
Dr.Masoomi
June 15, 2025 at 08:08 AM
*قرآن کی نظر میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا مقام*
👈👌🌹حضرت علی (علیہ السّلام)کے فضائل کی قرآن میں اتنی آیتیں ہیں جتنی کسی کے فضائل کی نہیں۔ قرآن کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔🌸💐🌷🌹🌷🌹💐
| مقدمہ(1)
مختصر تاریخ دمشق میں ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ ابن عباس کہتے ہیں : "ما نزل القرآن "یا ایها الذین آمنوا" الا علی سیدها و شریفها وامیرها و ما احد من اصحاب رسول الله الا قد عاتبه الله فی القرآن ما خلا علی بن ابیطالب فانه لم یعاتبه بشیء... ما نزل فی احد من کتاب الله ما نزل فی علی... نزلت فی علی ثلاثماة آیة."جہاں بھی قرآن میں "یا ایہا الذین آمنوا" اے ایمان والو، آیا ہے حضرت علی (علیہ السّلام) ان مومنوں کا سید اور سالا ر ہے اور مومن کا مصداق کامل، حضرت علی(علیہ السّلام) ہے ۔ قرآن میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے ہر صحابی پر عتاب کا ذکر ہواہے سوائے حضرت علی(علیہ السّلام) کےان پر کوئی کسی عتاب کا ذکر نہیں ہوا ۔ حضرت علی (علیہ السّلام) کے فضائل کی قرآن میں اتنی آیتیں ہیں جتنی کسی کے فضائل کی نہیں۔ قرآن کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
ہم نے اس مقالہ میں حضرت علی (علیہ السّلام) کو قرآن کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔ حضرت علی (علیہ السّلام) قرآن کی تعریف میں فرماتے ہیں : ان الله تعالی انزل کتاباهادیا، بین فیه الخیر والشر فخذوا نهج الخیر تهتدوا و اصدفوا عن سمت الشر تقصدوا؛(2)
اللہ تعالی نے ہدایت کرنے والی کتاب نازل فرمائی ہے ،اس مبارک کتاب میں خیر اور شر کو بیان کیا گیا ہے تاکہ خیر کے راستے کو اپنا کے ہدایت یافتہ بن جاؤاور شر سے دور رہو تاکہ اچھی اور میانہ زندگی بسر کرو۔
"واعلموا ان هذا القرآن هو الناصحالذی لایغش والهادی الذی لایضل و المحدث الذی لایکذب... ؛(3)
جان لو قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو خیانت نہیں کرتا، ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا ،ایسا سچا کلام ہے جس میں جھوٹ کی آمیزش نہیں ہے ۔
قرآن کریم میں حضرت علی (علیہ السّلام)کے فضائل پر مشتمل تین سو۳۰۰آیتیں ہیں اور حضرت علی (علیہ السّلام) نے قرآن کے بارے میں بلندوالا خطبے ارشاد فرمائے ہیں ۔ثقل اکبر ، ثقل اصغرکی اورثقل اصغر ، ثقل اکبر کی معرفت کا وسیلہ ہے یعنی قرآن حضرت علی کی پہچان کرواتا ہے اور حضرت علی (علیہ السّلام) قرآن کے فضائل بیان کرتے ہیں۔رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے ارشاد کے مطابق قرآن اور حضرت علی (علیہ السّلام) ہمیشہ ساتھ رہیں گے ۔
جب کوئی طہارت کے بغیر قرآن کے قریب نہیں جا سکتا "لایمسه الا المطهرون"(4)تو کوئی کیسے طہارت کے بغیر اہلبیت (علیہم السّلام) کو سمجھ سکتا ہے ۔اہل بیت(علیہم السّلام) کی معرفت کا قرآن کے سوا کوئی ذیعہ نہیں ہے۔ ہم بھی اہلبیت (علیہم السّلام) میں سے پہلے فرد حضرت علی(علیہ السّلام) کی معرفت کیلئے قرآن سے مدد لیتے ہیں۔
قرآن میں کئی اسباب کے سبب علی کا نام ذکرنہیں ہوا-(5) لیکن اہل سنت کے علماو بزرگان نے کئی مقامات پہ اعتراف کیا ہے کہ : قرآن میں حضرت علی(علیہ السّلام) کی شان میں کئی آیتیں نازل ہوئی ہیں۔ قرآن میں اہل بیت(علیہم السّلام) کی شان بیان ہوئی ہے ۔ اہلبیت(علیہم السّلام) کی شان جیسی کسی ان کے علاوہ کسی کی شان بیان نہیں ہوئی۔ اس نقطہ سے بھی غافل نہ رہیں کہ ممکن ہے ایک آیت عام ہو بہت سارے مصداق رکھتی ہو لیکن اس آیت کا مصداق کامل حضرت علی(علیہ السّلام) اور اہلبیت (علیہم السّلام) ہوں۔
پہلے بیان ہوا کہ ابن عباس کے قول کے مطابق قرآن میں حضرت علی (علیہ السّلام) کے فضائل کی تین سو ۳۰۰ آیتیں ہیں۔ ہم یہاں اس مقالے میں چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان آیتوں کا شان نزول بھی اہلسنت کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں تاکہ برادران اہلسنت ان کتابون کی طرف مراجعہ کرکے مطمئن اور مسرور ہوں۔
1 - آیہ تبلیغ
یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالته والله یعصمک من الناس ان الله لایهدی القوم الکافرین(6) اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا کہ اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے۔
تمام شیعہ مفسروں کے ساتھ اکثر اہل سنت (7)مفسروں کا ماننا ہے کہ یہ آیت حضرت علی(علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔
شان نزول
یہ آیت غدیر خم سےمتعلق ہے ۔ علامہ امینی نےاپنی کتاب الغدیر میں حدیث غدیر کو معتبر اور مختلف سندوں کے ساتھ ۱۱۰ ،اصحاب سے نقل کیا ہے : ان روایتوں میں اس آیت کا شان نزول کچھ اس طرح سے ہے، ہم یہاں مختصر بیان کرتے ہیں۔
رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی حیات طیبہ کے آخری سال حجہ الوداع کے اعمال رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے حضور کی برکت سےشان و شوکت سے انجام پائے۔ واپسی کے سفر میں یہ قافلہ بیابانوں سے گذرتا ظہر کے وقت غدیر خم پہ پہنچا۔ اس وقت عید قربان کو آٹھ دن گذرے تھے۔ اچانک رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی طرف سے رکنے کا حکم آیاجو آگے نکل گئے تھے انہیں واپس بلایاگیا جو پیچھے تھے ان کا انتظار کیا گیا ۔ جب سب جمع ہوئے سول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی اقتدا میں نماز جماعت انجام پائی، گرمی میں جلتے صحرا میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کیلئے سائبان بنایا گیا ۔رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے تمام لوگوں کو حکم خداوندی سننے کیلئے آمادہ ہونے کا حکم دیا۔ لوگ زیادہ تھے ہر ایک کو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کا چھرہ مبارک دکھائی نہیں دے رہا تھا، اس لئے اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔ رسول اکرم اس منبر پہ جلوہ افروز ہوئے اور پر معنی خطبہ ارشاد فرمایا:رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نےخدا کی حمد و ثنا کے بعد کچھ اس طرح سے خطاب کیا : میں عنقریب داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے تمہارے درمیان سے جانے والا ہوں۔ تم لوگوں سے بھی سوال ہوگا اور مجھ سے بھی پوچھا جائے گا ۔تم لوگ میرے بارے میں کیا گواہی دوگے؟تمام افراد نے ملکر ایک جواب دیا : "نشهد انک قد بلغت و نصحت و حمدت فجزاک الله؛ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے وظیفہ رسالت کو بخوبی نبھایا اوراپنی تمام کاوشوں کو انسانی ہدایت کیلئے بروئے کار لائے۔ اللہ تعالی آپ کو ا س کی نیک جزا عنایت فرمائے۔
اس کے بعد رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے تمام مسلمانوں سے اللہ تعالی کی وحدانیت ،اپنی رسالت ،مرنے اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اقرار لیا اور اس اقرار پراللہ تعالی کو گواہ بنایا اور فرمایا :
میں تم لوگوں میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جو میری یادگار ہیں، دیکھو تم لوگ ان سے کیا سلوک کرتے ہو ؟ ایک عظیم چیز، اللھ تعالی کی پاک کتاب ہے اور دوسری عظیم چیز میری اہلبیت (علیہم السّلام) ہے۔ مجھے رب جلیل نے بتایا ہے کہ یہ دو نوں کبھی بھی جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ جنت میں مجھ سے مل جائیں۔ ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے ان سے پیچھےبھی نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاؤ گے۔
لوگوں نے دیکھا کہ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی نظریں لوگوں کا طواف کرنے لگیں جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ جب رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی نظریں حضرت علی (علیہ السّلام) پہ پڑیں ان کو بلایا اور ان کا ہاتھ تھام کر اتنا بلند کیا کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔ تمام افراد کو حضرت علی(علیہ السّلام) نظر آنے لگے۔ اس وقت رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے فرمایا : "ایها الناس من اولی الناس بالمؤمنین من انفسهم؛ اے لوگو!مومنوں کی جانوں پر ان سے بھی زیادہ حق کس کا ہے ؟سب نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) بہتر جانتے ہیں۔ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے ارشاد فرمایا: اللہ میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور مومنین کی جانوں پر ان سے بھی زیادہ حق رکھتا ہوں "فمن کنت مولاه فعلی مولاه"جس کا میں مولا ہوں اس کا حضرت علی(علیہ السّلام) مولا ہے۔
پھر آسمان کی طرف منہ کر کے فرمایا : "اللهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه وانصر من نصره واخذل من خذله و ادر الحق معه حیث دار؛ پروردگارا !حضرت علی (علیہ السّلام) کے دوست کو اپنا دوست قرار دے اور حضرت علی کے دشمن کو اپنا دشمن قرار دے، جو حضرت علی(علیہ السّلام) سے محبت کرےتو بھی اس سے محبت کر، جو حضرت علی (علیہ السّلام) سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی کر ،جو حضرت علی(علیہ السّلام) کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر ،جو حضرت علی سے منہ موڑے تو اس سے منہ موڑ لے،جہاں حضرت علی(علیہ السّلام) ہو وہاں حق کو قرار دے۔
آخر میں رسول اکرم نے تاکید کی کہ جو یہاں موجود نہیں ان تک اس بات کو پہنچائیں۔ اس کے بعد تمام مسلمانوں نے ابوبکر اور عمر کے ساتھ حضرت علی(علیہ السّلام) کو یہ کہہ کہ مبارک باد پیش کی : علی ابن ابو طالب(علیہ السّلام) تم کو مبارک ہو! آپ آج تمام مومن مرد اور عورتوں کے مولا بن گئے۔ (8)
۲۔ آیہ ولایت
"انما ولیکم الله و رسوله والذین امنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکاة و هم راکعون(9) ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوِٰ دیتے ہیں (
الغدیر میں علامہ امینی نےان بزرگان اہلسنت کے نام لکھے ہیں جو اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی (علیہ السّلام) کا ذکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں(10)تمام اہل تشیع نے اس آیت کے شان نزول میں حضرت علی(علیہ السّلام) کا نام لکھا ہے۔
شان نزول
سیوطی نے اپنی کتاب الدر المنثور میں اس آیت کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کیا ہے حضرت علی(علیہ السّلام) نماز کی حالت رکوع میں تھے جب کسی سائل نے اللہ کی راہ میں مدد کا سوال کیا ، حضرت علی نے اپنی انگوٹھی سائل کوصدقے میں دے دی۔ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے سائل سے پوچھا تمہیں یہ انگوٹھی کس نےدی ہے؟ سائل نے حضرت علی کی طرف اشارہ کیا اور کہا اس مرد نے جو کہ حالت رکوع میں ہے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی "انما ولیکم الله و رسوله..." (11)
۳۔ آیہ اولی الامر
" یا ایها الذینامنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم؛ ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے (
شان نزول
حاکم حسکانی حنفی نیشابوری اہلسنت کے معروف مفسر ہیں وہ اپنی کتاب میں اس آیت کے ذیل میں پانچ روایتیں نقل کرتے ہیں، ان پانچوں روایتوں کا عنوان اولی الامر ہے اور سب کی سب حضرت علی(علیہ السّلام) پر صادق آتی ہیں۔ آخری روایت میں وہ خود حضرت علی(علیہ السّلام) سے نقل کرتے ہیں حضرت علی (علیہ السّلام)نے نقل کیا ہے کہ :رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے ارشاد فرمایا میرے شریک وہ ہیں جن کو اللہ تعالی نےاپنے ساتھ اور میرے ساتھ اس آیت میں بیان کیا ہے " یا ایها الذینامنوا اطیعوا الله و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم؛۔ میں نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) سے پوچھا"یا نبی اللہ من ہم؛ اے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) اولی الامر کون ہیں؟ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے جواب دیا "قال: انت اولهم؛تم اولی الامر کے پہلے فرد ہو(12)
اہل سنت کی بعض روایتوںمیں بارہ اماموں(علیہم السّلام) میں سے ہر ایک کا نام ذکر ہوا ہے(13)
۴۔ آیہ صادقین
"یا ایها الذین آمنوا اتقوا الله و کونوا مع الصادقین(14)ایمان والواللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ (
شان نزول
درالمنثور میں معروف مفسر سیوطی اس آیت"اتقوا الله و کونوا مع الصادقین" کے ذیل میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے کہا ہے: "مع علی بن ابی طالب؛ حضرت علی (علیہ السّلام) کے ساتھ ہوجاؤ۔(15)
اس آیت کے شان نزول میں دونوں مکتبوں یعنی اہلسنت اور اہل تشیع سے اور بھی روایتیں موجود ہیں(16) غور طلب بات یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالی مومنین کوحکم دے رہا ہے کہ صادقین کے ساتھ ہو جاؤ۔ یہ حکم مطلق ہے اس میں کوئی قید یا شرط نہیں ،کسی حالت سے مخصوص نہیں اس طرح کا حکم امام معصوم کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ غیر معصوم سے غلطی ممکن ہے اور جب غلطی کرے گا اس حالت میں اس سے جدا ہونا پڑے گا ۔جس کی ہر حالت میں پیروی جاسکتی ہے وہ امام معصوم ہے۔ اس مطلب کی روشنی میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ صادقین سے مراد ہر سچا نہیں بلکہ امام معصوم ہے جس کی گفتار میں جان بوجھ کے یا بھولے سے غلطی کی گنجائش نہیں۔
اس آیت سے مراد حضرت علی(علیہ السّلام) اور اس کے معصوم بیٹے(علیہم السّلام) ہیں جو امت کے ہادی ہیں۔ اس مطلب کے اثبات کیلئے ڈاکٹر تیجانی نے ایک کتاب لکھی ہے جس کانام بھی یہی رکھا ہے کہ کونو مع الصادقین یعنی صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ اس کتاب نے اکثر مسلمانوں پر عجیب اثر چھوڑاہے۔
۵۔ آیہ قربی
"قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی(17) آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو
شان نزول
حاکم حسکانی جو پانچویں صدی ہجری کے مشہور دانشمند ہیں، اپنی کتاب شواہدالتنزیل میں سعید ابن جبیر اور ابن عباس سے اس طرح نقل کرتے ہیں "لما نزلت قل لا اسئلکم علیه اجرا الا المودة فی القربی قالوا یا رسول الله من هولاء الذینامرنا الله بمودتهم! قال: علی و فاطمة و ولدهما؛
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) سے پوچھا وہ کون ہیں جن کے ساتھ ہمیں محبت کرنے کا حکم دیا گیا ہے ؟ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے فرمایا وہ حضرت علی (علیہ السّلام) ، حضرت فاطمہ(علیہا السّلام) ، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین(علیہ السّلام) ہیں(18)
اہم نکتہ
قرآن مجید سورہ شعرا میں پانچ نبیوں (نوح، ہود، صالح، لوط و شعیب)سے نقل کرتا ہے کہ انہوں نے فرمایا : "و ما اسئلکم علیه من اجر ان اجری الا علی رب العالمین" اور میں اس تبلیغ کی کوئی اجر بھی نہیں چاہتا ہوں میری اجر ت تو رب العالمین کے ذمہ ہے
اور دوسری طرف ہم سورہ فرقان کی ۵۷آیت میں نبیوں کے بارے ہیں پڑھتے ہیں "قل ما اسئلکم علیه من اجر الا من شاء ان یتخذ الی ربه سبیلا؛آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا مگر یہ کہ جو چاہے وہ اپنے پروردگار کا راستہ اختیار کرے
اور پھرسورہ سبا کی سنتالیسویں ۴۷آیت میں رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ارشاد فرماتے ہیں"قل ما سئلتکم من اجر فهو لکم ان اجری الا علی الله."
کہہ دیجئے کہ میں جو اجر مانگ رہا ہوں وہ بھی تمہارے ہی لئے ہے میرا حقیقی اجر تو پروردگار کے ذمہ ہے اور وہ ہر شے کا گواہ ہے
اب سوال یہ ہے کہ :ان چار باتوں کا جمع کرنا کیسے ممکن ہے؟
کیارسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) میں اور دوسرے نبیوں میں تضاد ہے پایاجاتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں یوں کہنا چاہیے : ان آیتوں کے دقیق مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) نے بھی اپنی رسالت اور تبلیغ کے بدلے میں اپنی ذات کیلئے کچھ نہیں مانگابلکہ اپنی قربی کی مودت کا تقاضہ کیا ہے جواللہ تعالی تک پہنچنے کا راستہ ہیں ۔یہ سو فیصد انسانوں کے نفعے کی بات ہے کیونکہ یہ مودت مسئلہ امامت اور خلافت اور رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی جانشینی کا پیش خیمہ ہے اور حقیقت میں امت میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کےمشن کو آگے بڑھانا ہے جو انسانوں کی ہدایت ہے۔
۶ آیہ تطہیر
"انما یرید الله لیذہب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا(19)
بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے
آیت تطہیر، اہل بیت (علیہم السّلام) کے فضائل میں چمکتا ستارہ ہے ، اس میں بلند مطالب اور فائدہ مند نکات ہیں جو ہر حق طلب محقق کی توجہ اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ہم ان میں سے چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں۔
شان نزول
علامہ طباطبائی المیزان میں فرماتے ہیں ستر ۷۰ سے زیادہ روایتیں اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت تطہیر رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ، حضرت علی(علیہ السّلام) ، حضرت فاطمہ (علیہا السّلام) ، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین(علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ان کے علاوہ کوئی اس میں شامل نہیں۔کچھ روایتیں اہلسنت کی ہیں اور کچھ اہل تشیع کی ہیں پر مزے کی بات یہ ہے اہل تشیع سے زیادہ روایتیں اہلسنت کی ہیں ۔(20)
ڈاکٹر تیجانی اپنی کتاب فاسئلوا اھل الذکر میں اہلسنت کی حدیث کی معتبر کتابوںمیں سے تیس ۳۰سے زیادہ کتابیں ذکر کیں ہیں جو اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ آیت تطہیر اہلبیت(علیہم السّلام) یعنی رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ، حضرت علی(علیہ السّلام) ، حضرت فاطمہ(علیہا السّلام) ، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین(علیہ السّلام) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور آخر میں فرماتے ہیں اہلسنت کے زیادہ تر علما آیت تطہیر کو اہلبیت (علیہم السّلام) کی شان میں سجھتے ہیں اور ہم بھی اس مقدار کو کافی سمجھتے ہیں۔(21)
آلوسی جو کہ اہلسنت کا متعصب ترین عالم ہے وہ بھی آیت تطہیر کو حضرت علی(علیہ السّلام) اور اہلبیت(علیہم السّلام) کی شان میں سمجھتے ہیں وہ اس بارے میں لکھتے ہیں:
اہلبیت (علیہم السّلام) سے مراد وہ ہستیاں ہیں جن کو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے چادر کے نیچے جمع کیا اور ان کے بارے میں ارشاد فرمایا : "اللهم هؤلاء اهل بیتی فاجعل صلواتک و برکاتک علی آل محمد کما جعلتها علی آل ابراهیم انک حمید مجید؛ پروردگارا یہ میرے اہلبیت(علیہم السّلام) ہیں ان پر درودوسلام نازل فرماجس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود وسلام نازل، فرمایا بے شک تیری ہستی بلندو بالا ہے۔۔(22)
وہ روایتیں جوآیت تطہیر کے متعلق حدیث اور تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہیں ان کی چار قسمیں ہیں:
۱۔ وہ روایتیں جو رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی ازواج مطہرہ سے نقل ہیں وہ فرماتی ہیں ہم چادر تطہیر سے باہر ہیں(23)
۲۔ وہ روایتیں جو حدیث کسا کے بارے میں ہیں ۔(24)
۳۔وہ روایتیں جو کہتی ہیں کہ آیت تطہیر کے نازل ہونے کےبعد چھ ۶ مہینوں تک رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) ہر نماز کے وقت حضرت علی(علیہ السّلام) اور فاطمہ(علیہا السّلام)کے گھر کے دروازہ پہ جاتے اور فرماتے : "الصلوة! یا اهل البیت! انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطہرکم تطهیرا؛ اے اہلبیت نماز کا وقت ہو چکا ہے! بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیت علیھ السّلام کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے(25)
۴۔ وہ روایتیں جو ابوسعید خدری سے ہم تک پہنچیں ہیں۔ ابوسعید خدری کہتے ہیں"نزلت فی خمسة: فی رسول الله و علی و فاطمة والحسن والحسین(علیهم السّلام)" یہ آیت رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)، حضرت علی (علیہ السّلام) ، حضرت فاطمہ(علیہ السّلام)، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین (علیہ السّلام) کے شان میں نازل ہوئی ہے۔(26)
ہم یہاں اس بات کو پورا کرنے کیلئے جناب عائشہ سے ایک جملہ نقل کرتے ہیں جو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے۔ثعلبی لکھتا ہے جب جناب عائشہ جنگ جمل میں آئی ۔ کسی نے ان سے اس بارے میں سوال کیا، جناب عائشہ نے افسوس ناک انداز میں کہا یہی تقدیر الہی تھی۔ اور جب جناب عائشہ سے حضرت علی (علیہ السّلام)کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے اس طرح سے جواب دیا"تسالنی عن احب الناس کان الی رسول الله و زوج احب الناس کان الی رسول الله، لقد رایت علیا و فاطمة و حسنا و حسینا و جمع رسول الله بثوب علیهم. ثم قال: اللهم هؤلاء اهل بیتی و حامتی فاذهب عنهم الرجس و طهرهم تطهیرا. قالت: فقلت: یا رسول الله انا من اهلک؟ فقال: تنحی فانک الی خیر؛ مجھ سے اس شخص کے بارے میں کیا پوچھتے ہو جو رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کا محبوب ترین شخص ہے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا حضرت علی (علیہ السّلام)، حضرت فاطمہ (علیہ السّلام) ، حضرت حسن(علیہ السّلام) ، حضرت حسین (علیہ السّلام) کو رسول اکرم نے ایک چادر میں بلاکر ارشاد فرمایا: خدایا!یہی میرے اہلبیت (علیہم السّلام) ہیں، یہی میرے حامی ہیں، پروردگار ان سے رجس کو دور فرما اور اس طرح پاک کردے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے ۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کیا میں بھی ان میں شامل ہوں؟ رسول اکرم نے ارشاد فرمایادور ہوجاؤ تم نیکی پہ ہو(پر اہلبیت (علیہم السّلام) میں شامل نہیں)(27)
۷- آیہ مباہلہ
"فمن حاجک فیه من بعد ما جائک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله علی الکاذبین؛(28)
پیغمبر علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دی
لغت میں ابتھال کی معنی کسی فرد یا حیوان کو اس کے حال پر چھوڑنا ہے۔ اور اصطلاح میں ابتھال کی معنی نفرین کرناہے اور مباھلہ کی معنی دو شخصوں کا ایک دوسرے پر نفرین کرنا ہے۔ اس معنی کے مطابق جب دو شخص دینی مسئلے پہ گفتگو کریں اور کوئی زبانی دلیل کام نہ آئے تو دونوں ساتھ ملکر اللہ تعالی کی بارگا ہ میں درخواست کرتے ہیں کہ پروردگار جھوٹے کو ذلیل اور رسوا کردے۔(29)
شان نزول
جو اسلامی روایتیں محدثین اور مفسرین نے نقل کی ہیں ان سے سمجھ میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)نے نجران کے مسیحیوں کو مباھلہ کی دعوت دی۔ عیسائی علما نے ایک دن کی مہلت مانگی تا کہ اس بارے میں غوروفکر کریں۔ اسقف نے ان سے کہا اگر محمد (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)اپنے خاندان اور بیٹوں کے ساتھ آئے تو مباہلہ نہ کرنا اور اگر اپنے اصحاب کے ساتھ آئے تو ان سے مباھلہ کرنا کیونکہ اس صورت میں وہ حق پر نہ ہوں گے۔
اگلے دن رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) اس صورت میں آئے کہ حضرت علی(علیہ السّلام) کاہاتھ رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے ہاتھ میں تھا حضرت حسن(علیہ السّلام) اور حضرت حسین(علیہ السّلام) ساتھ تھے اور حضرت فاطمہ(علیہا السّلام) پیچھے تھی اور دوسری طرف سے مسیحی اپنے اسقف اعظم کے ساتھ آئے۔ جب انہوں نے رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو چند افراد کے ساتھ دیکھا تو پوچھا یہ کون ہیں؟کسی نے جواب دیا: ان میں سے ایک رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کا چچا زاد بھائی اور داماد ہے اور یہ دو نوں بچے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کی دختر کے بیٹے ہیں اور یہ خاتون رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کی بیٹی ہے ۔یہ سب رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) کے نزدیک ترین افراد ہیں اور رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)کو بہت پیارے ہیں۔ جب اسقف نے ان کو دیکھا تو بولا:میں ایسے چہرے دیکھ رہاہوں جو یقین اور اطمنیان کے ساتھ مباھلہ کرنے آئے ہیں، میں ڈرتا ہوں کہیں یہ سچے نہ ہوں! اگر یہ سچے نکلے تو ہم برباد ہو جائیں گے۔ اسقف نے رسول اکرم(صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم) سے کہا اے اباالقاسم (صلّی اللہ علیہ وآلہ و سلّم)ہم تم سے ہرگزمباہلہ نہ کریں گے، ہم سے صلح کرلو ۔ کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ جب اسقف نے اہلبیت (علیہم السّلام) کو دیکھا توکہا: میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں اگر یہ اللہ تعالی سے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کریں تو ضرور بہ ضرور ایسے ہوگا ، مباہلہ نہ کرو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے ۔

❤️
1