علم و کتاب
علم و کتاب
June 16, 2025 at 05:37 AM
*چندے کی عجب تکنیک* https://t.me/ilmokitab میری عمر کوئی آٹھ سال کی ہوگی کہ رمضان شریف آگیا اور میرے محراب سنانے کا اہتمام کیا جانے لگا۔ بیگم صاحبہ جو اپنے تئیں میری دوا یعنی کِھلائی، ہر آئے گئے سے کہتی تھیں اور جنھوں نے مجھے بِن ماں کا ہونا بھلا دیا تھا، چاہتی تھیں کہ اتنی کم سنی میں میرے حافظ قرآن ہونے اور پہلی محراب سنانے پر چاندی کی طشتریاں سارے محلے اور رشتے کنبے میں تقسیم کی جائیں جن میں چار چار حلوۂ سوہن کی ٹکیاں ہوں۔ یہ خبر جب مولانا محمدعلی جوہر تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ اسرافِ بے جا ہے۔ اور میری دادی اماں سے کہلوایا کہ چاندی کی طشتریوں کے بجائے تانبے کی طشتریاں تقسیم کی جائیں اور حلوۂ سوہن کی جگہ بالو شاہی بانٹے جائیں۔ اور اس طرح جو رقم بچے وہ تحریک خلافت میں چندے کے طور پر جمع کرادی جائے۔ مولانا احمد سعید ناظم جمعیۃ علماء ہند کو جب یہ تجویز معلوم ہوئی تو انھوں نے میری دادی اماں سے کہا کہ تانبے کی طشتریوں کی جگہ بالو شاہی پتنگ کے کاغذ کے ہرے اور لال لفافوں میں بانٹ دیے جائیں اور اس طرح جو رقم نکلے وہ جمعیۃ علماء ہند کے فنڈ میں جمع کرائی جائے ۔ آصف علی بیرسٹر جن کی حویلی بالکل ہمارے گھر کے سامنے تھی، انھوں نے میرے والد سے کہا کہ بالوشاہی کی جگہ اس خوشی کے موقع پر آپ کو بتاشے بٹوانے چاہئیں اور جو روپے اس طرح بچیں وہ کانگریس کے چندے میں جانے چاہئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک روپیہ چندے میں دینا بھی بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ چنانچہ میری دادی اماں نے یہ طے کیا کہ تحریک خلافت، جمعیۃ علماء ہند اور کانگریس؛ سب کو اپنی حسبِ توفیق اور ان کی حسب حیثیت چندہ بھی دے دیا جائے اور بچے کی خوشی میں بھی کوئی فرق نہ آئے۔ انتخاب از ”یادوں کا سفر“ (خود نوشت)، مصنفہ: اخلاق احمد دہلوی، ص: 17–18۔ (علم و کتاب گروپ) https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B
❤️ 4

Comments