دارالافتاء،دیوبند
June 19, 2025 at 08:56 AM
اب طوائف صرف کوٹھے پر نہیں ملتی! ✍️:- ایم۔یو۔ صدیقی ہم نے طوائف کا مفہوم ہمیشہ ایک خاص دائرے میں محدود رکھا ہے اور اسی بناء پر ہماری سماجی غیرت کا نشانہ ہمیشہ وہی رہا جو کوٹھے میں پایا گیا حالانکہ اصل فساد ان بستیوں میں بسا ہوا ہے جہاں چہروں پر تہذیب کا نقاب اور ہاتھوں میں ریاستی اختیارات کا قلم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اصل طوائف وہی ہے جو جسم فروشی کرے،جو کوٹھے پر بیٹھے اور دھنوں کی تھال پہ تھرکے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں ان طوائف کے علاوہ وہ بھی طوائف ہیں جو جسم فروشی نہیں بلکہ ضمیر فروشی کرتے ہیں، جو کوٹھے پر نہیں بلکہ کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ وہ دھنوں کی تھال پر نہیں بلکہ حکومت کی راگ پر ناچتے ہیں اور دولت کے ارد گرد طواف کرتے ہیں۔ یہ ضمیر فروش طوائف کبھی ڈاکٹر کے روپ میں اسپتال کے اندر پایا جاتا ہے۔ جس کے ہاتھ میں نسخے کی پرچی ہوتی ہے اورچہرے پر علم کا غرور ہوتا ہے مگر نگاہیں مریض کی جیب ٹٹولتی ہیں۔ سرکاری اسپتال ہو یا پھر پرائیویٹ غرضیکہ ہر جگہ کا یہ دربان علاج کو عبادت سمجھنے کے بجائے ایک کاروبار بنا چکا ہے۔ غریب مریض کا بستر میسر آ جائے تو دوا نہیں بلکہ کاغذوں کی فیس مانگی جاتی ہے۔ اس سے بڑھکر یہ کہ ایمرجنسی میں بھی پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ "کس کے ذریعے آئے ہو؟" اور اگر کوئی نہیں ہے یعنی مریض ایک عام آدمی ہے تو پھر مریض کی سانس کا بند ہونا یا کھلا رہنا ڈاکٹر کے ضمیر سے زیادہ لفافے کے وزن پر منحصر ہوتا ہے۔ کھلے لفظوں میں کہیں تو یہ کہ اس کی پیشہ ورانہ دیانت انسانیت سے زیادہ کمیشن کے حساب سے چلتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ عدالت کی دیواروں میں بھی وہی چہرے بیٹھے ہیں جنہوں نے قانون کی دیوی کے ترازو کو اپنی فیس کے پلڑے سے باندھ دیا ہے۔ وکیل کے چیمبر میں داخل ہونے والا غریب سائل کئی بار تو دروازے پر ہی سوال بن کر کھڑا رہتا ہے۔ انصاف کی بات تو بعد میں ہوتی ہے پہلے تو مقدمے کی لاگت گنی جاتی ہے یعنی جیسے کوئی سودا طے ہو رہا ہو۔ ہر تاریخ، ہر درخواست اور ہر مشورہ ایک معاہدہ ہوتا ہے اور پھر جب جیب ہلکی ہو تو وکیل کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضمیر فروش طوائف اپنی فیس کے بدلے نہ صرف مؤکل کو دھوکہ دیتا ہیں بلکہ پورے نظامِ انصاف کو طوائف کے کوٹھے میں بدل دیتا ہیں جہاں حصولِ انصاف نہیں قیمتِ انصاف طے ہوتی ہے۔ بہرحال ان لوگوں کے علاوہ دفاتر کے اندر جو چہرے بیٹھے ہیں وہ بھی اسی بازار کے خریدار و فروشندہ ہیں۔ بیوروکریسی کا ہر ستون اگرچہ خدمتِ خلق کے لیے قائم ہوا تھا لیکن اب وہ مراعات اور رشوت کے سہارے چل رہا ہے۔ یہاں جو فائل میز پر آتی ہے اس کی رفتار چائے کے کپ، نذرانے یا سفارش سے جڑی ہوتی ہے۔ یعنی آسان زبان میں سمجھیں تو ایک بیوہ کی پنشن ہو یا کسی طالب علم کی اسکالرشپ، ایک کسان کا قرض معاف ہونا ہو یا کسی معذور کو سہولت ملنی ہو غرضیکہ ہر کام کا دروازہ پہلے چپراسی کے ہاتھ میں ہے، پھر محرر کے اور پھر افسرِ بالا کے ۔مطلب ہر دروازے پر ایک ضمیر فروش طوائف بیٹھا ہے جو اس وقت تک کاغذ نہیں ہلنے دیتا جب تک اس کی جیب گرم نہ ہو جائے۔ جبکہ مندرجہ بالا لوگوں کے علاوہ پولیس جو ریاست کی ریڑھ کی ہڈی کہی جاتی ہے اس کے تھانا بھی اب تحفظ کا نہیں بلکہ طاقت کا مرکز بن چکا ہے ۔ یعنی یہاں شکایت درج کرانے سے پہلے تعلقات یا رقم کا حوالہ دینا ضروری ہے۔ پھر مظلوم اگر کمزور ہو تو وہ مجرم بن جاتا ہے اور مجرم اگر بااثر ہو تو وہ بری الذمہ۔ میں سمجھتا ہوں اور سچ بھی یہی ہے کہ ضمیر فروش طوائف جو وردی میں چھپا بیٹھا ہے وہ صرف لاٹھی یا بندوق نہیں چلاتا بلکہ وہ قانون کی حرمت کو بھی پیروں تلے روندتا ہے۔ اور ان سب کے درمیان وہ بھی ہیں جو قلم کو امانت سمجھنے کے بجائے پیشہ بنا بیٹھے ہیں۔ وہ صحافی، اینکر، کالم نگار اور ادیب جو قوم کو سچ دکھانے کے بجائے طے شدہ اسکرپٹ پڑھتے ہیں۔ ان کے کالم عوام کی رہنمائی نہیں کرتے بلکہ کسی طاقتور کے حق میں رائے ہموار کرتے ہیں۔ ان کا تجزیہ، ان کی رپورٹنگ اور ان کی زبان غرضیکہ سب کچھ ایک قیمت پر دستیاب ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر تو آپ خود ہی جانتے ہیں کہ جب قوم کی رائے بنانے والے خود بکنے لگیں تو پھر بازار میں باقی سب چیزیں خودبخود نیلام ہو جاتی ہیں۔ سچ کہیں تو ان سب میں قدرِ مشترک یہی ہے کہ یہ جسم فروش تو نہیں مگر ضمیر فروش ضرور ہیں۔ ان کا لباس معزز ہے، ان کی نشست بلند ہے اور ان کا علم معتبر ہے مگر ان کے اندر سچائی مر چکی ہے۔ اگر طوائف کو گالی اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ عزت کا سودا کرتی ہے تو پھر میں سوال کرتا ہوں کہ ان کو کیا کہیں جو انصاف، علم، شرافت، ریاست اور ضمیر کا سودا کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں میں قلم، اختیار یا نسخہ ضرور ہے مگر دل میں خوفِ خدا، احساسِ فرض اور انسانیت کی رمق باقی نہیں رہی۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ یہ سب کوٹھے، یہ عدالتیں، اسپتال دفاتر اور تھانے وغیرہ سب کے سب اگر ضمیر سے خالی ہوں تو پھر وہی جگہیں بنتی ہیں جہاں معاشرہ سسکتا ہے، نظام بکتا ہے اور قوم بکھرتی ہے۔ لہٰذا اگر ان ضمیر فروش طوائفوں کے خلاف آواز بلند نہ کی گئی تو کل تاریخ ہم سے سوال کرے گی کہ تم نے جسم فروشوں پر تو خوب شور مچایا مگر جب ریاست کی رگوں میں کرپشن کا زہر دوڑ رہا تھا، جب انصاف اور علاج کی بولی لگ رہی تھی، جب تعلیم اور قانون کی عصمت نیلام ہو رہی تھی۔ تو تم کہاں تھے؟ یاد رکھیں کہ اگر ہمارا قلم، ہمارا منبر اور ہمارا دانشور طبقہ ان ضمیر فروش طوائفوں کے خلاف اب بھی خاموش ہے تو پھر ہم سب صرف گواہ ہی نہیں بلکہ شریکِ جرم ہیں۔
❤️ 👍 2

Comments