح خدا سے جا ملی تو لوگوں نے ان کے گھائل جسم کو دیکھا __ ایک ایسا جسم جس کو جسم سے زیادہ زخم کہنا موزوں ہوگا۔ ایک لاش جس کو ان کی بہن بھی فقط ہا تھ کے پوروں سے پہچان سکی تھی __ ! ایک مجاہد، ایک شہید جس کے جسم پر اسّی گھاؤ تیر اور تلوار کے کیے گیے __ ! اللہ اکبر __ ! اللہ اکبر ! لا الہ الا اللہ __ واللہ اکبر ! اللہ اکبر __ ولِلله الحمد _____! "اور مت کہ دینا مُردہ ان لوگوں کو جو راہِ خدا میں موت کے گھاٹ اُتارے گئے __ نہیں نہیں __ وہ تو جیتے جاگتے ہیں لیکن یہ سمجھنا تمھارے بس کی بات نہیں!" یہی زخموں سے پارہ پارہ بدن گواہ ہے کہ زندگی وہی زندگی ہے جس کو دُنیا موت کہے جائے مگر خدا کہے کہ وہی تو زندگی ہے۔ لیکن ذرا ان مُردوں کا دھیان تو کرو جن کو تمام عمر کبھی اس زندگی کی آرزو تک نہیں ہوتی __ ! کیسے تھے وہ لوگ بھی جو حق پر مر جانے کو مِٹ جانے کو تڑپتے تھے __ ! اور __ اور کیسے ہیں ہم کہ حق پر جینے کے لیے بھی تیار نہیں __ ! واحسرتا ۔ ______________________ حضرت ابو جندل رضى اللہ عنہ کتنے بڑے آدمی تھے __ اللہ اکبر! کتنے بڑے آدمی تھے __ یہی تو تھے وہ بزرگ جو مکّے سے زنجیریں تُڑا کر حدیبیہ کے اس مقام تک گِھسٹتے ہوئے آپہنچے تھے جہاں ان کے اپنے باپ کفّارِ مکّہ کے وکیل سہیل اور اُمّتِ اسلامیہ کے "صاحب ﷺ " کے درمیان صلح کا مُعاہدہ ہو رہا تھا ۔ "واپس جاؤ! سہیل نے جو ابھی تک کا فر تھے اپنے مومن بیٹے ابو جندلؓ کو تلخ ترین لہجے میں حکم دیا تھا ___ لیکن اخوتِ اسلامی کے حسین حلقے تک آجانے کے بعد پھر کفر کی آہنی زنجیروں کی طرف واپس جانا بھلا ایک مومن کے لیے کیوں کر ممکن ہو سکتا تھا۔ وہ واپس نہیں پلٹے ۔ چیخ اُٹھے۔ امتِ اسلامیہ کی طرف غم ناک آنکھیں اُٹھاتے ہوئے پکار اٹھے: "مجھے بچاؤ !!" اس چیخ نے رسول ﷺ اور مومنوں کے سینوں میں جذبۂ اخوّت کا طُوفان اُٹھا دیا __ معاہدہ کی مخصوص دفعہ کی زد سے ان کو بچانے کے لیے حضور ﷺ نے درخواست تک فرمائی مگر پتھریلا کُفر ایک قیدی کو دینے کے لیے کسی طرح بھی راضی نہ ہوا ۔ اب صرف ایک راہ باقی تھی __ بال سے باریک اور تلوار سے تیز تر ! مگر سیدھی خُدا تک لے جانے والی راہ ___ وہ راہ جس میں منزل ساتھ ساتھ چلتی ہے __ وہ راہ جس میں خدا نے بندے کے ساتھ ہو جانے کا یقین اپنی کتاب میں ستّر(٧٠) بار دلایا ہے __ صبرِ جمیل کی راہ _____ "صبر ! اے ابو جندلؓ صبر! حضور ﷺ ضبطِ غم کی عظیم شان سے تلقینِ صبر فرما رہے تھے ۔ " صبر کرو __ ! دیکھو ہم نے ان سب سے یہ عہد کرتے ہوئے خدا کا نام لیا ہے __ صبر کرو __ خدا تمہارے لیے راہ نکالے گا __ " ٹھیک یہی صورتِ حال حضرت ابو بصیر رضی الله عنه کے ساتھ اس وقت پیش آئی جب وہ ایمان لاکر مدینے میں داخِل ہوئے تو ان کے پیچھے پیچھے کفر کے ہرکارے صلح حدیبیہ کے تحت اپنے آدمی کو واپس لے جانے کے لیے حضور ﷺ کے پاس آئے۔ ایک طرف اخوّتِ اسلامی تھی تو دوسری طرف اس معاہدے کی یہ دفعہ کہ مکّے سے آنے والے کو مکّہ لوٹا دیا جائے گا ۔ ایک طرف جذبات تھے تو دوسری طرف اصول __ ابو بصیرؓ کا صبرِ جمیل ہی جذبات اور اصولوں کی درمیانی خیلیج کو پاٹ سکتا تھا __ اور انھوں نے خونِ دل و جگر سے ہنسی خوشی یہ خلیج پاٹ دی ۔ وہ دونوں واپس چلے گئے۔ دونوں نے صبر کا وہ جام اُٹھا یا جو زہرِ ہلاہل سے بھی زیادہ تلخ تھا مگر حق کوشی اور ایمان نے اس میں نہ جانے کون سی حلاوت گھول دی تھی کہ وہ ہنسی خوشی یہ تلخی جھیل گئے۔ نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا۔ انھوں نے آنکھیں بند کر کے خدا پر بھروسہ کیا اور خدا نے ان کے لیے راہ نکال دی ۔ حالات اس درجہ دگرگوں ہوئے کہ جو کافر ان کو ساتھ لے جانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے تھے وہی ان کو واپس مدینہ بلانے کے لیے التجائیں کرتے نظر آئے! _____ مسلمان تو ہم بھی ہیں مگر ہم رات اور دن کو دیکھ دیکھ کر آگے قدم بڑھاتے ہیں ۔ وہ لوگ بھی مسلمان تھے مگر وہ اس ذات کی طرف دیکھا کرتے تھے جس کی قوّت سے دن میں سے رات اور رات میں سے دن نکل آتا ہے۔ اسی لیے ہم گردشِ ایّام کے تھپیڑے کھاتے پھرتے ہیں اور گردشِ ایّام ان کے سامنے تہہ وبالا ہوا کرتی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں قسم کے مسلمان ، مسلمان ہی ہیں ۔ خدا کرے ایسا ہی ہو ۔ ورنہ سوچو تو سہی ہم جیسوں کا کہاں ٹھکانہ ہے ۔ https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B

Comments