
علم و کتاب
June 17, 2025 at 07:15 PM
*ایک پیکر صبر ووفاء کی جدائی۔ ڈاکٹر حسن باپا یم ٹی...(02)۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری (بھٹکل)*
(مورخہ 17-06-2019ء ڈاکٹر صاحب کی رحلت پر لکھی تاثراتی تحریر۔ تاریخ وفات کی مناسبت سے پیش کی جارہی ہے
اس زمانے میں منیری صاحب کے تعلقات ان سے مزید مستحکم ہوئے، کہتے تھے کہ منیری صاحب کے بھتیجے عبد الرشید منیر ی کاکم عمری میں باندرہ ریلوے اسٹیشن پر اغوا ہوا، اغوا کار ایک گول مٹول خوبصورت لڑکے کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے، وہ انہیں ہزاروں میل دور ہاپوڑ لے گئے، جہاں انہوں نے سیب اور پھلوں کے باغات میں انہیں رکھا، آٹھ مہینے تک کوئی اتا پتہ نہیں تھا، اس دوران آپ کے والد محمد علی منیری بھی اکلوتے فرزند کی واپسی دیکھے بغیر اللہ کو پیارے ہوگئے، اتفاق سے ہاپوڑ کے ایک پڑوسی کو اس نووارد بچے کی حالت زار کا علم ہوا تو اس نے ایک خط کے ذریعہ منیری صاحب کو اطلاع دی، دہلی سے ہاپوڑ تک رفاقت کے لئے اس وقت آپ کی نظر ڈاکٹر یم ٹی ہی پر پڑی، دیس اجنبی تھا،جن سے واسطہ پڑ رہا تھا وہ خوفناک تھے، منیری صاحب نے آپ کو ساتھ لے لیا ، یم ٹی مرحوم راوی ہیں کہ اتنے دنوں بعداس عالم غربت میں بغیچے میں تنہا بھتیجے پر جو نگاہ پڑی تو صبر کا دامن ہاتھوں سے ٹوٹ گیا ، منیری صاحب ڈھاڑیں مار مار کر رونے لگے ، آپ کو اس طرح روتے شاید ہی کسی نے آ پ کو دیکھاہوگا۔
تعلیم مکمل کرکے آپ نے تین سال مدھیہ پردیش کے شہر برہان پور میں گزارے، جہاں کالج میں پڑھاتے بھی تھےاور دواخانہ بھی چلاتے تھے، یہاں کا ماحول خالصتا بریلوی مکتبہ فکر کے ماننے والوں کا تھا، لیکن دہلی میں بڑوں کی صحبت نے زندگی کو بامقصد بنادیا تھا، مسلمانوں میں دعوتی و تعلیمی کام کی فکر لاحق ہوگئی تھی، یہاں آپ نے مقامی نوجوانوں کو تحریک دے کر تربیت اطفال کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا اور بلال نرسری اسکول کی بنیاد ڈالی، جو کہ اس شہر کو چھوڑنے کے بعد بھی عرصہ تک جاری رہا۔
1969ء میں آپ ممبئی منتقل ہوئے، اس زمانے میں انجمن اسلام طبیہ کالج ایک نامی گرامی ادارہ تھا، یوں تو اس کے پرنسپل حکیم مختار احمد اصلاحی مرحوم تھے، لیکن عملا ممبئی کے ایک فعال شخص ڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والا، اس ادارے کے کرتا دھرتا تھے، یم ٹی صاحب کا ان سے تعارف تھا، جمخانہ والا نے آپ کو طبیہ کالج کا وائس پرنسپل مقرر کردیا ، جہاں آپ ۲۰۰۵ ء کے آس پاس تقریبا پچیس سال خدمات انجام دے کر سبکدوش ہوئے۔ یہی دور آپ کی زندگی کا زرین ترین دور رہا ۔
ممبئی میں معاشی وسائل کی فراہمی کے ساتھ ہی آپ کو بھنڈی بازار میں اپنا ایک فلیٹ لینا نصیب ہوا، اس وقت اس کی قیمت ۲۴ہزار روپئے تھی،جو اس زمانے کے لحاظ سے بڑی خطیر رقم تھی، ہمت افزائی کے لئے منیری صاحب نے بھی آپ کو ایک معقول رقم بطور قرض دی، یہ فلیٹ مختلف دینی ، قومی و ملی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ، یہاں ہر بدھ کو ہفتہ واری اجتماع ہونے لگا، ابتدا میں درس قرآن اور تبلیغی نصاب کی خواندگی یہاں یکساتھ ہوتی تھی، چند دنوں بعد 1970ء میں بائیکلہ میں عبد اللہ دامودی مرحوم کے فلیٹ پر ایک نشست میں ادارہ بنام آئی ٹی آئی کی داغ بیل ڈالی گئی، نام کے سلسلے میں اس وقت کی مختلف علمی و دعوتی شخصیات سے آپ نے رابطہ قائم کیا جن میں مولانا عامر عثمانی مدیر تجلی دیوبند اور مولانا اسحاق جلیس ندوی مرحوم سابق مدیر تعمیر حیات لکھنو شامل تھے، اور آخر الذکر کے مجوزہ نام کو پسند کیا گیا تھا۔ مولانا جلیس مرحوم ہی کے توسط سے آپ کا حضرت مولاناسید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے رابطہ ہوا۔ جاری۔۔۔۔
سال 1972ء کی انجمن گولڈن جوبلی بھٹکل کی تعلیمی و سماجی تاریخ کا ایک زرین واقعہ تھی، اس کے لئے بحیثیت کنوینر الحاج محی الدین منیری مرحوم کا انتخاب عمل میں آیا تھا، مرحوم ایک بہترین منتظم تھے، وہ نوجوانوں کو قریب کر کے ان سے کام لینے کاہنر جانتے تھے،وہ بھی زیادہ تر ممبئی ہی میں اقامت پذیر ہوا کرتے تھے، لہذا ممبئی جماعت سے وابستہ نوجوانوں سید خلیل الرحمں یس یم، ارشاد ، عبد اللہ دامودی وغیر ہ نے سونیر کی ذمہ داری لی ، یہ لوگ پڑھے لکھے ہونے کے ساتھ ساتھ پرنٹنگ اور اشتہارات اکٹھا کرنے کے فن سے آگاہ تھے، لہذا ممبئی کی اس ٹیم کی لگن اور جد وجہد سے گولڈن جوبلی کا تاریخی سونیر منظر عام پر آیا ، جس سے انجمن کے مالی استحکام میں بھی بڑی مدد ملی، گولڈن جوبلی کے ساتھ ہی آپ کے ساتھیوں کو نائطی زبان میں ایک پندرہ روز اخبار بھی جاری کرنے کا شوق پیدا ہوا، اسے پیدا کرنے میں حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی علیہ الرحمۃ کی رہنمائی کا بھی خاصا اثر تھا، جو پہلے روز سے نائطی زبان میں دینی لٹریچر تیار کرنے کی ہمت افزائی کرتے تھے ، گولڈن جوبلی ایک سنہرا موقعہ تھا، اس موقعہ سے فائدہ اٹھا تے ہوئے، النوائط کے قلمی نسخے کا اجراء ہو ا،چونکہ جوبلی کی مصروفیات اتنی زیادہ تھیں کہ اخبار کے پہلے شمارے کو پریس لے جانے کی فرصت نہیں تھی، بھٹکل کے معروف خطاط اور مصور الطاف دامودی کی کتابت اس شمارے میں غالب رہی ، النوائط پندرہ سال تک جاری رہا ، اور اس کی ادارت ڈاکٹر یم ٹی، عبدا للہ دامودی اور ڈاکٹر محمد حنیف شباب میں یکے بعد دیگرے چلتی رہی،قومی شاعر و ادیب سید عبدا لرحیم ارشاد مرحوم بھی ابتدا میں اس قافلے کے ساتھ رہے ، پھر انہوں نے اپنی راہ الگ بنالی، اور تین سال بعد پندرہ روزہ نقش نوائط ممبئی مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی دعاوں سے شروع ہوا، جو آپ کی رحلت کے بعد اب بھٹکل سے جاری ہے، اس پندرہ روزہ سے پہلے مورخ بھٹکل مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی ندوی مرحوم نے النوائط ہی کے نام سے ایک مجلہ کا آغاز کیا تھا، جس کے ناشر یس جے برہان الدین مرحوم تھے، یہ پرچہ بھی چند شماروں کے بعد دم توڑ گیا ۔
اسی دوران خبر آئی کہ بھٹکل میں کرسچین مشنری اسکول آنے والا ہے، ڈاکٹر صاحب کو اطفال کی تعلیم و تربیت کا برہان پور سےتجربہ تھا، آپ اور ساتھیوں نے مل کر اسکے اثر کو ختم کرنے کے لئے اسلامی بنیادوں پر ایک عصری تعلیمی اسکول کے قیام کا منصوبہ بنا یا ، ایک سال کے اندر یہ منصوبہ روبہ عمل آیا ، اور مین روڈ پر بسدی کےپڑوس میں نشاط گارڈن میں اپنے محدود وسائل کے ساتھ شمس نرسری اسکول کے نام سے اس کا آغاز ہوگیا، مشنری اسکول نے بڑی چالاکی سے کام کیا تھا، مسلمانوں کو رجھانے کے لئے قرآن و دینیات کی تعلیم کے لئے ایک سند یافتہ قاری کی خدمات بھی انہوں نے حاصل کی تھیں ، لیکن نرسری اسکول قائم کرنے والوں کے اخلاص اور کوششوں کا نتیجہ تھا کہ دو چار سالوں میں مشنری اسکول نے بوریہ بستر باندھ لیا، اور چند سال دم لے کردوبارہ منظم ہوکراس نے دوبارہ بھٹکل میں اپنے شاطرانہ پنجے گاڑدئے ۔ نرسری پھر بستی روڈ پر پرانے مسمار شدہ فلم ٹھیٹر کی جگہ پر منتقل ہوا، یہاں سے اب جامعہ آباد روڈ پر اپنی وسیع مملوکہ زمین میں نیو شمس انگلش اسکول کے نام سے ایستادہ ہوا۔ اور نیک نامی کے ساتھ نونہالا ن قوم کی تعلیمی اور تربیتی خدمات انجام دے رہا ہے۔
بھٹکل مسلم جماعت ممبئی اور بھٹکل کے مرکزی اداروں انجمن حامی مسلمین بھٹکل میں عرصہ تک آپ انتظامیہ ممبر رہے، اور اپنے نیک مشوروں سے مستفیدکرتے رہے ، انجمن میں ۱۹۷۰ ء کے الیکشن کے بعد ایک موقعہ پر کنگ میکر کا کام بھی انجام دیا ، اس الکشن کے کنوینر مرحوم منیری صاحب تھے، حالات ایسے بن گئے کہ عہدے داران میں مرکزی اہمیت سکریٹری کو حاصل ہوگئی تھی، غیر رسمی طور پر بحیثیت صدر جناب یس یم سید محی الدین مولانا، اور جنرل سکریٹری جناب یس یم یحیی کے نام پر اتفاق رائے ہورہا تھا، جوکہ اس وقت چنئی اور بنگلور میں رہتے تھے، اس طرح سکریٹری کے لئے ایک نام پر بھی تقریبا اتفاق ہوگیا تھا، انتخاب کے روز یم ٹی صاحب اور ان کے ہم زلف عبد اللہ لنکا صاحب بھٹکل پہنچے ، انہیں سکریٹری کے لئے مجوزہ نام کسی وجہ سے پسند نہیں آیا، انجمن کے ایک متحرک سینیر ممبر کے پاس پہنچ کر انہوں نے انجمن انتظامیہ میں پہلی مرتبہ داخل ہونے والے نوجون رکن حسن شبر دامدا کا نام تجویز کردیا ، اور چند گھنٹوں کے اندر کنونیسنگ کرکے انہیں سکریٹری کے عہدے پر فائز کردیا، اس انتخاب کے بعد شبر صاحب تقریبا بیس سال تک سکریٹری اور جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے، یس یم یحیی، محتشم عبد الغنی اور شبر کے تکون نے بے مثال رفاقت نبھائی،اور انجمن کی ترقی کی راہ میں انمٹ نقوش چھوڑگئے۔ شبر صاحب بقید حیات ہیں، اللہ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے۔وہ ۱۹۷۱ء میں جامعہ کی شوری کے بھی رکن منتخب ہوئے تھے، لیکن ان کی مصروفیات ایسی رہیں کہ وہ اس سے تادیر وابستہ نہیں رہ سکنے کی وجہ سے سبکدوش ہوگئے۔
ان کا ذریعہ معاش ممبئی سے وابستہ تھا، لہذا ان کا ایک وسیع حلقہ احباب اس شہر میں بن گیا تھا، یہاں پر ان کے دوست ، ہم خیال و ہمجولی چاروں طر ف پھیلے ہوئے تھے، ڈاکٹر صاحب ہمیشہ کسی نظریاتی جماعت کے نظم میں بندھے بغیر کام کرنے کو ترجیح دیتے رہے، لیکن ان کا فکری میلان ہمیشہ فکر مودودی اور جماعت اسلامی کی طرف رہا، ان کے زیادہ تر حلقہ احباب اسی فکر سے وابستہ تھا، آپ نے ان احباب کے ساتھ بڑا وقت گزارا اور ملی پلیٹ فارموں پر اپنی خدمات پیش کرتے رہے، سابق امیر حلقہ اور بعد میں اس سے علحدہ ہونے والی علمی و دعوتی شخصیت شمس پیرازد ہ سے آپ کے گہرے مراسم رہے۔
جب ۱۹۷۵ ءمیں ایمرجنسی لگی ، سہ روزہ دعوت اور زندگی وغیرہ بند ہوگئے، اور جماعت کی قیادت پابند سلاسل ہوگئی ،تو ڈاکٹر صاحب نے داعی کے نام سے ایک پندرہ روزہ شروع کیا، جو اپنے دورکا بڑا معیار ی پرچہ بنا، اسے تحریکی حلقہ کے معیار ی قلم کاروں کا تعاون حاصل تھا، اور اس کی اشاعت پندرہ ہزار تک اس وقت پہنچ گئی، اس زمانے میں ممبئی کے ہفتہ وار بلٹز کا بڑا نام تھا، جس میں خواجہ احمد عباس جیسے سرخے اپنا پیر جمائے ہوئے تھے، داعی کے قلم کاروں کی ٹیم نے اس وقت خوب جم کر اس کا مقابلہ کیا، اس میں شعر و ادب اور طنز ومزاح کےمستقل دلچسپ کالم شامل تھے، ایمرجنسی کے بعد بھی کچھ عرصہ یہ پرچہ جا ری رہا ، لیکن پھر دھیرے دھیرے پس پشت چلا گیا، اور جب بند ہوگیا تو چالیس ہزار روپئے کا قرض ڈاکٹر صاحب پر باقی تھا، ڈاکٹر صاحب کی خواہش تھی کہ النوائط اور داعی کا دوبارہ اجراء ہو، اور یہ اپنے مشن کو دوبارہ سنبھالیں، لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی، اسی وجہ سے جب آپ کے ایک محب مولانا مختار احمد ندوی نے اسے خریدنا اور اور آپ کا تمام قرضہ اتارناچاہا تو آپ نے اس سودے کو قبول نہیں کیا ، یہ عجیب اتفاق دیکھیے کہ مولانانے یہاں سے مایوس ہوکرایک اور بھٹکلی محی الدین منیری مرحوم کے انجمن خدام النبی سے جاری کردہ ماہنامہ البلاغ کو اپنا لیا۔
ڈاکٹر صاحب کو بھٹکل کے تعلیمی اداروں میں اچھی اور معیاری شخصیات کو لانے کی ہمیشہ فکر لاحق رہی، انجمن آرٹس ایند سائنس کالج کے نامور پرنسپل ڈاکٹر سید انور علی مرحوم کو پونا سے ، انجمن پرائمری اسکول کی ہونہار استا نی صبیحہ کو بنگلور سے، اور جامعۃ الصالحات کی استانی شاہد ہ کو مالیگاوں سے لانے میں آپ سے تعاون اور رہنمائی ملی ، اور بقول مرحوم سابق مہتمم جامعہ مولانا شہباز اصلاحی مرحوم کی تعییانی کے لئے حضرت مولانا علی میاں علیہ الرحمۃ کو متوجہ کروانے میں بھی آپ کی شمولیت رہی۔
النوائط جب 1972ء میں جب جاری ہوا تب میں چنئی میں زیر تعلیم تھا، یہاں کے پتے پر جب یہ آنے لگا تو بھٹکلی احباب کی اندرون ہند ور بیرون میں سماجی اور قومی سرگرمیوں سے اس نے ہمیں مربوط کردیا ، اسے گھر کے کسی خط کی طرح ہم پڑھتے تھے، اور نئے شمارے کا انتظار کرتے تھے،یہ ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف تھا، جو تعلق میں بدلا اور کسی نہ کسی طرح ان کی وفات تک جاری و ساری رہا۔ اس دوران 1974ء میں فراغت کے بعد ممبئی میں چند ماہ گزارنے کا موقعہ ملا تو ڈاکٹر صاحب سے بڑی قر بت رہی، پھر 1978 ء کی تعطیلات یہاںگزاریں تب بھی تعلقات میں مزید گرمی پیدا ہوئی، ان کے تعلقات میں خلوص و محبت جھلکتی تھی، 1988 ء میں دبی حلقہ سے ہم نے علحدگی اختیار کی تو انہوں نے اسے شدت سے محسوس کیا، باوجود اس کے آپ سے ذاتی تعلقات و روابط میں کوئی بال نہیں آیا، وہ اسی احترام اور محبت سے ملتے تھے، اور پرانی باتوں کو یاد کرتے تھے، طبعا وہ ایک صلح کل انسان تھے، سب کو ساتھ لے کر جانا چاہتے تھے، لیکن دریا کی لہریں کشتیوں کی خواہشات پر کہاں چلا کرتی ہیں؟انہوں نے زندگی میں کافی رنج برداشت کئے ، اپنے جگری عزیزوں سے دوری کا غم انہیں سہنا پڑا، لیکن وہ صبر کا ایک پہاڑ تھے، انہوں نے راضی برضا رہنے کی بہترین مثال قائم کی، انہوں نے زندگی میں اجتماعی ، ملی ، تعلیمی اور تربیتی کام کرنے والوں کی ایک نسل تیار کی، لیکن ان کی رحلت کے بعد ایک معمولی جلسے کے علاوہ ان کی یاد میں کسی شایان شان اورقابل ذکر سرگرمی کا حال سننے میں نہیں آیا، گزشتہ ایک عشرہ ان کی تنہائی او رگمنامی کے نذر ہوگیا، لیکن امید ہے کہ ان کے اچھے اعمال کا پلڑہ وہاں بھاری ہوگا، جہاں اان کاموں کا دائمی اجر ملا کرتا ہے، وہاں یہ ضائع نہیں جائیں گے ، اور ان کے درجات بلند ہوتے رہیں گے۔اللہم اغفرلہ وارحمہ۔
06-07-2019
Https://telegram.me/ilmokitab