
سبق آموز واقعات وحکایات
June 3, 2025 at 11:51 PM
#ناول___بڑی__مصیبت__ہے__جدائی
#قسط__41
#رائٹر___داؤد__آبان__حیدر
نکاح مکمل ہو گیا مبارکباد کا شور بلند ہوا
پریکھا عنایہ اور فہد کی طرف سے مہمانوں میں مٹھائی تقسیم ہونے لگی
نگینہ بیگم نے ایک لمبا کانپتا ہوا سانس لیا
فوری طوفان ٹل گیا تھا عزت بظاہر بچ گئی تھی مگر وہ جانتی تھیں کہ ایک نیا کہیں زیادہ خطرناک طوفان ان کی زندگیوں میں داخل ہو چکا تھا جس کی لہریں نجانے کہاں تک جائیں گی
گھونگھٹ میں چھپی فائقہ کے آنسو اب بھی خاموشی سے بہہ رہے تھے
اس نئے رشتے اور اس دھوکے کے بوجھ تلے دبے ہوئے_
🔥🔥🔥🔥
کراچی شہر کی روشنیوں میں ایک عالیشان گھر کے سامنے گاڑی رکی۔
عندلیب اپنی قسمت پر نازاں عشراز کا ہاتھ تھامے باہر نکلی۔
اس کی آنکھوں میں مستقبل کے حسین سپنے تھے
"عشراز! میں کتنی خوش ہوں کہ میں اس زبردستی کی شادی سے بھاگ آئی"
عشراز نے ایک معنی خیز شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
"اندر چلو جان من آج ہمارا نکاح ہے ہماری نئی زندگی کا آغاز۔"
عندلیب محبت اور بھروسے میں اندھی اس جانور نما انسان کے ساتھ اس کی رہائش گاہ میں داخل ہوگئی
اس بات سے قطعی بے خبر کہ عشراز کے دل میں محبت نہیں صرف ہوس اور دھوکہ تھا۔
گھر کے اندر اندر عشراز نے اسے نرم صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے لیے جوس لایا
"بہت تھک گئی ہوگی یہ پیو مولوی صاحب بس آتے ہی ہوں گے۔"
عندلیب نے تشکر سے جوس کا گلاس تھاما اور پی لیا
چند لمحوں میں ہی اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور وہ بےہوش ہو گئی۔
کمرے میں عشراز کے شیطانی قہقہے گونجے
"ہاہاہا بے وقوف لڑکی!
کیا تم سمجھتی تھی میں تم سے محبت کرتا ہوں؟
تم تو بس ایک کھلونا ہو"
اس نے بے ہوش عندلیب کو کسی بے جان گڑیا کی طرح اٹھایا اور اپنے کمرے میں بیڈ پر پٹخ دیا
پھر اپنی مکروہ خواہشات کی تکمیل کے لیے اس نے الماری کے اوپر موبائل کیمرہ سیٹ کیا اور اپنی شرٹ اتارنے لگا.
ایک معصوم زندگی ایک لمحے میں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہوچکی تھی_
ہمارے معاشرے میں ایسے درندے صفت مردوں کی کوئی کمی نہیں۔
یہ مرد انسان نہیں درندے ہوتے جو معصوم لوگوں کو کبھی محبت کبھی ہیلپ کبھی کسی اور نام سے اپنے جال میں پھنساکر ویڈیو بناتے ہیں پھر بعد وہی ویڈیو دکھا کر بلیک میل کرتے ہیں۔
ان مردوں کے نزدیک تو لڑکیاں کھیلونہ ہے جب جی چاہے استعمال کرلیتے جب جی چاہے پھینک دیتے__
🔥🔥🔥🔥
کہیں دور چاندنی میں نہائے ہوئے ساحل سمندر پر
فرحان تنہا ریت پر چل رہا تھا
سمندر کی لہریں شور مچا رہی تھیں
مگر فرحان کے اندر کا طوفان کہیں زیادہ شدید تھا
چاند کی اداس روشنی اس کے آنسوؤں سے بھیگے چہرے پر پڑ رہی تھی
اس کی خاموش سسکیاں لہروں کے شور میں دب رہی تھیں
وہ کائنات سے چاند سے، اپنے دل کا حال کہہ رہا تھا
اپنوں کے دیے ہوئے زخموں کا ماتم کر رہا تھا۔
🌷
کسے سناؤ حال دل اے چاند
اپنوں نے ہی کیا ہے مجھے برباد
🌷
اس نے اپنی بھیگی ہوئی آنکھوں سے چاند کو دوبارہ دیکھا
یہ وہی چاند تھا جو کبھی اس کی محبت بھری راتوں کا گواہ تھا
آج اس کی تنہائی اور بربادی کا شاہد بن کر کھڑا تھا
ایک تلخ مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھری اور آنسوؤں میں تحلیل ہوگئی۔
اس کے پاس اب صرف یہ تنہائی تھی یہ ساحل تھا اور یہ نہ ختم ہونے والا دکھ کا سمندر جو اس کے اندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا
چاند بھی اب جیسے اس کی بے بسی پر منہ پھیر کر بادلوں کی اوٹ میں چھپنے لگا تھا
فرحان نے ایک گہری ٹھنڈی سانس لی جو اس کے ٹوٹے ہوئے وجود سے نکلی اور وہیں نم ریت پر بے دم سا بیٹھ گیا۔
اس کی منزل کھو چکی تھی اس کا سفر اب اندھیروں میں گم تھا
جدائی کی یہ مصیبت اسے زندہ درگور کر گئی تھی۔
لہریں بھی پوچھتی رہیں کیوں ہے یہ بے کلی؟
خاموش رہا کہ یہاں کون ہے سخی؟
ریت پر لکھے تھے جو کبھی نام وفا کے
موجوں نے وہ مٹا دیے کیا رہ گئی تھی کمی؟
🔥🔥🔥🔥🔥
رسمیں اپنے اختتام کو پہنچیں
ڈھول کی تھاپ مدھم پڑی
اب وقت تھا جدائی کا ایک ایسی رخصتی کا کا جس کی بنیاد فریب پر رکھی گئی تھی
قرآنِ پاک کا سایہ فائقہ کے سر پر تھا
مگر اس کا دل کسی اور ہی سائے کے خوف سے لرز رہا تھا
سرخ جوڑے میں ملبوس گھونگھٹ کی قید میں وہ ایک راز تھی
ایک زندہ راز جسے پھولوں سے سجی خوبصورت گاڑی میں دانش کے پہلو میں بٹھا دیا گیا
گاڑی آگے بڑھی تو جیسے فائقہ کی سانسیں پیچھے چھوٹ گئیں
باہر دنیا بے خبر تھی اندر ایک طوفان پنپ رہا تھا۔
کوئی نہیں جانتا تھا کہ دلہن کے اس روپ میں اس جھلملاتے لباس کے پیچھے عندلیب نہیں اس کی مجبور بہن فائقہ چھپی بیٹھی تھی۔
گاڑی کا سفر میلوں کا نہیں لمحوں کا تھا
مگر فائقہ کے لیے صدیوں پر محیط ہو گیا
ہر گزرتا پل اس کے دل کی دھڑکن تیز کر رہا تھا
آنسو تھےکہ موتیوں کی لڑی کی طرح گھونگھٹ کے اندر ہی ٹوٹ کر بکھر رہے تھے
'جب وہ سب گھر پہنچیں گے جب گھونگھٹ اٹھے گا.
جب سب کو پتا چلے گا کہ یہ میں ہوں
عندلیب نہیں. تب کیا ہوگا؟
کیسا ردِ عمل ہوگا دانش کا؟
ان کے گھر والوں کا؟
کیا قیامت بپا نہیں ہو جائے گی؟'
یہ سوالات زہریلے ناگ بن کر فائقہ کے ذہن میں پھنکار رہے تھے۔
اِدھر نگینہ بیگم کا حال برا تھا
ان کے قدم زمین پر نہیں ٹک رہے تھے
گھر کے صحن میں وہ بے چینی سے ٹہل رہی تھیں
ہر آہٹ پر چونک جاتیں جیسے ابھی فون کی گھنٹی بجے گی
اور دوسری طرف سے چیخوں
سوالوں اور الزامات کا طوفان امڈ آئے گا
'بس گھونگھٹ اٹھنے کی دیر ہے..
بس ایک نظر فائقہ کے چہرے پر پڑنے کی دیر ہے..'
یہ سوچ ہی ان کے وجود کو پگھلا رہی تھی۔
آخرکار وہ لمحہ آ ہی پہنچا
گاڑی دانش کے گھر کے وسیع پورچ میں رکی۔
دلہا دلہن کو سہارا دے کر اندر لایا گیا اور ایک بڑے سے صوفے پر بٹھا دیا گیا
گھر خوشیوں سے گونج رہا تھا۔
فضیلہ پریکھا عنایہ اور دیگر مہمان خواتین کے چہروں پر مسکراہٹیں تھیں
جوتے چھپائی کی رسم کے منصوبے بن رہے تھے
ہنسی مذاق جاری تھا سب کی نظریں نئی نویلی__
Follow the سبق آموز واقعات وحکایات channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
👍
😂
2