دارالافتاء،دیوبند
June 19, 2025 at 06:58 AM
**حج سے واپسی پر پیرومرشد کی زیارت **
17 جون/ بروز منگل/ بعد نماز عصر /خانقاہ شاہ ابرار پھول میں حاضری ہوئی،اس سے پہلے بھی خانقاہ میں بارہا جانا ہوا ،مگر اس بار در و دیوار پہ ایک خاص چمک تھی ،وقار تھا ،رعب تھا ،ہیبت تھی ،سنجیدگی تھی،متانت تھی۔ لوگوں میں گرم جوشی تھی مگر ہاؤ ہو سے پاک، شور و شغب سے کنارہ کش ہر شخص جذباتی اور بے خود نظر آرہا تھا۔
حضرت خانقاہ کے مخصوص کمرے میں جلوہ افروز تھے اور عقیدت مندوں کا ہجوم پروانہ وار ٹوٹا آرہا تھا ، جگمگاتی ہوئ بارعب مگر بر کشش پیشانی ،جو رِندِ نووارد کو ایک ہی دیدار میں اسیرِ جاوداں کردے،
آپ کا روشن چہرہ اور اس پر مسکانِ مستزاد، سرور و کیف کا عجب سہانا منظر پیش کررہی تھی،آپ کا حُسنِ تکلم ٹوٹتا تو زینتِ سکوت چھلک اٹھتا ، اور زینتِ سکوت ٹوٹتا تو حسنِ تکلم چھاجاتا، گاہے گاہے آپ متفکر نظر آتے،ایسا لگ رہا تھا کہ دریچۂ طیبہ اور کوچۂ بطحا کی سیر کررہے ہوں، یعنی وجودِخاکی گرچہ ہند میں ہے مگر دل و دماغ کا تار اور خیالات و تفکرات کا سلسلہ کعبہ اللہ اور روضہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑا ہوا ہے ۔
آنے والے آتے علیک سلیک ہوتا ،پھر مناسب جگہ پاکر بیٹھ جاتے،انھیں رندانِ تشنہ کام کے جھرمٹ میں یہ عاشق ِبدنام بھی حاضر ہوا ،خود کو سنبھالا ،ہمت جُٹائی ، اضطراب و اضمحلال اور فرحت و مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ سلام ومصافحہ کے لئے حاضر ہوا ، اور ذہن و دماغ کے پردے پر یہ شعر جھملارہا تھا
کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیم صبح تیری مہربانی
حضور والا نے اس ناچیز کے ساتھ صرف سلام ومصافحہ پر اکتفا نہیں کیا ،بلکہ اپنے مخصوص مسکان بھرے انداز میں پوچھا"کا ہو مولی صاحب خیریت!" یہ جملہ اگر چہ الفاظ و معانی کے لحاظ سے عام اور زبان زد ہے،مگر پیر و مرشد کی جانب سے فقیرِ بے مایہ کے لئے ناقابلِ فراموش تمغۂ اعزاز ہے ،بہت دیر تک اسی جملے کو دہراتا رہا اور مست ہوتا رہا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل دل کے بعض جملوں میں ایسی چاشنی اور حلاوت ہوتی ہے ،جو اہل ظاہر کو قند و شکر میں بھی نہیں مل سکتی۔
اس روحانی و عرفانی مجلس میں جہاں ایک طرف ہر شخص اپنے اپنے ظرفِ عقیدت کے مطابق حضرت کے باطنی چشمۂ فیاض سے سیراب ہورہا تھا وہیں دوسری طرف کجھور و زمزم سے تمام واردین کی ضیافت بھی ہورہی تھی،تھوڑی دیر کے بعد اعلان ہوا جو لوگ باہر ہیں آجائیں دعا ہوگی ،لوگ آگئے اور حضرت نے مختصر مگر جامع دعا کرائی ،جس میں حجاج کرام کے لئے قبول حج، اور حاضرین محفل کے حق میں زیارت حرمین کی دعا شامل تھی، اس کے بعد معانقہ کا سلسلہ شروع ہوا ،رفیقم قاری شبیر احمد صاحب سے شروعات ہوئی ،بالآخر بندہ کا بھی نمبر آیا،یہ معانقہ اوروں کے لئے کیا اہمیت رکھتا ہے؟ وہ جانیں! مگر بندہ اپنے حق میں اسے ایسی سعادت و خوش بختی سمجھتا ہے جسے بیان کرنے سے زبان گنگ اور الفاظ قاصر ہیں۔
ایںسعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
محفل ختم ہوئی لوگ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے ،بندہ بھی اٹھا مگر سچ کہوں حضرت کے رُخِ زیبا کی زیارت سے پہلے اور زیارت کے بعد کی کیفیت میں نمایاں فرق ہے ،یوں محسوس ہورہاہے کہ دل کے بند دروازے کھل گئے ہیں ،ذہن پر لگا ہوا گَہِن صاف ہوگیا ہے ۔اور الجھن و بے چینی نے سکون و راحت کی چادر اوڑھ لی ہے ۔
از :یکے از خدام حضرت اقدس پیرومرشد مفتی محمّد احمد اللہ صاحب پھولپوری ۔متعنا اللہ بکرمہ و لطفہ