
سبق آموز واقعات وحکایات
June 3, 2025 at 11:48 PM
*⛰️آخری چٹان⛰️*
*قسط نمبر : 13*
*🖋️مصنف == نسیم حجازی*
سپاہی_اور_تاجر
✍🏻شیخ عبدالرحمٰن دہرے جسم اور موٹے دماغ کا ایک متمول تاجر تھا۔اس کا مکان بلخ کی چند شاندار عمارتوں میں سے ایک تھا۔اس کا وسیع کاروبار دور دراز کے شہروں میں پھیلا ہوا تھا اور اس کے تجارتی قافلے بخارا اور بغداد سے لے کر دہلی تک آتے جاتے تھے۔رہائشی مکان کے ساتھ ایک اور وسیع عمارت میں اس کا دفتر تھا۔تاتاریوں کے حملے نے اسے خوارزم سے کاروبار سمیٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔بخارا اور سمرقند سے اس کے قاصد نہایت پریشان کن خبریں لا رہے تھے۔چند ہفتے پہلے اس نے بلخ کو محفوظ سمجھتے ہوئے اپنا مال و متاع وہاں جمع کرنا شروع کر دیا تھا لیکن اب وہ اپنا قیمتی مال و اسباب غزنی بھیج رہا تھا۔
طاہر کو جس کمرے میں ٹھہرایا گیا وہ بیش قیمت ایرانی قالینوں اور اطلس و کمخواب کے پردوں سے آراستہ تھا۔اس نے اسماعیل کے ساتھ پاس کی مسجد میں مغرب کی نماز ادا کی اور شہر کے پررونق بازار کا ایک چکر لگانے کے بعد واپس آگیا۔
وہ اسماعیل کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ کمرے میں حنیفہ،ایک معمر خاتون داخل ہوئی۔اسماعیل نے اٹھ کر کہا۔"نانی جان آئی ہیں۔نانی جان آئی ہیں۔"طاہر بھی اٹھ کر ادب کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔حنیفہ کی آنکھوں سے حزن و ملال ٹپکتا تھا۔اس نے آتے ہی کسی تمہید کے بغیر کہا۔"نوجوان!میں تمہارا شکریہ ادا کرتی ہوں،تم نے ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔خدا تمہیں جزا دے۔"
طاہر نے جواب دیا۔"میں اپنے آپ کو شکریہ کا مستحق نہیں سمجھتا۔یہ میرا فرض تھا۔مجھے اسماعیل کے والد کے متعلق افسوس ہے۔"
حنیفہ نے گردن اوپر اٹھائی اور کہا۔"وہ مرا نہیں شہید ہوا ہے۔مجھے اس سے یہی توقع تھی۔مجھے ثریا نے بتایا ہے کہ تم علی الصباح بغداد روانہ ہو جاؤ گے،میں تمہیں ضروری کام سے روکنا نہیں چاہتی لیکن اگر پھر کبھی اس راستے سے گزر ہو تو اس گھر کو اپنا گھر سمجھو۔بغداد پہنچ کر یہ نہ بھول جانا کہ بلخ میں ایک عرب ماں تمہیں اپنا بیٹا سمجھتی ہے۔"
پھر وہ اسماعیل کی طرف متوجہ ہوئی۔"بیٹا!تمہارے نانا نے کہلا بھیجا ہے کہ وہ مہمان کے ساتھ کھانا کھائیں گے زیادہ دیر انتظار نہ کرنا۔ان کے پاس بہت سے تاجر آئے ہیں۔ممکن ہے کہ وہ یہاں آنا بھول ہی جائیں۔"
کمرے سے نکلتے ہوئے حنیفہ دروازے پر رکی اور طاہر کو آواز سنائی دی اور طاہر کے دل میں ایک خفیف سی دھڑکن پیدا ہوئی۔یہ ثریا کی آواز تھی۔
اسماعیل دروازے سے پردہ ہٹا کر ساتھ والے کمرے میں داخل ہوا اور تھوڑی دیر بعد وہ واپس آکر بولا۔"آپا کا خیال ہے کہ شاید نانا جان کو آنے میں دیر ہو جائے۔چلئے آپ کھانا کھا لیں!"
طاہر نے کہا۔"کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم تھوڑی دیر اور انتظار کر لیں؟"
اسماعیل نے جواب دیا۔"نانا جان کا کچھ پتا نہیں۔نانی جان کہتی ہیں کہ وہ کبھی کبھی آدھی آدھی رات تک دفتر میں حساب کتاب دیکھتے رہتے ہیں۔"
"بہت اچھا۔"طاہر یہ کہہ کر اٹھا اور اسماعیل کے ساتھ برابر کے کمرے میں داخل ہوا۔
٭ ٭ ٭
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
Follow the سبق آموز واقعات وحکایات channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
دستر خوان پر انواع و اقسام کے کھانے سجے ہوئے تھے۔ایک حبشی غلام ادب سے ہاتھ باندھ کر ایک کونے میں کھڑا تھا۔تکلفات میں یہ دستر خوان بغداد کے کسی امیر کے دستر خوان سے کم نہ تھا۔
طاہر نے بیٹھتے ہوئے اسماعیل سے سوال کیا۔"اور مہمان بھی آئیں گے؟"
اسماعیل نے جواب دیا۔"نہیں۔باقی مہمانوں کا کھانا باہر کے مہمان خانے میں بھیج دیا گیا ہے۔آپا جان کہتی تھیں کہ آپ کو آرام کی ضرورت ہے۔وہ لوگ آپ سے ساری رات سوالات پوچھتے رہتے۔اسی لیے آپ کے لیے یہاں انتظام کیا گیا ہے۔"
کھانا کھانے کے بعد طاہر نے اسماعیل کے ساتھ مسجد میں جاکر عشاء کی نماز ادا کی اور واپس کمرے میں آکر اس نے اسماعیل سے کہا۔"اب تمہیں نیند آرہی ہوگی۔جاؤ سو جاؤ!"
اسماعیل اٹھ کر دروازے تک پہنچا لیکن کچھ سوچ کر پھر لوٹ آیا۔طاہر نے پوچھا۔"کیوں بھئی،کیا بات ہے؟"
اسماعیل نے کہا۔"مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے سوتا چھوڑ کر چلے جائیں گے۔"
طاہر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔"میں تمہیں مل کر جاؤں گا۔جاؤ جا کر آرام کرو۔"
اسماعیل مطمئن سا ہوکر باہر نکل گیا۔
نوکر نے انگھیٹھی پر جلتی ہوئی آگ پر اور لکڑیاں لا کر پھینک دیں اور طاہر کرسی سے اٹھ کر بستر پر لیٹ گیا۔ابھی وہ نیم خوابی کی حالت میں تھا کہ اسماعیل پھر کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا۔"نانا جان آپ سے ملنے کے لیے آرہے ہیں۔"طاہر اٹھ کر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر بعد ایک درمیانے قد کا موٹا تازہ معمر آدمی کمرے میں داخل ہوا۔طاہر نے جلدی سے اٹھ کر اس سے مصافحہ کیا۔
شیخ عبدالرحمٰن نے طاہر کو دو تین بار سر سے لے کر پاؤں تک گھور کر دیکھا اور کسی تمہید کے بغیر سوال کیا:
"آپ کا نام طاہر ہے؟"
"جی ہاں۔"
"آپ عرب ہیں؟"
"جی ہاں۔"
"تاتاریوں کے حملے کے وقت آپ فوقند میں تھے؟"
"جی ہاں۔"
"آپ وہاں کیا کام کرتے تھے؟"
"میں وہاں تیمور ملک کا ایک سپاہی تھا۔"
عبدالرحمٰن نے مغموم لہجے میں کہا۔"وہ بدنصیب بھی ایک سپاہی تھا۔"
"کون؟"طاہر نے سوال کیا۔
"نصیر الدین۔ان بچوں کا باپ۔میں نے اپنی بیوی کو بہت سمجھایا تھا کہ ایک سپاہی کے ساتھ میری لڑکی کی شادی نہ کرو۔جب وہ بے چاری مر رہی تھی،یہ حضرت مصر میں نصرانیوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔اس کے بعد اسے خوارزم شاہ کی خدمت کا شوق چرایا۔اب ان بچوں کی نانی رو رہی ہے۔بھلا ایسے داماد کے متعلق اور کیا خبر آسکتی تھی؟سپاہی یا جنگ میں کام آتا ہے یا زخمی ہوتا ہے۔اب رونے سے کیا فائدہ؟"
طاہر نے جواب دیا۔"معاف کیجئے۔قوم کے سرفروش سپاہیوں کے متعلق میری رائے آپ کی رائے سے مختلف ہے۔"
عبدالرحمٰن نے کہا۔"آپ برا نہ مانیے۔میں اس موضوع پر بحث نہیں کیا کرتا۔میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میری عمر ساٹھ سال کے لگ بھگ ہے اور آج تک میرے جسم پر خراش تک نہیں آئی۔میں ایک دفعہ سرکش گھوڑے سے گرا تھا۔اس کے بعد میں گھوڑے کو ہاتھ لگانے سے پہلے اس کا حسب نسب پوچھ لیتا ہوں۔لیکن میں ان نوجوانوں پر حیران ہوں جو بار بار زخمی ہونے کے باوجود بھی تلواروں سے کھیلنا پسند کرتے ہیں۔"
طاہر نے کہا۔"قوم کی عزت اور آزادی ایسے ہی نوجوانوں کے دم سے قائم ہے۔اگر قوم کے تمام افراد آپ کی طرح جسم پر خراش تک آنے سے ڈرنے لگیں تو تاتاری ہمارے لیے اس زمین پر سانس تک لینا دشوار کر دیں گے۔"
"آپ نے غلط سمجھا۔مجھے عام سپاہیوں سے نفرت نہیں۔مجھے صرف ان لوگوں کے خلاف شکایت ہے جن کو گھر میں آرام میسر ہوتا ہے لیکن وہ صرف اپنے عزیزوں کو رلانے کے لیے میدان جنگ میں چلے جاتے ہیں۔نصیر الدین ایسے ہی آدمیوں میں سے تھا۔"
طاہر نے کہا۔"قوم کی عزت اور آزادی کے لیے لڑنا ہر شخص کا فرض ہے۔یہاں عام اور خاص کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔خدا کی نگاہ میں غریب اور امیر کے خون کی قیمت ایک ہی ہے،بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر قوم آزاد ہو تو امرا زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس لیے قربانی کے وقت انھیں قوم سے پیچھے نہیں بلکہ آگے رہنا چاہئے۔"
عبدالرحمٰن نے اس بحث میں لاجواب سا ہو کر گفتگو کا موضوع بدلنے کے لیے اسماعیل سے پوچھا۔"کیوں اسماعیل!تم تاجر بنو گے یا سپاہی؟"
"میں سپاہی بنوں گا اور تاجر بھی بنوں گا۔"
عبدالرحمٰن نے پریشان سا ہو کر طاہر کی طرف دیکھا اور کہا۔"مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ صبح جانا چاہتے ہیں؟"
"جی ہاں!میں آج ہی جانا چاہتا تھا لیکن آپ سے ملاقات کے شوق میں ٹھہر گیا۔"
"بہت اچھا۔میں صبح ضرور ملوں گا۔"یہ کہہ کر وہ اسماعیل کا بازو پکڑ کر باہر نکل گیا۔بالا خانے کی سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے نانا اپنے نواسے سے بلند آواز میں کہہ رہا تھا۔"بے وقوف!میں نے خوارزم شاہ کو دو لاکھ دینار بھیجے ہیں۔اس رقم سے وہ کئی اور سپاہی اپنی فوج میں بھرتی کر سکتا ہے۔میرا مقصد سپاہیوں کی توہین نہ تھا۔میرا مطلب یہ تھا کہ تاجر بھی اپنا کاروبار سنبھال کر قوم کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں۔اگر تمہارا باپ خوارزم شاہ کے لیے جان دینے کی بجائے تجارت میں میرا ساتھی ہوتا تو ہم مل کر لاکھوں کا کاروبار اور بڑھا سکتے تھے اور خوارزم شاہ کو بہت زیادہ مدد دے سکتے تھے۔"
اسماعیل کہہ رہا تھا۔"بابا جان نے خوارزم شاہ کے لیے جان نہیں دی۔انھوں نے ہماری آزادی اور عزت کے لیے جان دی ہے۔"
اور وہ غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔"اس لیے تو وہ تمہیں تنہا چھوڑ کر چلا گیا تھا۔خدا کا شکر کرو کہ اس نوجوان کو تمہاری مدد کے لیے بھیج دیا۔ورنہ نامعلوم تمہارا کیا حشر ہوتا لیکن تمہیں بحث کرنا کس نے سکھا دیا۔چلو!"
طاہر کو دوبارہ سیڑھیوں پر ان کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی اور وہ مسکراتا ہوا بستر پر لیٹ گیا۔
٭ ٭ ٭
صبح مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد اب طاہر دوبارہ اپنے کمرے میں آیا تو اسماعیل وہاں موجود تھا۔وہ بولا۔"دوسرے کمرے میں ناشتہ تیار ہے۔"
طاہر ناشتہ کھا کر فارغ ہوا تو ایک نوکر نے آکر کہا۔"آقا آپ کو بلاتے ہیں۔"
طاہر اسماعیل کی رہنمائی میں کمرے میں سے نکل کر ایک کشادہ برآمدے میں چند قدم چلنے کے بعد سیڑھیوں پر چڑھا اور بالائی منزل کے ایک خوشنما کمرے میں داخل ہوا۔عبدالرحمٰن ایک قالین پر گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔اس کے سامنے چاندی کے طشت میں ایک تھیلی پڑی ہوئی تھی۔اس نے اٹھ کر طاہر سے مصافحہ کیا اور اسے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے کہا۔
"آپ کا گھوڑا تیار ہے۔ثریا کہتی تھی کہ آپ کا ایک دن ضائع ہوا۔اس لیے میں آپ کو اپنے اصطبل کا بہترین گھوڑا دے رہا ہوں۔میں شہرکے گورنر سے بھی مل چکا ہوں۔اس نے راستے کی چوکیوں کے نام یہ مراسلہ لکھ دیا ہے۔لیجئے۔"
طاہر نے عبدالرحمٰن کے ہاتھ سے گورنر کا مراسلہ لیتے ہوئے کہا۔"شکریہ!لیکن میرے پاس تیمور ملک کا مکتوب تھا۔"
"مجھے ثریا نے یہ بتایا تھا لیکن تیمور ملک کے اقبال کا ستارہ ان دنوں گردش میں ہے،مجھے ڈر تھا کہ شاید بلخ کے گورنر کے سپاہی اس کے مکتوب کو کوئی اہمیت نہ دیں۔ثریا نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا تھا کہ آپ کو تیمور ملک کا ساتھی سمجھ کر راستے کی چوکیوں کے افسر آپ سے طرح طرح کے سوالات پوچھیں گے اور آپ کا بہت سا وقت ضائع کریں گے۔"
طاہر نے اٹھتے ہوئے کہا۔"میں اس تکلیف کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں۔اب مجھے اجازت دیجئے۔"
"ٹھہرئے!"عبدالرحمٰن نے چاندی کا طشت اپنے ہاتھ میں لے کر اپنا بھاری بھر کم وجود سنبھالتے ہوئے اٹھ کر کہا۔"میں آپ کی تکلیف کا صلہ نہیں دے سکتا۔میری طرف سے یہ حقیر نذرانہ قبول کیجئے۔"
طاہر کی خوبصورت اور کشادہ پیشانی پر ہلکی ہلکی شکنیں نمودار ہوئیں اور اس نے عبدالرحمٰن کے ہاتھوں سے طشت لے کر نیچے رکھ دیا اور تھیلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔"اس میں کیا ہے!"
"دو ہزار اشرفیاں،لیکن اگر آپ اسے کم سمجھیں تو میں انھیں دگنا کرنے کے لیے تیار ہوں"۔
"آپ کو میرے متعلق غلط فہمی ہوئی۔مجھے اجازت دیجئے۔"یہ کہتے ہوئے طاہر نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن عبدالرحمٰن پریشان سا ہو کر دونوں ہاتھوں سے اپنی قبا کا دامن مسل رہا تھا۔
"تم خفا ہو گئے۔کیسی غلط فہمی؟میں تمہاری بڑی سے بڑی توقع پوری کرنے کے لیے تیار ہوں۔میں ثریا اور اسماعیل کو ہیروں سے تول کر تمہیں دے سکتا ہوں۔احسان کا بدلہ احسان ہے۔تم دل کھول کر مانگو اور میں دل کھول کر دوں گا۔خدا کی قسم ثریا اور اسماعیل کی جان بچانے والا میرے گھر سے ناراض ہو کر نہیں جائے گا۔میں ایک عرب ہوں!"
طاہر نے کہا۔"میں نے آپ کے لیے کچھ نہیں کیا اور اگر کچھ کیا ہے تو وہ میرا فرض تھا۔آپ عرب ہیں تو میں بھی ایک عرب ہوں لیکن عرب ہونے سے پہلے ہم دونوں مسلمان ہیں اور مسلمان کسی کے خلوص کو پیسوں سے نہیں تولا کرتے۔"
عبدالرحمٰن اپنی قبا اب کو بری طرح مسل رہا تھا۔وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔لیکن عقب کے کمرے کے دروازے پر لٹکے ہوئے پردے کو جنبش ہوئی اور ثریا نے اچانک نمودار ہو کر عبدالرحمٰن کا ہاتھ پکڑ لیا۔
"نانا جان!"ثریا نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔"آپ کو نانی جان بلاتی ہیں۔"عبدالرحمٰن کچھ کہے بغیر ثریا کے ساتھ عقب کے دروازے کی طرف چل دیا اور ثریا اسے دروازے تک پہنچا کر طاہر کی طرف متوجہ ہوئی۔ایک ثانیے کے لیے وہ خاموشی سے طاہر کی طرف دیکھتی رہی اور جب پردے کے پیچھے دروازہ بند ہونے کی آہٹ سنائی دی تو اس نے مغموم اور ملتجی لہجے میں طاہر سے کہا۔"میں آپ سے معذرت چاہتی ہوں۔میں سب باتیں سن چکی ہوں۔مجھے امید ہے کہ نانا جان کو ایک سادہ لوح تاجر سمجھ کر ان کی غلطی سے درگزر کریں گے۔وہ تجارت کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ان کے لیے ساری دنیا ایک منڈی ہے۔وہ جب رات کے وقت آسمان پر جھلملاتے ستارے دیکھتے ہیں تو بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ آپس میں لین دین کر رہے ہیں۔خدا کے لیے آپ یہاں سے خفا ہو کر نہ جائیں۔یہ میری غلطی تھی۔مجھے معلوم نہ تھا۔ورنہ میں انھیں سمجھا دیتی۔کہئے آپ ان کی غلطی معاف کرتے ہیں یا نہیں۔میرے لیے؟"
طاہر مسکرایا اور ثریا نے محسوس کیا کہ اس کے آسمان سے غم کے بادل چھٹ گئے ہیں۔اس نے کہا۔"ثریا!تم پریشان کیوں ہو؟تمہارے لیے میں زہر میں بجھے ہوئے تیر بھی اپنے سینے پر کھا سکتا ہوں اور تمہارے نانا جی نے تو مجھے کچھ کہا ہی نہیں۔میرے دل میں ان کی بہت عزت ہے۔اپنے زاویہ نگاہ سے انھوں نے کوئی بری بات نہیں کی۔فرض کرو اگر میرے پاس کچھ نہ ہوتا تو میری ضروریات کا احساس کرنا ان کا فرض نہ تھا؟"
ثریا مسکرائی اور اس کی مسکراہٹ کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔طاہر بیک وقت اس کے ہونٹوں پر کھیلنے والی اور اس کی آنکھوں میں چھلکتے ہوئے آنسوؤں پر حیران تھا۔اس نے سورج کی ابتدائی کرنوں میں پھولوں کو بیدار ہوتے دیکھا تھا۔اس نے گلاب کے کٹوروں میں شبنم کے موتی دیکھے تھے لیکن ثریا کی آنکھیں شبنم میں نہائے ہوئے پھولوں سے کہیں زیادہ دلفریب تھیں۔اس کے ہونٹ سورج کی سنہری کرنوں میں مسکرانے والی کلیوں سے زیادہ جاذب نظر تھے۔
ایک بہادر عورت موت کے سامنے مسکرا سکتی ہے۔انتہائی کرب کی حالت میں اپنے آنسو ضبط کر سکتی ہے لیکن اچانک مسرت کا پیغام سن کر جب وہ مسکراتی ہے تو آنکھیں بے اختیار دبے ہوئے آنسوؤں کے خزانے لٹا دیتی ہیں۔
ثریا نے کہا۔"آپ تھوڑی دیر یہاں ٹھہرئیے۔نانی جان آپ کو خدا حافظ کہنے آئیں گی۔اسماعیل انہیں جانے نہ دینا!"
ثریا برآمدے میں سے گزر کر ساتھ کے کمرے میں داخل ہوئی اور جلدی سے یہ کمرہ عبور کرنے کے بعد عقب کے کمرے میں پہنچی۔اس کمرے کا ایک دروازہ اس کمرے کی طرف کھلتا تھا جہاں اس کی نانی اور نانا آپس میں باتیں کر رہے تھے۔نیم وا دروازے کے آگے لٹکے ہوئے پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر ان کی باتیں سنتی رہی۔اس کا دل دھڑکنے لگا اور وہ اپنے گالوں اور کانوں میں ایک حرارت سی محسوس کرنے لگی۔
شیخ عبدالرحمٰن کہہ رہا تھا۔"ثریا بھی یہی چاہتی ہے؟"
اور ثریا کی نانی کا جواب تھا۔"اور ثریا اگر یہ نہ چاہتی تو میں اسے بے وقوف سمجھتی۔تم خود سوچو۔اگر تم خود ثریا کی جگہ ہوتے تو تمہارے دل میں ایسے نوجوان کے لیے ایک نہ مٹنے والی خواہش بیدار نہ ہوتی؟"
عبدالرحمٰن نے قدرے تامل کے بعد جواب دیا۔"اس میں شک نہیں کہ وہ خوش وضع ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ وہ شریف ہے۔عالی نسب بھی معلوم ہوتا ہے،میرچشم بھی ہے لیکن اگر ثریا کی جگہ میں ہوتا تو شادی کے لیے ایسے نوجوان کو منتخب کرنے کی حماقت نہ کرتا جو آٹھوں پہر سر ہتھیلی پر رکھے پھرتا ہو۔بہر حال مجھے اب یقین ہو چکا ہے کہ تم آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں مجھ سے ثریا کے متعلق اپنا فیصلہ منوا کر رہو گی اس لیے میں ہتھیار ڈالتا ہوں۔تم مطمئن رہو۔میں ابھی اس سے بات کرتا ہوں لیکن وہ چلا نہ گیا ہو۔اسماعیل!اسماعیل!!"اس نے بلند آواز میں کہا۔
"جی!"اسماعیل کی آواز آئی۔
"مہمان یہیں ہے؟"
"جی ہاں!"
"ان سے کہو تھوڑی دیر ٹھہریں۔میں ابھی آتا ہوں۔"
حنیفہ نے کہا۔"لیکن خدا کے لیے کوئی اور حماقت نہ کر بیٹھنا۔"
اس نے بگڑ کر کہا۔"تم اب بھی مصر ہو کہ اسے اشرفیاں پیش کرنا حماقت تھی؟"
حنیفہ نے جواب دیا۔"حماقت نہیں تو اور کیا تھا؟"
"خدا کی قسم!جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے۔مجھے یہ پہلا شخص ملا ہے جسے دولت سے نفرت ہے۔"
"اچھا اب خدا کے لیے جاؤ لیکن سوچ سمجھ کر بات کرنا۔"
"تو تمہارے خیال میں میں سوچ سمجھ کر بات نہیں کرتا۔خدا کی قسم دنیا میں صرف تم ہو جسے میں اپنی دانشمندی کا معترف نہ بنا سکا۔ورنہ بلخ،بخارا اور سمرقند میں کوئی شاعر ایسا نہیں جس نے میری مدح میں قصیدے نہیں لکھے۔"
"اگر آج تم نے غلطی نہ کی تو میں بھی ہمیشہ کے لیے تمہاری عقلمندی کی معترف ہو جاؤں گی۔"
"تو پھر دروازے کے قریب بیٹھ کر غور سے میری باتیں سنتی رہو۔"
ثریا اپنی توقع سے زیادہ سن چکی تھی۔وہ کمرے سے وحشی ہرنی کی طرح بھاگی اور چند کمرے چھوڑ کر اپنے کمرے میں جا پہنچی۔قدآدم آئینے میں اس نے اپنا چہرہ دیکھا۔اس کے گال سرخ ہو رہے تھے۔اس نے جلدی سے کاغذ اور قلم اٹھایا اور قالین پر بیٹھ کر لکھنے میں مصروف ہوگئی۔یہ ایک خط تھا۔اس کا پہلا خط۔۔۔۔،
عبدالرحمٰن دوسرے کمرے میں طاہر کے پاس کھڑا تھا۔اس نے اسماعیل کی طرف دیکھا اور کہا۔"بیٹا!تم تھوڑی دیر کے لیے باہر جاؤ۔"اسماعیل اٹھ کر برآمدے میں جا کھڑا ہوا۔عبدالرحمٰن طاہر سے مخاطب ہوا۔
"بیٹھ جاؤ بیٹا۔تمہیں دیر ہو رہی ہے لیکن میں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔میں زیادہ وقت نہیں لوں گا۔"
دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ گئے۔عبدالرحمٰن نے کہا۔"ایسی باتوں کے لیے لوگ لمبی چوڑی تمہید بندھا کرتے ہیں لیکن تمہارے جانے کی جلدی ہے اور میں بھی بہت مصروف ہوں۔مہمان خانے میں بہت سے تاجر ٹھہرے ہوئے ہیں اور مجھے ان سے ضروری باتیں کرنی ہیں۔ اس لیے میں اس قصے کو مختصر کرتا ہوں۔میں نے تمہیں دولت پیش کی اور وہ تم نے ٹھکرا دی اور سچ پوچھو تو مجھے اس بات پر بہت صدمہ ہوا ہے۔"
طاہر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔"اگر آپ اپنی بات پر ابھی تک مصر ہیں تو میں یہ عرض کرتا ہوں کہ آپ جو رقم مجھے دینا چاہتے ہیں وہ خوارزم شاہ کے بیت المال میں بھیج دیں۔قوم کو اس سے زیادہ ضرورت شاید کبھی نہ ہو۔"
"میں تمہاری یہ خواہش رد نہیں کرتا۔یہ رقم وہاں بھیج دی جائے گی لیکن اس وقت میں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔
تمہارے دل میں ایک ایسی خواہش ہے جو تم نے ابھی تک مجھ سے بیان نہیں کی۔"عبدالرحمٰن کی بیوی پردے کے پیچھے کھڑی اپنے ہونٹ چبا رہی تھی۔
طاہر نے کہا۔"تو آپ ہی بتا دیجئے وہ کون سی خواہش ہے؟"
"بات یہ ہے کہ تم اپنے اخلاق اور شرافت سے اپنے آپ کو ایک بہت بڑے انعام کا مستحق ثابت کر چکے ہو۔"
طاہر نے کہا۔"اگر وہ انعام سونے اور چاندی میں نہیں تو میں یقیناً اسے حاصل کرنا اپنی خوش بختی سمجھوں گا۔"
"نوجوان!تم صاف طور پر کیوں نہیں کہتے کہ تم ثریا کے سوا مجھ سے اور کچھ نہیں مانگتے؟"
طاہر نے آنکھیں جھکا لیں۔
"بولتے کیوں نہیں؟"
"شریف نوجوان ایسے موقعوں پر بولا نہیں کرتے۔"یہ کہتے ہوئے حنیفہ نے دروازے کا پردہ ہٹایا اور اندر آگئی۔طاہر ادب سے کھڑا ہوگیا۔معمر خاتون نے طاہر کے سر پر شفقت سے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔"جیتے رہو بیٹا!ثریا تمہاری ہے۔اب جاؤ لیکن جلدی واپس آنے کی کوشش کرنا۔"
٭ ٭ ٭
صبا رفتار گھوڑے کی ہر جست اسے اس سرزمین سے دور لے جا رہی تھی جہاں ہر ذرے کے پہلو میں اس نے محبت کی دھڑکنیں محسوس کی تھیں۔شیخ عبدالرحمٰن کے محل اور بلخ کے بازاروں میں سے نکلتے ہوئے طاہر نے محسوس کیا کہ وہ اس شہر میں ایک اجنبی نہ تھا۔ایک بلبل کی طرح جو ایک پھول سے آشنا ہونے کے بعد سارے باغ کو اپنا سمجھ لیتی ہے۔طاہر کو بلخ کی ہر شے اپنی محسوس ہوتی تھی۔وہ جیسے مدتوں اس شہر میں رہ چکا تھا۔برسوں ان فضاؤں میں پرواز کر چکا تھا۔
ثریا کو پہلی بار غور سے دیکھنے کے بعد اس نے محسوس کیا تھا کہ اس کی تصویر پہلے ہی اس کے دل میں موجود تھی اور اس کی آواز برسوں پہلے اس کے کانوں میں گونج چکی ہے۔وہ نجانے کب سے ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔
طاہر کو اچانک ایک خیال آیا اور وہ ایک ہاتھ سے اس تھیلے کو ٹٹولنے لگا جو اس کے پیچھے زین کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔یہ خوبصورت تھیلا اس نے گھوڑے پر سوار ہوتے وقت دیکھا تھا اور اسماعیل نے کہا تھا کہ آپا جان نے اس میں کھانے کی چیزیں رکھوا دی ہیں۔شہر سے نکلنے کے بعد وہ خیالات کی دنیا میں کھو گیا اور چند کوس تک اسے اس تھیلے کا خیال نہ آیا۔
اس بات سے مطمئن ہو کر کہ تھیلا زین کے ساتھ مظبوطی سے بندھا ہوا ہے۔وہ پھر خیالات کی دنیا میں کھو گیا۔ایک ندی کے کنارے پر پہنچ کر وہ گھوڑے سے اترا اور ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔
پانی پینے کے بعد گھوڑا کنارے پر اگی ہوئی گھاس کے تنکے نوچنے لگا۔طاہر کو بھوک محسوس ہوئی۔اس نے اٹھ کر تھیلا اتارا اور پھر پتھر پر بیٹھ گیا۔تھیلا کھولتے ہی اس کی نگاہ کھانے سے پہلے ایک ریشمی رومال پر پڑی۔اس نے رومال نکالا۔رومال میں لپٹے ہوئے کاغذ کی سرسراہٹ اور اس کے ساتھ ہی ایک خوشگوار مہک سے طاہر نے اپنے پہلو میں خوشگوار دھڑکنیں محسوس کیں۔اس نے رومال میں لپٹا ہوا کاغذ نکالا۔کھولا۔سیاہ الفاظ رنگا رنگ کے پھول بن کر اس کی نگاہوں کے سامنے رقص کرنے لگے۔اسے اپنا تنفس بھی بار محسوس ہو رہا تھا۔فضا میں ایک نغمہ گونج رہا تھا۔ایسا نغمہ جس کی تانیں بہت بلند تھیں آہستہ آہستہ اس نغمے کے سر ڈھیلے ہونے لگے۔رقص کرتے ہوئے پھول سیاہ دھبوں میں تبدیل ہونے لگے۔وہ ثریا کا خط پڑھنے لگا۔پہلی بار اس کے ہونٹوں کو جنبش نہ ہوئی۔دوسری بار اس کے ہونٹ ہلنے لگے۔تیسری بار وہ بلند آواز میں پڑھ رہا تھا۔
"میرے محسن!تم نے کہا تھا کہ ایسے پرآشوب زمانے میں کہنے اور سننے کا موقع بار بار نہیں آتا۔میں یہ سطور اسی احساس کے ماتحت لکھ رہی ہوں۔نانا اور نانی جان میری دائمی حفاظت کیلئے آپ کو منتخب کر چکے ہیں۔مجھے ڈر ہے کہ میں نے اپنی بے قراری کا مظاہرہ کر کے اپنے آپ کو ایک مجاہد کی خادمہ بننے کا اہل ثابت نہیں کیا۔
جب آپ بلخ سے کچھ فاصلے پر مجھے خدا حافظ کہنا چاہتے تھے تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔اس وقت میرے لیے یہ احساس ناقابل برداشت حد تک تکلیف دہ تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر اپنی زندگی کی کتاب کا نیا ورق الٹنے والے ہیں۔مجھے یہ اطمینان نہ تھا کہ وقت کے ہاتھ ہمیں پھر ایک بار ایک ہی شاہراہ پر لاکھڑا کریں گے۔
اب میں اپنے دل میں یہ اطمینان محسوس کرتی ہوں اور آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ آئندہ آپ کبھی میری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھیں گے۔
میں یہ ضرور کہوں گی کہ آپ بغداد جیسے پررونق شہر میں پہنچ کر اس چھوٹے سے شہر کو بھول نہ جائیں لیکن ساتھ ہی یہ دعا بھی کرتی رہوں گی کہ میرا خیال آپ کے بلند ارادوں میں حائل نہ ہو۔میری یاد آپ کے پاؤں کی زنجیر نہ بن جائے۔غالباً نانا اور نانی جان آپ سے بہت جلد بلخ پہنچنے کا مطالبہ کریں گے۔لیکن میں یہ التجا کرتی ہوں کہ جب تک بغداد میں آپ کا مقصد پورا نہ ہو،واپس آنے کا ارادہ نہ کریں۔میری فکر نہ کریں۔میں ہمیشہ آپ کی ہوں۔جب تک سورج دنیا کو صبح کا پیغام دیتا رہے گا اور رات کے وقت ستارے آسمان پر جگمگاتے رہیں گے،میں آپ کا انتظار کرتی رہوں گی۔آپ خواہ کہیں ہوں،میرے لیے یہ اطمینان کافی ہوگا کہ آپ میرے ہیں۔"
ثریا
طاہر نے خط اپنی جیب میں ڈال لیا۔اس کی بھوک مر چکی تھی۔اس نے بے توجہی سے چند نوالے کھائے اور تھیلا زین سے باندھ کر گھوڑے پر سوار ہوگیا۔گھوڑا ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔اس کے کانوں میں ثریا کے یہ الفاظ نغمہ بن کر گونج رہے تھے۔"آپ خواہ کہیں ہوں میرے لیے یہ اطمینان کافی ہوگا کہ آپ میرے ہیں۔"
زید نے حسب معمول عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اصطبل میں ایک چکر لگایا۔نوکروں کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور مکان کے ایک کمرے میں واپس آکر لیٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ شمع بجھانے کے لیے اٹھا لیکن کچھ سوچ کر بستر کے نیچے ہاتھ ڈال کر لوہے کا مظبوط صندوق ٹٹولنے لگا اور زور زور سے صندوق کھینچنے کے بعد مطمئن سا ہو کر اس نے شمع بجھا دی۔یہ صندوق جس کے اندر طاہر کی باقی دولت کے علاوہ صلاح الدین ایوبی کی تلوار بھی تھی۔زید کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔طاہر کے جانے کے بعد اس نے گھر سے باہر نکلنا ترک کر دیا تھا۔وہ ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر بغداد کے ان بے شمار چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہوجاتا جو اس کے خیال میں طاہر کے چلے جانے کے بعد اس صندوق پر تاک لگائے بیٹھے تھے۔ابتدائی چند ہفتے تو وہ تلوار ہاتھ میں لیے ساری رات بیٹھا رہتا۔اس کے بعد اس نے پلنگ پر سونے کی بجائے صندوق پر بستر لگا لیا لیکن صندوق لمبائی اور چوڑائی میں چھوٹا تھا،کئی بار وہ کروٹ بدلتے وقت نیچے گر پڑا۔آہستہ آہستہ اس کے خدشات کم ہوتے گئے اور اس نے صندوق گھسیٹ پلنگ کے نیچے کر لیا۔اب مکان کے نوکر یہ کہا کرتے تھے کہ رات کو سوتے وقت اس کی بڑبڑاہٹ کی بیماری کم ہو گئی ہے۔
زید کو ابھی اچھی طرح نیند نہ آئی تھی کہ اسے پھاٹک کی طرف کھٹکھٹاہٹ،اس کے بعد چوکیدار کی آواز اور پھر پھاٹک کھلنے کی چرچراہٹ سنائی دی۔وہ تلوار سنبھال کر اٹھا اور بلند آواز میں چلایا۔"کون ہے؟"
اپنے سوال کا جواب نہ پا کر وہ اندھیرے میں راستہ ٹٹولتا ہوا کمرے کے دروازے کے قریب پہنچا اور کواڑ سے کان لگا کر سننے لگا۔ایک گھوڑا پھاٹک کے اندر داخل ہو رہا تھا اور نوکر ایک دوسرے کو جگا رہے تھے۔
"زید کہاں ہے؟"کسی نے مکان کے قریب آکر پوچھا۔
زید کا دل خوشی سے اچھلنے لگا۔یہ طاہر کی آواز تھی۔جب چوکیدار نے یہ جواب دیا کہ وہ سو رہا ہے تو اس نے چادر اوڑھنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔جھٹ دروازہ کھول کر باہر نکل آیا اور بھاگتا ہوا طاہر سے لپٹ گیا۔
"لیکن تمہارے ہاتھ میں ننگی تلوار؟"
"اف!مجھے یاد نہیں رہا۔میں نے آپ کو ڈاکو سمجھ کر اسے اٹھایا تھا۔"
طاہر ہنس پڑا اور زید نے محسوس کیا کہ اسے اچانک شکایت کے وہ ہزاروں الفاظ بھول گئے ہیں جنہیں وہ انتظار کی نہ ختم ہونے والی راتوں میں دہرایا کرتا تھا۔وہ فقط اتنا کہہ سکا۔"آپ تندرست تو رہے؟زخمی تو نہیں ہوئے؟میں بہت پریشان تھا۔"
طاہر نے جواب دیا۔"میں بلکل ٹھیک ہوں۔"
"میں نے کل آپ کے متعلق ایک نجومی سے پوچھا تھا۔"
"اس نے کیا بتایا؟"
"اب اگر وہ مجھے مل جائے تو اس کی کتابیں چھین کر دریا میں پھینک دوں گا۔جھوٹا فریبی۔مکّار۔"
"پھر بھی اس نے کیا بتایا تھا تمہیں؟"
"خدا اسے غارت کرے۔وہ کہتا تھا کہ آپ کا ستارہ گردش میں ہے۔اور آپ تاتاریوں کی قید میں ہیں اور جب تک ستارے کی گردش ختم نہیں ہوتی،آپ واپس نہیں آئیں گے۔لیکن ستارے کی گردش ایک سال کے اندر اندر ختم ہو جائے گی۔میں نے اس بے ایمان کو خواہ مخواہ ہی پانچ دینار دیے۔اس نے آپ کے متعلق اور بھی بہت سی واہیات باتیں کہی تھیں۔"
طاہر نے ہنستے ہوئے پوچھا۔"وہ کیا؟"
زید نے نوکروں کو متوجہ دیکھ کر رازداری کے لہجے میں کہا۔"چلئے!اندر چلئے!"
طاہر نے باورچی کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور زید کے ساتھ اندر چلا گیا۔
کمرے میں پہنچ کر زید نے مشعل جلائی۔روشنی میں اس کی نگاہیں طاہر کی بلائیں لے رہی تھیں۔طاہر نے پوچھا۔"ہاں وہ واہیات باتیں کیا تھیں؟"
"وہ کہتا تھا کہ آپ پر ایک تاتاری شہزادی عاشق ہو جائے گی اور اس کی بدولت آپ تاتاریوں کی قید سے خلاصی پائیں گے۔کل اگر وہ مجھے مل گیا تو اس کی ایسی گت بناؤں گا کہ تمام عمر یاد کرے گا۔"
طاہر نے پوچھا۔"مدینے سے کوئی خط آیا؟"
"احمد بن حسن یہاں خود آئے تھے اور دو ہفتے رہ کر چلے گئے،وہ کہتے تھے کہ آپ بغداد پہنچتے ہی اپنا حال لکھیں۔"
طاہر نے اپنے دوستوں کے متعلق پوچھا۔زید نے جواب دیا۔"مبارک قریباً ہر روز آکر پوچھ جاتا ہے۔عزیز اور عبدالملک دوسرے تیسرے دن آکر پوچھ جاتے ہیں۔باقی کبھی کبھی آتے ہیں۔ہاں ایک بوڑھیا بھی یہاں کئی بار آئی اور وہ بھی آپ کے متعلق پوچھا کرتی ہے۔"
"وہ کون ہو سکتی ہے؟"
"مجھے معلوم نہیں۔میں نے ایک دن اس کا پیچھا کیا تھا۔وہ دریا کا پل عبور کرنے کے بعد وزیر اعظم کے محل میں داخل ہو گئی تھی۔"
طاہر نے کہا۔"اب میں ایک اہم کام تمہارے سپرد کرتا ہوں۔تم ابھی عبدالعزیز کے پاس جاؤ انھیں میری طرف سے کہو کہ وہ عبدالملک اور باقی قابل اعتماد دوستوں کو لے کر فوراً یہاں آجائیں۔اگر وہ سو رہے ہوں تو بھی انھیں کہنا کہ بہت ضروری کام ہے۔میرا خط لیتے جاؤ۔"
٭ ٭ ٭
طاہر کھانا کھا کر فارغ ہوا تو زید،عبدالعزیز،عبدالملک اور مبارک کو اپنے ہمراہ لے کر پہنچ گیا۔زید دوسرے کمرے میں جا کر لیٹ گیا اور طاہر اپنے دوستوں کے ساتھ دیر تک باتیں کرتا رہا۔ عبدالعزیز کی رائے میں خلیفہ،وزیر اعظم اور وحید الدین تینوں اس سازش میں شریک تھے۔مبارک کی اپنی کوئی رائے نہ تھی۔وہ صرف عبدالعزیز کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔
عبدالملک بولنے کی بجائے سوچ رہا تھا۔جب طاہر نے اس کی رائے دریافت کی تو اس نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد یہ کہا۔"آپ کے ساتھی جو اس سازش کے ثبوت میں پیش کیے جا سکتے تھے،مارے جا چکے ہیں۔وحیدالدین ابھی تک روپوش ہے،اس کی جگہ اس کا نائب مہلب بن داؤد کام کر رہا ہے۔جب تک ہم وحید الدین کا پتا نہیں لگاتے،ہم کسی پر کوئی جرم ثابت نہیں کر سکتے۔اگر وہ مر چکا ہے یا کسی نامعلوم قید خانے میں پڑا ہوا ہے تو کم از کم میں اس کے متعلق یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا اس سازش کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔"
عبدالعزیز نے سوال کیا۔"وہ کیسے؟"
عبدالملک نے جواب دیا۔"اسے درپردہ مارنے یا قید کرنے میں اس شخص کو دلچسپی ہو سکتی ہے جسے اس کو عوام کے سامنے لانے سے اپنی سازش کا بھانڈہ پھوٹ جانے کا ڈر ہو مثلاً خلیفہ یا وزیر اعظم یا کوئی اور جس نے اس کے نام سے سازش کی ہے۔اس کے برعکس اگر وہ اپنی مرضی سے کہیں چھپا ہوا ہے تو یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ وہ تنہا ان سب باتوں کا ذمہ دار ہے۔اس لیے جب تک ہم وحید الدین کے غائب ہونے کا راز نہیں کھولتے،ہمیں ان واقعات کا کسی سے ذکر نہیں کرنا چاہئے۔"
طاہر نے کہا۔"یہ راز صرف تین شخصیتوں سے معلوم ہو سکتا ہے۔خلیفہ،وزیر اعظم اور مہلب بن داؤد۔میں مہلب کو اس لیے شریک کرتا ہوں کہ وحید الدین کے غائب ہو جانے کے بعد عام حالات میں خلیفہ کو اس کے نائب پر قطعاً بھروسہ نہیں ہونا چاہئے۔اس کے علاوہ اس کے ایک دم وزیر خارجہ بن جانے سے بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ ان تینوں میں سے پہلے کس سے ملوں۔"
عبدالملک نے کہا۔"سب سے پہلے وزیر اعظم سے ملیں۔خلیفہ کے وسیع محل میں ایسے اسرار کو جاننے والے ہمیشہ کیلئے دفن ہو سکتے ہیں۔لیکن وزیر اعظم کے محل میں کم از کم ایک وجود ایسا ہے جسے آپ اپنا کہہ سکتے ہیں۔"
"وہ کون؟"طاہر نے سوال کیا۔
عبدالملک نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔"آپ بھول گئے؟میں تو آپ کی خاطر ہر دوسرے یا تیسرے دن اپنی بیوی کو صفیہ کی تسلی کے لیے بھیجتا رہا ہوں۔"
طاہر نے کہا۔"میرے ساتھ آپ کی ہمدردی اخلاقی قیود سے تجاوز تو نہیں کر گئی؟"
"نہیں۔میں نے صرف ایک دوست کا فرض پورا کیا ہے۔وہ آپ کے متعلق واقعی بہت پریشان تھی!"
طاہر نے جواب دیا۔"مجھے آپ کو بڑا بھائی بنانے پر اعتراض نہیں۔لیکن یہ اطمینان رکھئے کہ اس لڑکی سے میرا کوئی سروکار نہیں۔"
"بہر حال اسے آپ سے انس ہے۔انس نہیں محبت ہے والہانہ محبت۔میں خوش ہوں کہ وہ اس قابل ہے۔میری بیوی بھی اس کی بہت تعریف کرتی ہے۔"
چاروں دوست پھر اصل موضوع پر لوٹ آئے اور دیر تک بحث کرنے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ طاہر سب سے پہلے وزیر اعظم سے ملے۔عبدالعزیز وہیں سو گیا اور عبدالملک اور مبارک اپنی اپنی قیام گاہ کی طرف چل دیے۔
٭ ٭ ٭
علی الصباح نماز سے فارغ ہو کر طاہر وزیر اعظم کے محل پر پہنچا۔باغیچے میں سے گزرتے ہوئے وہ دونوں جانب خوش نما پھولوں کی کیاریاں دیکھ رہا تھا۔اچانک اسے پھولوں کے درمیان ایک خوبصورت لڑکی دکھائی دی۔وہ آہستہ آہستہ چہل قدمی کر رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں چند پھول تھے۔وہ ایک پودے کے پاس پہنچ کر رکی۔جھک کر ایک پھول توڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن طاہر کے پاؤں کی آہٹ سن کر اس کی طرف متوجہ ہوگئی۔طاہر نے ایک ہی نگاہ میں اسے پہچان لیا۔وہی بڑی بڑی آنکھیں جو اس نے دریائے دجلہ کے کنارے دیکھی تھیں اور وہی حسین چہرہ جو اس نے چاند کی روشنی میں اس باغ کے ایک گوشے میں دیکھا تھا۔۔۔۔وہ صفیہ تھی۔وہی صفیہ!
طاہر کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ مسرت سے تمتما اٹھا۔ایک لمحے کے لیے طاہر جھجھکا۔رکا۔پھر لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا آگے نکل گیا۔
وزیر اعظم نے اطلاع ملتے ہی اسے اندر بلا لیا بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور کہا۔"تم نے بہت دیر لگائی،میں مایوس ہو چکا تھا۔کب پہنچے؟"
طاہر نے ذرا تفصیل کے ساتھ ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن اس نے جلد ہی محسوس کیا کہ وزیر اعظم کے خیالات کہیں اور ہیں۔مایوسی سے زیادہ اسے پریشانی ہوئی۔اس کا خیال تھا کہ وزیر اعظم فوراً ابو اسحاق،کمال اور جمیل کے متعلق پوچھے گا لیکن اسے جیسے ان کے متعلق یاد بھی نہ تھا۔
طاہر نے ابھی تک تفصیل کے ساتھ قراقرم پہنچنے کے حالات بیان نہ کیے تھے کہ وزیر اعظم نے بات کاٹ کر سوال کیا۔"خلیفہ کا خط پڑھ کر چنگیز خان نے کیا کہا تھا؟"
"اس نے کہا تھا کہ ہم خوارزم پر چڑھائی کرنے کا ارادہ ترک کر چکے ہیں۔"
"جھوٹا!فریبی!!"اس نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا۔
طاہر نے کچھ سوچ کر کہا۔"لیکن چنگیز خان کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ اسے خلیفہ کے غیر جانب دار رہنے کے متعلق اطمینان ہو چکا ہے۔شاید قراقرم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو چنگیز خان کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ خوارزم شاہ کے متعلق خلیفہ کا ظاہر باطن ایک نہیں۔"
"یہ تو ہر احمق کو معلوم ہے اور میں چنگیز خان کو احمق نہیں سمجھتا۔بہر حال مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ تمہیں وہاں بھیجا گیا۔اب دنیا کو یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ہم نے درپردہ چنگیز خان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔سپہ سالار کے مستعفی ہو جانے سے اس قسم کے شکوک اور بڑھ جائیں گے۔"
"سپہ سالار مستعفی ہو گئے؟"
وزیر اعظم اس سوال پر چونکا۔"ابھی یہ خبر کسی پر ظاہر نہ کرنا۔میں کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنا استعفیٰ واپس لے لیں۔اس وقت ہمیں ان کی ضرورت ہے۔"
طاہر نے کہا۔"وحید الدین کے متعلق کچھ پتا چلا؟"
"نہیں اور مجھے اب ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔"
"میں خلیفہ سے ملنا چاہتا ہوں۔کیا آپ اس بارے میں میری کوئی مدد کریں گے؟"
وزیر اعظم نے بے پروائی سے جواب دیا۔"خلیفہ کو نوجوانوں کے جذبات کا کوئی لحاظ نہیں۔تم انہیں یہ کہو گے کہ خوارزم شاہ کی مدد کا فوراً اعلان کر دیا جائے اور تمہیں وہی جواب ملے گا جس سے مایوس ہو کر سپہ سالار مستعفی ہونا چاہتا ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ تمہیں ہم نے کب سے مشیر بنایا ہے؟"
"ممکن ہے کہ میں خلیفہ کے سامنے آنے والے خطرات کا صحیح نقشہ پیش کر سکوں اور۔۔۔۔۔"
وزیر اعظم نے بات کاٹ کر کہا۔"برخوردار!بغداد میں سمجھانے والوں کی کوئی کمی نہیں۔تم جاؤ۔میں وقت آنے پر تمہیں بلا لوں گا۔تمہارے لیے میں کوئی موزوں عہدہ سوچ رہا ہوں۔چند دنوں تک تمہیں اطلاع مل جائے گی۔"
طاہر نے کہا۔"میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ موجودہ صورت حالات میں سلطنت میں کسی عہدے پر فائز ہو کر کوئی شخص قوم کی صحیح خدمت سرانجام نہیں دے سکتا۔تا ہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وقت آنے پر میں اپنے آپ کو قوم کا ایک جان نثار سپاہی ثابت کر سکوں گا۔"
٭ ٭ ٭
صفیہ اپنے ہاتھ میں پھولوں کا ایک گلدستہ لیے باغ میں گزرنے والی نہر کے کنارے کھڑی تھی۔وہ ایک پھول کو بہتے ہوئے شفاف پانی میں پھینک دیتی اور جب وہ کچھ دور نکل جاتا تو وہ دوسرا پھول پھینک دیتی۔جب گلدستہ ختم ہوجاتا وہ پاس کی کیاریوں سے نئے پھول توڑ کر گلدستہ بناتی اور پھر اسی کھیل میں مشغول ہوجاتی۔
صفیہ کا تیسرا گلدستہ تقریباً ختم ہو چکا تھا کہ اسے طاہر ڈیوڑھی سے نکل کر دروازے کی سیڑھیوں سے اترتا ہوا دکھائی دیا۔اس نے جلدی سے سنگ مرمر کے پل سے گزر کر نہر عبور کی اور پاس کی کیاری سے پھول توڑنے لگی۔طاہر قریب آرہا تھا۔صفیہ نے ادھر ادھر دیکھا۔ آس پاس کوئی نہ تھا۔تا ہم اس کا دل دھڑک رہا تھا۔وہ جھجھکتے ہوئے پھولوں کی کیاری سے باہر نکلی۔نہر عبور کر کے دوبارہ سڑک پر پہنچنے کے لیے سنگ مرمر کی سل پر پاؤں رکھا لیکن نگاہوں کے سامنے حیا کے پردے حائل ہوگئے۔اس کا ڈگمگاتا ہوا پاؤں اچانک پھسلا اور وہ پانی میں آرہی۔طاہر نے جلدی سے آگے بڑھ کر سہارا دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔صفیہ نے ہچکچاتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔اس کے چہرے پر حیا کی سرخ و سپید لہریں رقص کرنے لگیں۔
"شکریہ!"اس نے باہر نکل کر اپنی بدحواسی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
"مجھے بہت افسوس ہے۔آپ کو چوٹ تو نہیں آئی۔"طاہر بولا۔
"نہیں۔"
طاہر نے تذبذب کی حالت میں ایک قدم اٹھایا لیکن صفیہ نے جلدی سے کہا۔"میں یہ پھول توڑ رہی تھی۔لیجئے!"اس نے پھول طاہر کی طرف بڑھا دیے اور طاہر نے بدحواسی کی حالت میں پھول پکڑ لیے۔
وہ بولی۔"بغداد میں آپ کا بہت انتظار تھا۔آپ نے بہت دیر لگائی؟"
"ہاں کچھ ایسے ہی حالات ہو گئے تھے۔"
طاہر کوئی اور بات کیے بغیر چل دیا۔صفیہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی۔کیاریوں کے پھول مسکرا رہے تھے اور نہر کا شفاف پانی قہقہے لگا رہا تھا۔اس نے پھر چند پھول توڑے اور سنگ مرمر کی سل پر کھڑی ہو کر انہیں ایک ایک کر کے ندی میں پھینکنے لگی۔
"صفیہ!صفیہ!!تم آج گھر نہیں آؤ گی؟"سکینہ ڈیوڑھی کے قریب سنگ مرمر کی سیڑھیوں پر کھڑی اسے پکار رہی تھی۔
"آئی سکینہ۔"اس نے جلدی سے قدم اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
محل سے باہر نکلنے کے بعد طاہر دریا کے پل پر تھوڑی دیر کھڑا رہا۔اس نے پھولوں کی طرف غور سے دیکھا پھر جھک کر بہتے ہوئے پانی کی طرف دیکھنے لگا۔کسی گہرے خیال میں پھولوں پر اس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی ہوگئی۔پھول گر کر دریا میں تیرتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔"ثریا!ثریا!!میں تمہارا ہوں صرف تمہارا۔"وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چل دیا۔ہر قدم پر اس کی رفتار تیز ہو رہی تھی۔
اس کے مکان پر عبدالعزیز،عبدالملک،مبارک اور افضل اس کا انتظار کر رہے تھے۔انھوں نے اسے دیکھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔طاہر نے اطمینان سے بیٹھتے ہوئے کہا۔"میں حیران ہوں کہ اب تک یہ بات میرے ذہن میں کیوں نہیں آئی کہ اس وقت ہم سازش کے اصلی مجرم کو پکڑنے یا پکڑوانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو اس سے خوارزم کی مصیبت ٹل نہیں جانی۔ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم مجرم ہو۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس میں خلیفہ کا بھی ہاتھ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں بری الذمہ ہوں لیکن وقت ایسا نہیں جسے ضائع کیا جائے۔تاتاریوں کا سیلاب بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اہل بغداد کو آنے والے خطرات سے آگاہ کیا جائے۔انہیں غفلت کی نیند سے بیدار کیا جائے۔بغداد میں ہر فرقے نے دوسرے فرقے اور ہر گروہ نے دوسرے گروہ کے خلاف مورچہ بنا رکھا ہے۔انہیں اب یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک محاذ ایسا بھی ہے جہاں کفر کی تمام طاقتیں جمع ہو کر مسلمانوں کی تمام قوت کو متحد ہونے کی دعوت دے رہی ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ایک مشترکہ خطرہ ہمیں اجتماعی جدو جہد کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔ایسی صورت میں وہ لوگ جو چھپ چھپ کر تاتاریوں کی حمایت کر رہے ہیں،کھلے بندوں ہمارے سامنے آجائیں گے۔میں چاہتا ہوں کہ اب بغداد کی ہر مسجد سے ایک ہی نعرہ بلند ہو اور وہ یہ کہ تاتاریوں کے مقابلے میں ہم ایک ہیں۔سب سے پہلے میں بغداد کی جامع مسجد میں یہ نعرہ لگاؤں گا۔"
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 14 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
Follow the سبق آموز واقعات وحکایات channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o