
سبق آموز واقعات وحکایات
June 2, 2025 at 11:37 PM
*⛰️آخری چٹان⛰️*
*قسط نمبر 12*
*🖋️مصنف == نسیم حجازی*
سپاہی_کی_بیٹی
✍🏻تہہ خانے کی تاریکی میں ہر لخطہ اضافہ ہورہا تھا۔۔ تاتاری اپنی زبان میں کوئی راگ گا رہے تھے۔ طاہر عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد دیر تک بیٹھا رہا۔جب تاتاریوں کا راگ ختم ہوا تو وہ ثریا اور اسماعیل کو تیار رہنے کا مشورہ دے کر سیڑھی پر چڑھا اور چھت کے قریب کان لگا کر سننے لگا۔ایک تاتاری باتیں کر رہا تھا اور باقی خاموش تھے۔تاتاری زبان کے چند الفاظ طاہر بھی سیکھ چکا تھا۔اور وہ صرف یہ اندازہ لگا سکا کہ بولنے والا اپنے ساتھیوں کو کوئی کہانی سنا رہا ہے۔طاہر نے آہستہ سے سل کھسکا کر ایک طرف کردی اور سوراخ میں سے سر اوپر نکال کر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ کمرے میں کوئی نہیں،باہر نکل آیا۔پتھر کی سل اسی طرح شگاف پر رکھ دی۔
تاریکی میں چند قدم چلنے کے بعد طاہر کے ہاتھ ایک دروازے پر لگے۔اس نے آہستہ سے دروازے کو باہر دھکیلا لیکن دروازے کی چرچراہٹ نے اسے پریشان کردیا اور وہ اسے جلدی سے بند کر کے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔بند ہوتے وقت دروازے کی چرچراہٹ کی آواز نسبتاً زیادہ تھی۔
کہانی سناتے ہوئے تاتاری اچانک خاموش ہوگیا۔ایک ثانیے کے بعد اس نے اپنے کسی ساتھی سے کچھ کہا اور وہ نیم خوابی کی سی حالت میں بڑبڑانے لگا۔یہ دو آدمی جن میں سے ایک طاہر کے اندازے کے مطابق داستان گو تھا،کچھ دیر ایک دوسرے سے بحث کرتے رہے۔درمیان والے کمرے میں ان میں سے ایک کے داخل ہونے کی آہٹ سنائی دی۔وہ بدستور بڑبڑا رہا تھا۔طاہر نے فوراً یہ اندازہ لگایا کہ ان دو کے علاوہ باقی سب تاتاری سو گئے ہیں۔
تاتاری نے درمیانی کمرے میں سے گزرنے کے بعد طاہر کے کمرے کا دروازہ کھولا۔چونکہ اب درمیانی کمرے کے دونوں دروازے ایک دوسرے کے سامنے تھے اس لیے تیسرے کمرے سے آگ کی ہلکی سی روشنی طاہر کے کمرے میں پہنچ رہی تھی۔وہ دیوار کے ساتھ سمٹ کر بے حس و حرکت کھڑا رہا۔تاتاری بے پروائی سے طاہر کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ ایک لخطہ کے لیے ادھر ادھر دیکھنے کے بعد آنکھیں ملنے اور اپنے ساتھی کو گالی دینے کے بعد واپس جا رہا تھا کہ طاہر کے آہنی ہاتھ اس کی گردن پر جا پڑے۔پست قد تاتاری کے منہ سے ایک ہلکی سی آہ بھی نہ نکل سکی۔آن کی آن میں طاہر نے اسے لاش بنا کر زمین پر لٹا دیا۔
تیسرے کمرے سے داستان گوئی کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔وہ شاید اپنی داستان کا آخری حصہ سننے کیلئے بے قرار تھے۔طاہر نے جلدی سے تلوار نیام سے نکالی اور دیوار کے ساتھ لگ کر زور زور سے خراٹے لینے لگا۔
داستان گو یہ سمجھ کر کہ اس کا ساتھی کمرے میں پہنچ کر سو گیا ہے،ہنستا ہوا اٹھا اور ایک جلتی ہوئی لکڑی ہاتھ میں لیے اس کمرے تک پہنچا لیکن پیشتر اس کے کہ وہ کمرے کا جائزہ لے سکتا۔طاہر کی تلوار اس کے سینے کے آر پار ہو چکی تھی۔وہ لڑکھڑا کر فرش پر گرا اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی۔
تیسرے کمرے میں اس کے ساتھی اچانک اس چیخ سے بیدار ہو کر بیک وقت ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔طاہر ایک لمحے کے توقف کے بغیر بھاگتا ہوا درمیانی کمرہ عبور کر کے تیسرے کمرے میں جا داخل ہوا۔وہاں آگ کی وجہ سے کافی روشنی تھی۔تاتاری اٹھ کر اپنی تلواریں سنبھال رہے تھے کہ طاہر کی تلوار ان پر صاعقہ بن کر کوندی اور ان میں سے دو بسمل ہو کر فرش پر لوٹنے لگے۔اتنی دیر میں باقی تین تاتاری سنبھل چکے تھے۔
طاہر کی تلوار کئی مرتبہ اپنے تینوں حریفوں کی تلواروں سے ٹکرائی۔تاتاریوں نے اسے ایک خطرناک مد مقابل سمجھتے ہوئے منتشر ہو کر لڑنے کی کوشش کی۔لیکن طاہر نے انھیں ایک کونے سے ادھر ادھر ہٹنے کا موقع نہ دیا۔چند لمحات گزر جانے کے بعد ان میں سے ایک زخمی ہو کر تڑپ رہا تھا۔طاہر کے بازو پر بھی ہلکا سا زخم آچکا تھا۔لیکن اپنے سامنے ایک کونے میں صرف دو آدمی پا کر وہ پرجوش حملہ کرنے کی بجائے قدرے اطمینان سے لڑ رہا تھا۔
٭ ٭ ٭
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
اچانک طاہر کو اپنے عقب سے ایک چیخ سنائی دی۔وہ جلدی سے پینترا بدل کر ایک طرف ہٹا۔اس کے بائیں ہاتھ ثریا خون آلود تلوار لیے کھڑی تھی اور اس کے سامنے ایک اور تاتاری جسے طاہر نے ابھی تک نہیں دیکھا تھا،زخمی ہو کر تڑپ رہا تھا۔اتنی دیر میں طاہر کے دو حریف منتشر ہو کر اس کے لیے دو محاذ بن چکے تھے۔ثریا طاہر کے کسی اشارے کا انتظار کیے بغیر ان میں سے ایک کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔لیکن طاہر نے چلا کر کہا۔"ثریا!تم ایک طرف ہٹ جاؤ میرے پیچھے۔"
طاہر نے پہلی بار اس کا نام لیا تھا اور اسے آپ کی بجائے تم کہہ کر مخاطب کیا تھا اور یہ ثریا کے لیے بہت بڑا انعام تھا۔اس نے کہا۔"آپ میری فکر نہ کریں۔میں نے بھی ایک عرب ماں کا دودھ پیا ہے۔"
"لیکن اسماعیل اکیلا۔۔۔۔۔؟"
"وہ بھی میرا ہی بھائی ہے۔"
اب طاہر اور ثریا ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے تھے اور وہ تاتاری پھر ایک کونے میں سمٹ رہے تھے۔اچانک طاہر نے پینترا بدلا اور اس کی تلوار بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ثریا کے مد مقابل کا دایاں بازو کاٹ گئی۔دوسرے لمحے میں ثریا کی تلوار اس کے سینے کے آر پار ہو چکی تھی۔
اب طاہر کے سامنے صرف ایک تاتاری تھا اور ثریا اطمینان کے ساتھ گرے ہوئے دشمن کی قبا کے ساتھ اپنی خون آلود تلوار صاف کر رہی تھی۔
تاتاری اب زندگی اور موت سے بے نیاز ہو کر ایک زخمی درندے کی طرح حملے کر رہا تھا۔اچانک طاہر کے ہونٹوں پر ایک تبسم ظاہر ہوا۔ایک مجاہد کا تبسم جو دشمن کے کانوں میں موت کا مہیب قہقہہ بن کر گونجتا ہے۔اس کی تلوار تاتاری کے سر پر چمکی اور اس کے سینے تک پہنچ گئی۔
ثریا کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔وہ مسکراہٹ جو قرون اولی میں دختران اسلام کا غازیان اسلام کے لیے سب سے بڑا انعام ہوا کرتی تھی۔
طاہر چند لمحات کے لیے اپنے گرد و پیش کو فراموش کر کے اس حسین زمانے کا تصور کر رہا تھا۔جب ایک سیدھی سادھی عرب لڑکی سرفروشان اسلام کی فوج کو اپنی بستی سے گزرتے ہوئے دیکھ کر یہ گایا کرتی تھی۔
"قوم کے غیور بیٹو!تمہارے گھوڑوں سے اڑنے والی گرد مجھے کہکشاں سے زیادہ عزیز ہے۔
تمہارے غبار میں اٹے ہوئے چہرے میری نگاہ میں چاند سے زیادہ حسین ہیں۔"
طاہر کی آستین پر خون کا نشان دیکھ کر ثریا جلدی سے اپنا رومال نکال کر بولی۔"آپ کو زخم آگیا ہے۔لائیے میں پٹی باندھ دوں۔"
"یہ معمولی خراش ہے۔"طاہر نے یہ کہتے ہوئے آستین چڑھا کر اپنا بازو آگے کردیا۔ثریا نے اس کے زخم پر رومال باندھتے ہوئے کہا۔"میرا اندازہ چھ سات کا تھا۔یہ آٹھواں شاید اصطبل میں پہرا دیتا ہوا آیا تھا اور آپ پر عقب سے حملہ کر رہا تھا۔"
"میں آپ کا شکر گزار ہوں۔اگر آپ نہ ہوتیں تو میرے لیے اس کا وار یقیناً خطرناک ہوتا۔"
"خدا کےلیے یوں نہ کہئے۔میں صرف اپنی وکالت کرنا چاہتی تھی۔میں وہاں نہ ٹھہر سکی۔دروازے پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ وہ دبے پاؤں پیچھے سے آکر آپ پر حملہ کر رہا ہے اور میری چیخ نکل گئی۔میں بہت نادم ہوں۔"
"ثریا!جب تک عالم اسلام میں تمہارے جیسی لڑکیاں پیدا ہوتی رہیں گی۔دنیا میں مسلمانوں کو کوئی قوت نہیں کچل سکتی۔چند لمحات پیشتر میں بیحد مایوس تھا لیکن اب میرا دل گواہی دیتا ہے کہ جو قوم تمہارے جیسی لڑکیاں پیدا کر سکتی ہے۔اس کی زبان میں مایوسی کا لفظ نہیں ہونا چاہئے۔وہ تحت السری میں پہنچ کر بھی تاروں پر کمندیں ڈال سکتی ہے۔انقلاب اس کو دبا سکتے ہیں،دفن نہیں کر سکتے۔حوادث کے طوفان اسے منتشر کر سکتے ہیں،فنا نہیں کر سکتے۔تاتاریوں کا طوفان بہت بڑا طوفان ہے۔ممکن ہے کہ یہ عالم اسلام کی آخری چٹان تک کو بہا لے جائے لیکن تم اور تمہارے جیسی قوم کی بیٹیاں ہر دور میں ایسے معمار پیدا کرتی رہیں گی جو سنگ ریزوں کو جوڑ کر ناقابل تسخیر چٹانیں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔"
ثریا کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چھلک رہے تھے۔اس نے کہا۔"میں بھی چند لمحات پہلے یہی خیال کر رہی تھی کہ قوم کے بیٹوں کا لہو سفید ہو چکا ہے۔لیکن نہیں جس قوم کو آپ جیسے سپاہی نصیب ہوں،اس کا جھنڈا کوئی طاقت سرنگوں نہیں کر سکتی۔"
"لیکن تم رو رہی ہو؟"
ثریا مسکرائی۔آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی مسکراہٹ،شبنم میں نہائے ہوئے پھول کا تبسم،جس میں خون خلد کے بے شمار قہقہے چھپے ہوئے تھے۔اس نے کہا۔"نہ جانے میں آج کیوں اپنے تمام غم بھول گئی ہوں۔شاید اس لیے کہ آج میں نے اپنی قوم کے دشمنوں میں سے ایک کو قتل کیا ہے۔"
"نہیں۔اس لیے کہ تم نے اپنی قوم کے ایک سپاہی کی جان بچائی ہے۔لیکن اب چلو۔اسماعیل پریشان ہوگا اور گھوڑے بھی ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔"
طاہر نے ایک جلتی ہوئی لکڑی اٹھائی اور ثریا کے ساتھ تہہ خانے کی طرف چل دیا۔
جب اس نے راستے سے پتھر کی سل ہٹائی تو نیچے سے اسماعیل نے چلا کر کہا۔"ٹھہرو!تم کون ہو؟میرا نشانہ خطا نہیں جاتا۔"
ثریا نے کہا۔"اسماعیل ہم ہیں۔"
"اجازت ہے۔"اس نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا۔
جب طاہر اور ثریا نے نیچے اتر کر جلتی ہوئی لکڑی کی روشنی میں دیکھا تو اسماعیل اپنے ہاتھ میں تیر کمان لیے کھڑا تھا۔
طاہر نے کہا۔"اسماعیل!ہم بلخ جا رہے ہیں۔"
"کب؟"
"ابھی۔تمہیں سردی تو نہیں لگے گی؟"
"نہیں جی۔آپا جان تو کہتی تھیں کہ سردی آپ زیادہ محسوس کرتے ہیں۔آپ گرم ملک کے رہنے والے ہیں۔"
ثریا نے بھنے ہوئے گوشت سے بھرا ہوا ایک تھیلا طاہر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تہہ خانے کے ایک کونے سے جلانے کی لکڑیاں ایک طرف ہٹا کر چمڑے کا چھوٹا سا تھیلا نکالا اور طاہر سے کہا۔"میں قوم کی یہ امانت آپ کے سپرد کرتی ہوں۔والد مرحوم نے تاتاریوں کے حملے کا خطرہ محسوس کرتے ہی بیت المال کا پیشتر حصہ سمرقند بھیج دیا تھا۔یہ باقی دو ہزار اشرفیاں انھوں نے میدان جنگ میں جانے سے پہلے میرے سپرد کر دی تھیں۔اشرفیوں کے علاوہ اس تھیلے میں چند ہیرے ان کی ذاتی ملکیت تھے۔لیکن میں ان پر قوم کے شہیدوں کے لاوارث بچوں کا زیادہ حق سمجھتی ہوں۔ابا جان اپنی آمدنی کا بیشتر حصہ نانا جان کی تجارت میں لگانے کے لیے دیتے رہے ہیں اور انھوں نے بلخ میں ہمارے لیے کافی جائیداد خرید رکھی ہے۔"
طاہر نے دونوں تھیلے اٹھا لیے ثریا نے جلتی ہوئی لکڑی سے ایک شمع روشن کی اور تینوں سیڑھی کے راستے دوبارہ اوپر چڑھ کر محل کے کمروں سے گزرتے ہوئے اصطبل میں داخل ہوئے۔
اصطبل میں تاتاریوں کے آٹھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔طاہر،ثریا اور اسماعیل تین گھوڑوں پر سوار ہوگئے۔اور باقی گھوڑوں کو محل سے باہر لا کر تتر بتر کر دیا۔
باہر کے پھاٹک سے نکل کر چند قدم چلنے کے بعد ثریا نے اپنا گھوڑا روکا اور طاہر سے کہا۔"تھوڑی دیر ٹھہریئے۔میں اس شہر کو چھوڑنے سے پہلے ایک دعا مانگنا چاہتی ہوں۔"طاہر اور اسماعیل اپنے گھوڑے روک کر ثریا کی طرف دیکھنے لگے۔
ثریا نے آسمان کے جگمگاتے ہوئے ستاروں کی طرف دیکھا اور نہایت دردناک لہجے میں یہ دعا مانگی۔
"پروردگار عالم!میں تیرے محبوب صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی امت کی ہزاروں بے کس لڑکیوں میں ایک ہوں۔تو ان سب کی حفاظت کیلئے قوم کے جوانوں کو ہمارے اسلاف کی غیرت اور شجاعت عطا کر۔وہ اس محل پر اسلام کی عظمت کا پرچم پھر ایک بار لہرائیں۔اس شہر کی سنسان گلیاں پھر ایک بار غازیان دین کے گھوڑوں کی آہٹ سنیں۔اس شہر کی ویران مساجد میں پھر ایک بار اَللّهُ اَكْبَر کی اذانیں گونجیں۔تیرے دین کا بول بالا ہو۔آمین!"
طاہر اور اسماعیل نے بھی آمین کہا اور تینوں نے گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔تھوڑی دیر بعد وہ شہر سے باہر بلخ کے ناہموار راستے پر جا رہے تھے۔مطلع صاف تھا اور سردی ناقابل برداشت تھی لیکن اسماعیل بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ موسم بہت اچھا ہے اور مجھے پوستین میں تلخی محسوس ہوتی ہے۔
٭ ٭ ٭
تیسرے روز دوپہر کے وقت طاہر کو مسلمانوں کی ایک مختصر فوج کا پڑاؤ دکھائی دیا۔پڑاؤ میں داخل ہونے کے بعد طاہر کے استفسار پر ایک سپاہی نے بتایا کہ مشرقی سرحد کی چوکیاں خالی کرنے کے بعد چار ہزار سپاہی یہاں جمع ہوگئے ہیں اور ایک دو دن میں سمرقند کی طرف کوچ کرنے والے ہیں۔
طاہر نے اس فوج کے افسر اعلی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو سپاہی نے جواب دیا کہ اس فوج میں ہر پچاس ساٹھ سپاہیوں کی ٹولی کا ایک علیحدہ افسر ہے لیکن کل یہاں ایک شخص پہنچا ہے اور تمام اس کی شخصیت سے مرعوب ہو کر اس کا حکم مانتے ہیں۔
طاہر نے سوال کیا۔"وہ کون ہے؟"
سپاہی نے جواب دیا۔"تیمور ملک۔
آپ انھیں جانتے ہیں؟"
"تیمور ملک کو کون نہیں جانتا۔"
سپاہی نے طاہر کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوئے کہا۔"چلئے میں آپ کو ان کے پاس پہنچا دیتا ہوں۔"
ثریا اور اسماعیل ان کے پیچھے چل دیے۔طاہر ایک خیمے کے سامنے پہنچ کر رکا۔ثریا اور اسماعیل گھوڑوں سے اترے۔سپاہی نے اندر جا کر اطلاع دی۔تھوڑی دیر بعد تیمور ملک باہر نکلا۔وہ طاہر کو دیکھتے ہی دونوں ہاتھ پھیلا کر اس کی طرف بڑھا اور اسے گلے لگایا۔
"خدا کا شکر ہے کہ تم سلامت ہو۔"یہ کہہ کر وہ اسماعیل اور ثریا کی طرف متوجہ ہوا۔ثریا بدستور مردانہ لباس پہنے ہوئے تھی اور اس کا نصف چہرہ پوستین میں چھپا ہوا تھا۔تیمور ملک نے پوچھا۔"یہ کون ہیں؟"
طاہر نے کہا۔"یہ میرے ساتھی ہیں۔میں آپ کو ان کی سرگزشت سناؤں گا لیکن ہم نے راستے میں بہت کم آرام کیا ہے۔انھیں عورتوں کے خیمے میں بھجوا دیجئے۔"
"عورتوں کے خیمے میں؟"تیمور ملک نے حیران ہو کر سوال کیا۔
طاہر نے مسکرا کر جواب دیا۔"یہ مرد نہیں۔"
تیمور ملک نے کہا۔"خاتون محترم!مجھے آپ کے لباس سے غلط فہمی ہوئی لیکن آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہئے۔جب قوم کے بیٹوں کی غیرت اور شجاعت رخصت ہو چکی ہو تو قوم کی بیٹیوں کو یہی لباس زیب دیتا ہے۔"
ثریا نے آنکھیں جھکاتے ہوئے جواب دیا۔"میں قوم کے بیٹوں کی غیرت سے مایوس نہیں ہوں۔"
"آپ نے صرف طاہر کو دیکھا ہے لیکن قوم میں ایسے بزدلوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے ہاتھ پاؤں تاتاریوں کا نام سن کر پھول جاتے ہیں۔لیکن اب ان باتوں کا وقت نہیں۔آپ کو آرام کی ضرورت ہے اور عورتوں کا خیمہ آپ کے لیے موزوں نہیں۔
آپ کو ہر ایک کی تسلی کے لیے اپنی سرگزشت کئی بار بیان کرنا پڑے گی۔اس لیے میں اپنا خیمہ پیش کرتا ہوں۔میں اور طاہر دوسرے خیمے میں رات گزار لیں گے۔"یہ کہہ کر تیمور ملک ایک سپاہی سے مخاطب ہوا۔"انھیں اندر لے جاؤ اور ان کے کھانے کا انتظام کرو۔"
ثریا اور اسماعیل تیمور ملک کے کشادہ خیمے میں داخل ہوئے اور تیمور ملک طاہر کے ساتھ ایک اور افسر کے کمرے میں چلا گیا۔
٭ ٭ ٭
علی الصبح ثریا کو گہری نیند کی حالت میں اذان کی دلکش آواز سنائی دی۔کچھ دیر کے بعد وہ نیم خوابی کی حالت میں اذان کو رات بھر کے بعض میٹھے اور سہانے اور بعض بھیانک سپنوں کا ایک حصہ سمجھتی رہی۔مؤذن کی اذان ختم ہوئی اور وہ گردن اٹھا کر دھندلی روشنی میں ادھر ادھر دیکھنے لگی۔"اسماعیل!اسماعیل!اسماعیل!!"اس نے گھبرا کر کہا۔
اسماعیل اس کے قریب سو رہا تھا۔اس نے کروٹ بدلی۔ثریا نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا۔اس نے اٹھ کر آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔"میں تیار ہوں۔"
"کہاں جانے کے لیے تیار ہو؟"
"بلخ جانے کے لیے اور کہاں؟"
"بلخ۔۔۔۔اف!میں رات بھر عجیب و غریب خواب دیکھتی رہی۔میں سمجھتی تھی کہ میں ابھی تک اسی تہہ خانے میں ہوں۔لیکن وہ کہاں ہیں؟"
"کون؟طاہر!وہ اپنے دوست کے ساتھ دوسرے خیمے میں ہیں۔آپ عشاء کی نماز پڑھتے ہی سو گئی تھیں۔وہ آئے تھے،انھوں نے مجھے باہر سے آواز دی۔میں جاگ رہا تھا۔انھوں نے وہیں سے پوچھا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں؟میں نے جواب دیا کہ نہیں۔انھوں نے آپ کے متعلق پوچھا۔میں نے بتایا کہ آپ سو رہی ہیں۔پھر وہ واپس چلے گئے۔"
"میرے متعلق انھوں نے کیا پوچھا تھا؟"
"انھوں نے کہا تھا کہ تمہاری ہمشیرہ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟"
"پھر تم نے کیا جواب دیا؟"
"میں نے کہا وہ تو گہری نیند میں خراٹے لے رہی ہیں۔"
"بڑے نالائق ہو تم۔میں کب خراٹے لیا کرتی ہوں۔سچ کہو تم نے یہ کہا تھا انھیں؟"
اسماعیل نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔"میں نے صرف یہ کہا تھا کہ آپ سو رہی ہیں۔"
"اور کیا کہا انھوں نے؟"
"انھوں نے کہا تم بھی سو جاؤ۔صبح کی نماز کے بعد ہم بلخ کی طرف روانہ ہو جائیں گے۔ہاں آپا!ایک بات اور۔ان کے چلے جانے کے بعد خیمے میں چند عورتیں اور لڑکیاں آئی تھیں اور آپ کو نیند کی حالت میں دیکھ کر واپس چلی گئیں۔"
"تم نے مجھے جگا دیا ہوتا۔"
"میں جگانے لگا تھا لیکن انھوں نے مجھے منع کیا۔انھوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ تمہاری بہن نے ایک تاتاری کو ہلاک کیا ہے؟میں نے کہا کہ ہاں!یہ بلکل سچ ہے تو وہ بہت حیران ہوئیں۔وہ کہتی تھیں کہ ہم صبح تمہاری بہن سے ملیں گی۔"
ثریا نے کہا۔"تم جاؤ مردوں کے ساتھ نماز پڑھو۔میں بھی نماز پڑھتی ہوں۔"تھوڑی دیر بعد ثریا نے نماز کے بعد ہاتھ اٹھائے۔دعا ختم کرنے کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا تو اس کے پیچھے چند عورتیں کھڑی تھیں۔وہ اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔ایک لڑکی نے کہا۔"ہم رات کے وقت آئیں تھیں۔آپ سو رہی تھیں۔ہم نے آپ کو جگانا مناسب خیال نہ کیا۔ہم آپ کی سرگزشت سن چکی ہیں۔ہم سب کو آپ پر فخر ہے۔"
ثریا نے جواب دیا۔"آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ۔لیکن یہ کوئی بڑا کارنامہ نہ تھا۔"
ایک عورت نے کہا۔"لیکن یہ سب تاتاریوں سے بہت ڈرتی ہیں۔آپ انھیں وعظ کریں۔"
ثریا نے کہا۔"میں وعظ کرنا نہیں جانتی۔میں بھی آپ میں سے ایک ہوں۔بہر حال میں آپ کی خواہش رد نہیں کر سکتی۔آپ تشریف رکھیں!"
خواتین بیٹھ گئیں۔ایک لڑکی نے کہا۔"ذرا ٹھہریئے!میں سب کو بلا لاتی ہوں۔"وہ یہ کہہ کر خیمے سے باہر نکل گئی اور تھوڑی دیر بعد یہ وسیع خیمہ عورتوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔
ثریا نے ہچکچاتے ہوئے اپنی تقریر شروع کی۔
"میری مصیبت زدہ بہنو!گزشتہ صدیوں میں دختران اسلام پر ایسا نازک وقت کبھی نہیں آیا۔خوارزم میں ہماری سطوت کے پرچم ٹوٹ رہے ہیں اور تاتاریوں کی وحشت اور بربریت کا تند و تیز سیلاب خوارزم کے علاوہ ہر اسلامی سلطنت کےلیے خطرہ پیدا کر رہا ہے۔اس نازک دور میں آپ اس لیے مایوس ہیں کہ فرزندان اسلام میں وہ پہلی سی شجاعت باقی نہیں رہی۔ان میں قرون اولی کے مجاہدین کا سا ذوق شہادت نہیں لیکن میں پوچھتی ہوں۔آج وہ خواتین ہیں جو اپنے شوہر یا بھائی کو میدان جنگ میں پیچھے ہٹتا دیکھ کر خیموں کی چوبیں نکال کر یہ کہا کرتی تھیں کہ اگر تم نے بزدلی دکھائی تو تمہاری کھوپڑیوں کی خیر نہیں!
میری بہنو!یاد رکھو!گرتی ہوئی قوم کا آخری سہارا اس قوم کی بیٹیاں ہوا کرتی ہیں۔تم قوم کا آخری سہارا ہو۔جب تک تمہارے سینے نور ایمان سے منور ہیں۔تمہارے بیٹوں،تمہارے شوہروں اور تمہارے بھائیوں کو دنیا کی کوئی طاقت مغلوب نہیں کر سکتی۔جب تک قوم کی ماؤں کا مقدس دودھ قوم کی بیٹیوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا رہے گا،ان میں شہادت کی خواہش زندہ رہے گی اور جب تک فرزندان اسلام میں شہادت کی خواہش ہے،وہ بڑے سے بڑے دشمن کے لیے پیام موت ثابت ہوں گے۔
قوم اگر مردہ ہے تو اسے زندہ کرنے والا آب حیات تمہارے پاس موجود ہے۔قوم اگر سو رہی ہے تو تم اسے جھجھنجوڑ کر جگا سکتی ہو۔تم مردوں کے پاؤں کی زنجیر نہ بنو!اپنے شوہروں سے کہو کہ تم میدان جنگ سے سرخرو ہو کر آؤ۔ہم گھروں کی چار دیواری میں تمہاری عزت اور آبرو کی حفاظت کریں گی۔اپنے بھائیوں سے کہو کہ وہ میدان میں جا کر دشمن کے تیر سینوں پر کھائیں۔اور تم ان پر فخر کرو گی۔اپنے بیٹوں سے کہو کہ اگر تم نے میدان میں بزدلی دکھائی اور تمہارا خون ایڑیوں پر گرا تو تم قیامت کے دن نبی کریم صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کا دامن رحمت تھام کر یہ کہو گی کہ حضور صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم خدا کے سامنے میرے بیٹے کی شفاعت نہ کیجئے۔اس نے میرے دودھ کی لاج نہیں رکھی۔"
ثریا کی آواز خیمے سے باہر دور تک جا رہی تھی۔طاہر اور تیمور ملک کے علاوہ باقی سپاہی اور افسر ایک دوسرے کا اشارہ پا کر باہر جمع ہو چکے تھے بعض دم بخود کھڑے تھے اور بعض پر رقت طاری ہو رہی تھی۔
ثریا کے خاموش ہو جانے پر تیمور ملک نے باہر سے بلند آواز میں کہا۔"محترم خاتون!آپ کے بہت سے بھائی باہر کھڑے ہیں۔ان میں بعض ایسے ہیں،جن پر تاتاریوں کا نام سن کر دہشت طاری ہو جاتی ہے۔آپ انھیں حوصلہ دیں۔"
ثریا نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"جو تاتاریوں سے ڈرتے ہیں۔میں انھیں اپنا بھائی کہنے کے لیے تیار نہیں۔انھیں کہہ دیجئے کہ کوئی لڑکی جس نے ایک مسلمان ماں کا دودھ پیا ہے،ایسے بزدلوں کو بھائی کہنے کے لیے تیار نہ ہوگی۔اگر انھوں نے اپنے فرض میں کوتاہی کی تو ہم اپنے کنگن اتار کر انھیں پہنچا دیں گی اور ان کی زنگ آلود تلواریں اٹھا کر تاتاریوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں گی۔ہماری محبت اور اطاعت بہادروں کے لیے ہے۔بزدلوں کے لیے نہیں۔اگر یہ ہماری عصمت کے نگہبان نہیں بن سکتے تو قیامت کے دن خدا کے غیور بندوں کی صف میں کھڑا ہونے کی توقع نہ رکھیں۔دختران اسلام اگر اس دن کسی کو بھائی کہیں گی تو وہ محمد بن قاسم جیسا مجاہد ہوگا جو جس نے اپنی قوم کی ایک بیٹی کی عصمت بچانے کیلئے سترہ سال کی عمر میں ایک ملک فتح کیا تھا۔اس دن ہر مسلمان بیوی اپنے بزدل شوہر کو بھول کر اپنی اس بہن کے شوہر پر فخر کرے گی جس کی قیادت میں خون شہادت سے رنگیں ہوگی۔اس دن مسلمان مائیں یہ کہیں گی کہ ہمارے بیٹے وہ بزدل نہیں جو دشمن کی تلوار کا وار اپنے سینے پر نہ روک سکیں۔ہمارے بیٹے وہ مجاہدین ہیں جن کی قیادت نے خواتین اسلام کو دنیا بھر کی عورتوں کی نگاہوں میں ممتاز کر دیا تھا۔اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہم فخر کے ساتھ انھیں اپنا بھائی کہیں تو انھیں چاہئے کہ ہمارے سامنے وہ قبائیں پہن کر آئیں جو خون سے رنگین ہوں۔ہمیں وہ صورتیں دکھائیں جن پر زخموں کے نشان ہوں۔"
ثریا نے تقریر ختم کی تو خواتین آگے بڑھ بڑھ کر اس کے گلے سے لپٹ رہی تھیں اور خیمے سے باہر تیمور ملک طاہر سے یہ کہہ رہا تھا۔"جب تک ہماری قوم میں ایسی لڑکیاں موجود ہیں۔ہم اسلام کے دشمنوں کے ساتھ صدیوں تک جنگ کرنے کے بعد ببی ہار نہیں مانیں گے۔طاہر!تم خوش نصیب ہو۔میں دعا کرتا ہوں کہ تمہاری زندگی کے راستے بلخ پہنچ کر ایک دوسرے سے جدا نہ ہو جائیں۔اپنے بلند ارادوں کی تکمیل کیلئے تمہیں جس ساتھ کی ضرورت تھی وہ تمہیں مل گیا ہے۔اسے ہمیشہ کیلئے اپنا لو۔"
طاہر خاموش کھڑا تھا۔اس کے کانوں میں ابھی تک ثریا کے الفاظ گونج رہے تھے۔وہ تصور میں ثریا کے ساتھ بلند مینار پر کھڑا نیچے جمع ہونے والے لاکھوں،انسانوں کو جہاد کا سبق دے رہا تھا۔تصور کی ایک اور جہت کے بعد وہ ایک پہاڑی کے دامن میں پہنچ چکا تھا۔جہاں خودرو پھول مسکراتے تھے۔مہکتی ہوئی ہوائیں اٹھکیلیاں کرتی تھیں۔اور پہاڑی ندیاں مسرت کے نہ ختم ہونے والے گیت گاتی تھیں۔ثریا یہاں بھی اس کے ساتھ تھی اور وہ ندی کے کنارے پھولوں کی سیج پر لیٹ کر اس کے میٹھے اور سہانے گیت سن رہا تھا۔
پھر وہ میدان کارزار میں تھا اور ثریا اس کے زخموں پر مرہم پٹی کر رہی تھی۔کئی دنوں کے بعد پہلی بار اسے ایک اور لڑکی کا خیال آیا۔یہ صفیہ تھی۔شاید اس لیے کہ ثریا اور صفیہ میں کوئی خاص بات مشترکہ تھی یا شاید اس لیے کہ ثریا سے پہلے اس کے ذہن میں صرف صفیہ کا دھندلا سا خاکہ تھا۔صفیہ کے متعلق اس نے اس سے زیادہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ اسے اس کے ساتھ غایت درجہ کی ہمدردی تھی۔ایک ایسی ہمدردی جو کسی انعام کی محتاج نہیں ہوتی۔وہ اپنے دل میں کوئی خلش یا دھڑکن محسوس کیے بغیر صفیہ کے متعلق سوچ سکتا تھا لیکن ثریا کے متعلق اس کے احساسات مختلف تھے۔وہ اپنی بے پناہ قوت تسخیر کے ساتھ اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو چکی تھی۔تا ہم اسے یہ اطمینان تھا کہ بلخ سے ان کے مستقبل کے راستے جدا ہو جائیں گے اور اس کے دل میں صرف ایک خوشگوار یاد باقی رہ جائے گی اور یہ یاد بھی شاید اسے زیادہ دیر پریشان نہ کرے۔
تیمور ملک تھوڑی دیر غور سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔بالآخر وہ بولا۔"تم پریشان کیوں ہو؟اگر کہو تو اس معاملے میں میں تمہاری رہنمائی کر سکتا ہوں۔"
"نہیں نہیں!"طاہر نے چونک کر کہا۔"ابھی نہیں۔ابھی میری زندگی میں ان باتوں کا وقت نہیں آیا۔"
٭ ٭ ٭
صبح کی نماز کے بعد طاہر،ثریا اور اسماعیل نے سفر کی تیاری کی۔تیمور ملک نے تھکے ہوئے گھوڑوں کے بدلے انھیں تین تازہ دم گھوڑے دے دیے۔طاہر نے بیت المال کی اشرفیاں تیمور ملک کے سپرد کیں۔تیمور ملک نے راستے کے شہروں کے حکام کے نام یہ مراسلہ لکھ دیا کہ انھیں راستے میں ہر سہولت بہم پہنچائی جائے۔اس کے علاوہ اس نے ابتدائی دو منازل میں خطرہ محسوس کرتے ہوئے بیس سواروں کو ان کی حفاظت کیلئے روانہ کردیا۔
رخصت کے وقت طاہر سے مصافحہ کرتے ہوئے تیمور ملک نے کہا۔"میرا مکتوب تمہیں نہ صرف بغداد تک پہنچنے میں مدد دے گا بلکہ حالات نے تمہیں واپس آنے پر آمادہ کیا تو بھی تمہارے کام آئے گا۔اسے سنبھال کر رکھنا۔"اس کے بعد ثریا سے مخاطب ہوا۔"میری بہن!آپ کو راستے میں ان شاءاللہ کوئی پریشانی نہ ہوگی۔آپ کا رفیق سفر ایک ایسا نوجوان ہے جو ایک دفعہ میری جان بچا چکا ہے۔"
"میں انہیں جانتی ہوں۔"ثریا نے یہ کہتے ہوئے طاہر کی طرف دیکھا اور آنکھیں جھکا لیں۔اس کے چہرے پر حیا کی سرخی یہ کہہ رہی تھی۔آپ انہیں مجھ سے زیادہ نہیں جانتے۔
سارا دن سفر کرنے کے بعد یہ لوگ شام کے وقت ایک فوجی چوکی پر ٹھہر گئے۔دوسری شام ایک شہر میں پہنچ کر طاہر نے محافظ دستے کو واپس بھیج دیا۔شہر کے حاکم نے تیمور ملک کا مکتوب دیکھ کر ان کی کافی آؤ بھگت کی۔صبح جب ثریا حاکم شہر کے گھر کی عورتوں کو الوداع کہہ کر باہر نکلی تو وہ مردانہ لباس کی بجائے عورتوں کا لباس پہنے ہوئے تھی۔
جب وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے باہر نکلے تو ثریا نے شرماتے ہوئے کہا۔"میں نے لباس اس لیے تبدیل کیا ہے کہ اب ہمیں راستے میں کوئی خطرہ نہیں۔میں نے سنا ہے کہ تاتاری اپنی پوری قوت کے ساتھ سمرقند اور بخارا کا رخ کر رہے ہیں۔"طاہر نے کہا۔"اسی لیے بہت جلدی بغداد پہنچنا چاہتا ہوں۔"
ثریا نے کہا۔"آپ کو میری وجہ سے دیر ہو رہی ہے لیکن مجھے اب راستے میں کوئی خطرہ نہیں۔اگر آپ مناسب خیال کریں تو میں اگلے شہر کے حاکم سے کہوں گی کہ مجھے بلخ پہنچانے کا انتظام کر دے اور آپ وہاں سے سیدھے بغداد روانہ ہو جائیں۔"
"نہیں۔نہیں۔"اسماعیل نے کہا۔"میں آپ کو بلخ پہنچنے سے پہلے نہیں جانے دوں گا۔"
یہ دراصل ثریا کے دل کی آواز تھی۔طاہر نے کہا۔"اچھے بھائی!میں تمہارے لیے غزنی تک جانے کے لیے بھی تیار ہوں۔"
اسماعیل نے کہا۔"خدا مجھے بلخ سے آگے نہ لے جائے۔گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے میری ٹانگیں شل ہو گئی ہیں۔لیکن بلخ میں آپ کو چند دن ہمارا مہمان رہنا پڑے گا۔"
طاہر نے کہا۔"یہ نہیں ہوگا۔بلخ کے دروازے پر پہنچ کر میرا اور تمہارا راستہ مختلف ہوگا۔"
اسماعیل نے کہا۔"آپ میرے ساتھ نانا ابو کے گھر تک نہیں جائیں گے؟"
"کاش میرے پاس وقت ہوتا!"
اسماعیل نے مایوس ہو کر کہا۔"پھر آپ کبھی نہیں آئیں گے؟"
اسماعیل کے اس سوال کا ثریا کا دل دھڑکنے لگا۔
طاہر نے قدرے تذبذب کے بعد جواب دیا۔"اگر مجھے زندگی میں فرصت کا کوئی لمحہ مل سکا تو ان شاءاللہ ضرور آؤں گا۔"
"تو پھر بلخ میں ہمارا گھر ضرور دیکھتے جائیں۔"
"تمہارے نانا کا نام کیا ہے؟"
"عبدالرحمٰن۔"
طاہر اور اسماعیل دیر تک باتیں کرتے رہے اور ثریا اپنے دل میں بار بار طاہر کا یہ فقرہ دہرا رہی تھی۔اگر مجھے زندگی میں کوئی فرصت کا لمحہ مل سکا تو ان شاءاللہ ضرور آؤں گا۔اس کا دل بار بار یہ سوال پوچھ رہا تھا کہ اس نے یہ بات فقط اسماعیل کی تسلی کے لیے کہی ہے یا اسے یہ معلوم ہے کہ اسماعیل سے کہیں زیادہ کسی اور کو بغداد سے آنے والے قافلوں کا انتظار رہے گا۔
اب تک طاہر کی زبان سے اس نے ایسا لفظ بھی نہیں سنا تھا،جس سے اس پر ظاہر ہوتا کہ زندگی کی بلند منازل کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے اس کے دل میں اپنے راستے کی بھولی ہوئی منزل کے ساتھی کی یاد باقی رہے گی۔اسے طاہر کے بلند نصب العین پر فخر تھا۔وہ اس کی شخصیت کو ہر لحاظ سے قابل احترام سمجھتی تھی۔اسے اس بات پر مسرت تھی کہ اس میں مردانگی کے تمام جوہر تھے۔اس کی نگاہوں میں نیکی،شرافت،شجاعت اور پاکیزگی تھی۔وہ سب کچھ تھا جس کی قوم کو ضرورت تھی اور اس کے ساتھ ہی وہ سب کچھ تھا جس کی ثریا تمنا کر سکتی تھی۔
٭ ٭ ٭
جوں جوں منزل قریب آرہی تھی،دونوں کے دل کی خلش میں اضافہ ہو رہا تھا۔شاید دونوں کو یہ شکایت تھی کہ وہ ایک دوسرے کے دل کی کیفیت سے اب تک کیوں بے خبر ہیں؟وہ ایک دوسرے کو دیکھنا چاہتے لیکن ان کی آنکھیں اوپر اٹھنے سے انکار کر دیتیں۔وہ کوئی بات کرنا چاہتے لیکن ان کی زبانیں گنگ ہو جاتیں۔
آخر ایک دن وہ اس چوراہے پر کھڑے تھے جہاں بغداد اور بلخ کو جانے والے راستے ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔اسماعیل کا گھوڑا چند قدم آگے تھا۔
اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا اور کہا۔"آپ یہاں کیوں کھڑے ہو گئے؟آئیے نا!"
طاہر نے کہا۔"ٹھہرو!اسماعیل!"
"مجھ سے اب گھوڑے پر نہیں بیٹھا جاتا۔"یہ کہتے ہوئے اسماعیل گھوڑے سے اترا اور اس کی باگ پکڑ کر چند قدم پیدل چلنے کے بعد ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
ثریا نے طاہر کی طرف دیکھا اور کہا۔"اس کا خیال ہے کہ آپ گھر تک ہمارے ساتھ جائیں گے۔"
طاہر نے کہا۔"آپ میری طرف سے اسے سمجھا دیں۔یہاں سے رخصت ہو کر میں شام سے پہلے ایک منزل طے کر لوں گا۔"
ثریا نے مغموم لہجے میں کہا۔"میں اسے سمجھا دوں گی۔"
"اچھا خدا حافظ!"
ثریا کے ہونٹ کپکپا اٹھے۔اس نے خدا حافظ کہنے کی کوشش کی لیکن اس کا گلا بیٹھ گیا۔زبان رک گئی اور آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔
طاہر نے گھوڑے کی باگ موڑنے کا ارادہ کیا لیکن ہاتھوں کو جنبش نہ ہوئی۔"جائیے!"ثریا نے کہا اور اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے۔
"ثریا!"طاہر نے کہا۔"اس درخت کی طرف دیکھو۔باقی تمام درختوں کے پتے جھڑ چکے ہیں۔لیکن وہ سبز ہے۔"
ثریا مڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔طاہر نے کہا۔"اب میری طرف نہ دیکھنا۔میں تم سے کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں۔"
ثریا نے کہا۔"کہئے!اگر آپ میرے آنسوؤں سے متاثر ہوئے ہیں تو یقین کیجئے کہ یہ تشکر کے آنسو تھے۔میں اپنے محسن کو آنسوؤں کے سوا اور کیا دے سکتی ہوں۔"
طاہر نے کہا۔"ثریا یہ نہ سمجھو کہ تمہارے جذبات سے واقف نہیں اور یہ بھی نہ سمجھو کہ میرے دل میں ان آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں۔میری صاف بیانی سے غلط اندازہ نہ لگائیں۔میں یہ باتیں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ایسے پرآشوب زمانے میں کہنے اور سننے کا موقع بار بار نہیں ملتا۔میں کل دوبارہ ملنے کی توقع پر آج تم سے جدا ہو رہا ہوں۔ہو سکتا ہے کہ وہ کل بہت جلد آجائے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کل کے انتظار میں کئی برس گزر جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کل کبھی نہ آئے۔بہر حال اگر قدرت نے ہمیں زندگی کے چوراہے پر ایک بار پھر اکٹھا کر دیا تو میں زندگی کی آخری منزل تک تمہاری رفاقت اپنے لیے قدرت کا سب سے بڑا انعام سمجھوں گا۔سردست میں تمہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں سمجھتا کہ میرا فرض مجھے بغداد بلا رہا ہے اور اس کے بعد میں تاتاریوں کے خلاف خوارزم کے ہر مورچے پر پہنچنا اپنا فرض سمجھوں گا۔تم اس وقت کے لیے دعا کرو جب میں فتح کی خبر لے کر بلخ پہنچوں جب میری قبا میرے خون سے رنگین ہو اور میرے چہرے پر زخموں کے نشان ہوں۔"
ثریا نے مڑ کر طاہر کی طرف دیکھا اور کہا۔"میں آپ کا انتظار کروں گی۔کاش میں ان مورچوں پر آپ کا ساتھ دے سکتی۔"اس کی آنکھوں میں امید کی روشنی تھی اور طاہر محسوس کر رہا تھا کہ چاند بادلوں کے نقاب سے اچانک باہر نکل آیا ہے۔ایک لمحہ توقف کے بعد ثریا بولی۔"اب میں آپ سے یہ درخواست کروں گی۔"
"کہو!"
"آپ نانا کے گھر تک ہمارا ساتھ ضرور دیں۔میں آپ کو صرف ایک بار وہ دروازہ دکھانا چاہتی ہوں جو آپ کے لیے ہر وقت کھلا رہے گا تا کہ آپ جب دوبارہ بلخ آئیں تو ہمارے گھر کا کوئی آدمی یہ خیال نہ کرے کہ آپ اجنبی ہیں۔آپ نانا جان سے ملیں وہ خوش ہوں گے،میں وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کو آج نہیں تو کل علی الصبح ضرور روانہ کر دوں گی۔مجھے یہ یقین ہے کہ آپ دو دن کا سفر ایک دن میں طے کر سکتے ہیں۔میرے لیے!"
طاہر نے کہا۔"چلئے۔"
اسماعیل چھوٹے چھوٹے کنکر اٹھا کر ایک پتھر کا نشانہ کر رہا تھا۔طاہر اور ثریا کو قریب آتے دیکھ کر وہ اٹھا اور گھوڑے پر سوار ہوگیا۔۔
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 13 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
👍
1