
سبق آموز واقعات وحکایات
May 31, 2025 at 10:36 AM
قربانی پر اعتراضات اور ان کے جوابات
قربانی کیا ہے ؟
اسلامی ہجری مہینوں میں ماہ ذو الحجہ اس اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس میں دو اہم عبادات انجام دی جاتی ہیں ایک تو وہی فریضہءحج جس کی وجہ سے اس کا نام ذو الحجہ (حج والا) رکھا گیا ہے دوسرا فریضہءقربانی جسے عربی زبان میں "تضحیہ ، اضحیہ اور قربان"اور انگریزی میں( Sacrifice) کہتے ہیں
یہ قربانی دراصل خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے ہونہار فرزند ارجمند ذیبح اللّٰہ حضرت اسماعیل علیہ السلام دونوں کی مشترکہ یادگار ہے قربانی یوں تو ہر امت اور ہر آسمانی شریعت کا حصہ رہی ہے مگر اس کی بڑے پیمانے پر ترویج و تشہیر پیغمبرِ آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور خیر القرون سے ہوئی اس طور پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریضہ حج کی قربانی کے علاوہ عید قرباں والی قربانی کا اہتمام مدینہ منورہ میں بلا ناغہ مسلسل دس سال تک پابندی سے فرمایا چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
أقام رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة عشر سنين يضحي كل سنة.(سنن الترمذي رقم الحديث:1507)
اسی بنیاد پر دور خیر القرون سے آج تک ہر دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے سچے پیروکار قربانی کا اہتمام کرتے آئے ہیں
اس سال 2024ء مطابق 1445ھ کے ماہ ذو الحجہ کے مبارک ایام چل رہے ہیں چند روز کے بعد مشاعر مقدسہ میں جہاں ایک طرف حجاج کرام ارکان حج کی ادائیگی کے ساتھ اپنی حج والی قربانی کریں گے تو وہیں پوری روئے زمین پر تمام متدین مسلمان اللّٰہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے، خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مؤکدہ کو زندہ کرتے ہوئے لاکھوں کروڑوں اربوں جانور قربان کردیں گے
قربانی کرنے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا تصور تقریباً ہر مذہب میں پایا جاتا رہا ہے اور لامذہبیت کے علمبردار بھی جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں اور آج بھی روزانہ لاکھوں جانور دنیا کے سپر اسٹار ہوٹلوں میں داد عیش دینے والوں کی خواہشات کی تکمیل کے لئے مار گرائے جاتے ہیں مگر جب مسلمان یکساں طور پر یکساں دنوں اتنی بڑی تعداد میں خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر جانوروں کو ذبح کرتے ہیں جس میں سب سے زیادہ نفع غرباء و مساکین کو ہوتا ہے تو بہت سے نام نہاد انسانیت دوست ، امن و شانتی کے ٹھیکیدار اور جدیدیت ، الحاد و لادینیت کے رنگ میں رنگین اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں قربانی کے تئیں بہت سے شکوک وشبہات حتیٰ کہ گستاخانہ خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں بعض مرتبہ وہ زبانوں پر بھی آجاتے ہیں جو حالتِ کفر تک پہونچا دیتے ہیں اس پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر ان غلط فہمیوں میں سے مشہور کا ذکر اور ان کے ازالہ کی کوشش ذیل میں پیشِ خدمت ہے
قربانی پر بے جا اعتراضات
1: قربانی کے ذریعے جانوروں کی بربادی
بعض لوگوں کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں کروڑوں اربوں کھربوں سے زیادہ مالیت رکھنے والے جانوروں کو یوں ہی ذبح کرکے ختم کرڈالنا ایک بیجا عمل ہے اور پیسوں کی بربادی ہے اس کے بجائے یہی رقم اگر غریبوں ، بے روزگاروں اور مصیبت کے گرفتاروں ، رفاہی ، سماجی بہبود کے کاموں میں صرف کردی جائے تو کیا ہی اچھا ہو
یہ تصور بڑا ہی خوبصورت معلوم ہوتا ہے مگر یہ دراصل لادینیت اور ملکیت کے آزادانہ و لادینی تصور کی پیداوار ہے حقیقت یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کی بندگی ، اطاعت و رضا جوئی بدنی عبادات سے مطلوب ہے جن کا تصور تقریباً سماج کے ہر شخص کی زندگی میں موجود ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی کوشش مالی بندگی سے بھی مطلوب ہے مالی بندگی کا طریقہ صرف غرباء و مساکین پر روپیہ پیسہ صرف کرنا نہیں ہے بلکہ جانوروں کو جو قیمتی مال مانے جاتے رہے ہیں ذبح کرنا بھی مالی بندگی کا طریقہ ہے جس میں بے روزگاروں، کمزوروں ،بھوکوں، قسمت کے ماروں اور غرباء و مساکین ہی کا فائدہ سب سے زیادہ ہوتا ہے اور یہ طریقہ ہر دور میں ہر مذہب میں رائج رہا ہے یہی وجہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں زکوۃ و صدقات کے علاوہ قربانی کے ایام میں جانوروں کو ذبح کرنا مستقل طور پر مطلوب ہے اور قربانی کے دنوں میں ذبحِ حیوانات سے بڑھ کر کوئی عمل حتیٰ کہ کروڑوں اربوں کھربوں روپیہ صدقہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی کی طرح قرب و قبولیت والا نہیں ہے چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام نحر میں قربانی کرنے اور جانوروں کا خون بہانے کو محبوب ترین عمل بتایا ہے سنن ترمذی کی حدیث میں ہے:
" ما عمل آدمي من عمل يوم النحر أحب إلي الله من إهراق الدم. (رقم الحديث:1493)
ترجمہ: عید قرباں کے دن خون بہانے سے زیادہ کوئی بھی عمل خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہے
2: قربانی کرنا دراصل جیو ہتھیا کرنا ہے
بعض ہندو مت سے وابستہ اور ان سے متاثر مسلمانوں کے ذہن وفکر میں یہ سوال گردش کرتا ہے کہ اسلامی شریعت نے قربانی کو رواج دے کر " جیو ہتھیا" گوشت خوری ، گاؤ کشی اور ظلم و درندگی کے مزاج کی حوصلہ افزائی کی ہے جبکہ اسلام امن و آشتی ، رحمدلی اور انسانیت کی تعلیمات کا علمبردار ہے
یہ اعتراض ہندو مت ، اسلامی شریعت میں جانوروں کے حقوق اور فطرت انسانی و جدید تحقیقات سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوا ہے
قربانی ہندو مت میں
ہندو مت ہی نہیں دنیا کے تقریباً تمام ہی مذاہب میں گوشت خوری ، ذبیحہ وقربانی کا ثبوت ملتا ہے ہندو مت کی نمائندہ کتابوں میں سے ایک کتاب رگ وید میں لکھا ہے:
" اے اندر! تمھارے لئے پسان اور وشنو ایک سو (100) بھینسیں پکائیں (بحوالہ جدید فکری مسائل جلد اول صفحہ 197)
اسی طرح ہندو مت کی مقدس تعلیمات کی قانونی کتاب" منو سمرتی " میں کہا گیا ہے:
" مچھلی کے گوشت سے دو ماہ تک ، ہرن کے گوشت سے تین ماہ تک ، بھیڑیئے کے گوشت سے چار ماہ تک اور پرند جانور کے گوشت سے پانچ مہینے تک پُتَّر آسودہ رہتے ہیں (ایضاً)
ہندوستانی لیڈر مہاتما گاندھی کے بقول ایک زمانے تک ہندو سماج میں جانوروں کی قربانی اور گوشت خوری کا عمل عام تھا اور ڈاکٹر تارا چند کے بقول ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے حتیٰ کہ گائے کے چڑھاوے اور اس کے گوشت کھانے کا ذکر بھی ملتا ہے
قربانی کے اسلامی طریقے میں جانوروں کے حقوق
اسلامی شریعت میں جانوروں کے حقوق کے پاس و لحاظ کے سلسلے میں بہت سی تعلیمات دی گئی ہیں جن میں سے بعض کا تعلق ذبح کرنے سے بھی ہے مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے جو جانور کے سامنے چھری تیز کررہا تھا ارشاد فرمایا :
"أتريد أن تميتها موتات ؟ هلَّا حددت شفرتك قبل أن تضجعها.(مستدرك على الصحيحين رقم الحديث:7563)
ترجمہ: کیا تو چاہتا ہے کہ اس کو کئی موت مارے ؟ تو نے اس کو لٹانے سے پہلے ہی اپنی چھری کیوں تیز نہ کرلی
صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو ذبح کرنے میں بھی ایسا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا جس میں جانور کو کم سے کم تکلیف اٹھانی پڑی اور وہ جلدی سے قربان ہو جائے اور وہ ذبح و نحر ہے اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از ذبح چھری تیز کرلینے کا حکم دیا تاکہ ذبح ہونے میں زیادہ وقت نہ لگے حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
" إذا ذبحتم فأحسنوا الذبحة ، وليحد أحدكم شفرته و ليرح ذبيحته.(حديث نمبر:1955)
ترجمہ: جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے پر ذبح کرو اور تم میں سے ہر شخص کو اپنی چھری تیز کرلینی چاہیے اور اپنے ذبیحہ کو راحت پہنچانا چاہئے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھیا جانوروں کو ذبح کرنے سے منع کیا ہے تاکہ اس کے بچوں سمیت اس کے مالک کا نقصان نہ ہو چنانچہ فرمایا:
" لاتذبحن ذات درٍّ.(سنن الترمذي رقم الحديث:2369)
ترجمہ: دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرو
فقہاء کرام نے حاملہ جانوروں کو قبل از ولادت ذبح کرنے سے منع کیا ہے اور اسے مکروہ لکھا ہے صاحبِ البحر الرائق لکھتے ہیں:
"يكره ذبح الشاة إذا تقاربت ولادتها.(ج 8,ص171)
یہ اور اس طرح کی اسلامی تعلیمات جو ذبح حیوان کے سلسلے میں آئ ہیں صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ جانوروں کو ذبح کرنا حکم الٰہی کی تعمیل ہے کیونکہ جانور بھی خدائی نعمت ہے جسے اس کی رضا کے لئے پیش کردینا عین بندگی کا تقاضا ہے اور اسے ذبح کرکے نہ جانوروں کو مارنا مقصود ہے اور نہ انھیں تکلیف پہنچانا
قربانی فطرتِ انسانی کے نزدیک
تیسری بات جو اس سلسلے میں غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ فطرتِ انسانی اور فطرتِ حیوانی دونوں کا تقاضا ہے کہ انسان گوشت کھائے اور اس کے ذریعے اس کے غذائی اجزاء مکمل ہوں
1: کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو لحمی و غیر لحمی دونوں طرح کی غذاؤں کو اپنی جزو خوراک بنانے کے لئے نوکیلے اور غیر نوکیلے دانت عطا کیے ہیں
2: اسی طرح دیگر نباتات خور جانوروں کے برعکس انسان کا معدہ لحمی و غیر لحمی دونوں طرز کی غذاؤں کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے
3: اسی طرح انسانی جسم میں مضبوط قوّت اور سخت محنت والے کاموں کے لیے لحمی غذاؤں کی وافر مقدار مطلوب ہوتی ہے جس سے وہ توانائیاں حاصل ہوتی ہیں جو نباتاتی غذاؤں سے نہیں ہوتی بلکہ صرف نباتاتی غذاؤں پر انحصار رکھنے والے بھی لحمیات کی کمی ہوجانے پر لحمی دواؤں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں
فطرتِ انسانی کے ان تینوں پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلامی شریعت نے قربانی کا حکم دے کر کس قدر فطری تقاضوں کی رعایت اور اس کی تکمیل کا سامان کیا ہے
قربانی جدید تحقیقات کی نظر میں
جو لوگ قربانیوں کے ایام میں " جیو ہتھیا" کا نام نہاد رحمدلانہ نعرہ لگاتے ہیں انھیں اس پہلو پر سائنسی نقطہء نگاہ سے بھی دیکھنا چاہیے کہ آیا روئے زمین پر رہتے ہوئے انسان کا جیو ہتھیا سے بچ پانا ممکن بھی ہے یا نہیں ؟ کیونکہ ہر انسان خواہ ماسک (Face cover ) ہی کیوں نہ لگائے ہوئے ہو روزانہ نہ جانے کتنے زندہ وجودوں کے ارادتاً و غیر ارادتاً قتل کا مرتکب ہوتا ہے اس طور پر کہ پانی کے گلاس ، ہوا آکسیجن اور دواؤں کے ذریعے کتنے جراثیم منتقل ہو کر مر جاتے ہیں اور ہمارے جسم کے اندر کتنے زندہ خلیات (Living cells ) مرتے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور انسان روزانہ مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہ کر یا راہ گزرتے ہوئے کتنے کیڑے مکوڑوں کو موت کے منہ میں پہونچا دیتا ہے
اب تو جدید تحقیقات سے پودوں درختوں فصلوں تک میں زندگی کا ثبوت ہوچکا ہے مشہور اسلامی اسکالر اور دانشور ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں:
" آج سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ پودے بھی تکلیف محسوس کرتے ہیں تاہم ان کی چیخ و پکار انسان نہیں سن سکتے ہیں (اپنی محدود قوت سماعت کی محدود صلاحیت کی بنا پر)
ایک امریکی کسان نے تحقیق کی اور اس نے ایسا آلہ ایجاد کیا جو پودوں کی چیخ و پکار کو اس طرح کردیتا ہے کہ اسے انسان سن سکے اس کے ذریعے سے وہ فوراً یہ محسوس کرنے کے قابل ہوگیا کہ پودا کب پانی کے لئے چیخ رہا تھا جدید تحقیقات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ پودے خوشی اور غم کو بھی محسوس کرتے ہیں اور چلّا بھی سکتے ہیں (بحوالہ اسلام پر بے جا اعتراضات صفحہ 538)
اس لئے جیو ہتھیا سے بچنا روئے زمین پر رہتے ہوئے ممکن نہیں ہے
صحیح نظریہ یہ ہے انسان اپنی عقل، طرزِ فکر اور نظریہ حیات میں آزادانہ و بے لگام گھوڑے دوڑانے کے بجائے خود خالق کائنات کی ہدایات سے روشنی حاصل کرے اور فکر ونظر کی گمراہ کھائیوں میں گرنے سے خود کو بچائے
3: قربانی سے انسانی معاشرے کا نقصان
ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں یوں ہی جانوروں کو ذبح کیا جاتا رہا تو انسانی معاشرہ جانوروں کی بار برداری ، دودھ ، گھی، مکھن خوردنی اشیاء سے محروم ہوکر غذائی اجناس کی قلتِ پیداوار کی مصیبت میں گرفتار ہوجائے گا اور بےشمار کاروباریوں کو نقصان پہونچے گا
یہ خیال بھی صرف تعصب اور زمینی حقائق سے ناواقفیت کی پیداوار ہے کیونکہ اسلامی ممالک سمیت غیر مسلم ممالک میں ڈیڑھ ہزار سال سے لاکھوں کروڑوں جانور ذبح ہوتے چلے آرہے ہیں مگر نہ تو کسی حلال جانور کی نسل ختم ہوئی نہ ان کی تعداد گھٹی اور نہ دودھ والی غذائی اجناس کی کمی واقع ہوئی بلکہ اس کے برعکس قربانی کی برکات کے اثرات حیرت انگیز حد تک انسانی معاشرے میں موجود رہے اس طور پر کہ آج کے مقابلے میں دودھ ، گھی اور مکھن خوردنی اشیاء ہمیشہ کم قیمت پر دستیاب ہوتی رہیں اور ہزاروں بےروزگاری کے ماروں کو روزگار فراہم ہوتا رہا اور آج بھی وہ ممالک جہاں گاؤ کشی یا حلال ذبیحہ پر پابندی ہے وہاں دودھ و گھی وغیرہ کا نرخ ان ممالک کے مقابلے زیادہ رہتا ہے جہاں ذبائح کی پابندی نہیں ہے اور وہاں قربانی کی شرح اور جگہوں کے مقابلے زیادہ رہتی ہے
اس کے بالمقابل اگر جانوروں کے ذبیحہ وقربانی پر پابندی عائد کردی جائے تو اس کے دینی نقصانات تو ہونگے ہی دنیوی ، سماجی اور معاشی نقصانات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے کیونکہ جانوروں میں شرح پیدائش انسانوں کے مقابلے ہمیشہ زیادہ رہتی ہے تو قربانی پر پابندی کا نتیجہ یہ ہوگا انسانی معاشرے میں جانوروں کی کثرت کی وجہ سے بےشمار مشکلات پیدا ہوجائیں گی بالخصوص باغات ، فصلوں اور ٹریفک نظام درہم برہم ہو جائے گا اور جانوروں کا وجود انسانی معاشرے کے لیے ناسور بن کر رہ جائیگا
4: گوشت خوری سے حیوانی مزاج تشکیل پاتا ہے
قربانی پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ قربانی کا گوشت کھانے والوں کا مزاج محبت ، رحمت ، اخوت ، نرمی اور شفقت سے خالی ہوجاتا ہے اور ان کے اندر گوشت خور حیوانات کی صفات پیدا ہوجاتی ہے تشدد، ہنسا (violence)ان کے مزاج کے غالب عناصر بن جاتے ہیں جو انسانی معاشرے کے لیے سخت نقصان دہ ہیں
یہ اعتراض بھی تاریخی واقعات اور ہنسا و مظالم کے لیڈروں اور امن و شانتی کے علمبرداروں ، ہمدردی انسانیت کے پرستاروں کی زندگیوں سے ناواقفیت سے پیدا ہوا ہے
شری گوتم بدھ اور حضرت مسیح علیہ السلام کو عدم تشدد و رحمدلی کا سب سے بڑا داعی مانا جاتا ہے کیا یہ گوشت خور نہیں تھے یا صرف نباتاتی غذاؤں پر منحصر تھے ؟
ہٹلر کے مظالم سے پوری دنیا واقف ہے وہ تو صرف سبزی خور تھا گوشت خور نہیں تھا ،
آج بھی دنیائے انسانیت میں جن ممالک کے سربراہوں نے مسلم اکثریتی ممالک کو اپنا غلام بنا کر مظالم کی انتہا کررکھی ہے کیا وہ سب سے زیادہ گوشت خور ہیں ؟
حقیقت یہ ہے کہ مزاجی کیفیات کی تشکیل کا انحصار دراصل فکری ، تعلیمی اور تربیتی رجحانات سے ہے جو رجحانات انسان کی دلی نفسیات کے غماز ہوا کرتے ہیں اس لئے غذاؤں سے زیادہ اثرات اچھے برے ماحول ، فکری تعمیر ، تعلیمی نظام اور تربیتی پروگرامز کے پڑا کرتے ہیں اصل ضرورت فکر کی درستگی اور صالح لوگوں کی تعلیمات ، رجحانات کو اپنانے اور عام کرنے کی ہے لحمی غذاؤں پر پابندی عائد کرنے کی نہیں
سطور بالا میں ذکر کیے گئے چند شبہات کے ازالہ اور بعض مشہور اعترضات کے جوابات پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ یہ تحریر طویل ہوگئ ہے بہرحال یہ اگرچیکہ طویل ہے مگر قربانی کے سلسلے میں پھیلائے گئے شبہات کے کسی حد تک ازالہ میں معاون ثابت ہوگی
خدا تعالیٰ دین کے حقائق کی صحیح تفہیم ، تشریح اور تعمیم کی توفیق عطا فرمائے آمین
👍
❤️
💙
4