تفسیر احسن البیان
تفسیر احسن البیان
June 16, 2025 at 09:13 PM
*❇(سورة البقرة۔۲، تعداد آیات ۲۸٦)❇* ❖ أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 💧وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّـهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ ﴿١١٨﴾ *🍁اسی طرح بےعلم لوگوں نے بھی کہا کہ خود اللہ تعالٰی ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟(١) اسی طرح ایسی ہی بات ان کے اگلوں نے بھی کہی تھی، ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے۔(۲) ہم نے تو یقین والوں کے لئے نشانیاں بیان کر دیں۔* *🔹(١)* اس سے مراد مشرکین عرب ہیں جنہوں نے یہودیوں کی طرح مطالبہ کیا کہ اللہ تعالٰی ہم سے براہ راست گفتگو کیوں نہیں کرتا، یا کوئی بڑی نشانی کیوں نہیں دکھا دیتا؟ جسے دیکھ کر ہم مسلمان ہو جائیں جس طرح کہ (سورہ بنی اسرائیل آیت 90 تا 93) میں اور دیگر مقامات پر بھی بیان کیا گیا ہے۔ *🔹(۲)* یعنی مشرکین عرب کے دل، کفر و عناد اور انکار و سرکشی میں اپنے ما قبل کے لوگوں کے دلوں کے مشابہ ہوگئے۔ جیسے سوره ذاريات میں فرمایا گیا: {كَذَٰلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ۞ أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ }۔ (ان سے پہلے جو بھی رسول آیا، اس کو لوگوں نے جادو گر یا دیوانہ ہی کہا۔ کیا یہ اس بات کی ایک دوسرے کو وصیت کر جاتے تھے؟ نہیں یہ سب سرکش لوگ ہیں) یعنی قدر مشترک ان سب میں سرکشی کا جذبہ ہے، اس لیے داعیان حق کے سامنےنئے نئے مطالبے رکھتے ہیں، یا انہیں دیوانہ گردانتے ہیں۔

Comments