الکمال نشریات 💐
الکمال نشریات 💐
June 19, 2025 at 03:20 PM
بیت المقدس کے اہم مقامات، قسط: 37 مسجد أقصىٰ کی سبیلیں: اسلامی فن تعمیر میں "سبیل" (پانی پلانے کا انتظام) ایک ایسی خیراتی عمارت ہوتی ہے جس کا مقصد راہگیروں، زائرین اور محتاجوں کو بلا معاوضہ پانی مہیا کرنا ہوتا ہے۔ لغوی طور پر "سبیل" کا مطلب ہے راستہ، مگر تاریخی و اصطلاحی مفہوم میں یہ ایک فلاحی نظام کا نام ہے جو اسلامی تہذیب کے فیاض اور انسان دوست مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔ قدیم اسلامی شہروں میں، خصوصاً بیت المقدس جیسے متبرک مقام پر، اوقاف اور خیرات کے ذریعے متعدد سبلیں تعمیر کی گئیں۔ القدس میں آج بھی ان سبیلوں کی کئی نشانیاں باقی ہیں، جو نہ صرف پانی کا انتظام کرتی تھیں بلکہ اسلامی طرز تعمیر کی خوبصورتی، نیک نیتی، اور دین کی روحانیت کی مظہر تھیں۔ مسجد أقصیٰ کے احاطے میں سبیلوں کا تاریخی پس منظر: مسجد أقصى اور اس کی گزرگاہوں میں واقع 18 معروف سبیلوں میں سے: 3 سبیلیں عہدِ ایوبی (583-648ھ / 1187-1250ء) 2 سبیلیں عہدِ مملوکی (648-922ھ / 1250-1517ء) 13 سبیلیں عہدِ عثمانی (922-1336ھ / 1517-1917ء) سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر سبیلیں سلاطین، امراء، گورنروں یا اعلیٰ ریاستی اہلکاروں کی طرف سے بنوائے گئے۔ البتہ تین سبیلیں عام شہریوں نے بھی اپنے ذاتی خرچ سے قائم کیے، جو عوامی خدمت کے جذبے کی مثال ہیں۔ ❶ سبیل الکأس (پانی کا پیالہ نما سبیل) مقام: یہ سبیل قبة الصخرة المشرفة اور مسجدِ اقصیٰ کے درمیان واقع ہے، جس کے سبب یہ دونوں عظیم الشان عمارات کے درمیان ایک خوبصورت رابطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ معماری: سبیل الکأس ایک کھلے دائرہ نما حوض کی صورت میں موجود ہے۔ اس کے وسط میں ایک خوبصورت فوارہ ہے، جبکہ اطراف میں متعدد سنگی نل اور وضو کی نشستیں بنی ہوئی ہیں۔ بیرونی سطح پر سنگ مرمر کا باریک کام اسے جمالیاتی حسن عطا کرتا ہے، اس کا طرز تعمیر نہ صرف عملی ہے بلکہ روحانی وقار بھی رکھتا ہے۔ تاریخی پس منظر: سبیل الکأس کی تعمیر کا آغاز سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة الله علیه کے بھائی الملك العادل أبو بكر أيوب نے 589ھ / 1193ء میں کروایا۔ بعد ازاں عہدِ مملوکی میں امیر تنکِز الناصری (وفات: 742ھ / 1341ء) نے 1328ء میں اس کی تجدید و توسیع کی۔ اس کے بعد عثمانی دور میں اسے "قناة السبيل" (سبیل کی نہر) سے جوڑا گیا، تاکہ مسلسل پانی کی فراہمی ممکن ہو سکے۔ عصرِ جدید میں اضافہ: 1930ء کی دہائی میں المجلس الإسلامي الأعلى (اعلیٰ اسلامی کونسل) نے اس میں 16 مرمری نشستیں مزید نصب کیں، تاکہ وضو کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ممکن ہو اور اس کی افادیت میں وسعت آئے۔ سبیل الکأس نہ صرف ایک پانی کا حوض ہے بلکہ یہ اسلام کی اس عظیم روایت کا عملی نمونہ ہے جس میں خدمتِ خلق کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ یہ سبیل نہ صرف پیاسوں کو سیراب کرتی ہے بلکہ زائرین کو تاریخ، فنِ تعمیر اور دین کی عظمت کا ایسا سبق دیتی ہے جو لفظوں میں نہیں سماتا۔ اس کی تجدید اور حفاظت ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس کے جمال، جلال اور احسان کو محسوس کر سکیں۔ حوالہ جات: 1. د. نظمي الجعبة، القدس العثمانية، دار الفارابي، بيروت، 2010. 2. د. كمال الجندي، تاريخ المعالم الإسلامية في القدس الشريف، مركز دراسات بيت المقدس، 2002. 3. وكالة الأوقاف الإسلامية بالقدس، دليل المسجد الأقصى المبارك، 2018. 4. د. رائف نجم، فن العمارة الإسلامية في المسجد الأقصى المبارك، عمان، 1995. =========> جاری ہے ۔۔۔ مَعالِمُ القُدس الشریف پیشکش: الکمال نشریات محمد احمد صارم #نقوش_تاریخ_اسلامی #مقدس_مقامات #اسلامی_تاریخ

Comments