دارالافتاء،دیوبند
June 18, 2025 at 08:03 AM
فلسطین۔ایران کے حالات پر بھارت سرکار کی شرمناک پالیسی !
ہندوستان کے قائد علما کی توجہ کے طالب چند سنگین پہلو:
کیا ہر ایمانی قضیے پر قائدین کی عدمِ نمائندگی کو " اب تو مودی سرکار ہے، کسی کی سنتی نہیں ہے، ہم کر ہی کیا سکتے ہیں," جیسی تاویلات کے سہارے نظرانداز کرنا جائز ہے ؟
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ میں فلسطین میں اسرائیلی قتلِ عام پر روک لگانے کے لیے ایک اہم ترین اجلاس عمل میں آیا البتہ شرمناک طور پر مودی سرکار نے بھارت کا ووٹ فلسطین کے حق میں استعمال نہیں کیا اور جنگ بندی قرارداد پر ووٹنگ سے دور رہا، جبکہ یہ بھارت کا تاریخی موقف رہا ہے کہ اس نے ہمیشہ سے اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی حمایت میں ووٹنگ کی ہے، لیکن اب جنگ بندی جیسے بنیادی انسانی کاز پر بھی مودی سرکار فلسطین کے حق میں بھارت کی نشست کا استعمال نہیں کررہی ہے ۔
دوسرا معاملہ ہے ایران پر اسرائیلی حملے کا، ایران بھارت کا تاریخی حلیف رہا ہے، اور ایران نے بھارت کی مشکل ترین وقتوں میں مدد بھی کی ہے، لیکن مودی سرکار نے اس تاریخ کو روندتے ہوئے اسرائیل کے ذریعے ایران پر حملے کے خلاف کوئی بیان جاری نہیں کیا نہ ہی ایک لفظ مذمت کا ادا کیا جوکہ بہت ضروری تھا ۔ ایران پر اسرائیل کا حملہ اس درجہ غلط، غیر قانونی اور خالص جنگی جنون کی ضد کا نتیجہ ہے کہ اس وقت امریکہ اور برطانیہ میں بڑے بڑے نام اس کی مخالفت کررہے ہیں، لیکن یہ نہایت شرمناک ہے کہ مودی سرکار کسی بھی سطح پر ایران پر اسرائیلی حملے اور زیادتی کے خلاف ایک بھی لفظ ادا نہیں کررہی ہے ۔
دراصل نریندر مودی کے بیانات سے اندازہ ملتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر ایک ایسا شخص ہے جو مسلمانوں کو تکلیف اور اذیت میں دیکھ کر لطف اندوز ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جو مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کرے اس سے نریندر مودی خوش ہوتا ہے، اب تک مودی کی یہ ذہنیت گھریلو سیاست میں تھی لیکن اب اس ذہنیت نے مزید جست لگائی ہے اور وہ ہندوستان کے خارجہ پالیسی سازوں کو بھی اسی ذہنیت کی پیروی پر مجبور کر رہا ہے، یہ بہت زیادہ سنگین صورتحال ہے ۔
بھارت کا فلسطین جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ میں ووٹ نہیں کرنا ایک بہت بڑا واقعہ ہے، بہت بڑا، اس پر ملت کا سخت ردعمل سامنے آنا چاہیے تھا، بھارت کا ایران کے ساتھ اس موقع پر کھڑا نہیں ہونا بھارت کی سفارتی تاریخ اور ڈپلومیسی کی روایات کےخلاف ہے، اس پر مسلم قائدین کو شدید مذمت کرنی چاہیے تھی، لیکن کیا ہوا ؟ کچھ ہوا ؟
سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے قائدین خاص طور پر جو سیاسی قیادت کے مناصب پر فائز علما ہیں وہ ان معاملات کو کیسے نظرانداز کر رہے ہیں، ؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بھارت کی ایک ملک کی حیثیت سے خارجہ پالیسی کو فلسطین۔موافق اور اسرائیل۔مخالف بنائے رکھنے میں ہمارے اکابر علما کا بڑا کردار رہا ہے انہوں نے اپنی زبردست بصیرت اور مسلسل بےباک جدوجھد کے ذریعے ملک کے سسٹم میں یہ ماحول بنایا تھا، یقیناً بھارت کی قدیم خارجہ پالیسی میں گاندھی کے نظریے کا بھی رول تھا اور عالمی سطح پر عرب ممالک سے تعلقات بنائے رکھنے کا بھی دباؤ تھا، لیکن اندرونِ خانہ خود بھارتی مسلمانوں کی مضبوط ملی قیادت خاص طور پر علما کی سنجیدگی اور ان کے سخت موقف کا بھی اثر تھا ۔
شیخ الاسلام حضرت مدنی، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، قاری طیب صاحب، مولانا منت اللہ رحمانی، رحمھم اللہ، جیسی مزید کئی شخصیات اور اکابرین نے اس موقف کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا، ہندوتوادی واجپائی حکومت آئی تھی اور اس سے پہلے اندرا گاندھی نے بھی اسرائیل سے پینگیں بڑھائی تھی لیکن ہمارے بزرگوں اور ملّی مشائخ نے فلسطین کے سلسلے میں خارجہ پالیسی کو اِدھر سے اُدھر نہیں ہونے دیا اور فلسطینی کاز سے متعلقہ اس عظیم ایمانی وراثت کو ہم تک منتقل کیا ہے،
لیکن یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ہمارے ان بزرگوں کے موجودہ وارثین اس معاملے میں بھی ناکام ہیں، وہ اندرونِ ملک اپنی ملت کا کوئی دباؤ ظالم ہندوتوادی حکومت پر قائم نہیں کر پارہے ہیں، مودی سرکار ہمارے ملک کے اثر کو اب فلسطین کے خلاف اور اسرائیل کے حق میں استعمال کرنے لگی ہے لیکن ملک کے اندر موجود مسلمانوں کے مذہبی اور ملی قائدین اس جانب توجہ نہیں دیتے ہیں، بعض قائدین کی جانب سے سوشل میڈیا پر بیان آجاتا ہے اردو میں لیکن اس سے کیا فرق پڑے گا ؟ آپ سب بخوبی جانتے ہیں ۔
میں جس قدر بھی توفیق الٰہی کے تحت میری بساط ہے سماجی، سیاسی اور ملی زمینوں سے جڑا ہوا ہوں، کم از کم اس معاملے میں صاف طور پر گواہی دے سکتا ہوں کہ مسلمانوں کی ملی تنظیموں کے ذمہ داروں نے خاص طور پر جمعیت علمائے ہند اور پرسنل لا بورڈ یا ندوۃ العلماء نے اب تک ایک مرتبہ بھی بھارت سرکار کی بدلتی ہوئی اسرائیل نوازی کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی یا لاکھ دس لاکھ مسلمانوں کا کوئی ایسا مظاہرہ یا ریلی فلسطین کی حمایت میں برپا کرنے کی کوشش نہیں کی جسے عالمی سطح پر محسوس کیا جاتا جیساکہ یوروپین اور افریقی ممالک میں فلسطین موافق ریلیوں کو خود فلسطینی بھی محسوس کرتے ہیں ۔
اداروں میں سے ندوۃ العلماء کا نام خاص طور پر اس لیے ذکر کررہا ہوں کہ عالم اسلامی اور عالم عربی کے کاز پر ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندگی و ترجمانی کا فریضہ ایک عرصے تک ندوۃ العلماء کی شان و شناخت ہوا کرتی تھی, عالم عربی کے قضیوں پر ندوہ کی آواز کو عالم عربی میں سنا بھی جاتا تھا لیکن اب حال یہ ہےکہ لکھنؤ شہر میں بھی اس کا کوئی خاص موقف نہیں ہوتا ہے۔ یہ اس لیے ہےکہ ہم نے خود مطلق نمائندگی اور ترجمانی ہی چھوڑ دی ہے، اللہ تعالیٰ اس جانب توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔
اور اب یہی حال ایران کے مسئلے میں ہورہا ہے مودی سرکار پوری بےشرمی سے ایران کو انڈیا حکومت کی جو جائز حمایت ملنی چاہیے تھی اس سے بھی پیچھے ہٹ رہی ہے لیکن کوئی اس جانب توجہ دینے اور دلانے والا نہیں ہے، حالانکہ انڈین کانگریس کی اعلیٰ قیادت سمیت بےشمار سیکولر ہندوؤں نے مودی سرکار کی ایران کے سلسلے میں خارجہ پالیسی کو قابلِ مذمت قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ ایران ہمارا دوست ہے اور دوستی کا حق ادا کیا ہے لیکن مودی سرکار نیتن یاہو کی محبت میں ایران کے ساتھ دوستی کا حق ادا نہیں کررہی ہے، البتہ افسوس کی بات ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی قیادت اس معاملے میں بھی غفلت برت رہی ہے ۔
ان معاملات پر قائد علما کو متحدہ طور پر ایسا اسٹینڈ لینے کی ضرورت ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر سنے جائیں جب عالم اسلام کو سنانے کی نیت سے ہم جمع ہوں گے تو مجبوراً ہی سہی اس کے اثرات ملکی ظالموں پر بھی مرتب ہوں گے، اگر موجودہ قائدین اس اہم ترین ایمانی کاز میں بھی مطلوبہ کوشش نہیں کرتے ہیں تو ان کو فلسطینی کاز کے سلسلے میں ہندوستانی ملت کی طرف سے نمائندگی میں ناکام لکھا جائے گا۔ اگر مسلمانانِ ہند عالم اسلام کے بنیادی ایمانی معاملات میں پیچھے رہ گئے تو وہ بہت پیچھے چلے جائیں گے، بھٹک جائیں گے۔ اگر عالم اسلام کے مسائل پر ہندوستانی مسلم قائدین کا یہی رویہ رہا تو ان کا رشتہ عالم اسلام سے کمزور ہو جائے گا اور وہ معنوی طور پر بھی " انڈین مسلمان" ہوکر رہ جائیں گے ۔
یہ بالکل غیر حقیقی تاویل ہےکہ آپ ہر ہر قضیے اور معاملے پر یہ عذر پیش کریں کہ اب تو مودی سرکار ہے، اب پہلے جیسے حالات نہیں ہیں اب ہماری سنتا ہی کون ہے، یہ صرف بہانے ہیں، منصب اور مسند آپ کے پاس ہے تو شرعی اصول کے تحت آپ ہماری وراثت کو بچانے کے ذمہ دار و جوابدہ ہیں ہماری ہر ایمانی و ملّی وراثت لٹ رہی ہے اور آپ اسی تاویل سے کام چلا رہے ہیں، ایسا کب تک چلےگا ؟ اگر آپ کی یہ تاویلات یقینی ہیں آپکی نظر میں، تو ذمہ داری ایسے علما کے حوالے کی جائے جو ان اعذار کو بدلنے کا نظریہ رکھتے ہوں، ورنہ ایسے تو ایک دن ہم اس ملک میں باضابطہ غلام بنا لیے جائیں گے، قرآن و ایمان بھی چھین لیا جائےگا، ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ بھارتی سرکار ایران و فلسطین کے معاملے میں بزرگان و بانیان بھارت کے موقف سے غداری نہ کرے، کوئی بھی ظالم اپنی عوام کی نہیں سنتا، اور پھر اگر وہ متکبر ہندوتوادی ظالم ہو تو وہ کبھی اپنی رعایا کی نہیں سنتا بلکہ ہمیں اس کے بہرے کانوں تک ہمیں خود اپنےںحریت پسندانہ جذبات اور خودداری کی آوازوں کو پہنچانا ہوتا ہے ۔

👍
❤️
😢
6