الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
June 16, 2025 at 01:30 PM
عہدِ نبوت کی برگزیدہ خواتین، قسط: 26) حضرت اُم فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا: (علم، وفا، فصاحت اور شجاعت کا پیکر) جب ہم عہدِ نبوت کی ان پاکیزہ و عظیم خواتین کا تذکرہ کرتے ہیں جنہوں نے اسلام کی ابتدائی اور پرخطر راہوں میں اپنی بصیرت، اخلاص، قربانی اور علم و حلم کے ذریعے چراغ جلائے، تو ان میں ایک نمایاں نام حضرت اُم فضل بنت حارث ہلالیہ رضی اللہ عنہا کا بھی ہے۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی زوجہ اور اہلِ بیت کی خادمہ و رازدار تھیں۔ نسب و تعلق: آپ کا اسمِ گرامی لبابہ بنت حارث بن حزن ہلالیہ ہے۔ آپ کی ہمشیرہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا امہات المومنین میں شامل ہیں اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے جرأت و بہادری کے مینار آپ کے بھانجے ہیں۔ نیز حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا آپ کی سوتیلی بہن تھیں۔ (سیر اعلام النبلاء: 2/314) قبولِ اسلام و ہجرت: حضرت اُم فضل ان خوش نصیب خواتین میں شامل ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں ابتدائے اسلام ہی میں رسول اللہ ﷺ پر ایمان لایا، اور اپنے شوہر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: "وہ جلیل القدر صحابیہ تھیں جنہوں نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں دیں۔" (الاستیعاب: 4/385، سیر اعلام النبلاء: 2/315) شعبِ ابی طالب کا محاصرہ: جب شعبِ ابی طالب میں رسول اللہ ﷺ اور بنو ہاشم کو قریش نے محصور کیا، تو حضرت اُم فضل اس وقت حاملہ تھیں۔ اسی دوران ان کے بطنِ مبارک سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنی زبانِ مبارک سے ان کی گھٹی دی، اور یوں حضرت ابن عباس کو "لعابِ نبوی سے فیض یافتہ" ہونے کا اعزاز ملا۔ (البدایہ والنہایہ: 8/298) فصاحت و بلاغت کی امین: حضرت اُم فضل فصیح و بلیغ شاعرہ بھی تھیں۔ انہوں نے اپنے فرزند عبداللہ کے حق میں خوبصورت اشعار کہے جن میں ان کے سردار بننے کی دعا اور امید جھلکتی ہے۔ (شاعرات العرب: ص 320) ابو لہب پر غضب کا کوڑا: غزوۂ بدر کے بعد جب قریش کے سردار ہزیمت خوردہ واپس آئے، تو ابو لہب مسلمانوں کی فتح سن کر جھنجھلا گیا۔ اس نے حضرت ابو رافعؓ (غلامِ عباس) کو مارنے کی کوشش کی، تو اُم فضل نے بے دریغ ڈنڈا اُٹھایا اور ابو لہب کو زخمی کردیا۔ یہی واقعہ اس کے انجام کا پیش خیمہ بنا، اور وہ چند دن بعد عبرتناک انجام کو پہنچا۔ (الطبقات: 4/74، سیرت نبویہ لابن ہشام: 1/446) اُم الشرفاء: حضرت اُم فضل کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ کے بطن سے اسلام کے چھ جلیل القدر فرزند پیدا ہوئے: 1. سیدنا حضرت فضل رضي الله عنه نبی کریم ﷺ کے بہت قریبی تھے۔ آپ ﷺ کے غسلِ مبارک میں شامل تھے۔ غزوات میں بھی شریک ہوئے۔ اسلام میں ان کا کردار واضح ہے۔ 2. سیدنا حضرت عبداللہ (ابن عباس) رضي الله عنهما قرآن کے سب سے بڑے مفسرین میں شمار ہوتے ہیں۔ "ترجمان القرآن" اور "حبر الأمة" کے لقب سے معروف۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے علم و فہم کی دعا فرمائی تھی۔ 3. حضرت معبد رضي الله عنه تابعی کہلاتے ہیں (بعض کے نزدیک صحابی بھی شمار کیے گئے)۔ اہل بیت کے ساتھ وفاداری سے معروف۔ محدثین نے ان سے روایات نقل کیں۔ 4. حضرت عبیداللہ رضي الله عنه حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گورنر رہے (یمن میں)۔ جنگِ صفین اور دیگر معاملات میں شریک تھے اور صحابی تھے۔ 5. حضرت قثم رضي الله عنه صحابی تھے۔ سمرقند (ازبکستان) میں حضرت علیؓ کے دور میں دعوتِ اسلام کے لیے گئے۔ وہیں شہید ہوئے اور مدفون ہیں۔ 6. حضرت عبدالرحمٰن رضي الله عنه ان کے متعلق روایات محدود ہیں، لیکن معتبر سیرت نگاروں جیسے ابن سعد، طبری وغیرہ نے ان کا ذکر اہلِ ایمان میں کیا ہے۔ ان سب نے دین کے لئے خدمات انجام دیں اور دور دراز علاقوں میں وفات پائی۔ (البدایہ والنہایہ: 8/309، الطبقات: 4/6) راویہ حدیث اور فقیہ صحابیہ: حضرت اُم فضل رضي الله عنها کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ حدیثِ نبوی کی راویہ ہیں۔ ایک معروف واقعہ میں عرفہ کے دن روزے کے متعلق شبہ دور کرنے کے لئے آپ نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ پیش کیا، جسے آپ ﷺ نے اونٹ پر بیٹھے ہوئے نوش فرمایا۔ اس سے فقہی مسئلہ بھی واضح ہوا کہ حالتِ احرام میں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا افضل ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث 1989، سیر اعلام النبلاء: 6/315) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غسل: جب اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہوا تو حضرت اُم فضل اور حضرت اُم ایمن رضي الله عنهما نے آپ کو غسل دیا۔ یہ بھی آپ کے قربِ نبوی اور عظمت کا ایک روشن پہلو ہے۔ 📚 (البدایہ والنہایہ: 3/134) مدینہ کی طرف ہجرت: حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد حضرت اُم فضل نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ رسول اللہ ﷺ مدینہ میں ان کے گھر کی کثرت سے زیارت کرتے اور ان سے محبت فرماتے۔(الطبقات: 8/278) وصال: حضرت اُم فضل رضی اللہ عنہا نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔ خلیفہ سوم نے خود آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کے فضائل، خاندانی عظمت، علم و فہم، شجاعت اور فصاحت رہتی دنیا تک ایک روشن مثال بنے رہیں گے۔ اللہ رب العزت ان سے راضی ہو، ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین، بحرمتِ خاتم النبیین ﷺ۔ ============> جاری ہے ۔۔۔

Comments