
علم و کتاب
June 16, 2025 at 07:55 PM
*ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...(01)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
(مورخہ 17-06-2019ء ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر لکھی تاثراتی تحریر۔ تاریخ وفات کی مناسبت سے پیش کی جارہی ہے)
جون 17 کی تاریخ تھی ،نماز مغرب کے بعد دبی کے القوز قبرستان میں ہمارے ایک دوست سے نماز جنازہ سے فارغ ہو کر ابھی ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی کی صحت کے بارے میں دریافت کرہی رہا تھا، کہ خبر آئی کہ ڈاکٹر یم ٹی صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ، ایک روز پہلے میں بھٹکل میں تھا، ان کے بعض خاص احباب وغیرہ سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن ڈاکٹر صاحب کی علالت کی کوئی خبر اس وقت تک عام نہیں ہوئی تھی۔
خبر سنتے ہی آپ کا ہنستا مسکراتا، امید کی روشنی سے دمکتا کتابی چہرہ نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا،جب بھی وطن جانا ہوتا، ان سے ملاقات کبھی نہ کبھی ہوجا کرتی تھی، حالانکہ گزشتہ کئی سالوں سے وہ گوشہ نشین سے ہوگئے تھے، گھٹنے کے درد نے انہیں چلنے پھرنے سے معذور کردیا تھا ، کوئی دس ماہ قبل ان کے دیرینہ ساتھی عبد اللہ دامودی مرحوم بیمار تھے،تو میں ان کی عیادت کے لئے جارہا تھا تو انہیں بندر روڈ پر پارک سے متصل اپنے مکان دار الامن کے باہر کرسی پر بیٹھے دیکھا، قریب ہی ایک دیندارنوجوان ان سے راز ونیاز کی باتیں کررہا تھا، جیسے کوئی مرید اپنے پیرو مرشد سے کیا کرتا ہے،وہ دامودی صاحب کی عیادت کے لئے جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لیکن ان کے چہرے مہرے سے لاچاری محسوس نہیں ہورہی تھی،اس وقت بھی ان کی میں زندہ دلی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، وہ دل کھول کر باتیں کررہے تھے، عیادت کرکے واپس آیا تو وہ ابھی وہاں موجود تھے گویا میرا انتظار کررہے ہوں، پھرپرانی یادیں تازہ ہونے لگیں، ڈاکٹر صاحب تعلقات نبھانے والے انسان تھے، ایک بار ان سے جوتعلقات قائم ہوگئے تو پھر ان میں دراڑ شاذونادر ہی پڑتی تھی، وہ دوستیوں کو نبھانا جانتے تھے، عمروں کا فرق ان کے روابط وتعلقات میں آڑے نہیں آتا تھا۔انہوں نے 1940 میں اس دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں، لیکن 79 سال گزرنے کے باوجود کبھی ان کے رویوں سے محسوس نہیں ہواکہ ان پر پیرانہ سالی چھا گئی ہے، یا پھر ان کا دماغ بوڑھا ہونے لگا ہے۔
آپ کا آبائی مکان تکیہ محلہ کراس میں دامدے منا ہاوس تھا، جو آپ کے والد سعدا محمد تقی کوزاپو اور ان کے بھائیوں میں مشترک تھا ، آپ کا شمار بھٹکل کے کامیاب تاجروں میں ہوتا تھا، منگلور میں آپ کاروبار کیا کرتے تھے، اسی طرح آپ کے چچا سعدا محمد جفری کوچوصاحب جو کہ بانیان جامعہ میں شامل تھے، وہ بھی تجارت پیشہ تھے، منگلور کی سعدا اینڈ کمپنی کو اس کے زوال کے دنوں میں سنبھالا دیا تھا، ابھی آپ کی عمر دیڑھ سال کی تھی کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ، اور ابھی ان کی عمر چھ سال کی ہورہی تھی کہ آبائی مکان کو تنگی کی وجہ سے چھوڑ کر فاروقی مسجد کے قریب گوائی منزل منتقل ہونا پڑا ،اسی مکان کی پہلی منزل پر کوئی سولہ سال بعد ایک استاد اور دو کم سن بچوں کی بسم اللہ خوانی سے جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی بنا پڑی تھی، اب آپ اپنے بہنوئی محمد میراں گوائی مرحوم کی سرپرستی میں آگئے تھے، میراں صاحب کا قیام عموما ممبئی میں رہتا جہاںوہ کاروبار سے وابستہ تھے، اس زمانے میں شہروں اور قصبوں کے درمیان فاصلے بہت لمبے ہوا کرتے تھے ، جہاں آج ممبئی بارہ گھنٹوں میں بس یا ٹرین پر پہنچتے ہیں، وہیں یہ سفر بخاری جہاز اور بس پر تین دن اور تین راتوں میں طے ہوتا تھا، تلاش معاش اور تجارت کا راہی عموماً سال بھر گزار کرہی وطن لوٹتا تھا، گھر والوں سے رابطہ کا واحد ذریعہ خطوط ہی ہوا کرتے تھے، جو کبھی ہفتے بعد اپنے منزل مقصود پر پہنچتے ، ایسے ماحول میں بچوں پر سرپرستوں کی نگرانی کا کیا سوال؟ ، بس اللہ کا سہارا ہوتا، نصیبے اچھے ہوتے، دعائیں اثر کرتیں تو زندگی پار لگ جاتی ، ورنہ ناخواندگی اور جہالت کو عام ہونے سے روکنے والے اسباب بہت سارےتھے ، اب یتیم حسن باپا کی پردہ نشین ماں کہاں تک اپنے شریر بچے پر قابو رکھ پاتیں، انجمن میں لشتم پشتم تعلیم ہوتی رہی، لیکن گلی کوچے کے بچوں کے ساتھ کبھی ہوناور ، کبھی شرالی اور مردیشور میں گھومنے پھرنے اور آوارگی ہی میں زیادہ ان کا دل لگتا ، یہاں تک کہ نویں کلاس میں پہنچ کر لڑھک گئے، اب پڑھنے میں مزید کیسے جی لگتا ، ہمجولی اب ان کی عمر سے چھوٹے ہوگئے تھے ، ان کے ساتھ درجے میں بیٹھنے میں شرم سی آنے لگی تھی،اس زمانے میں انہیں قاضی اکرمی ، مولانا خیال وغیرہ اساتذہ کو ستانے میں مزہ آتا تھا، لہذا شرارت کی اس جیتی جاگتی تصویر کو مولانا خیال نے یم ٹی کا نام دے دیا تھا، جس میں جہاں والد ماجد کے نام محمد تقی کا مخفف تھا، تو وہیں انگریزی کے empty یعنی خالی ہونے کی تلمیح بھی۔ آپ نے گوائی میراں صاحب کو لکھا کہ ان کا جی یہاں پڑھنے میں نہیں لگ رہا ہے، انہیں ممبئی بلا لیں، جواب آیا کہ ٹھیک ہے چننا ہوٹل میں بات ہوگئی ہے، آنے پر وہاں گلاس اور برتن دھونے اور ٹیبل صاف کرنے کا کام مل جائے گا، خط پڑھ کرسر پر گھڑوں پانی گرگیا، اور پھر تعلیم مکمل کرنے کی ایسی ٹھانی کہ دوسال محنت کرکے گیارھویں جماعت امتیازی درجات سے پاس کی ، یہ سنہ 1960ء کی بات ہے۔
یم ٹی صاحب کے بدلتے رنگ ، ان میں پڑھنے کے شوق ، اورلگن کو دیکھ کر الحاج محی الدین منیری صاحب نے جو ممبئی میں گوائی میراں صاحب کے بڑے گہرے دوست تھےمشورہ دیا کہ انہیں یونانی طبیہ کالج دہلی میں داخل کیا جائے، یہاں آپ نے چھ سال تعلیم طب میں گزارے، یہاں کا ماحول آپ کے فکر وعمل میں بنیادی انقلاب کا باعث بنا ، جہاں آپ جماعت اسلامی ہند کی اس وقت کی اہم شخصیات، مولانا ابواللیث ندوی، جناب سید حامد حسین وغیرہ سے قریب ہوئے، وہیں مرکز نظام الدین سے بھی نزدیکی ہوئی، یہ حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کا زمانہ تھا ، اس زمانے میں یم ٹی صاحب قرول باغ سے مرکز نظام الدین ہر جمعرات کو اجتماع میں پابندی سے شریک ہوتے ، حالانکہ قرول باغ سے مرکز کافی دور تھا، اور مواصلات کا نظام بھی اس زمانے میں کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔ یہی اثر تھا کہ جماعت اور تبلیغ کی فکر کو ایک ساتھ لے کر چلنے کی لگن انہیں آخر تک رہی۔ (جاری)
https://whatsapp.com/channel/0029Vahcr7L4NVitnhxGr60B