سبق آموز واقعات وحکایات
سبق آموز واقعات وحکایات
June 10, 2025 at 03:35 AM
⚂⚂⚂. ▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁▁ ✮┣ l ﺑِﺴْـــﻢِﷲِﺍﻟـﺮَّﺣـْﻤـَﻦِﺍلرَّﺣـِﻴﻢ ┫✮ ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ *■ امھات المومنین ■* *⚂ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ⚂* ⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙══⊙ ★ *پوسٹ–20_* ★ ─━━━════●■●════━━━─ *❀_ ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے ساتھ ایک جماعت کو لے کر نکلیں ہیں، تو آپ مدینہ منورہ سے نکل کھڑے ہوئے، اس وقت کوفہ میں امیر حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور پر سکون رہنے کی ہدایت کی_, ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ فرمایا، ان دونوں نے کوفہ کی جامع مسجد میں تقریر کی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بیان کی... اس کے بعد انہوں نے کہا:- یہ سب ٹھیک ہے, لیکن اس وقت اللہ تعالی مسلمانوں کا امتحان لے رہا ہے _,* *"_ مسلمان پریشان تھے، ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے، لوگوں کی الجھن یہ تھی کہ ان حالات میں وہ کس کا ساتھ دیں، ایسے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بصرہ کے قریب پہنچ گئیں، بصرہ کے حاکم عثمان بن حنیف تھے، انہوں نے صورتحال معلوم کرنے کے لیے دو آدمیوں کو بھیجا، یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے کہا :- ہمیں بصرہ کے والی عثمان بن حنیف نے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے، وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کس لیے تشریف لائیں ہیں _,"* *"_ ان کی بات کے جواب میں آپ نے فرمایا:- اللہ کی قسم ! مجھ جیسے لوگ کسی بات کو چھپا کر گھر سے نہیں نکلتے اور نہ کوئی ماں اصل بات بیٹوں سے چھپا سکتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ قبائل کے آوارہ لوگوں نے مدینہ منورہ پر حملہ کیا... مدینہ حرم محترم ہے، ان لوگوں نے وہاں فتنہ برپا کیا اور فتنہ پروازوں کو پناہ دی، اس بنیاد پر وہ اللہ کی لعنت کے مستحق ٹھرے، ان باتوں کے علاوہ ان لوگوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، معصوم خون کو حلال جان کر بہایا، جس مال کا انہیں لینا جائز نہیں تھا اسے لوٹا، حرم محترم کی بےعزتی کی، مقدس مہینے کی توہین کی ( یعنی ذوالحجہ میں حضرت عثمان کو شہید کیا) لوگوں کی آبرو ریزی کی.. بیگناہوں کو مارا پیٹا، ان کے گھروں میں زبردستی داخل ہوئے، میں اس لیے نکلی ہوں کہ لوگوں کو بتاؤ.. ان حالات میں مسلمانوں کو کیا کیا نقصان پہنچ رہے ہیں، ہم اصلاح کی دعوت لے کر نکلیں ہیں اور اس کا اللہ کے رسول نے ہر چھوٹے بڑے کو حکم دیا ہے، یہ ہے ہمارا مقصد _,"* *❀_ ان دونوں حضرات نے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی ملاقات کی، پھر واپس بصرہ کے والی عثمان بن حنیف کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کیا چاہتی ہیں، عثمان بن حنیف نے ان باتوں کا کوئی اثر نہیں لیا اور اپنی فوج لے کر میدان میں آگیئے، اس موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑی پر اثر تقریر کی، آپ کی تقریر سن کر عثمان بن حنیف کی فوج سے بہت سے آدمی نکل کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف آگئے اور پکار اٹھے :- اللہ کی قسم! آپ ٹھیک کہتی ہیں _,"* *"_ دوسرے روز دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں، بصرہ والوں کا سالار حکیم نامی ایک شخص تھا، اس نے جنگ شروع کرنے کی کوشش کی، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی نیزے تانے خاموش کھڑے تھے، آپ حکیم اور اس کی فوج کو برابر روک رہی تھیں کہ جنگ شروع نہ کرو، ہمارا مقصد جنگ نہیں ہے، ہم اصلاح کے لئے آئے ہیں، پہلے ہماری بات سن لو، آپ کی ان باتوں کے باوجود حکیم باز نہ آیا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھی اب بھی ہاتھ روکے کھڑے تھے، ادھر حکیم نے اپنے ساتھیوں کو للکارا، یہ حالات دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے ہٹنے کا حکم فرمایا اور دوسرے میدان میں لا کھڑا کیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ کا ارادہ ہرگز ہرگز جنگ کا نہیں تھا، آپ تو مسلمانوں میں صلح کرانے کی نیت سے نکلی تھیں_,* *"_ دوسری طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ سو آدمی لے کر چلے تھے، آپ کوفہ پہنچے تو سات ہزار آدمی ان کے ساتھ ہو لئے، بصرہ پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد بیس ہزار ہو گئی، ادھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ تیس ہزار آدمی تھے، دونوں جماعتیں میدان میں آمنے سامنے خیمہ زن ہو گئیں، ہر مسلمان کا دل ڈر رہا تھا کہ کل تک ان کی تلواریں دشمنوں کے سر اڑاتی رہی تھیں کہیں اب خود اپنوں کے سینوں کو نہ چھلنی کرنے لگیں_,* *"_ اب دونوں طرف سے صلح کی کوشش شروع ہوئی، سبائی گروہ کے لوگ دونوں طرف کی فوجوں میں شامل ہو چکے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ کسی طرح بھی صلح نہ ہو تاکہ مسلمان آپس میں لڑ کر کمزور ہوجائیں اور ان کی سازشوں کو پھلنے پھولنے کا خوب موقع ملے، جبکہ نیک لوگوں کی پوری پوری کوشش یہ تھی کہ کسی طرح دونوں گروہوں میں صلح ہو جائے،* *"_ آخر صلح کی بات چیت شروع ہوئی، دونوں جماعتیں ہی یہ چاہتی تھیں کہ جنگ نہ ہو، معاملات بات چیت کے ذریعے طے ہوجائیں، صلح کی بات ابھی جاری تھی، اس بات کی زیادہ امید ہو چلی تھی کہ صلح ہو جائے گی، بات چیت ہوتے ہوتے رات ہو گئی، چنانچہ دونوں فریق اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے _, اب کیا ہوا، سبائیوں نے حالات کا رخ دیکھ لیا، اندازہ لگا لیا کہ ان میں صلح کے امکانات روشن ہوچکے ہیں، یہ بات ان کی امیدوں کے بالکل خلاف تھی، وہ تو جنگ کی آگ بھڑکا دینے پر تلے بیٹھے تھے، انہوں نے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا، اگر صلح ہو جاتی تو پھر تو شامت انہیں کی آتی تھی، لہذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایسا وقت آنے سے پہلے مسلمانوں ہی کو کیوں نہ آپس میں لڑا دیا جائے، یہ فسادی لوگ پہلے ہی اپنے پروگرام کے مطابق دونوں طرف کے لشکر میں شریک ہو چکے تھے اور موقع کی تاک میں تھے، اب جو بات چیت روکی گئی اور دونوں لشکر اپنے اپنے پڑاؤ میں چلے گئے، تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹ نے لگے، بس ایسے سبائی لوگوں کے ایک گروہ نے اچانک حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، اسی طرح کچھ سبائیوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فوج پر حملہ کردیا، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی یہ سمجھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، بس اس طرح دونوں فریقوں میں جنگ شروع ہو گئی _,"* *❀__ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے اونٹ پر سوار ہوئیں تاکہ فوج کو روک سکے اور خون خرابہ نہ ہو، ادھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی فوج کو روکنے کی کوشش کی لیکن جنگ تو چھڑ چکی تھی، رک نہ سکی، خود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھیوں نے آپ کو اونٹ پر سوار دیکھ کر خیال کیا یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جنگ کے لیے تیار ہیں، حالانکہ آپ تو ان سب کو روکنے کے لیے اونٹ پر سوار ہوئیں تھیں، آپ کی فوج میں محمد بن طلحہ سوالوں پر افسر تھے، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدل فوج کے افسر تھے، مجموعی طور پر پوری فوج کی قیادت حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کر رہے تھے،* *"_ جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا گھوڑا آگے بڑھایا اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:- اے زبیر ! تمہیں وہ دن یاد ہے جب آپ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا، کیا تم علی کو دوست رکھتے ہو، تو تم نے عرض کیا تھا، اے اللہ کے رسول ! ہاں میں علی کو دوست رکھتا ہوں، یاد کرو اس وقت تم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک دن تم اس سے ناحق لڑو گے_," ( مستدرک حاکم )* *"_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فوراً کہا :- ہاں ! مجھے یاد آگیا_", یہ کہہ کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ لڑائی سے الگ ہوگئے, انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ سے فرمایا:- اے پیارے بیٹے ! بے علی نے مجھے ایسی بات یاد دلا دی کہ جنگ کا تمام جوش ختم ہوگیا ہے، بے شک ہم حق پر نہیں ہیں، لہذا تم بھی جنگ سے باز آ جاؤ اور میرے ساتھ چلو_,* *"_ اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:- میں تو میدان جنگ سے نہیں ہٹوں گا_,"* *"_ اس پر وہ اکیلے ہی میدان جنگ سے نکل آئے اور بصرہ کی طرف چل پڑے, ایک سبائی ان کے تعاقب میں لگ گیا اور جب وہ ایک جگہ رک کر نماز ادا کرنے لگے تو انہیں شہید کر دیا _,"* *"_ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ارادہ بھی بدل گیا، وہ بھی میدان جنگ سے نکل آئے، اس حالت میں ایک تیر ان کے پاؤں میں آ کر لگا، زخمی حالت میں یہ وہاں سے نکل آئے، اس زخم سے آپ نے شہادت پائی,* *📓 امہات المؤمنین ، قدم بہ قدم _,20,* ┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━┵ Follow the سبق آموز واقعات وحکایات channel on WhatsApp: https://whatsapp.com/channel/0029VakTRESC6ZvcoptOLM2o
😢 2

Comments