
سبق آموز واقعات وحکایات
June 5, 2025 at 07:28 AM
*⛰️آخری_چٹان⛰️*
*قسط نمبر : 14*
*🖋️مصنف == نسیم حجازی*
دعوت_عمل
✍🏻افضل نے کہا۔"اللہ کرے آپ کو کامیابی ہو لیکن گزشتہ دو تین صدیوں میں بغداد کے مسلمان صرف آپس میں ایک دوسرے کا سر پھوڑنا سیکھ چکے ہیں۔ سنی شیعہ کا دشمن ہے تو شیعہ سنی کے خون کا پیاسا۔ حنفی،مالکی اور شافعی ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ آپ کسی مسجد میں جائیں۔ کسی اجتماع کو مخاطب کریں، آپ سے پہلا سوال یہ پوچھا جائے گا کہ حضرت آپ کون سے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟"
طاہر نے جواب دیا کہ "مجھے ان سب مشکلات کا احساس ہے لیکن میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اب یہ صورت حالات زیادہ دیر قائم رہ سکتی ہے؟مشترکہ خطرے کا احساس ان اختلافات کو مٹا سکتا ہے۔"
افضل نے کہا۔"اس کے ذمہ دار ہمارے وہ تن آسان علماء ہیں جن کے سامنے کوئی نصب العین نہیں لیکن آج انہیں یہ بتایا جا سکتا ہے کہ تمہارا مقابلہ ایک ایسی قوم سے ہے جو ہر کلمہ گو کی دشمن ہے۔تمہاری آزادی کے چراغ بجھنے والے ہیں۔ہم ان علماء کو یہ کہیں گے کہ تم نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑا کر دیکھ لیا۔اب کفار میدان میں تمہیں للکار رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ عوام انہیں گھسیٹ کر میدان میں لے آئیں گے۔"
عبدالعزیز اور عبدالملک نے بھی اس بحث میں حصہ لیا اور بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ طاہر جمعہ کے روز جامع مسجد میں اہل بغداد کو خوارزم کے حالات سے آگاہ کرے اور اس سے قبل شہر میں یہ مشہور کرایا جائے کہ ایک شخص اہل بغداد کے نام خوارزم کے مظلوم مسلمانوں کا پیغام لایا ہے۔
بیٹھنے سے پہلے عبدالعزیز نے کہا۔"مجھے یقین ہے کہ حکومت ہمیں دیر تک ایسی سرگرمیوں کی اجازت نہ دے گی اور آئندہ چند ہفتوں کے بعد ہماری منزل خوارزم کا میدان جنگ ہوگا لیکن ہمارے لیے بہتر ہو گا کہ حکومت پر ہماری سرگرمیاں ظاہر نہ ہوں۔طاہر کی تقریر کے بعد وہ لوگ جو تاتاریوں کے پاس ہمیں فروخت کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں۔خاموش نہیں بیٹھیں گے۔اس کے ہمیں طاہر کو اس وقت تک چھپا کر رکھنا پڑے گا جب تک عوام کا جوش ان کے لیے ایک ناقابل تسخیر قلعہ نہیں بن جاتا۔اگر وزیر اعظم یا خلیفہ کی نیت بری ہے تو وہ طاہر کو فوراً گرفتار کرنے کی کوشش کریں گے اور ان دنوں بد قسمتی سے غداروں کی ہم میں کمی نہیں۔اس لیےآپ کے سامنے سب سے پہلے میں طاہر کے ساتھ وفاداری کی قسم کھاتا ہوں اور آپ سے بھی قسم اٹھانے کی درخواست کرتا ہوں۔"
تمام دوستوں نے یہ قسم اٹھا لی تو عبدالعزیز نے کہا۔"اب اگر ہم میں سے کوئی غدار ثابت ہو تو باقی دوستوں کا یہ فرض ہو گا کہ وہ اس کی گردن اڑا دیں۔"
سب دوستوں نے اس تجویز کی تائید کی اور یہ محفل برخاست ہوئی۔
٭ ٭ ٭
*`یہ سلسلہ شروع سے پڑھنے کے لئے نیچے دی گئی لنک سے ہمارا چینل ابھی جوائن کریں`*
https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
جمعہ سے پہلے شہر کی ہر مسجد اور ہر درس گاہ کے دروازے پر اس مضمون کے اشتہار چسپاں تھے کہ نماز جمعہ کے بعد ایک شخص ترکستان کے مسلمانوں پر تاتاریوں کے مظالم کے چشم دید حالات بیان کرے گا۔قاضی فخر الدین نے شہر کے چند باعمل علماء اور مختلف درس گاہوں کے طلبا نے بغداد کی گلیوں اور کوچوں میں پھر کر یہ منادی کردی کہ بغداد کے مسلمانوں کے نام ترکستان کے مسلمانوں نے ایک پیغام بھیجا ہے اور یہ پیغام لانے والا وہ نوجوان ہے جس کے باپ نے ہلال و صلیب کی جنگ میں یروشلم پر مسلمانوں کی فتح کا پرچم لہرایا تھا اور صلاح الدین ایوبی کی تلوار بطور انعام حاصل کی تھی۔
جمعرات کی شام کو طاہر کو وزیر اعظم نے اپنے محل میں بلایا اور اس سے سوال کیا کہ "تم بغداد کے لوگوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہو؟"
وزیر اعظم کے متعلق طاہر کے شبہات ایک بار پھر تازہ ہو چکے تھے لیکن اس نے تدبر سے کام لینا مناسب سمجھا اور جواب دیا۔"یہ آپ جانتے ہیں کہ سلطنت خوارزم تاتاریوں کی آخری منزل نہیں۔انھیں اگر وہاں کامیابی حاصل ہوئی تو ان کی دوسری منزل عراق ہوگی۔ممکن ہے کہ دولت عباسیہ کے ساتھ چنگیز خان کے دوستانہ تعلقات قائم رہیں لیکن کمزور کے لیے طاقتور کی دوستی کا بھروسہ حماقت ہے،اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ہم برے سے برے حالات کے مقابلے کیلئے تیار ہو جائیں۔میں بغداد کے سوئے ہوئے مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہتا ہوں تا کہ اگر دشمن آجائے تو وہ کم از کم اپنے گھروں کی حفاظت کیلئے تیار ہوں۔"
"تم نے مجھے اس دن کیوں نہ بتایا کہ تم جامع مسجد میں تقریر کرنا چاہتے ہو؟"
"اس وقت یہ بات میرے ذہن میں نہ تھی۔اگر میری جگہ ہوتے تو شاید ایسے معاملات میں کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہ کرتے۔"
"مجھے ڈر ہے کہ تم خلیفہ کے متعلق کوئی گستاخی نہ کر بیٹھو۔"
"لیکن میں اس کے برعکس یہ سمجھتا ہوں کہ اس تقریر سے خلیفہ اور آپ کی بہت بڑی خدمت سرانجام دوں گا۔"
طاہر نے وزیر اعظم کے اصرار پر وہیں کھانا کھایا۔دستر خوان پر قاسم بھی موجود تھا۔اس نے بے توجہی سے خوارزم کے متعلق چند سوالات پوچھے اور جب طاہر وزیر اعظم سے رخصت ہوا تو قاسم برآمدے تک چھوڑنے کے لیے آیا۔طاہر کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے اس نے طنزاً سوال کیا۔"کیا آپ نے اس سے قبل کسی بڑے مجمع میں تقریر کی ہے؟"
"میں صرف ایک سپاہی ہوں۔"طاہر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
محل سے باہر عبدالعزیز اور عبدالملک نہایت بے چینی سے طاہر کا انتظار کر رہے تھے۔عبدالعزیز نے اسے دیکھتے ہی کہا۔"آپ نے سخت غلطی کی۔ہمیں ڈر تھا کہ وزیر اعظم آپ کو خطرناک سمجھ کر حراست میں نہ لے لے!"
طاہر نے کہا۔"ڈر تو مجھے بھی تھا لیکن مصلحت اسی میں تھی کہ میں انہیں کل تک اپنے متعلق غلط فہمی کا شکار نہ ہونے دوں ورنہ وہ مسجد کے دروازوں پر پہرہ لگا دیتے۔"
٭ ٭ ٭
جمعہ کی نماز کے بعد ایک نوجوان نے منبر پر کھڑے ہو کر حاضرین سے طاہر بن یوسف کو متعارف کرایا۔طاہر تقریر کے لیے اٹھا۔اتنے بڑے ہجوم کے سامنے وہ پہلی بار کھڑا تھا۔قرآن مجید کی چند آیات کی تلاوت کے بعد اس نے جھجھکتے ہوئے تقریر شروع کی۔بغداد کے لوگ آئے دن مناظروں اور جلسوں میں بڑے بڑے جادو بیان مقررین کی تقریریں سن چکے تھے۔تھوڑی دیر وہ بے توجہی سے بیٹھے رہے اور آپس میں کانا پھوسی کرنے لگے۔اس جلسے میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو بغداد کی سب سے بڑی مسجد کے منبر پر کسی اجنبی کا کھڑا ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے۔ایسے عوام بھی تھے جو یہ محسوس کر رہے تھے کہ کاش آج بھی کوئی مناظرہ ہوتا۔
ایک مشہور عالم نے نہایت بھولے انداز میں اٹھ کر کہا۔"آپ براہ کرم بیٹھ جائیے اور اس شخص کو بولنے کا موقع دیجئے جو ترکستان سے آیا ہے۔"
اس پر بعض لوگ ہنس پڑے لیکن طاہر پر اس مذاق کا غیر متوقع اثر ہوا۔اس نے ایک ثانیہ خاموش رہنے کے بعد پھر تقریر شروع کی۔
"میرے دوست!یہ جگہ مذاق کے لیے نہیں۔کاش!تم میدان جنگ میں بھی اسی قدر زندہ دلی کا ثبوت دے سکو۔میں یہاں اپنی تقریر کی داد لینے کے لیے نہیں آیا۔میں نہ مقرر ہوں نہ داستان گو۔میرے پاس آپ کی تفریح کا کوئی سامان نہیں۔میں صرف ایک ایلچی ہوں،ترکستان کے ان فرزندان اسلام کا جن کی کھوپڑیوں سے تاتاری اپنی فتح کی یادگاریں تعمیر کر رہے ہیں۔میں ان دختران اسلام کا ایلچی ہوں جن کی عصمت کے رکھوالے خاک اور خون میں تڑپ رہے ہیں اور اب ان کی آخری امید تم ہو۔میرے پاس قہقہے نہیں،آنسو ہیں۔اپنی جادو بیانی پر ناز کرنے والو!قوم کو لوریاں دے کر سلانے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔میں تمہیں موت کی نیند سے جگانا چاہتا ہوں۔میری باتیں کان کھول کر سنو!"
طاہر کی آواز اب بلند ہو رہی تھی۔رک رک کر بولنے والی زبان میں اب پہاڑی ندی کی سی روانی آچکی تھی۔آہستہ آہستہ لوگ اس پہاڑی ندی میں دریا کا تموج محسوس کرنے لگے۔وہ دریا جس میں بند یکے بعد دیگرے ٹوٹ رہے ہوں،لوگ ایک رو میں بہتے چلے جا رہے تھے۔
وہ ماضی کے نقاب اٹھا کر اس بھولی ہوئی منزل کی طرف اشارہ کر رہا تھا جہاں سے صحرا نشینان عرب تسخیر عالم کا ارادہ باندھ کر نکلے تھے۔وہ تاریخ کے ورق الٹ کر ان مجاہدین کی داستان سنا رہا تھا جنہوں نے مشرق و مغرب میں اسلام کا بول بالا کیا تھا۔وہ مستقبل کے پردوں میں چھپے ہوئے طوفان کی طرف اشارہ کر رہا تھا اور لوگ دم بخود ہو کر سن رہے تھے۔بعض کی آنکھیں پرنم تھیں۔ایک نوجوان بڑی مشکل سے اپنی سسکیاں ضبط کر رہا تھا۔طاہر کہہ رہا تھا:
"قوم کے دامن پر بدبختی کی سیاہی آنسوؤں سے نہیں خون سے دھوئی جاتی ہے۔یاد رکھو!جس قسم کی زندگی تم بسر کر رہے ہو،وہ فطرت کے ساتھ ایک مذاق ہے اور فطرت اپنے ساتھ مذاق کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کیا کرتی۔مسلمانوں کی نشانی یہ تھی کہ وہ کفار کے مقابلے کیلئے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جاتے تھے لیکن آج جب کہ کفر تمہارے خلاف اپنی تمام طاقتیں منظم کر رہا ہے،تمہارے عالم تمہیں بغداد کے چوراہوں پر جمع کر کے ایک دوسرے کا سر پھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں۔"
اس پر ایک شخص جو بغداد کے ایک گروہ کا نامور مناظر سمجھا جاتا تھا،اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور چلایا۔"میں بصد ادب و احترام یہ پوچھنے کی جرات کرتا ہوں کہ آپ کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں؟"
طاہر نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔"میں ایک مسلمان ہوں۔"
"کس قسم کا مسلمان؟"اس نے پھر سوال کیا۔
طاہر نے جھلا کر جواب دیا۔
"تم تین سو سال سے مسلمانوں کی قسمیں گن رہے ہو لیکن آج تک اصلی اور نقلی،سچے اور جھوٹے کا فیصلہ نہیں ہو سکا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تم دوسروں کو اسلام کی کسوٹی پر نہیں پرکھتے بلکہ تم میں سے ہر ایک نے اپنے لیے علیحدہ علیحدہ کسوٹیاں بنا رکھی ہیں اور ان کسوٹیوں تمہاری اپنی زات کے سوا کوئی پورا نہیں اترتا۔میرے عزیز!ہو سکتا ہے کہ میں ایک کم علم آدمی ہونے کی صورت میں تمہاری طرح نہ سوچ سکوں۔خیالات کے پر لگا کر تمہارے ساتھ بلند فضاؤں میں پرواز نہ کر سکوں اور دوسروں کا ایمان پرکھنے کے لیے جو کسوٹی تم نے بنائی ہے،میں شاید اس پر پورا نہ اتر سکوں اور میری طرح اور بھی لاکھوں مسلمان شاید اس کسوٹی پر پورا نہ اتر سکیں۔لیکن اگر تم خوارزم کے کسی میدان میں میرے ہم رکاب ہوتے اور وہاں یہ سوال کرتے کہ میں کس قسم کا مسلمان ہوں تو میں تمہیں یہ جواب دیتا کہ سامنے چند قدم پر مومن کے ایمان کی کسوٹی موجود ہے۔اگر میں کفار کے تیروں کی بارش میں مسکرا سکوں،ان کی تلواروں کے سائے میں کلمہ پڑھ سکوں،اگر موت کا ہاتھ اپنی شہہ رگ کے قریب دیکھ کر میرے پاؤں متزلزل نہ ہوں تو سمجھ لینا کہ میں مسلمان ہوں۔اگر میرا جسم کفار کے گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا جا رہا ہو اور حالت موت میں بھی میرے منہ سے یہ دعا نکل رہی ہو کہ یااللہ!اپنے محبوب کی امت کا جھنڈا بلند رکھیو تو سمجھ لینا کہ میں ایک مسلمان ہوں۔میرے بھائی!برا نہ ماننا،مومن کے ایمان کی کسوٹی وہ نہیں ہے جسے تم ہر روز بغداد کے چوراہوں میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہو۔نہیں۔مومن کے ایمان کی کسوٹی میدان جہاد ہے۔جہاں ہر مسلمان کے خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے خواہ وہ سنی ہو،خواہ شیعہ،خواہ حنفی ہو،خواہ مالکی۔خواہ آپ جیسا روشن خیال عالِم ہو،خواہ میرے جیسا کم علم۔دارالامن میں اگر تم ایک ہزار سال اور بھی مناظرے کرتے رہو تو بھی یہ ثابت نہ کر سکو گے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا لیکن میں نے فوقند میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کے مسلمان کے لیے ڈھال تھا۔حملے کے وقت ان کا نعرہ ایک تھا۔شہادت کے وقت ان کا کلمہ ایک تھا۔وہ سب ایک ہی قسم کے مسلمان تھے۔ہاں میدان سے باہر میں نے کئی قسم کے مسلمان دیکھے ہیں۔ہم میں وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ طاقتور دشمن سے جہاد جائز نہیں۔ہم میں وہ بھی ہیں جو دشمن کا نام سن کر بھاگ جاتے ہیں،وہ بھی ہیں جو اپنی ذات کو چنگیز خان کی نظر کرم کا مستحق بنانے کیلئے عالم اسلام کو تاتاریوں کے پاس فروخت کر رہے ہیں اور تمہارے اس شہر میں بھی جہاں ہر عالم کو دوسرے کا ایمان ناپنے کی فکر ہے،اونچے ایوانوں میں رہنے والوں کی ایک ایسی جماعت موجود ہے جو ترکستان پر تاتاریوں کی یلغار کی حمایت کرتی ہے۔
میرے عزیز اور بزرگوار!شاید مجھے بغداد میں اتنے بڑے مجمع کے سامنے دوبارہ تقریر کرنے کا موقع نہ ملے،میری باتیں کان کھول کر سنئے اور میرا پیغام ہر اس شخص تک پہنچا دیجئے جسے قوم کے مستقبل کا تھوڑا بہت خیال ہے۔تاتاریوں کا سیلاب معمولی سیلاب نہیں اور اس وقت دولت خوارزم اس سیلاب کے سامنے آخری چٹان ہے۔اگر یہ چٹان نابود ہوگئی تو یہ نہ سمجھو کہ یہ سیلاب وہیں رک جائے گا۔اس کی سرکش لہریں کسی دن بغداد کے اونچے ایوانوں کو بھی متزلزل کر دیں گی۔اگر ہم نے غفلت کی تو ہم صفحہ ہستی سے مٹا دیے جائیں گے۔میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام مٹا دیا جائے گا۔اسلام مٹنے والی چیز نہیں۔یہ خدا کا دین ہے۔اگر تم اس کی حفاظت نہ کر سکے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی حفاظت کیلئے منتخب کر لے گا۔یہ ایک ایسا سفینہ ہے جس پر کوئی طوفان غالب نہیں آسکتا۔یہ ہمیشہ تیرتا رہے گا۔اگر تم خدا کے اس سفینے کو چھوڑ کر دوسری کشتیوں پر سوار ہوگئے تو تم خود ڈوب جاؤ گے اور دوسری قوم اس سفینے پر سوار ہو جائے گی۔
تمہاری کامیابی کا راز اجتماعی جدوجہد میں ہے اور اجتماعی جدوجہد کی ضرورت اس وقت سے زیادہ کبھی نہ تھی جب کہ کفر کی تمام طاقتیں تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے تیار ہو چکی ہیں۔
میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ بغداد کے اونچے ایوانوں میں رہنے والے بعض لوگ خوارزم کے خلاف تاتاریوں سے سازباز کر چکے ہیں۔"
ایک شخص نے اٹھ کر کہا۔"ہم ان نے نام سننا چاہتے ہیں!"
طاہر نے جواب دیا۔
"میں صرف سازش کے متعلق جانتا ہوں۔ابھی تک کسی خاص شخصیت کی طرف اشارہ نہیں کر سکتا لیکن اب ہم پر ایسا وقت آرہا ہے کہ چھپے ہوئے منافقین کھلے بندوں ہمارے سامنے آجائیں گے۔سلطنت کے وہ امرا جو یہاں موجود ہیں،میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ خلیفتہ المسّلمین کے سامنے صحیح صورت حالات پیش کریں۔اس وقت تاتاریوں کے مقابلے کیلئے خوارزم کا ساتھ نہ دینا خودکشی کے مترادف ہوگا۔حالات کا مطالبہ ہے کہ خلیفتہ المسّلمین تاتاریوں کے خلاف اعلان جہاد کریں۔اس کے بعد منافقین کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔وہ خود بخود میدان میں آجائیں گے۔وہ کوشش کریں گے کہ ہمارا گلا گھونٹ کر ہماری آواز دبا دی جائے۔وہ تاتاریوں کے حق میں اور خوارزم کے مسلمانوں کے خلاف فتوے شائع کرائیں گے۔
میرا کام تمہیں ایک راستہ دکھانا تھا۔اب چلنا بیٹھ جانا تمہارا کام ہے۔اگر تم منظم ہو جاؤ تو مجھے یقین ہے کہ خلیفتہ المسلمین جو آنے والے خطرات سے بے خبر نہیں،فوراً اعلان جہاد کریں گے۔سردست میں یہ کہنے کے لیے تیار نہیں کہ بغداد میں وہ کون ہیں جو تاتاریوں کے ساتھ سازباز کر رہے ہیں۔اس سے قبل میں خلیفہ اور وزیر اعظم کی طرف سے کسی اعلان کا انتظار کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور مجھے یہ امید ہے کہ یہ اعلان جہاد کے متعلق ہوگا ورنہ میں وثوق سے یہ کہہ سکوں گا کہ بغداد میں عالم اسلام کے سب سے بڑے دشمن کون ہیں۔
سردست آپ میں سے جو لوگ تاتاریوں کے خلاف خوارزم کے مسلمانوں کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں۔وہ مجھے اپنا ایک رفیق کار سمجھیں۔اگر وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اسلام کی کسوٹی پر ان کا رنگ کیسا اترتا ہے تو خوارزم کے میدان ہم سے دور نہیں۔"
چند دن بعد وزیر اعظم کے محل کے ایک کشادہ کمرے میں امرائے سلطنت تازہ صورت حالات پر تبصرہ کر رہے تھے۔طاہر بن یوسف کی تقریریں موضوع بحث تھیں۔ایک عہدے دار نے کہا۔"وہ ایک دیوانہ ہے،اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسے گرفتار کرلیا جائے اور جب خلیفہ کا حکم بھی یہی ہے تو ہمیں سہل انگاری سے کام نہیں لینا چاہئے۔"
دوسرے نے کہا۔"اس نے کسی ایک شخص پر الزامات نہیں لگائے لیکن بغداد کے لوگوں کی نظروں میں ہم سب مجرم ہیں۔اس کا تدارک فوراً ہونا چاہئے۔ہمارے لیے سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بغداد کے ہر فرقے کے افراد اس کے گرد جمع ہو رہے ہیں۔گزشتہ چالیس برس سے میں نے شیعہ اور سنی کو ایک ساتھ چلتے نہیں دیکھا لیکن اب یہ سنا ہے کہ ان کے مکان کے ایک دروازے پر شیعہ پہرہ دے رہے ہیں اور دوسرے پر سنی ہیں۔گزشتہ شب چوک مامونیہ میں مناظرہ ہونے والا تھا۔میں خود وہاں موجود تھا۔اس نے قبل از وقت وہاں پہنچ کر تقریر شروع کردی اور شاید گزشتہ دو صدیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ ایک شخص تمام فرقوں کو کوس رہا تھا اور سامعین خاموش تھے اور جب اس نے یہ سوال کیا کہ تم اب بھی بننا چاہتے ہو تو اکثر نے نفی میں جواب دیا اور اس کی تقریر کے بعد سب سے زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ شیعہ اور سنی ایک دوسرے سے بغل گیر ہو رہے تھے۔اس لیے ہم اسے دیوانہ کہہ کر اپنے آپ کو دھوکہ دیں گے۔اگر اسے اس وقت گرفتار کرلیا گیا تو بغداد کے عوام ہمارے متعلق یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم واقعی کسی سازش کے انکشاف سے ڈرتے ہیں اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ وہ پرامن طریقے سے گرفتار ہونے کے لیے تیار بھی نہ ہوگا۔ہمیں جلد بازی کرنے کی بجائے تدبر سے کام لینا چاہئے۔"
نیا وزیر خارجہ مہلب بن داؤد جو اس سے قبل وحید الدین کا نائب رہ چکا تھا،ایک نوجوان تھا۔لوگ اس کے علم کے معترف تھے اور اس کے متعلق یہ بات مشہور تھی کہ وہ بہت دور کی سوچتا ہے۔وزیر اعظم نے اس کی رائے دریافت کی تو اس نے کہا۔"میرے خیال میں ہمیں پہلی تقریر کے بعد ہی اسے گرفتار کر لینا چاہئے تھا۔اب اس نے ہماری کوتاہی سے فائدہ اٹھا کر احمقوں کی ایک بڑی جماعت کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔اس وقت اس پر ہاتھ ڈالنا خطرناک ضرور ہے لیکن بغداد کو بغاوت سے بچانے کیلئے ہمیں یہ خطرہ مول لینا پڑے گا۔"
ناظم شہر نے اٹھ کر کہا۔"اگر وزیر خارجہ یہ سمجھتے ہیں کہ میری طرف سے کوتاہی ہوئی ہے تو میں یہ بتانا ضروری خیال کرتا ہوں کہ میں نے اسی رات اس کے مکان پر چھاپہ مارا تھا مگر وہاں اس کے نوکروں کے سوا کوئی نہ تھا۔اگلی رات مجھے جاسوسوں نے پتا دیا کہ وہ شہر کی ایک مسجد میں ہے۔میں نے دو سپاہی وہاں بھیجے لیکن اس کی حفاظت کیلئے وہاں تین ہزار نوجوان موجود تھے۔"
وزیر خارجہ نے کہا۔"لیکن ہمارے پاس سپاہیوں کی کمی نہ تھی۔"
وزیر اعظم نے جواب دیا۔"ہمارے سپاہیوں اور افسروں میں سے بہت سے لوگ اس کے طرف دار بن چکے ہیں۔میرے مکان پر بھی گزشتہ دنوں جتنے فیصلے ہوئے ہیں۔اسے کسی نہ کسی طرح ان کی اطلاع ملتی رہی ہے۔ایک شام ہمیں پتا چلا کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد جامع مسجد میں تقریر کرے گا۔میں نے پانچ سو سپاہی شہری لباس میں وہاں بھجوا دیے۔انھیں یہ ہدایت کی تھی کہ تقریر کے بعد اس کے گرد گھیرا ڈال لیں اور جس وقت وہ مسجد سے باہر نکلے،اسے گرفتار کر لیں لیکن اسے بروقت پتا چل گیا اور مسجد میں نہ آیا۔اب خلیفہ کا حکم یہ ہے کہ اسے ہر صورت گرفتار کیا جائے اور ہمارے لیے اس حکم کی تعمیل کے سوا چارہ نہیں۔پچاس مفتیوں نے آج یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ وہ باغی ہے۔کل یہ فتویٰ مشتہر کردیا جائے گا اور اس کے بعد ہم عوام کا ردعمل دیکھ کر مناسب قدم اٹھائیں گے۔"
باقی امرا چلے گئے لیکن مہلب بن داؤد کچھ دیر وزیر اعظم کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔مہلب نے پوچھا۔"آپ کو معلوم ہے کہ بغداد میں اس کے پرانے دوست کون ہیں؟"
وزیر اعظم نے جواب دیا۔"قاسم کو سب پتا ہے۔"
مہلب کی درخواست پر وزیر اعظم نے ایک خادم کو حکم دیا اور قاسم کو بلا لیا۔قاسم کی آمد پر وزیر اعظم اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلا گیا اور قاسم اور مہلب دیر تک باتیں کرتے رہے۔
قاسم کہہ رہا تھا۔"میرے خیال میں اس کے دوستوں میں سے صرف افضل اسا ہے جس سے ہم کام لے سکتے ہیں۔اسے طاہر کے ساتھ دلچسپی ضرور ہے لیکن اس نے عبدالعزیز،مبارک اور عبدالملک کی طرح ملازمت سے استعفیٰ نہیں دیا۔"
مہلب نے پوچھا۔"اگر آپ اسے کل شام یہاں کھانے کی دعوت دیں تو وہ آجائے گا؟"
"وہ پچھلے دنوں چند بار مجھ سے مل چکا ہے اور میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے تعلقات اس قدر برے نہیں۔ایک دن اس نے اپنی گزشتہ گستاخیوں کے لیے معذرت بھی کی تھی اور جب تک وہ حکومت کا ملازم ہے،ہم اسے کئی سبز باغ دکھا سکتے ہیں۔اگر آپ مناسب سمجھیں تو اسے یہاں لانے کا کام نئے سپہ سالار کے سپرد کردیا جائے۔"
مہلب نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔"تو بہت اچھا!کل آپ کے ہاں میری، سپہ سالار اور افضل کی دعوت ہے۔"
صفیہ آج بھی حسب معمول برآمدے کی چھت پر کھڑی اس کمرے کے روزن سے کان لگا کر بہت کچھ سن چکی تھی۔جب قاسم اور مہلب باہر نکل گئے تو وہ نیچے اتر کر اپنے کمرے میں پہنچی۔اس نے برابر کے کمرے میں جھانک کر دیکھا،سکینہ سو رہی تھی۔صفیہ سونے سے پہلے روز کے ہر تازہ واقعات کے متعلق ایک مختصر سا مضمون لکھ کر علی الصباح محل کے دروازے کے ایک پہرے دار کو پہنچایا کرتی تھی۔وہ حسب معمول کاغذ اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔لیکن چند سطور لکھنے کے بعد اس کے دل میں ایک نیا خیال پیدا ہوا اور یہ خیال اس کے دل کے خاموش تاروں کے لیے ایک مضراب بن گیا۔پھر ہلکے اور میٹھے سر بلند ہوتے گئے اور اسے محسوس ہونے لگا کہ دلکش نغمہ ایک مہیب ترانہ بن کر ساری کائنات کو اپنی گود میں لے رہا ہے،یہ ایک آندھی تھی جو اسے اڑائے لے جا رہی تھی۔یہ ایک سیلاب تھا جو اسے بہائے لے جا رہا تھا۔بادلوں کی گرج اور تند ہواؤں کی چیخیں خوفناک تھیں لیکن اسے اس آندھی کے ساتھ اڑنے کا خوف نہ تھا۔سیلاب کی لہریں حوصلہ شکن تھیں۔لیکن وہ بہنا چاہتی تھی۔اس کی زنجیریں ٹوٹنے لگیں۔قید خانے کے دروازے کھلنے لگے۔بغداد کے اونچے ایوان اس کی نگاہوں سے روپوش ہو رہے تھے۔وہ طاہر کے ساتھ صحرائے عرب کے ایک نخلستان میں کھڑی تھی۔جذبات کے ہیجان میں کانپتے ہوئے قلم اس کے ہاتھ سے گر پڑا اور اس نے محسوس کیا کہ ساز ہستی کے تار اچانک ٹوٹ گئے ہیں،کشادہ کمرہ اسے قفس نظر آنے لگا۔اس نے گرا ہوا قلم اٹھایا لیکن لکھنے کی بجائے کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں کھینچنے لگی اور پھر کچھ سوچ کر خالی جگہوں پر طاہر بن یوسف کا نام لکھنے لگی۔پھر اس نے کاغذ پھاڑ کر پھینک دیا اور اٹھ کر بستر پر لیٹ گئی۔وہ بار بار یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے رہی تھی۔
٭ ٭ ٭
اگلی رات قاسم کے دستر خوان پر نیا سپہ سالار،مہلب اور افضل موجود تھے۔کھانے کے بعد وہ دریا کے کنارے قاسم کے ملاقات کے کمرے میں پہنچے۔
کھانے کے کمرے کے روزن سے کان لگا کر صفیہ طاہر کے متعلق کوئی خاص بات نہ سن سکی۔جب وہ دوسرے کمرے میں جانے کے لیے اٹھے تو وہ ان سے پہلے ہی تنگ سیڑھی کے راستے باہر کی گیلری میں جہاں اس کمرے کے دریچے کھلتے تھے،جا پہنچی۔وہ آکر بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔بالآخر مہلب نے سپہ سالار سے کہا۔"وزیر اعظم کا خیال ہے کہ افضل کو فوج میں کوئی بڑا عہدہ دیا جائے۔ کل قاسم نے میرے سامنے ان کی تعریف کی تھی۔فوج میں قابل اور وفادار نوجوانوں کی سخت ضرورت ہے،وزیر اعظم کو عبدالعزیز اور عبدالملک سے بہت امید تھی لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ مستعفی ہو کر طاہر بن یوسف کی حمایت کر رہے ہیں۔"
سپہ سالار نے کہا۔"وزیر اعظم چاہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کیلئے تیار ہوں۔"
مہلب نے کہا۔"اس کے علاوہ ہمیں مصر کے لیے نئے سفیر کی ضرورت ہے۔اگر عبدالملک کی وفاداری مشکوک نہ ہوتی تو میرے نزدیک وہ اس عہدے کے لیے نہایت موزوں تھا لیکن مجھے افسوس ہے کہ طاہر بن یوسف نے اچھے بھلے نوجوانوں کو گمراہ کردیا ہے۔کیوں قاسم تمہارا کیا خیال ہے۔اگر میں خلیفہ سے سفارش کروں تو افضل اس ذمہ داری کو سنبھال سکے گا؟"
قاسم نے جواب دیا۔"مجھے ان کی صلاحیتوں کا اعتراف ہے لیکن ڈر ہے کہ شاید عبدالملک اور عبدالعزیز کے دوست ہونے کی وجہ سے یہ بغداد چھوڑنا پسند نہ کریں۔"
افضل کی حالت اس بچے کی سی تھی جس کے سامنے اچانک کھلونوں کا ڈھیر لگا دیا گیا ہو۔وہ وزیر اعظم کے محل میں سپہ سالار اور وزیر خارجہ کے ساتھ کھانا کھا چکا تھا۔بغداد میں اس کے لیے سپہ سالار کا دست راست اور مصر میں اس کے لیے سفیر بننے کے راستے کھل چکے تھے۔اسے اپنی زندگی میں پہلی بار اپنی اہمیت کا احساس ہوا۔اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔"اگر میں بغداد کی کوئی خدمت کر سکوں تو کسی کی دوستی میرے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔"
مہلب نے فوراً جواب دیا۔"آپ بغداد کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور اپنے دوستوں کے لیے بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔اگر آپ عبدالملک اور عبدالعزیز کو افسوسناک تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو آپ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہے۔"
"وہ کیا؟"
"انھیں سمجھائیں!"
افضل نے جواب دیا۔"میری زبان طاہر کا جادو نہیں توڑ سکتی۔"
"طاہر کے متعلق ہمیں اب یہ معلوم ہو چکا ہے کہ وہ خوارزم کے ایما پر بغداد میں بغاوت کروانا چاہتا ہے۔جس دن اس کا مقصد پورا ہوگا۔وہ خوارزم چلا جائے گا لیکن اس کی کارگزاری کی سزا اس کے دوستوں کو بھگتنا پڑے گی۔"
افضل جانتا تھا کہ یہ طاہر کے خلاف ایک بہتان ہے لیکن جب انسان کے دل میں بری خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ ضمیر کو تسلی دینے کیلئے غلط باتوں پر بھی یقین کر لیتا ہے۔وہ بولا۔"اگر یہ بات ہے تو آپ کیا سوچ رہے ہیں؟"
مہلب نے کہا۔"ہم اسے گرفتار کرنا ضروری سمجھتے ہیں لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ فوج کے ساتھ ان لوگوں کا تصادم ہو جنہیں اس نے جھوٹی سچی باتوں سے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایک مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے کئی بے گناہوں کا خون بہایا جائے۔ہم طاہر کے ساتھ بھی کوئی سختی نہیں کرنا چاہتے۔ہم چاہتے ہیں کہ اسے سمجھا بجھا کر یہاں سے نکال دیا جائے۔اس کے چلے جانے کے بعد یہ فتنہ خود بخود ٹھنڈا پڑ جائے گا۔"
افضل کا دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے،یہ لوگ اس کے خون کے پیاسے ہیں لیکن اس کے ضمیر کے لیے یہ ایک اور تسلی تھی۔اس نے کہا۔"اگر آپ مجھے یقین دلائیں کہ اس پر سختی نہیں کی جائے گی تو میں آپ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہوں۔"
مہلب نے کہا۔"اس پر سختی کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔مجھے تو یہ بھی یقین ہے کہ اس کی نیت بری نہیں۔خلیفہ یا حکومت کے کسی عہدے دار کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اگر وہ بغداد کے لوگوں کو بھڑکانے کی بجائے سیدھا ہمارے پاس آتا تو ہم اس کی غلط فہمی دور کر سکتے تھے لیکن اب جب تک وہ گرفتار نہیں ہوتا،ان کے ساتھ ہم بات تک نہیں کر سکتے۔میرے لیے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اتنا بہادر اور بیدار مغز نوجوان قوم کے کام آنے کی بجائے قوم میں انتشار ڈال رہا ہے اور وہ بھی ایک غلط فہمی کی وجہ سے۔میں نے اس کے ساتھ ملاقات کی کوشش کی لیکن اس کی خفیہ محفلوں تک رسائی نہیں ہو سکی۔اگر آپ میری مدد کریں تو ایک بہت بڑا کام ہوگا۔"
سپہ سالار نے کہا۔"افضل اگر اس بارے میں کچھ کر سکتا ہے تو یقیناً آپ کا ساتھ دے گا۔"
قاسم نے کہا۔"آپ اطمینان رکھئے۔جو شخص مسلمانوں کی بہتری کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔وہ کسی کی دوستی کی پرواہ نہیں کرے گا؟"
افضل کے ضمیر پر اب ملامت کا بوجھ ہلکا ہو چکا تھا۔اس نے کہا۔"بات یہ ہے کہ میں چونکہ ابھی تک فوج سے مستعفی نہیں ہوا۔وہ مجھ پر زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔طاہر کے چند ٹھکانے مجھے معلوم ہیں لیکن یہ معلوم نہیں کہ آج وہ کہاں ہوگا؟اسے صرف رات کو سوتے وقت پکڑا جا سکتا ہے۔دن کے وقت اس کے گرد بہت آدمی ہوتے ہیں۔میں ایک دو دن تک آپ کو پتا دے سکوں گا کہ ان دنوں وہ کہاں سوتا ہے۔"
مہلب نے کہا۔"اگر آپ اس مہم میں کامیاب ہوئے تو مجھے یقین ہے کہ خلیفہ اور وزیر اعظم ذاتی طور پر آپ کا شکریہ ادا کریں گے اور ممکن ہے کہ آپ کو نہایت اہم عہدے کا مستحق سمجھا جائے۔"
افضل نے کہا۔"لیکن آپ یہ وعدہ یاد رکھئے کہ طاہر کے ساتھ برا برتاؤ نہیں کیا جائے گا۔"
مہلب نے جواب دیا۔"میں اس وعدے پر قائم ہوں۔"
مہلب نے اٹھتے ہوئے قاسم سے کہا۔"ابھی وزیر اعظم سے ان باتوں کا ذکر نہ کیجئے۔"
قاسم نے جواب دیا۔"نہیں۔میں خود چاہتا ہوں کہ جب تک ہم اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے،ہماری دوڑ دھوپ کا کسی کو علم نہ ہو۔"
٭ ٭ ٭
قاسم اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کے لیے باہر کے دروازے تک ان کے ساتھ آیا۔دروازے پر پہنچ کر مہلب نے کہا۔"کل وزیر اعظم نے شکایت کی تھی کہ ان کے جاسوسوں سے آپ کا محل محفوظ نہیں۔کسی نے آج بھی ہماری باتیں سن لی ہوں تو؟"
قاسم نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔"اس کمرے کی چھت میں صرف کبوتروں کا ایک جوڑا رہتا ہے اور ان کے کان ہیں،زبان نہیں۔"
لیکن واپس آتے وقت قاسم کسی قدر پریشان ہو کر اس سوال کے متعلق سوچ رہا تھا۔اسے خدشہ محسوس ہونے لگا کہ اگر طاہر کو اس سازش کا پتا چل گیا تو اس کی آئندہ تقریر بہت سخت ہوگی۔
راستے میں پھولوں کی کیاری سے اس نے چند پھول توڑے اور اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے کھڑا سوچتا رہا اور پھر مسکراتا ہوا صفیہ کے کمرے کی طرف چل دیا۔خدا جانے اسے مجھ سے اس قدر چڑ کیوں ہے؟وہ بار بار اپنے دل میں کہہ رہا تھا۔
اگر وہ سو رہی ہوتی تو قاسم دبے پاؤں اس کے بستر پر پھول رکھ کر چلا آتا۔لیکن اس کمرے کے نیم وا دروازے میں سے روشنی آرہی تھی۔وہ دروازے کے قریب پہنچ کر رکا اور کچھ سوچ کر واپس چل دیا لیکن دو تین قدم چلنے کے بعد اسے کمرے کے اندر کسی کے آہستہ آہستہ بولنے کی آواز آئی۔سکینہ اور صفیہ ایک دوسرے کو سوتے وقت کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔لیکن یہ آواز قدرے موٹی تھی۔پھر اسے صفیہ آہستہ آہستہ بولتی سنائی دی اور وہ جلدی سے مڑ کر دروازے کے قریب جا کھڑا ہوا۔"دیکھو!یہ باتوں کا وقت نہیں۔تم جلدی جاؤ۔میں بار بار تمہیں تکلیف نہیں دوں گی۔یہ لو میری انگوٹھی۔میں تمہیں اور بھی بہت کچھ دوں گی!"
قاسم جلدی سے پیچھے ہٹ کر ایک ستون کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔دروازہ کھلا اور ایک لونڈی تیزی سے قدم اٹھاتی ہوئی قاسم کے قریب سے گزر گئی۔
قاسم دبے پاؤں وہاں سے بھاگا اور ایک اور راستے سے لونڈی سے پہلے محل کی سیڑھیوں پر جا پہنچا،لونڈی نے نیچے اترتے ہوئے اسے دیکھا اور ٹھٹھک کر رہ گئی۔
"تم اس وقت کہاں جا رہی ہو؟"قاسم نے سوال کیا۔
"جی میں۔۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔!"لونڈی خوفزدہ ہو کر کانپنے لگی۔
قاسم نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔"میں بھوت نہیں ہوں۔تم ڈرتی کیوں ہو؟ادھر آؤ!"
قاسم اسے بازو سے پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔
"بتا کہاں جا رہی تھی تو؟"
لونڈی نے چند الٹے سیدھے بہانے کیے لیکن قاسم نے ایک چمکتا ہوا خنجر نکال کر دکھایا تو وہ چلائی۔"میں سب کچھ بتا دیتی ہوں۔مجھے صفیہ نے یہ خط دے کر بھیجا ہے۔"
"کہاں؟"
"دروازے کے ایک پہرے دار کے پاس۔"
"بکتی ہو تم۔"قاسم نے خنجر کی نوک اس کے سینے پر رکھ دی۔
"نہیں۔نہیں۔میں سچ کہتی ہوں۔مجھے معلوم نہیں کہ وہ پہرے دار یہ خط کہاں لے جائے گا۔"
"وہ خط کہاں ہے؟"
لونڈی نے اپنی آستین سے ایک ریشمی رومال نکالا اور اس کے اندر لپٹا ہوا کاغذ نکال کر قاسم کے ہاتھ میں دے دیا۔قاسم نے یہ رقعہ پڑھا۔مختصر تحریر یہ تھی۔
"آپ کے متعلق ایک خطرناک فیصلہ ہو چکا ہے۔افضل آپ کو پکڑوانے کا عہد کر چکا ہے۔بہت سی باتیں ایسی ہیں جو میں زبانی کہنا ضروری سمجھتی ہوں۔قاصد آپ کو وہ جگہ بتا دے گا جہاں آپ مجھے کسی خطرے کا سامنا کیے بغیر مل سکتے ہیں۔خدا کے لیے ضرور آئیں!"
غصے سے قاسم کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔لونڈی اس کی سفاک آنکھوں کی تاب نہ لا کر رونے لگی۔
"خاموش!"قاسم نے گرج کر کہا۔
"میں بے قصور ہوں۔مجھ پر رحم کیجئے۔میں ایک لونڈی ہوں۔میں صفیہ کے حکم کی تعمیل سے انکار کیسے کر سکتی تھی۔مجھے معاف کیجئے۔"
"تمہارے بچاؤ کی یہی صورت ہے کہ تم مجھ سے کوئی بات نہ چھپاؤ۔"
"میں سب کچھ بتانے کیلئے تیار ہوں۔"
"صفیہ نے ملاقات کے لیے کون سی جگہ بتائی ہے اور وہ پہرے دار کون ہے جس کے پاس تم یہ خط لے جا رہی ہو۔"
"وہ سعید ہے اور صفیہ نے مجھے کہا ہے کہ سعید اسے جنوبی دروازے پر کے آئے۔"
"اس سے پہلے بھی کبھی ان کی ملاقات ہوئی ہے؟"
"نہیں۔"
"پیغام رسانی؟"
"ہاں!"
"تمہیں معلوم نہیں کہ جس کے پاس یہ پیغام جاتے ہیں،کون ہے؟"
"جی نہیں۔اس کا صرف سعید اور جنوبی دروازے کے پہرے دار کو علم ہے۔صفیہ نے صرف مجھے یہ بتایا ہے کہ وہ ایک بے گناہ کی جان بچانا چاہتی ہے۔"
"بہت اچھا۔تم ابھی یہ رقعہ سعید کو جا کر دے دو لیکن اگر تم نے اسے بتا دیا کہ میں نے یہ رقعہ دیکھ لیا ہے تو تمہیں ہاتھ پاؤں باندھ کر دجلہ میں پھینک دیا جائے گا اور واپس آکر صفیہ سے بھی اس بات کا ذکر نہ کرنا لیکن اگر اس نے پوچھا کہ تم نے دیر کیوں لگائی تو کیا جواب دوگی؟"
لونڈی نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔"میں نے ابھی تک نماز نہیں پڑھی۔میں کہوں گی کہ میں نماز کے لیے رک گئی تھی"۔
"تم بہت ہوشیار ہو۔یہ لو۔تمہیں اور بھی بہت کچھ ملے گا۔"قاسم نے چند سنہری سکے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
٭ ٭ ٭
سعید نے بغداد کی گنجان آبادی کی ایک تنگ گلی میں سے گزرنے کے بعد ایک پرانے مکان کے دروازے پر دستک دی۔ایک شخص باہر نکلا اور سعید کو پہچان کر ایک اور تنگ گلی میں لے گیا۔
"کوئی ضروری پیغام ہے؟"اس نے راستے میں سوال کیا۔
"نہایت ضروری۔"
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں ایک سہہ منزلہ مکان کے دروازے پر رکے اور سعید کے ساتھی نے پانچ دفعہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دروازہ کھٹکھٹایا۔کسی نے اندر سے دروازے کی چھوٹی سی کھڑکی کھول کر باہر جھانکا اور سعید کے ساتھی کو پہچان کر دروازہ کھول دیا۔
سعید کے ساتھی نے کہا۔"انہیں اندر لے جاؤ!"
سعید اندر داخل ہوا تو پہرے دار نے پھر دروازہ بند کر دیا۔
تھوڑی دیر بعد طاہر،عبدالعزیز اور عبدالملک صفیہ کا رقعہ پڑھ کر سعید سے طرح طرح کے سوالات پوچھ رہے تھے۔سعید نے اس بات کی تصدیق کی کہ افضل محل میں گیا تھا اور یہ بھی بتایا کہ اس نے مہلب اور سپہ سالار کو بھی وہاں آگے جاتے دیکھا ہے لیکن وہ یہ نہ بتا سکا کہ صفیہ نے طاہر کو اس وقت کیوں بلایا ہے۔تینوں دوست کچھ دیر اس موضوع پر بحث کرتے رہے۔عبدالعزیز کی رائے تھی کہ سپہ سالار،وزیر خارجہ اور وزیر اعظم نے افضل سے ہمارے ٹھکانے معلوم کر کے یقیناً کوئی خطرناک فیصلہ کیا ہوگا اور صفیہ ایک عورت کی طرح آپ کے مقصد سے آپ کی جان کو زیادہ قیمتی خیال کرتی ہے۔وہ غالباً آپ سے یہی کہے گی کہ آپ چاروں طرف سے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں،اس لیے اپنی جان کی فکر کیجئے۔
عبدالملک نے کہا۔"اپنی معلومات کی روشنی میں صفیہ کو عام لڑکیوں میں شمار کرنے پر احتجاج کرتا ہوں،اگر اسے نسوانی جذبات کا اظہار مقصود ہوتا تو وہ اس خط میں چند سطور کا اضافہ کر سکتی تھی۔"
عبدالعزیز نے کہا۔"لیکن اس خط کا اختصار تو صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے لکھنے کا موقع نہیں ملا۔"
عبدالملک نے کہا۔"یعنی اسے کوئی مجبوری در پیش ہوگی۔اس مجبوری کی وجہ سے اس نے طاہر کو بلایا ہے۔اب اگر طاہر نہ گیا تو وہ کیا خیال کرے گی!"
طاہر نے اٹھ کر تلوار سنبھالتے ہوئے کہا۔"اس نے مجھے خدا کے نام کا واسطہ دیا ہے۔میں ضرور جاؤں گا۔اس نے ایک دفعہ میری جان بچائی ہے اگر میرے سر پر اس کا یہ احسان نہ بھی ہوتا تو بھی میں اپنی قوم کی بیٹی کی آواز پر لبیک ضرور کہتا۔"
عبدالعزیز نے کہا۔"تو میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔"
"نہیں۔"طاہر نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔"ہمیں اس پر اعتماد کرنا چاہئے۔اگر کوئی خطرہ ہوتا تو وہ مجھے وہاں تنہا پہنچنے کی دعوت نہ دیتی۔"
٭ ٭ ٭
وزیر اعظم کے محل کے جنوبی پھاٹک سے اندر داخل ہونے کے بعد طاہر کو چاند کی روشنی میں صفیہ دکھائی دی۔وہ کھلی فضا سے نکل کر ایک گھنے درخت کے سائے میں کھڑی ہوگئی۔طاہر نے اس کے قریب پہنچ کر کہا۔
"کہئے!"
"مجھے افسوس ہے کہ آپ کا ایک دوست غدار ہوگیا ہے۔"
طاہر نے کہا۔"یہ اب تک آپ اپنے مکتوب میں ظاہر کر چکی ہیں۔وہ ضروری باتیں پوچھنا چاہتا ہوں جن کا آپ نے خط میں ذکر کیا ہے۔"
خشک پتوں کے اس انبار کی طرح جنہیں تیز بگولہ اڑا کر لے جاتا ہے۔صفیہ نے الفاظ کے جو زخیرے جمع کیے تھے،وہ منتشر ہو گئے۔وہ خود اپنے دل سے پوچھ رہی تھی کہ میں نے اسے کیوں بلایا ہے؟
اس نے اپنے حواس پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔"میری ایک درخواست ہے۔"
"میرے لیے آپ کی ہر درخواست حکم کا درجہ رکھتی ہے۔"
"حکومت آپ کو گرفتار کرنے پر تلی ہوئی ہے۔اگر چند دن وہ آپ کو پرامن طریقے سے گرفتار نہ کر سکے تو مجھے یقین ہے کہ وہ قوت کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔"
*<======================>*
*جاری ہے بقیہ قسط نمبر 15 میں پڑھیں*
*<======================>*
*جو احباب اسلامی تاریخی واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہے وہ آج ہی ہمارا چینل جوائن کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی ضرور شئیر کریں۔*
❤️
😂
2