
Dr.Masoomi
June 19, 2025 at 12:06 AM
سلسلہ منزل بہ منزل كربلا قسط -2
از قلم : قبلہ ابو صلاح الجعفری (2012)
( شہادت كيلئے امام حسین علیہ سلام کی آمادگی اور جناب محمد حنفیہ کے نام خط میں مقصد خروج کی وضاحت )
عزيزو ! اب ماه محرم كی آمد آمد ہے.
عزیزو ! حسینؑ اس وقت سفر کربلا میں ہیں. اب هم بھی " منزل بہ منزل کربلا " حسینؑ کے ساتھ چلیں گے. بس یہاں محرم کا چاند نمودار ہو رھا ہوگا وہاں امامت کا سورج اور جناب زہراؑ کا چاند ارض نینوا میں اپنے ستاروں کے ساتھ غروب ہونے جارہا ہوگا.
اللہ تعالی کی ذات تمام پردیسیوں اور مسافروں کے سفر کو امام حسينؑ كے سفر کے صدقے میں آسان کرے.
اے چشم فلک ! کیا تو نے حسینؑ جیسا مسافر کہیں کبھی دیکھا تھا ؟؟
آخر کار وہ مرحلہ آ گیا جب قافلہ صبر و رضا کے چلنے کی باری آئی. ابا عبد اللہ الحسینؑ نے بحسرت جد بزرگوار اور ماں کی قبروں کی آخری زیارت کی . مسموم و مظلوم بھائی کو جنت البقیع میں وداع کیا.
روایت کہتی ہے کہ حسینؑ ماں کی قبر سے جدا ہوے تو مثل بچے کے پھوٹ پھوٹ کر روۓ. پھر نانا اور بھائی سے امت کے مظالم کی شکایت کی. اور شدید گریہ کیا
اللہ کا سلام ہو آپؑ کی ان خوبصورت آنکھوں پر جن سے آنسو مثل گوہر گرتے تھے.
پس عزیزو! حسینؑ کے گریہ وبکاء سے رسول اللہ ص قبر مطہر میں قرار نہ پا سکے آخر وہ نانا خاموش بھی کیسے رہتے جنکے دوش پرحسینؑ پلے تھے .
اور بھلا وہ ماں بھی کیسے خاموش رہتیں جس نے چکیاں پیس پیس کر انہیں پالا تھا.
قبر رسول و سیدہؑ کو لرزہ طاری ہوا اور یہاں سے بھی رونے کی آوازیں بلند ہوئیں اور میری جان فدا ہو اور ایسا کیوں نہ ہو آخر حسینؑ کے رونے سے قلب مصطفی ص کو تکلیف پہنچتی تھی -(الطبري في ذخاير العقبي 143).
المختصر ! اب سیدانیوں کے سواریوں پر بیٹھنے کی باری آئی اور عصمت و طہارت کی خواتین ایک ایک کرکے سواریوں پر تشریف فرما ہوئیں
راوی کہتا ہے کہ اتنے میں ایک بلند قامت خاتون اندر سے برآمد ہوئیں ان کے دائیں بائیں جانب بنوہاشم کے جوان چل رہے تھے. انھیں دیکھ کر حسین ابن علیؑ تعظیم اٹھ کھڑے ہوۓ. دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ زینب بنت امیر المومنینؑ تھیں.
مدینہ سے کربلا اور کربلا سے واپس مدینہ تک زینب بنت علیؑ اپنے عظیم بھائی حسین بن فاطمہ کی حجت قاطعہ و دلیل و برہان بنیں. اور بلاشبہ شریکتہ الحسین ٹھہریں. زینبؑ کا حسینؑ کا ساتھ دینا کربلا میں واجب کی حیثیت رکھتا تھا.
اگر آپ نہ ہوتیں تو ان سب قربانیوں کو کوفہ و شام کے درباروں بازاروں اور مجمع عام میں لہجہ " لسان اللہ" میں کون بیان کرتا ؟
واللہ یہ زینب س تھیں جو قول میں سچی اور کردار میں اپنی ماں فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکمل تصویر تھیں. جن کے قول کو جھٹلایا نہ جا سکا. جن کی آواز دبائی نہ جا سکی جنکی مظلومیت کو نظر انداز نہ کیا جا سکا. اور قیامت تک یزیدیت کو ایسا رسوا کر گئیں کہ سب پر واضح ہوگیا کہ نبی عربی ص کے دین کے اصل وارث و حامی کون ہیں اور اسلام کے نام پر دین کے لبادے میں منافقت و انحراف اختیار کرنے والے کون ہیں.
تب ھی تو زینب ص باصرار اپنے بھائی کے ہمراہ چلیں تھیں
جب ساری تیاریاں مکمل ہوئیں تو مولا و آقا حسین بن علی نے روانگی سے قبل ایک وصیت لکھی پھر اس پر مہر و دستخط کرکے اپنے بھائی محمد حنفیہ کےحوالے کیا.
خط کا مضمون یوں تھا.
«هذا ما أوصى به الحسين بن علي إلى أخيه محمد ابن الحنفية، أنّ الحسين يشهد أنّ لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، وأن محمداً عبده ورسوله جاء بالحق من عنده، وأن الجنة حق والنار حق، وأن الساعة آتية لا ريب فيها، وأن الله يبعث من في القبور، وأني لم أخرج أشراً ولا بطراً ولا مفسداً ولا ظالماً، وإنما خرجت لطلب الإصلاح في أمة جدي وأبي علي بن ابي طالب فمن قبلني بقبول الحق فالله أولى بالحق، ومن رد علي أصبر حتى يقضي الله بيني وبين القوم الظالمين وهو خير الحاكمين» -(بحار الانوار4/ 329 )
" بلاشبہ حسین بن علی یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے. اسکا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں. وہ اللہ عزوجل کی طرف سے حق لیکر آۓ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جنت و دوزخ برحق ہے اور قیامت کا دن برپا ہوکر رہے گا یہی وہ برحق دن ہے جب اللہ لوگوں کو انکی قبور سے محشور کریگا.
میں نہ خلفشار پھیلانے نکلا ہوں نہ کوئی شر پھیلانے نکلا ہوں اور نہ ظلم کےارادے سے میں نے خروج کیا ہے.
بلکہ میرے نکلنے کا مقصد فقط اپنے جد محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت میں اصلاح ہے.
اور یہ کہ میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کروں . اور اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلوں.
پس تم میں سے جو قبولیت حق کےساتھ مجھے قبول کرے تو اللہ اس کا زیادہ سزاوار ہے کہ حق ( واہل حق ) کا ساتھ دیا جاے .
اور تم میں سے جو میری دعوت کو ٹھکرا دے تو میں اس کے معاملے میں صبر اختیار کرونگا یہاں تک کہ اللہ میرے اور ظالمین کے درمیاں فیصلہ فرما دے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے "
حسینؑ نے یہ خط بھائی محمد حنفیہ کے حوالے کیا. محمد حنفیہ و دیگر اکابرین بنو ہاشم و بعض اصحاب نے آپکو عراق کا سفر ملتوی کرنے کی استدعا کی اور ان خطرات سے اگاہ کیا جو وہ اس بارے میں سنتے آۓ تھے
لیکن حسینؑ مصمم ارادہ کرچکے تھے. اور اپنے الہی فریضے سے بخوبی واقف تھے پس آپؑ نے ان کے جواب میں فرمایا
" واللہ ! بجایے اس کے کہ مرنے کے بعد مجھے خانہ کعبہ کی دیوار میں دفن کردیا جاۓ. مجھے یہ بات زیادہ محبوب ہے کہ فرات کے کنارے "نواویس و کربلا " کے درمیان میرے جسم کے چتھیڑے اڑا دئیے جائیں "
جناب ام المومنین ام سلمہ کے یہ کہنے پر کہ اپ رسول زادیوں اور اپنی عورتوں اور بچوں کے ہمراہ عراق کا سفر نہ کیجیے ؟ تو آپؑ نے جواب دیا.
" اے اماں ! یہی اللہ کی رضا ہے کہ میں قتل کردیا جاوں اور آل رسول اسیر کرلی جایے"( بحار الانوار 3/331 و 364 )
بعض روايتوں میں آیا ہے کہ آپؑ نے سفر سے منع کرنے والے اصحاب سے کہا کہ " اللہ مجھے مقتول دیکھنا چاہتا ہے "
کچھ روایتوں کے مطابق آپؑ نے فرمایا
" چاہے میں عراق کی طرف جاوں یا نہ جاوں یہ لوگ مجھے قتل کرکے رہیں گے -( عوالم الامام الحسين -180)
رب کعبہ کی قسم ! قلم اب مزید تاب تحریر نہیں رکھتا . اے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے چین ! اے زخمی دلوں کے مرہم و دوا حسینؑ . آپ کے کف پا کی خاک پر ہمارا سلام . سلام اے فرزند فاطمہ .سلام اے کربل کے مسافر.
السلام علیک یا صاحب الزمان . عجل اللہ تعالي فرجک.
ولا حول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم.
التماس دعا .......اے ایس امجد

❤️
1