دارالافتاء،دیوبند
June 18, 2025 at 04:38 PM
*میاں_بیوی_ایک_دوسرے_کے_لیے_اعتماد_حفاظت_محبت_اور_سکون_کا_لباس_ہے* قرآن کریم نے چار طرح کے لباسوں کا ذکر کیا ہے: پہلا لباس جو ہم اپنے بدن پر پہنتے ہیں: یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِیْشًاؕ اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے اور وہ لباس (تمہارے لیے) خوشنمائی کا بھی ذریعہ ہے۔(سورت اعراف: 26) دوسرا لباس جو ہم دل کو پہناتے ہیں اور وہ تقوی کا لباس ہے: وَ لِبَاسُ التَّقْوٰىۙ-ذٰلِكَ خَیْرٌؕ اور تقوی کا جو لباس ہے، وہ سب سے بہتر ہے۔(سورت اعراف: 26) تیسرا لباس جو اللہ تعالی دن کو پہناتا ہے اور وہ رات کا لباس ہے: وَ هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس بنایا۔ (سورت فرقان:47) چوتھا جو میاں بیوی ایک دوسرے کو پہناتے ہیں (جس کی تفصیل یہاں ذکر کرنا مقصود ہے) وہ اعتماد، حفاظت، محبت اور سکون کا لباس ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ وہ (عورتیں) تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن (عورتوں ) کےلیے۔ (سورت بقرہ: 187) ان چاروں لباسوں کی آپس میں گہری مناسبت ہے۔ ایک لباس اگر ظاہری بدن کو ڈھانپتا اور خوشنما بناتا ہے تو دوسرا لباس باطن کو پاکیزگی اور جمال دیتا ہے۔ ایک لباس اگر (رات کی تاریکی کی صورت میں) سکون دیتا ہے جیسا کہ خود اللہ تعالی نے فرمایا: هُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الَّیْلَ لِتَسْكُنُوْا فِیْهِ اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی تاکہ تم اس میں سکون حاصل کرو۔ (سورت یونس:67) تو دوسرا لباس بھی (میاں بیوی کی صورت میں ایک دوسرے کو) سکون دیتا ہے: خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا اللہ نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو۔ (سورت روم:21) میاں بیوی کے آپسی رشتہ کو بیان کرنے کے لیے قرآن نے ایک ایسی عمدہ تعبیر ذکر کی ہے جس سے پوری ازدواجی زندگی کھل کر سامنے آ جاتی ہے، اس رشتہ کو سمجھنے اور سمجھانے کا اس سے بہتر اسلوب کوئی نہیں ہو سکتا۔ آپ لباس میں غور کریں اور جو چیزیں لباس سے مقصود ہوتی ہیں، ان کو ایک کاغذ پر لکھتے جائیں ، وہ ساری صفات و مقاصد میاں بیوی کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے بھی ضروری اور مطلوب ہیں۔ مثلا: 1:👈 لباس انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان جانور رہتا ہے۔ ننگا رہنا انسانی فطرت کے خلاف ہے، ایسے ہی نکاح انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر انسان اُس درخت کی مانند ہے جو ہوا کے دوش پر جھولتا رہتا ہے، کبھی اِدھر کبھی اُدھر۔ جیسے لباس کے بغیر رہنے سے معاشرہ خراب ہو جاتا ہے، ایسے ہی نکاح کے بغیر رہنے سے ذہن فحش زدہ اور مفسد ہو جاتا ہے۔ 2:👈 لباس نہ پہننا ایک وقت تک تو برداشت ہے کہ جب بچہ ہو لیکن جوں جوں انسان بڑا ہونا شروع ہوتا ہے، لباس ضروری ہو جاتا ہے، ایسے ہی ایک وقت تک تو نکاح نہ کرنا قابل برداشت ہے لیکن جوں جوں جوانی کی طرف قدم اٹھنے لگیں تو نکاح ضروری ہو جاتا ہے ورنہ معاشرہ میں فساد پھیلے گا۔ 3:👈 انسان اپنے لباس کو پھاڑتا نہیں ہے، قینچی سے کترتا اور سوئی سے دھاگے نہیں اُدھیڑتا۔ ایسے ہی میاں بیوی کو بھی چاہیے کہ ایک دوسرے کو عدم اعتماد ، گالیوں یا طعنوں کی سوئی اور قینچی سے مت کتریں۔ میاں بیوی جب بھی ایک دوسرے پر تہمت لگاتے ہیں یا طعن کرتے ہیں یا اپنی پرسنل باتیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں تو در اصل اپنے ہی لباس کے دھاگوں کو تار تار کر رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہ اُس پھاڑے ہوئے لباس کی طرح ہو جاتے ہیں جس کو جسم پر پہننے کے باوجود کچھ حصے نظر آرہے ہوتے ہیں اور لوگ دبے ہونٹ مسکرا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھو! اس کا لباس پھٹا ہوا ہے اور اسے نظر بھی نہیں آ رہا۔ 4:👈فزیکل چیزوں میں ہمارے سب سے زیادہ قریب لباس ہوتا ہے جس کو ہر وقت، ہر موسم میں، ہر جگہ پہنا ہوتا ہے۔ لباس کی قُربت ہمیں سکون دیتی ہے، اس قربت کی خوشبو ہم دور سے محسوس کر لیتے ہیں بلکہ دوسرے لوگ بھی پہچان جاتے ہیں کہ یہ فلاں کا لباس ہے کیونکہ اس میں جو خوشبو آ رہی ہے، ایسی خوشبو فلاں شخص سے ہی آتی ہے۔ میاں بیوی کو بھی ہمیشہ ایسے ہی ایک دوسرے کے قریب رہنا چاہیے تاکہ ان کی زندگی میں سکون ہو۔ ہمارے ہاں بعض لوگ بیویوں کو چھوڑ کر سالہا سال باہر ممالک رہتے ہیں اور گناہوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں لیکن انہیں یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ ہم یہاں ہیں اور لباس اتنا دور چھوڑ کر آ گئے۔ کوئی پاگل ہی ہوگا جو اپنے لباس کو اپنے سے دور رکھے۔ کوئی ضروری نہیں کہ دوسرے ملک جا کر جاب کریں، اپنے ملک میں بھی مواقع مل جاتے ہیں بشرط کہ امانت داری کے ساتھ تلاش کیے جائیں۔ جہاں رہیں، اپنے لباس کو قریب رکھیں تاکہ قربت کی خوشبو ہر طرف پھیلے اور لوگ آپ کی مثالیں دیں جیسے ہم رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی محبت و قربت کی مثالیں دیتے ہیں۔ (آپ صلی الله عليه وسلم تو غزوات بھی میں اپنی ازواج مطہرات کو ساتھ لے کر جاتے تھے)۔ 5:👈سردیوں کی ٹھنڈی رات ہو یا گرمیوں میں آگ پھینکتا سورج، آپ کو لباس چاہیے جو موسم کی حرارت و برودت (ٹھنڈ) سے بچا سکے۔ ایسے ہی شادی کے بعد رشتہ کو توڑنے کے لیے مرد یا عورت کی فیملی کی طرف سے بے اعتمادی کی یخ بستہ ہوائیں چلیں یا نفرتوں کی آگ کے شعلے برسیں ، میاں بیوی کو بہر صورت لباس بن کر ایک دوسرے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ بیوی کو اُس کی ماں ، بہنیں، خالائیں یا پھوپھیاں اُکساتی ہیں کہ تم نے پہلے دن سے گھر کا سارا کنٹرول اپنے پاس رکھنا ہے ورنہ ذلیل ہو جاؤ گی، دوسری طرف شوہر کو اُس کی ماں پٹیاں پڑھاتی ہے کہ تم نے اپنی بیوی کو قابو کرنا ہے ورنہ تمہارا سارا گھر لوٹ کر کھا جائے گی۔ ایسے میں میاں بیوی ایک دوسرے کو ان تمام حملوں سے بچائیں اور ایک دوسرے کے لیے لباس بن کر قریب ہو جائیں۔ 6:👈ہمیں ہمارا لباس بہت خوبصورت لگتا ہے۔ لیکن لوگ اُس میں عیب نکالتے ہیں کہ اگر یہ کلر ایسا ہوتا تو اچھا ہوتا، اگر اس کی سلائی ایسے کی جاتی تو بہتر ہوتی، اگر اس کا یہ ڈیزائن یہاں پر ہوتا تو عمدہ لگتا، اگر اس کی میچنگ ایسی ہوتی تو کیا کہنے ہوتے۔ لوگوں کے عیب سن کر ہم شک میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید جس لباس کا میں نے انتخاب کیا ہے، یہ کوئی اچھا لباس نہیں اور کئی لوگ تو پھر اُس لباس کو پہننا بھی پسند نہیں کرتے یا بہت کم پہنتے ہیں۔ میاں بیوی کے رشتے میں بھی لوگوں کی نفسیات یہیں ہیں۔ کسی لڑکے یا لڑکی نے محبت اور والدین کی اجازت سے شادی کر لی تو اب اسے (عموما خواتین کی طرف سے) بے شمار عیب سننے کو ملیں گے۔ جیسے: آمَنو (ایک عورت آمنہ کو مخاطب کرتے ہوئے)! تو نے دیکھا نہیں کہ عبد الغفور نے اپنی بیٹی کس بدّھے انسان کے ہاتھ پکڑا دی؟ نہ ناک نہ مُنہ۔ نکھٹّو اور دوسرے درجہ کا فضول انسان ہے۔ میں تو حیران ہوں کہ آخر یہ لڑکی کیسے اس کے ساتھ زندگی گزارے گی؟ یہی بات مرد سے عورت کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ اُس کی بیوی کی تو گردن چھوٹی ہے، ناک کا سائز لمبا ہے، رنگ کالا ہے، کردار اچھا نہیں ہے وغیرہ ۔ جب یہ باتیں کہی جاتی ہیں تو میاں بیوی تک پہنچ ہی جاتی ہیں۔ ایسے میں بجائے اس کے کہ شک میں پڑیں یا اپنے فیصلہ پر نادم ہوں، ڈٹ جائیں اور ایسے لوگوں کو منہ پر جواب دیں۔ اپنے لباس کو نہ چھوڑیں۔ جب ایجاب و قبول کر لیا تو اب نبھائیں، لوگ عیب گنتے رہیں اور تم ایک دوسرے سے محبت کے انداز گنتے رہو۔ 7:👈جب ہم نیا لباس پہنتے ہیں تو ابتدائی کچھ دنوں کے لیے عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ کیونکہ اس لباس کی عادت نہیں ہوتی لیکن جوں جوں لباس بار بار جسم کے قریب آتا رہتا ہے تو اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور اُنسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے ہی شادی کے ابتدائی دنوں میں عموما میاں بیوی کے درمیان انڈرسٹینڈنگ نہیں ہوتی، ایک دوسرے سے پہلی بار مل رہے ہوتے ہیں تو عجیب سا فِیل ہوتا ہے۔ کچھ جوڑے تو اسی موقع پر اپنا لباس اتار پھینکتے ہیں اور نیا لباس خرید لیتے( اس کی کچھ مثالیں میرے سامنے ہیں کہ شادی کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر طلاق ہوگئی)۔ حالانکہ ابتدائی دنوں میں حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔ کچھ وقت عجیب تو لگے گا لیکن جیسے تیسے گزار سکتے ہیں، گزار لیں۔ بعد میں جب اس لباس کے عادی ہو جائیں گے اور محبت و الفت پیدا ہو جائے گی تو پھر محسوس ہوگا کہ اس لباس کے ساتھ زندگی گزارنے کا کتنا فائدہ ہے۔ الله تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
😮 ❤️ 👍 4

Comments