موجِ خیال
موجِ خیال
June 11, 2025 at 04:05 AM
جذباتی کمزوری... ایک نفسیاتی مسئلہ (قاسم علی شاہ) ایلکسیس یونان کے ایک چھوٹے سے شہر میں رہنے والا ذہین، پُرجوش لیکن بے حد جذباتی طبیعت کا مالک جوان تھا۔ کبھی وہ اپنی خوش مزاجی سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا اور کبھی غصے میں آتا تو قریبی دوستوں کو بھی دشمن بنا کر چھوڑتا۔ ایک دن کسی بات پر اپنے باپ کے ساتھ اس کی بحث چھڑگئی، غصے میں آکر وہ گھر سے نکل گیا اور اپنے شہر کے بڑے فلسفی کے پاس جاپہنچا۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا، جب اس کی جذباتی حالت بہتر ہوگئی تو اس نے فلسفی سے پوچھا، ”میرے دل میں طوفان ہے۔ میں کبھی اتنا ہنستا ہوں کہ خود کو بھول جاتا ہوں اور کبھی اتنا روتا ہوں کہ آنسو ہی نہیں رُکتے۔ کیا جذبات انسان کو کمزور بنا دیتے ہیں؟“فلسفی اس کے دل کی بات سمجھ گیا، اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ”آؤ، میرے ساتھ۔“وہ دونوں شہر کے باہر ایک کھلے میدان میں جاپہنچے۔ وہاں کچھ گھوڑے دوڑ رہے تھے۔ فلسفی نے اشارہ کر کے کہا:”تم یہ گھوڑے دیکھ رہے ہو، یہ تمھارے جذبات ہیں۔یہ طاقتورہیں، خوب صورت ہیں اور آزادی کے خواہش مند بھی،لیکن یہ اپنے سوار کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔“جوان کہنے لگا، ”لیکن ہم لگام کی بدولت انھیں قابوکرسکتے ہیں۔“فلسفی نے کہا:”اگر تم لگام بہت زیادہ کھینچو گے تو گھوڑا چلنا ہی چھوڑ دے گا، وہ مرجھا جائے گا، ایسے ہی جذبات دبا دینے سے بھی انسان بے جان ہو جاتا ہے۔””تو پھر کیا کریں؟“ ایلکسیس نے بے بسی سے پوچھا۔ فلسفی کہنے لگا:”خود کو پہچانو۔ گھوڑوں کی رفتار کو محسوس کرو، وقت کے ساتھ انھیں سنبھالنا سیکھو۔ عقل وہ لگام ہے جو جذبات کو سمت دیتی ہے اور سمت وہ منزل ہے جسے دل تلاش کرتا ہے۔“ انسانی زندگی میں جذبات کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ اگر عقل انسان کو صحیح اور غلط کا پیمانہ دیتی ہے تو جذبات اسے جینے کا شعور عطاکرتے ہیں۔ بے حس انسان بظاہر زندہ ہوتا ہے مگر اندر سے کھوکھلا اور خالی۔ دنیا کے بڑے مفکرین، صوفیا، فلسفی اور ماہرین نفسیات نے ہمیشہ اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ جذبات انسان کی روحانی، فکری اور تخلیقی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جلال الدین رومی کہتے ہیں کہ”جسم مردہ ہو جاتا ہے جب روح نہ ہو، اور روح بے رنگ ہو جاتی ہے جب اس میں جذبات نہ ہوں۔“رومی کے نزدیک ”جذبات، انسان کے روحانی سفر کا ایندھن ہیں۔ محبت، غم، درد اور خوشی یہ سب انسان کو مکمل بناتے ہیں۔“اسی طرح سقراط کہتا ہے کہ”عقل تمھیں بتاتی ہے کہ تم کیا کر سکتے ہو، لیکن جذبات تمھیں بتاتے ہیں کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو۔“ڈینیل گولمین کہتا ہے کہ”کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو جذبات کو سمجھ کر ان پر قابو پا کر دوسروں کے جذبات سے ہم آہنگ رہیں۔“اگر انسان میں جذبات نہ ہوں تو وہ محبت نہیں کرسکے گا۔ اس کے رشتے بے معنی ہوجائیں گے۔ وہ دوسروں کا درد محسوس نہیں کرسکے گا۔ اس کے اندر جینے کی امنگ ختم ہوجائے گی۔ وہ روبوٹ کی طرح زندگی گزارنے والا شخص تو ہوگا لیکن زندگی جینے والا انسان نہیں۔ جذبات اور احساسات کی بدولت انسان اپنی اندرونی کیفیات کا اظہار کرتا ہے۔ یہ غم، خوشی، تکلیف، کرب و اضطراب اور سرور کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جذبات کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ انھی کی بدولت ہم اپنی ذاتی اورپیشہ ورانہ زندگی کے معاملات سرانجام دیتے ہیں، لیکن جذبات کاایک منفی پہلو بھی ہے۔ اگر اہم اور سنجیدہ امور کا فیصلہ عقل و فہم کے بجائے جذبات کے ترازو میں تول کر کیا جائے تویہ ہمارے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ آج کی تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ جذباتی طورپر کمزور انسان کون ہوتا ہے اور ہر معاملے میں عقل کے بجائے جذبات سے فیصلہ کرنے والا شخص کن کن مسائل سے دوچار ہوتا ہے۔ (1) خود یقینی کا فقدان ہر انسان اپنے بارے میں ایک رائے رکھتا ہے۔ اب جو رائے اور تعریف اس کی اپنی نظروں میں ہے، اگر اس کی بنا پر وہ خود کو معتبر سمجھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے خود پر یقین ہے۔اس کے برعکس، اگر اسے اپنے آپ پر شک ہے تو مطلب یہ ہے کہ وہ خود یقینی کی دولت سے محروم ہے اور یہ چیز اسے جذباتی طورپر کمزور بناتی ہے۔ جذباتی کمزوری انسان کو اعتماد کی قوت سے بھی محروم کر دیتی ہے اور پھر اس محرومی کی وجہ سے وہ کوئی بھی نیا قدم لینے سے گھبراتا ہے۔ خود پر یقین بڑھانے کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان تمام قابلیتوں اور مہارتوں کی ایک فہرست بنائے جو اس کے اندر موجود ہیں۔ اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بھی لکھے جو لوگوں نے اس کی قابلیت کے بارے میں کہے ہیں۔ اس فہرست کو بار بار دیکھیں۔ اس عمل سے اس کا اپنی ذات پر یقین پیدا ہو گا اور وہ اپنے جذبات و احساسات پر قابو رکھ سکے گا۔ (2) اپنی ذات سے محبت نہ ہونا جذباتی طورپر کمزور انسان اپنے آپ سے محبت نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ کو نظر انداز کرتا ہے اور اس لاپرواہی کی وجہ سے لوگ بھی اسے ناپسند کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے آپ سے محبت کرنا ضروری ہے اور یہ خود غرضی نہیں۔ اپنے آپ سے محبت کرنے والا انسان خود کو دوسروں کی نظروں میں معتبر بناتا ہے۔ وہ صفائی ستھرائی اور شائستگی کا خیال رکھتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بنا سنوار کر رکھتاہے، جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی خامیاں اس کی نفاست کی بدولت چھپ جاتی ہیں۔ (3) جذبات بمقابلہ عقل جب بھی انسان عقل کا مقابلہ جذبات سے کرتا ہے یعنی جس جگہ عقل استعمال کرنے کی ضرورت ہے، وہاں وہ جذبات کا استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جذباتی طور پر کمزور انسان ہے۔ ایسے شخص کے اکثر معاملات خراب ہوتے ہیں۔ وہ لین دین میں بھی جذبات کا سہارا لیتا ہے اور جو کہ بعد میں اس کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ (4) جذبات کی بنیاد پر خود کو جانچنا اپنے آپ کو عقل و شعور کے بجائے جذبات سے جانچنے والا شخص بھی پریشانی کا شکار ہوتا ہے۔وہ سوچتا ہے کہ مجھے اچھا محسوس نہیں ہو رہا یا یہ چیز مجھے ناگوار گزری ہے اور اس کے بعد وہ پریشان ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ ایسا شخص والدین، بچوں اور دوست احباب کے ہوتے ہوئے بھی خود کو اکیلا محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس جو انسان عقل کی بنیاد پر خود کو پرکھتا ہے وہ مطمئن ہوتا ہے۔ اسے بہت جلد یہ سمجھ آجاتی ہے کہ اللہ نے مجھ پر جو احسانات کیے ہیں وہ میری حیثیت سے بہت بڑھ کر ہیں۔ یہ کیفیت اسے شکر گزار انسان بنا دیتی ہے اور شکرگزاری، انسان کو نہ صرف خوش رکھتی ہے بلکہ اسے جذباتی مضبوطی بھی دیتی ہے۔ (5) ہر چیز کے پیچھے وجہ ڈھونڈنا اگرکوئی انسان اپنی زندگی میں آنے والی ہر چیز کے پیچھے وجہ ڈھونڈتا پھرت اہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات پر قابو نہیں رکھ پارہا۔ ایسا فرد اپنے ساتھ ہونے والے معمولی واقعے پر بھی کوئی نہ کوئی جواز گھڑنا شروع کرتا ہے اور خود کو اذیت دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر وہ اپنے کسی دوست کو پیغام بھیجے اور دوست مصروفیت کی وجہ سے جواب نہ دے سکے تویہ شخص بدگمان ہو جاتا ہے اور حقائق کے بجائے جذبات سے معاملات طے کرتا ہے۔جس سے وہ ذہنی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (6) ہر چیز پر قابو پانے کی خواہش جو انسان زندگی میں پیش آنے والے ہر واقعے پر قابو پانا چاہتا ہے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتا اور بہت جلد وہ نفسیاتی مریض بن جاتاہے۔انسان کو صرف اپنے دائرہ اختیار کے کاموں کے متعلق متفکرہونا چاہیے۔اپنے ملک، صوبے، شہر، علاقے اور ادارے کی ہر چیز کو درست کرنا، انسان کے بس میں ہی نہیں ہے۔ اس غلط عادت سے جان چھڑانے کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی زندگی کو قبول کریں اور اس بات کو سمجھیں کہ جو چیز میرے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اسے چھوڑ دینے میں ہی بہتری ہے۔ (7) اپنا اختیار دوسروں کو دینا ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے۔ وہ دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ آپ بتائیں میں کیا کروں؟ یہ بھی جذباتی کمزوری کی نشانی ہے۔ اپنے استاد اور مربی کا ادب و احترام ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ انھیں اپنا سب کچھ سمجھ بیٹھیں، کیوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اور اسی نے ہمیں اپنی زندگی کا اختیار بھی دیا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنا یہ اختیار اٹھاکر کسی اور انسان کی جھولی میں ڈال دے تو یہ قابل افسوس بات ہے۔ عقل و شعور کا مقصد یہی ہے کہ اس کے ذریعے انسان اپنی زندگی کو بہتر بنائے۔ دوسروں سے مشورہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے بعد فیصلے کا اختیار اپنے پاس ہونا چاہیے۔ رشتوں میں ایک مخصوص فاصلہ رکھنا بہت ضروری ہے۔ میں اپنے شاگرد اور قریبی لوگوں کے ذاتی مسائل میں کبھی دخل اندازی نہیں کرتا، ہاں البتہ اگر وہ خود مجھے اپنے کسی مسئلے میں شامل کرلیں تو اس صورت میں بھی میں انھیں صرف مشورہ دیتا ہوں، فیصلے کا اختیار ان کے پاس ہی ہوتا ہے۔ میرے خیال میں لوگوں پر مسلط نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے بھائی یا بیٹے کو بھی عقل و شعور کے لحاظ سے اس قابل بنائیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کرسکے۔ دوسروں سے فیصلے کروانا جذباتی کمزوری کی علامت ہے۔ جذباتی کمزوری کی وجہ سے انسان بہت سے مسائل کا شکار ہوتا ہے۔ ذیل میں چند کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ 1۔ ایسا شخص اکثر اوقات دل شکستہ رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی اور اعصابی طور پر بھی کمزور ہوجاتا ہے۔ 2۔ ایسے فرد کے رشتے خراب ہوتے ہیں۔ 3۔ وہ زندگی کے بے شمار خوب صورت اور یادگار واقعات کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ 4۔ اس کی زندگی میں پچھتاوے زیادہ ہوتے ہیں۔ 5۔ وہ جتنی بھی کوشش کرلے، جذبات اسے آگے بڑھنے سے روکتے ہیں اور وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ والدین، دوست احباب اور معاشرہ، یہ تین وہ عوامل ہیں جو بچپن میں ہمارے جذبات و احساسات کی پرورش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تمام مل کر ہمارے جذبات کو ایک شکل دے دیتے ہیں۔ یہ شکل کمزور بھی ہوسکتی ہے اور مضبوط بھی اور اسی کی بنیاد پر ہمارا رویہ بنتا ہے جس کا اظہار ہم زندگی بھرکرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ والدین کی حیثیت سے ہمیں اپنے بچوں کی جذباتی کمزوری کو جاننا اور اسے دور کرنا چاہیے، نیز انھیں ایسا ماحول فراہم کرنا چاہیے جس میں وہ اپنا اعتماد اور اپنے جذبات کو مضبوط کرسکیں۔ اگر ہمارا کوئی دوست جذباتی کمزوری کا شکار ہے تو اس مسئلے سے نکلنے میں اس کی مدد کرنی چاہیے اور اسے یہ یقین دلانا چاہیے کہ تم اس کمزوری کو شکست دے سکتے ہو۔ کسی صورت حال میں اگر آپ جذباتی ہو رہے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیں اور خود سے سوال کریں کہ میں جو فیصلہ کرنے لگا ہوں، کیا یہ واقعی اہم ہے؟ خود کو اس صورت حال سے جذباتی طور پر منقطع (Disconnect) کریں۔ جب آپ جذبات کے غلبے میں نہیں ہوں گے تب آپ کی عقل درست کام کرے گی اور آپ یہ جان سکیں گے کہ میں جو فیصلہ کرنے والا ہوں وہ ٹھیک ہے یا غلط۔ اگر آپ نے کوئی اہم فیصلہ کرنا ہو تو فوری طورپر نہ کریں، کچھ دن کے لیے موخر کر دیں اور اس دوران اللہ سے مدد مانگیں کہ مجھے درست سمت دکھا دے۔ یوں آپ کا فیصلہ جذبات کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقل و شعور کی بنیاد پر ہوگا جو کہ یقینا آپ کے لیے بہتری لائے گا۔

Comments