
Dr.Masoomi
June 19, 2025 at 12:06 AM
منزل بہ منزل کربلا .قسط -3
ازقلم : قبلہ ابو صلاح الجعفری
(عبید اللہ بن زیاد کی کوفہ آمد)
دوستو! اب ہم " منزل بہ منزل" منازل کربلا کی طرف بڑھ رہے ہیں. ان شاءاللہ کاروان عشق و صبرو وفاء کی یہ عظیم روداد ہم اپنے خون جگر سے لکھ کر اس عظیم واقعے میں اپنی بھی روحانی شمولیت کو یقینی بنائیں گے
دوستو! بلاشبہ سفر کربلا کی منزلیں عجیب سے عجیب تر ہیں. اور کوئی واقعہ عزیز زہرا مرضیہ .ع. کے واقعے سے عجیب تر نہیں ہے ( واحسیناہ)
(غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اسکی حسین. ابتداء ہیں اسماعیل)
میں اور میرے ماں باپ و اہل و اولاد قربان جائیں اس قافلے پر جو موت کی جانب رواں دواں تھا اور شہادت جنکا استقبال کرنے ارض" غاضریات" پر لب فرات "عقر بابل و نینوا " کے پاس مقام " کرب و بلاء " پر منتظر تھی.( اللہ اکبر)
عزیزو! جب بصرہ میں مولا حسین علیہ الصلوات والسلام کے قاصد جناب سلیمان رضی اللہ عنہ بحکم بد نہاد ابن زیاد شہید کیے جاچکے.تو گویا قافلہ حسینی کی شہادتوں کی ابتداء بصرہ سے ہوگئی تھی.
ہمارا سلام ہو سلیمان قاصد حسینؑ و صحابی فرزند رسول ص پر جنہوں نے قافلہ صبر و رضا میں سب سے پہلے شہید کی حیثیت سے اپنا نام محضر شہداء میں لکھوایا.
پس یزید لعین نے کوفہ کی صورتحال دہکھتے ہوۓ اپنے قریبی مشیروں کے کہنے پر ابن زیاد کو کوفہ کی اضافی امارت و ولایت دے دی. جہاں کے لوگ جناب مسلم بن عقیل عليه السلام كے ہاتھوں پر امام مظلومؑ کی بیعت کرکے یزیدی حکومت کے خلاف آواز بلند کرچکے تھے.
ان حالات سے نمٹنے کیلیے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان(لعنت اللہ علیہم اجمعین) کو مجسم ننگ و عار .شقی ابن شقی و بد نہاد ابن زیاد( لعنت اللہ علیہ والعذاب) جیسے کمین وپست شخص کی ضرورت تھی جو کوفہ کے حالات كو برصورت اور ہر قیمت پر سختي و درشتي سے قابو کرسکے. ایسا شخص جو مخلوق كی رضا کی خاطر خالق کے غیض و غضب کی پرواہ نہ کرنے والا ہو
پس یزید کے حکم پر یہ لعین ابن لعین اپنے ناپاک وجود اور ارادوں سمیت بصرہ سے کوفہ کی جانب روانہ ہوا اور اپنی جگہ اپنے بھائی کو بصرہ کی امارت سونپ دی. اور نکلتے وقت اہل بصرہ کو بھی نافرمانی کی صورت میں سخت دھمکیاں دیں.
عبید اللہ ابن زیاد لعنت اللہ علیہ اپنے اہل و عیال اور ساتھیوں عمر بہلی ، شارق بن عور حریثی سمیت بصرہ سے عازم کوفہ ہوا.
اس نے کوفہ میں داخل ہونے کیلیے اپنی روایتی شیطانی مکاری سے کام لیا.
جب وہ کوفہ میں داخل ہوا تو اس نے سیاہ قبا زیب تن کی ہوئی تھی اوراپنے منحوس چہرے پر نقاب اوڑھا ہوا تھا۔ کہیں لوگ اسکی خبیث شکل شناخت نہ کرلیں. ( اللہ کی لعنت ہو اس پر)
پس اہل کوفہ جنہوں نے اس سے قبل امام حُسینؑ بن علیؑ علیہ سلام کی کوفہ کی طرف پیش قدمی کی خبر سنی ہوئی تھی اور وہ ان کی انتظار میں تھے۔ جب عبید اللہ ابن زیاد وہاں پہنچا تو یہ لوگ سمجھے کہ شاید امام حسینؑ تشریف لے آئے ہیں۔
پس لوگوں نے نقاب میں ہونے کی وجہ سے اسے امام حسینؑ سمجھ کر اس کا شاندار استقبال کیا اور پورا کوفہ مرحبا کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ "یا ابن رسولؐ اللہ خوش آمدید آپ کی آمد مبارک ہو۔
ابن زیاد چپ چاپ چلتا رہا. اور لوگ اسکے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور مرحبا یابن رسول اللہ کی آوازیں بلند کرتے اسکا استقبال کرتے آگے بڑھ رہے تھے. رات ہونے کی وجہ سے اسکی شناخت بھی ممکن نہیں تھی انہیں کیا پتہ تھا کہ نقاب کے اندر موجود شخص حسین بن علیؑ نہیں بلکہ شقی ابن شقی ابن زیاد ہے. کاش لوگ ایک لمحہ کیلیے سوچتے کہ یہ حسینؑ نہیں ہو سکتے کیونکہ اگر یہ حسینؑ ہوتے تو ان کے ساتھ اصحاب باوفا ضرور ہوتے.
ابن زیاد کو جب لوگوں کی ابا عبد اللہ الحسینؑ سے محبت کا اندازہ ہوا تو اس لعین کو لوگوں کے اس رویے سے سخت تکلیف ہوئی۔ وہ اپنی درشتی اور سختی کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہ اس کو اپنے آباو اجداد سے وراثت سے ملی تھی۔ جب کہ اس کی ماں مرجانہ گانے بجانے ' بدکاری اور شکار کی وجہ سے مشہور تھی۔
ابن زیاد سخت غیض و غضب اور غصے سے بھر گیا تھا لیکن اس نے اپنا نقاب اسوقت تک نہیں اتارا جب تک وہ منحوس قصر دارالامارہ کے دربار تک نہیں پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنا نقاب الٹا،
کوفیوں نے جب نقاب کے نیچے سے فرزند رسولؑ کی جگہ ابن مرجانہ کو پایا تو یہ دیکھ کر سخت مایوس و خوفزدہ ہوۓ. بلاشبہ بعض اوقات بلاوجہ کا خوف عظیم نقصانات کو جنم دیتا ہے.
کاش ان میں سے ایک فرد اٹھتا اور قبل اس کے کہ وہ لعین خطاب کرتا اسے جہنم رسید کرتا کیونکہ اس وقت اس کے ہمراہ کوئی لاؤ لشکر بھی نہیں تھا
پس عزیزو! یہاں سے تاریخ بدلی. رویے بدلے .چہرے بدل گیے جب اس لعین ابن لعین ابن زیاد نے لوگوں کو متوجہ کیا اور نماز کے خطبے کے بعد اس نے مجمع عام سے خطاب کیا.
(" امابعد. مجھے امیر المومنین یزید نے تمہارے شہر کا گورنر بنایا ہے اور یہاں کی اراضی و آبادی و صدقات پر مجھے حق تصرف دیا ہے. اور مجھ کو تاکید کی ہے کہ میں تمہارے مظلوم سے انصاف کروں. اور تم میں جو محروم ہیں انہی عطا کروں. اور ان لوگوں سے نیک سلوک کروں جو تم میں فرمانبردار و اطاعت شعار ہیں.
اور ان لوگوں سے سختی سے پیش اور جو تم میں سرکش و نافرمان ہیں. پس میں تم میں سے اطاعت کرنے والوں سے شفیق والد کی طرح سلوک کرونگا . اور نافرمانوں و بیعت شکنی کرنیوالوں کیلیے میرے پاس کوڑا اور تلوار ہے. پس تم میں سے ہر شخص اپنے نفس کے متعلق اللہ سے ڈرے. ( سچائی تمہیں با خبر کرتی ہے دھمکی نہیں دیتی ) "
پس یہ خطاب سن کر اہل کوفہ کے دل میں ابن زیاد کا خوف بیٹھ گیا.
پھر کوفہ کے حالات یکسر بدلنے لگے اس کے بعد تبدیلی و بے مروتی کی ایسی باد خزاں چلی جس نے سفیر حسین بن علیؑ و باغ بنو ہاشم کے پھول طیب بن طیب طاہر بن طاہر جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام کو خزاں آلود کرکے تنہائی و عالم غربت میں مرجھا دیا.
انا للہ وانا الیہ راجعون
حوالہ جات
(1) الارشاد 188-
( 2) نفس المہموم 82
(3) اللہوف 32- 38
التماس دعا ...... اے ایس امجد

❤️
1