دارالافتاء،دیوبند
June 20, 2025 at 06:17 AM
*مساجد ومدارس کے ذمہ داران*
*کیلیے لمحہ فکریہ*
{بارہ سال کی امامت کے دوران پہلی بار مجبور ہوا اس موضوع پر لکھنے کیلیے
ضرور پڑھیے خون کے آنسو رویے آگے شیر کیجیے}😭
*مدینہ مسجد چائیباسہ جمشیدپور* *جھارکھنڈ کے امام مولانا شہباز صاحب مرحوم کے موت کی دل دہلانے والی خبر*
*از✍️ محمد اسعد قاسمی امام وخطیب جامع مسجد پٹنہ جنکشن*
"بارہ سال میں پہلی بار میں نے اس موضوع پر قلم۔اٹھایا، اب تک صرف اس وجہ سے نہ لکھ سکا کہ قوم کہےگی امام ہے تو امام اور علماء کی طرفداری کررہا ہے مگر آج مجبور ہوا لکھنے پر"
*ذمہ داران حضرات خدا کا خوف کریں، اور ائمہ کرام اور مدرسین کو کماحقہ تنخواہ دیں، اور انکی پریشانی کا خیال رکھیں ورنہ اللہ کے پاس سخت جوابدہ ہونگے*
*اور مرنے سے پہلے بھی کہیں ان اللہ والوں کی بدعاء کے چپیٹ نہ پھنس جائیں*
آج بذریعہ ہندی اخبار انتہائ افسوسناک خبر موصول ہوئ، جس نے دل کے ٹکڑے کرکے رکھ دیے، کہ مدینہ مسجد چائیباسہ جھارکھنڈ کے امام صاحب نے قرض کے بوجھ کی ٹینشن سے خودکشی کرلی، لاش مسجد کے تیسری منزل میں چھت سے لٹکی ہوئ ملی
ساتھ میں سوسائیڈ نوٹ مطلب خودکشی کی وجہ والی تحریر نوٹ ملی
جسمیں انہوں نے لکھا تھا کہ قرض کا بوجھ مجھ پر پہاڑوں جیسا تھا، خودکشی حرام ہے، مگر میں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ لیا ہے،
ہاے افسوس کونسی موت ہم مریں،
ہماری قوم کو کیا ہوگیا ہے، کہ وہ اماموں کو ماہانہ چند ہزار روپیہ دے کر فارغ ہوجاتے ہیں، اور انکو اپنا نوکر سمجھتے ہیں، اور ساتھ میں اسی دس پندرہ ہزار تنخواہ کو بہت بڑا احسان سمجھتے ہیں, جبکہ ہر شخص ہر مقتدی ہر ذمہ دار آج کل یہ سمجھ رہا ہے آج کل کے دور میں مہنگائ آسمان پر پہنچی ہوئ ہے، اگر گھر اپنا ہو تو چھوٹی فیملی کیلیے کم سے کم ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلیے پچیس تیس ہزار بحرحال چاہیے ہوگا
، اسکے ساتھ اگر کبھی گھر میں کوئ بیمار پڑگیا, اور رشتہ دار میں کوئ بیمار پڑگیا، یا کوئ مجبوری پیش آگئ ، تو ایسے حالات میں لاکھ دولاکھ لگ جاے پچیس پچاس ہزار کی ضرورت پڑجاے تو ، یہ امام کہاں سے لاسکےگا، جبکہ کھانا پینا لباس وپوشاک اور روم رینٹ وغیرہ میں ہی سب ختم ہوجاتے ہیں، پیسے، تو اب سواے قرض لینے کے کوئ چارہ نہیں ہوتا، جب لے لیا تو اب ادا کیسے کرپاےگا، اسی 80 فیصد امام ومدرسین قرض کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں، پھر لوگوں کوشکایت ہوتی ہے، کہ امام صاحب یا مدرس اپنی ڈیوٹی پر صحیح سے دھیان نہیں دے رہے ہیں،
بھائ میرے کبھی آپنے عزت واحترام کے ساتھ انکی پریشانی کی خبر لی ہے،
اور ذمہ داری صحیح سے نہ نبھانے کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے،
*اگر آپکے دل میں اماموں سے مدرسے کے اساتذہ سے محبت ہے تو اٹھ کھڑے ہوے، اماموں اوراساتذہ سے ملئے، ان کے یہاں کوئ بیمار یے تو عیادت کیجیے، کسی چیز کی ضرورت ہے تو ضرورت پوری کرنے کی کوشش کیجیے، قرض میں پھنسے ہیں تو ادا کردیجیے،*
*اور سب سے بڑا کام یہ کیجیے کہ سارے مقتدی مل کر ذمہ داروں کو مجبور کیجیے کہ بھائ آپ امام کی تنخواہ پچیس سے تیس ہزار جو ضروری ہے وہ کیجیے، انکو فیملی۔رہائش دیجیے، پیسے ہم دیتے ہیں آئندہ اور بڑھا کر دینگے ان شاءاللہ*
*عجب لوگ ہیں، مال خرچ کرنے کیلیے دنیا کو ڈھونڈ رہے ہیں، اور اپنے سب سے قریبی اور محترم کی پریشانی نظر نہیں آتی،*
کیا سیکنڑوں ہزاروں لوگ مل کر اپنے ایک امام کی ضرورت پوری نہیں کرسکتے، وہ امام جو آپکی نماز کے ذمہ۔دار ہیں ، مقتدی میں نوے فیصد کو تو قرآن بھی پڑھنا نہیں آتا تو، اکیلے نماز کیونکر صحیح ہوتی ہوگی، ایسے میں امام صاحب ہی ہیں جو اسکی نماز کے درستگی کا سہارا بنتا ہے، اور خوشی غمی میں شریک رہتا ہے، وقت دیتا ہے، انکو اور انکے بچوں کو دین سکھاتا ہے، جنت کا راستہ آسان کرتا ہے، ان کیلیے ہر نماز کے بعد دعاء کرتا ہے، بیمار ہوجاے تو عیادت کیلیے جاتا ہے،مرنے پر جنازہ پڑھاکر سفر آخرت پر روانہ کرتا ہے، تدفین کے بعد تاحیات ان کیلیے دعاے مغفرت کرتا ہے،
*ایک امام پورے محلہ کے لوگوں کی ہر دینی ودنیاوی ضرورت میں مدد کرتے رہتے ہیں،*
مگر افسو صد افسوس پورا محلہ مل کر ایک امام کی ضرورت وخیریت کی خبر لے کر انکی ضرورت پوری نہیں کرسکتا،
جبکہ نناوے فیصد لوگ، اپنے روپیہ پیسے کو موقع بموقع فخریہ پارٹی، فضول خرچی میں خرچ کرنے سے باز نہیں آتے، معاملہ جہیز کا ہو، معاملہ رشوت کا ہو، معاملہ شادی میں روپیہ اڑانے کا ہو، روپیہ شراب وکباب میں لگانے کا ہو، وہاں پیسہ کا خرچ یاد نہیں آتا۔ مگر جیسے ہی مدرسہ مسجد امام ومدرسین کی بات آتی ہے, خرچ کا دباو اندر سے کھانے لگتا ہے،
اسکے باوجود اللہ کے نیک بہت سے بندے ہیں جو مدرسے ومسجد میں خوب پیسے دیتے رہتے ہیں،
مگر مساحد ومدارس کے ذمہ داران اس پیسہ کو اپنا پیسہ سمجھ کر مسجد کے ہر کام میں جو ضروری نہ بھی ہو اسمیں لاکھو لاکھ لگادیتے ہیں، مگر اماموں ومدرسن کی تنخواہ بڑھاتے ہوے جان حلق میں آجاتی ہے،
جبکہ نبی علیہ السلام نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمان کی جان اور اسکا احترام کعبة اللہ سے بھی بڑھ کر ہے
مطلب یہ واضح ہے کہ مساجد مدارس کے درودیوار کو چمکانے سے زیادہ ضروری ہے کہ اسمیں کام کر رہے ائمہ ومدرسین وخادمین کا خیال کیا جاے، ورنہ مولانا شہباز مرحوم کی طرح جتنے ائمہ کرام پریشان ہیں، سب کی تکلیف کا وبال ان لوگوں پر پڑ کر رہےگا ، یہاں پڑے یا نہ پڑے آخرت میں تو پکڑ ہوکر رہےگی،
اللہ تعالی قوم کے لوگوں کو ہدایت دے کہ وہ ائمہ ومدرسین کا خیال کرنے والے بنیں،
نوٹ۔ چاہے کتنی بھی ہریشانی لاحق کیوں نہ ہوجاے، خودکشی حرام ہے، اللہ کے یہاں پکڑ ہوگی، امام مرحوم نے بھی اچھا فیصلہ نہیں کیا
مگر ہم ان کیلیے رحمت کے مالک اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کرے، انکے اہل وعیال کو صبر جمیل نصیب فرماے،
19/6/25

😢
❤️
👍
21