
سبق آموز واقعات وحکایات
June 2, 2025 at 11:40 PM
ناول___بڑی__مصیبت__ہے__جدائی
#قسط___40
#رائٹر___داؤد__آبان__حیدر
"کیا بات ہے؟
ایسے کیوں ہانپ رہی ہو؟"
فائقہ نے انہیں دیوار کی اوٹ میں لے جا کر کانپتی آواز میں سرگوشی کی
"امی عندلیب.. عندلیب کمرے میں نہیں ہے"
نگینہ بیگم نے بے یقینی سے اسے گھورا
"کیا بکواس کر رہی ہو؟
دماغ تو ٹھیک ہے؟
کمرے میں نہیں تو کہاں نیپال اڑ گئی؟
ابھی تھوڑی دیر تو میں مل کر آئی ہوں۔"
"امی میں سچ کہہ رہی ہوں وہ کمرے میں نہیں ہے
رسی..کھڑکی سے رسی لٹک رہی ہے..
اور مبینہ کو ایک خط ملا ہے۔"
فائقہ کی آواز آنسوؤں میں ڈوب رہی تھی۔
نگینہ بیگم کا دل کسی ان دیکھے خوف سے بیٹھ گیا
"چلو میرے ساتھ"
وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگیں
فائقہ ان کے پیچھے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے مبینہ کو دیکھا جو ہاتھ میں کاغذ تھامے بت بنی کھڑی تھی
اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے
"کہاں ہے عندلیب؟
اور یہ کیا ہے تمہارے ہاتھ میں؟"
نگینہ بیگم کی آواز میں سختی تھی
"امی وہ.. وہ..."
مبینہ ہکلائی
"وہ وہ کیا لگا رکھی ہے؟
بولو"
نگینہ بیگم دھاڑیں
مبینہ نے روتے ہوئے کہا
"امی..عندلیب... عندلیب بھاگ گئی ہے۔"
یہ الفاظ بجلی بن کر نگینہ بیگم پر گرے
ایک لمحے کو انہیں لگا جیسے ان کا دل بند ہو گیا ہے
"کیا... کیا کہہ رہی ہو تم؟
ہوش میں تو ہو؟"
مبینہ نے کانپتے ہاتھوں سے خط ان کی طرف بڑھا دیا
"یہ... یہ پڑھیں۔"
نگینہ بیگم نے لرزتے ہاتھوں سے خط پکڑا
ان کی نظریں دھندلا رہی تھیں۔
"پیاری امی جان
معافی چاہتی ہوں میں نے آپ کو پہلے بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ میں یہ شادی نہیں کر سکتی کیونکہ میری زندگی میں کوئی اور ہے
میں عشراز سے محبت کرتی ہوں اور اسی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہوں
آپ کی ضد اور زبردستی کے آگے میں منگنی تک تو خاموش رہی مگر نکاح... یہ میں نہیں کر سکتی۔
اس لیے میں جا رہی ہوں مجھے ڈھونڈنے کی کوشش مت کیجیے گا
آپ سب مجھے بھول جائیں۔
آپ کی گناہگار بیٹی
عندلیب"
خط پڑھتے پڑھتے نگینہ بیگم کے ہاتھ کانپنے لگے
آنسو ان کے رخساروں پر بہنے لگے
غصے بے بسی اور ذلت کے احساس نے انہیں جکڑ لیا
وہ وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئیں
"ہائے اللہ۔میری عزت خاک میں ملا دی اس لڑکی نے!
اب میں کیا کروں گی؟
لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟
بارات دہلیز پر کھڑی ہے مولوی صاحب نیچے بیٹھے ہیں۔"
نگینہ بیگم اپنا سر پیٹنے لگیں۔
فائقہ اور مبینہ بھی رو رہی تھیں
کمرے میں قیامت کا سماں تھا
اچانک مبینہ کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔
اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
"امی امی سنیں! ایک... ایک آئیڈیا ہے"
نگینہ بیگم نے ویران نظروں سے اسے دیکھا
"اب کیا راستہ بچا ہے؟
سب ختم ہو گیا۔"
"نہیں امی"
مبینہ نے جلدی سے کہا
"ایک حل ہے
اگر..اگر ہم فائقہ کو عندلیب کے کپڑے پہنا دیں؟
اس کا گھونگھٹ اتنا بڑا کر دیں کہ چہرہ نظر نہ آئے..
کسی کو پتا نہیں چلے گا امی! نکاح ہو جائے گا عزت بچ جائے گی یہی ایک راستہ ہے"
نگینہ بیگم نے چونک کر پہلے مبینہ کو پھر سہمی ہوئی آنسو بہاتی فائقہ کو دیکھا
ان کی آنکھوں میں ایک لمحے کو امید کی کرن چمکی مگر ساتھ ہی ایک خوفناک کشمکش نے انہیں آن گھیرا
کیا وہ یہ کر پائیں گی؟
مگر دوسری طرف خاندان کی عزت لوگوں کے طعنے اور رسوائی کا خوف پہاڑ بن کر کھڑا تھا۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا
نیچے سے ہلکا ہلکا شور اوپر آ رہا تھا
مولوی صاحب انتظار کر رہے تھے
نگینہ بیگم نے ایک گہرا کانپتا ہوا سانس لیا اور فائقہ کی طرف دیکھا
جس کی آنکھوں میں سوال بھی تھا اور خوف بھی۔
نگینہ بیگم نے فیصلہ کر لیا تھا ان کی آواز کمرے میں گونجی
"فائقہ.. بیٹا.. تمہیں یہ کرنا ہو گا.. ہماری عزت کے لیے..
جلدی کرو... عندلیب کا جوڑا پہنو... جلدی"
فائقہ نے بے یقینی سے اپنی ماں کو دیکھا اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی ٹوٹ کر بہہ نکلی
اس کی خاموشی میں ہزاروں انکار تھے مگر نگینہ بیگم کی التجا بھری حکم بھری نظروں کے سامنے وہ بے بس تھی۔
اگلے چند لمحے قیامت خیز تھ
مبینہ اور نگینہ بیگم نے تقریباً زبردستی فائقہ کو عندلیب کے بھاری عروسی جوڑے میں ملبوس کیا
اس کا گھونگھٹ اتنا نیچے کر دیا گیاکہ اس کی شکل تو دور آنکھیں بھی بمشکل نظر آ رہی تھیں
فائقہ سسکیاں لے رہی تھی اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔
"ایک آنسو نہیں بہانا نیچے جا کر سر نہیں اٹھانااور کوئی سوال کرے تو بس سر ہلا دینا"
نگینہ بیگم نے سخت لہجے میں ہدایت دی۔
پھر ایک زندہ لاش کی طرح،
وہ فائقہ کو سہارا دے کر نیچے لان کی طرف لے چلیں۔
ہر قدم ایک عذاب تھا
نگینہ بیگم نے اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجانے کی کوشش کی مگر ان کی آنکھوں کی وحشت چھپانے کے باوجود بھی نہیں چھپ رہی تھی۔
ہال کی سجی ہوئی لان میں سب کی نظریں دلہن پر تھیں۔
فائقہ کو لا کر دانش کے ساتھ اسٹیج پر بٹھا دیا گیا
اس کا سر جھکا ہوا تھا گھونگھٹ چہرے پر پڑا تھا
کسی کو کیا خبر تھی کہ اس سرخ بھاری گھونگھٹ کے پیچھے عندلیب نہیں
اس کی بہن فائقہ بیٹھی ہے جس کی قسمت کا سودا چند لمحوں میں ہونے والا تھا۔
مولوی صاحب نے نکاح کا خطبہ شروع کیا
فضا میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی
صرف مولوی صاحب کی آواز گونج رہی تھی
نگینہ بیگم کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ انہیں ڈر تھا کہیں باہر سنائی نہ دے جائے۔
جب مولوی صاحب نے فائقہ سے پوچھا
"عندلیب بنتِ مہراج ہاشمی کیا آپ کو دانش ولدِ شاہد حسین حق مہر پچاس لاکھ کے عوض نکاح قبول ہے؟"
ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا
فائقہ کا وجود لرز رہا تھا نگینہ بیگم نے ہلکے سے اس کے بازو کو دبایا۔
ایک ٹوٹی ہوئی تقریباً ناقابلِ سماعت آواز گھونگھٹ کے اندر سے نکلی
"قبول ہے"
یہ لفظ نہیں تھا ایک پوری زندگی کی قربانی تھی۔
مولوی صاحب نے تین بار پوچھا اور تینوں بار اسی اذیت ناک انداز میں "قبول ہے" کی صدا بلند ہوئی۔
نکاح مکمل ہو گیا مبارکباد کا شور بلند ہوا
پریکھا عنایہ اور فہد کی طرف___
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o