
الکمال نشریات 💐
June 19, 2025 at 07:20 PM
عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین: قسط: 27
حضرت بُسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا:
تعارف:
حضرت بُسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا اُن عظیم المرتبت صحابیات میں سے تھیں جنہوں نے ایمان کی روشنی کی طرف سب سے پہلے قدم بڑھایا، رسول اللہ ﷺ کی بیعت کا شرف حاصل کیا، ہجرت کی قربانی دی، اور حدیثِ نبوی کی راویہ بنیں۔
وہ قریش کے معزز قبیلے بنو اسد سے تعلق رکھتی تھیں اور مکہ مکرمہ میں خواتین کے درمیان عزت و شرافت، ذہانت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔
"من المسارعات إلى الإيمان، مهاجرة من المبايعات، رواية للحديث النبوي" (الاستیعاب، ج: 4، ص: 224 | الاصابہ، ج: 4، ص: 445)
قریشی خاتون کا ماضی اور قبول اسلام:
حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کا تعلق بنو اسد بن عبد العزیٰ سے تھا، آپ کا نسب اس طرح ہے: بُسرہ بنت صفوان بن نوفل بن اسد بن عبدالعزیٰ القرشیہ الاسدیہ۔
آپ کی والدہ سالمہ بنت عامر بن حارثہ تھیں، اور قریش کے مشہور بزرگ ورقہ بن نوفل کی بھتیجی تھیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپ کا قریبی رشتہ تھا، کیونکہ حضرت خدیجہ آپ کے والد صفوان کی پھوپھی تھیں۔
قبولِ اسلام سے پہلے بھی حضرت بسرہ مکہ کی معزز اور پراثر خواتین میں شمار ہوتی تھیں۔ زیب و زینت اور سلیقے میں ماہر تھیں اور معاشرتی سطح پر عزت و رتبہ رکھتی تھیں۔
لیکن جب اسلام کی کرنیں نمودار ہوئیں تو حضرت بسرہ ان خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے بغیر کسی جھجھک کے حق کو قبول کیا اور ہجرت کی سعادت حاصل کی۔
"فكانت من المسارعات إلى الإسلام، وهاجرت، وبايعت، وروت الحديث" (الاصابہ، ج: 4، ص: 445)
اسلام، ہجرت اور بیعت کا شرف:
اسلام کی روشنی جب مکہ مکرمہ میں پھیلی، تو حضرت بسرہ نے اپنی خداداد عقل و بصیرت سے نبوت کے سچے پیغام کو پہچان لیا۔ انہوں نے بیعتِ نبوی کا شرف حاصل کیا، اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
مصعب زبیری کے مطابق آپ بیعت کرنے والی خواتین میں شامل تھیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ان کی بیعت کا ذکر روایت میں کیا ہے۔ (الاستیعاب، ج: 4، ص: 224 | جن النساء بشرن بالجنة، ج: 2، ص: 70)
خاندان و رشتہ دار:
آپ کے شوہر مغیرہ بن ابی العاص تھے جن سے دو بچے پیدا ہوئے: معاویہ اور عائشہ۔
آپ کا ماں شریک بھائی عقبہ بن ابی معیط تھا، جو رسول اللہ ﷺ کا شدید ترین دشمن تھا۔ وہ اُن قریشی سرداروں میں شامل تھا جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اسی عقبہ بن ابی معیط نے رسول اللہ ﷺ کے سجدے کے دوران اونٹ کی اوجھ لاکر آپ کی پشت پر رکھ دی تھی، جس سے آپ ﷺ سجدے سے سر نہ اٹھا سکے۔ بعد میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور اسے ہٹایا، اور رسول اللہ ﷺ نے عقبہ کے خلاف بددعا کی۔ (نسب قریش، ص: 173 | جمہرۃ انساب العرب، ج: 1، ص: 110)
ایمان پر ثابت قدمی اور خاندانی آزمائش:
حضرت بسرہ کا ایمان جذباتی نہیں بلکہ عقلی اور شعوری تھا۔ انہوں نے دین کے لیے قرابت داریوں کو پسِ پشت ڈال دیا، غزوۂ بدر میں عقبہ بن ابی معیط قید ہوا اور بعد میں قتل کر دیا گیا۔
جنگِ احد میں ان کا بیٹا معاویہ بن مغیرہ بھی مشرکین کے ساتھ شریک ہوا اور مسلمانوں کو اذیتیں دیں۔ وہ بھی قید کیا گیا، اور بالآخر جہنم رسید ہوا۔
لیکن حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا نے ان واقعات پر صبر کیا، اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ باطل کے مقابلے میں حق غالب آیا۔ (تہذیب الاسماء واللغات، ج: 2، ص: 333)
راویۂ حدیث:
حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کے گھرانے کے قریب تھیں۔ انہوں نے آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلنے والے کلمات کو کانوں سے سنا اور دل میں محفوظ کر لیا۔ انہوں نے گیارہ احادیث روایت کیں، جنہیں:
ام کلثوم بنت عقبہ
عبداللہ بن عمرو بن العاص
عروہ بن زبیر (تابعی، ثقہ راوی)
جیسے معتبر حضرات نے آگے بیان کیا۔ (الاستیعاب، ج: 4، ص: 242 | تہذیب الاسماء، ج: 2، ص: 332)
وفات اور خاتمۂ سیرت
حضرت بسرہ رضی اللہ عنہا کی وفات حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔
ان کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حق کے راستے میں اگر قریبی رشتے دار بھی رکاوٹ بنیں تو ایمانی غیرت اور دینی وفاداری کو ترجیح دینی چاہیے۔
حضرت بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہا کا کردار ہماری خواتین کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ایمان، ہجرت، قربانی، بیعت اور روایتِ حدیث جیسے فضائل نے انہیں تاریخ اسلام کی درخشندہ ستارہ بنا دیا۔
مصادر و مراجع:
الاستیعاب، ابن عبد البر، ج: 4، ص: 224، 242
الاصابہ فی تمییز الصحابہ، ابن حجر، ج: 4، ص: 445
تہذیب الاسماء واللغات، امام نووی، ج: 2، ص: 332-333
نسب قریش، مصعب زبیری، ص: 173
جمہرۃ انساب العرب، ابن حزم، ج: 1، ص: 110
جن النساء بشرن بالجنة، ج: 2، ص: 70
============> جاری ہے ۔۔۔