
Molana zubair ahmad siddiqiui
June 20, 2025 at 08:17 AM
*سلسلۂ نقوشِ قرآن*
*سورت الکہف ( دسویں اور آخری قسط )*
*شیخ الحدیث والتفسیر، استاد العلماء حضرت مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب دامت برکاتہم العالیہ*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*یاجوج ماجوج کب نکلیں گے* ؟
اس کے بارے میں یہ جان لیں کہ قربِ قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یاجوج ماجوج کا خروج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے انہیں اس درے کے پیچھے تک محدود کر رکھا ہے۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور دجال کے قتل ہو جانے کے بعد نکلے گی۔
مسندِ احمد، سنن اِبن ماجہ اور جامع ترمذی میں ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے رہتے ہیں، قریب ہوتا ہے کہ یہ آہنی دیوار ختم ہو جائے لیکن یہ لوگ یہ کہہ کر واپس چلے جاتے ہیں کہ اس بقیہ حصہ کو کل ختم کر دیں گے، صبح جب واپس آتے ہیں تو مِن جانب اللہ یہ دیوار پھر سے ویسے ہی ٹھیک اور مضبوط بنی ہوئی ہوتی ہے۔ درستگی کا یہ سلسلہ تب تک چلتا رہے گا جب تک اللہ پاک کی منشاء ان کو بند رکھنے کی ہو گی۔ اللہ پاک نے ان کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیا کہ یہ دِن رات، اس دیوار کی کھدائی کرتے رہیں یا نکلنے کا کوئی اور راستہ تلاش کریں۔
جب اللہ تعالیٰ ان کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے (یہ کب ہوگا؟ قربِ قیامت میں یا اس سے پہلے؟ کوئی صراحت نہیں ہے۔ تاہم اتنی بات واضح ہے کہ ان کا عالمگیر حملہ نزولِ عیسیٰ کے بعد ہی ہوگا) تو اس دن شام کو واپس جاتے ہوئے یہ کہیں گے کہ ان شاء اللہ! کل ہم اس دیوار کو پار کر لیں گے۔ تو اگلے دن وہ اس دیوار کو اسی حالت میں پائیں گے جیسا وہ چھوڑ گئے تھے، اس دن دیوار درست نہیں ہو گی۔ یاجوج ماجوج دیوار توڑ دیں گے اور باہر نکل آئیں گے اور اتنی تعداد میں ہوں گے کہ پوری روئے ارض پر چیونٹیوں کی طرح پھیل جائیں گے، وسائل ختم کر دیں گے، پانی کی ندیوں کی ندیاں خالی کر دیں گے، ان کی قتل وغارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔ لوگ اپنی جان بچانے کے لیے محفوظ قلعوں اور پناہ گاہوں میں چھپ جائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر اللہ کے حکم سے کوہِ طور پر چڑھ جائیں گے۔ بالآخر اہل ایمان اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے لیے بد دعا کریں گے، ان کی بد دعا سے ان کو کوئی وبائی بیماری لاحق ہو گی جس سے یہ سب کے سب مر جائیں گے، زمین پر ایک بالشت برابر بھی جگہ ان کی لاشوں سے خالی نہ ہوگی۔ پھر اللہ پاک اونٹ کی گردنوں جیسی گردن والے بڑے بڑے پرندے بھیجیں گے جو اُن کو اٹھا کر لے جائیں گے، پھر خوب بارش ہوگی جس سے پوری زمین دھل کر بالکل صاف ہو جائے گی، پھر اللہ کی طرف سے برکتوں کا نزول ہو گا، انار اتنا بڑا ہو گا کہ لوگ اس کے چھلکے کو چھتری کے طور پر استعمال کریں گے۔ ایک انار ایک جماعت کے لیے کافی ہو جائے گا،ایک بکری کے دودھ سے ایک گھرانہ سیر ہو جائے گا،اتنی زیادہ برکت ہو گی۔(مسلم شریف بحوالہ معارف القرآن)
*سدِ ذوالقرنین*
حضرت ذوالقرنین کی تعمیر کردہ یہ دیوار کہاں ہے ؟ اور یاجوج ماجوج کون سی قوم ہے؟ اس بارے میں جاننا ضروری ہے اور نہ ہی قرآنی آیات کا سمجھنا اس پر موقوف ہے۔ مختلف حضرات نے اپنی اپنی تحقیقات بیان کی ہیں جو صرف اندازے ہی ہیں۔ یقینی علم اللہ پاک کو ہے۔
*اِعتراض*
بعض لوگ ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے، ایسی کوئی دیوار موجود ہی نہیں ہے۔ اگر ہوتی تو اب تک مخفی نہ رہتی۔
*جواب*
اس کے دو جواب ہیں: سائنسی معراج کے باوجود دنیا کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو اب تک دریافت نہیں ہوئیں اور بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جو اب بھی دریافت ہو رہی ہیں ،آج بھی بہت سے جنگل،جزیرے ایسے ہیں جن کی حقیقتوں کا علم نہیں ہو سکا۔ آسٹریلیا کے سمندر میں ایک دیوار ہے جو تقریباً بارہ سو میل لمبی اور ایک ہزار ہاتھ چوڑی ہے ،وہ ابھی سو، ڈیڑھ سو سال پہلے دریافت ہوئی، ابھی بھی ایک جزیرہ ایسا ہے (امریکی ریاست فلو ریڈا کے قریب اسے برمودا ٹرائی اینگل یعنی مثلث تکون کہا جاتا ہے) جہاں کوئی بھی چیز جائے تو وہ گم ہو جاتی ہے،اس علاقے میں کئی ہوائی اور بحری جہاز گم ہو گئے ہیں، پچھلے سالوں میں ملائیشیا کا ایک جہاز گم ہوا تھا، جس پر ایک تجزیہ یہی تھا کہ وہ اس جزیرے میں چلا گیا ہے جو ابھی تک نہیں ملا، یہ جزیرہ ابھی تک ایک راز ہے۔ کسی کو یقینی علم نہیں کہ وہاں کیا ہے؟ کہتے ہیں کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دجال وہاں ہو، کیونکہ دجال کسی جزیرے میں چھپا بیٹھا ہے۔ بہرحال! ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر یہ دعویٰ کرنا درست نہیں۔ ابھی بھی کائنات میں بہت سے سربستہ راز موجود ہیں۔
- یہ دیوار چونکہ دو پہاڑوں کے برابر بنائی گئی تھی،اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ پہاڑوں کے باہم مل جانے کی وجہ سے اب یہ دیوار بھی ایک پہاڑ ہی کی صورت اختیار کر چکی ہو،یہ عین ممکن ہے۔
بہرحال! اتنی بات یقینی ہے کہ وہ دیوار بنائی گئی تھی۔ باقی وہ دیوار تاقیامت باقی رہے گی یا نہیں؟ اس بارے میں کوئی نص ِ قطعی موجود نہیں ہے۔ دونوں طرف احتمالات موجود ہیں۔ ہمارا یہ ایمان ہے کہ یاجوج ماجوج نکلیں گے اور ان کا یہ انجام ہو گا۔ ان کا قصہ یہاں تمام ہوا۔
*سلطنت کا فتنہ اور اس کا علاج*
سورت کے آخری رکوع میں سلطنت کے فتنے کا علاج، فکرِ آخرت اور اِخلاص کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔
*گزشتہ سے پیوستہ*
گزشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ کے وعدہ قیامت کا ذکر تھا،اسی مناسبت سے اس رکوع میں قیامت کے کچھ احوال بیان فرمائے جارہے ہیں۔
آیت نمبر 102۔ کفار ومشرکین نے دنیا میں مشکلات کے حل کے لیے مختلف کارساز، مددگار اور مشکل کشا بنا رکھے ہیں۔ روزِ محشر جب مشکل حالات درپیش ہوں گے تو ان کے سارے مزعومہ معبود اور خدا بے کار ثابت ہوں گے۔ ابھی ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ یہ غیر اللہ کو اپنا معبود سمجھتے ہیں جب کہ یہ ان کے ذرہ بھر بھی کام نہ آسکیں گے۔ ان کے لیے جہنم کی مہمانی تیار ہوگی۔
*سب ٹھاٹھ پڑا رِہ جائے گا*
آیت نمبر 103۔ اس کے بعد خسارہ اور نفع مند طبقات کا بیان فرمایا کہ سب سے زیادہ خسارے میں وہ لوگ ہوں گے جن کی تمام محنت وکاوِش دنیا کی زندگی میں ہی ضائع ہو گئی اور وہ سمجھتے رہے کہ دولت،شہرت،منصب اور ڈگریوں کے بل بوتے پر وہ کامیاب ہیں۔ یہ تو آخرت میں معلوم ہوگا کہ یہ ساری کاوشیں برباد ہو گئیں۔ اصحابِ اقتدار کو بھی ان آیات کی روشنی میں اپنی آخرت کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اپنے فیصلوں میں آخرت کو ضرور مدِ نظر رکھنا چاہیے۔ ان شاء اللہ اس فتنے سے بچ جائیں گے۔
*رحمت ِخداوندی سے محروم لوگ*
آیت نمبر 105- یہ لوگ کفار ہوں گے۔ ان کے اعمال کارتی برابر بھی وزن نہ ہوگا۔ اعمال کے ترازو میں ان کے اعمال بے وزن ہوں گے، کیونکہ اعمال میں وزن تبھی آئے گا جب ایمان ہوگا۔ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔
*اللہ کے مہمان*
دوسری طرف جو اہلِ ایمان ہوں گے،ان کی محنت وکاوش اور اعمالِ صالحہ انہیں نفع دیں گی اور وہ کامیاب ہو کر جنت کے محلات میں ہوں گے۔
*کلماتِ خداوندی کی وسعت*
آیت نمبر 109۔ آخر میں توحیدِ خداوندی اور رِسالت ِنبوی کو بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات پر مبنی کلمات کو اگر تحریر میں لایا جائے تو اس کے لیے اگر تمام سمندروں کو سیاہی اور تمام درختوں کو کاٹ کر قلمیں بنالی جائیں تب بھی اللہ پاک کے کلمات ِکمالات ختم نہیں ہوں گے۔
*دلیلِ نبوت*
آیت نمبر 110۔ سورت کے آخر میں فرمایا: یہ سارے واقعات میری نبوت کی دلیل ہیں، میں تمہارے منہ مانگے مطالبات پورے نہیں کر سکتا کیونکہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں، تمہارا ہم جنس ہوں۔ تم بھی انسان ہو اور میں بھی انسان ہوں۔ ہاں تمہارے اور میرے درمیان نبوت اور وحی کا فرق ہے۔
*آپ کی بشریت کا مطلب*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا یہ معنی ہرگز نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عام انسانوں کی طرح مقام ومرتبہ رکھتے ہیں، حاشا وکلا ! ہرگز نہیں، عام انسانوں اور آپ میں فرق یُوحَیٰ اِلَیَّ سے کر دیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں میں سے انسان ہیں لیکن شرف وکمال اور فرقِ مراتب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کے حقیقی مصداق ہیں۔ اس کو یوں سمجھا جائے کہ:
*محمد بشر لا کالبشر
کالیاقوت حجر لا کالحجر*
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ توحیدِ خداوندی اور آخرت کی تیاری ہے۔ لہٰذا سبھی لوگ نیک اعمال کریں اور شرک سے اجتناب کریں۔ یہی اس پوری سورت کا جوہر ہے۔
*سورت کا اِجمالی درس*
سورة الکہف سے درج ذیل امور مستفاد ہوئے:- ایمان کو لاحق بیشمار خطرات میں سے چند خطرات کا تذکرہ کر کے ان سے حفاظت کا علاج تجویز فرمایا گیا ہے۔ اصحابِ کہف کے واقعہ کے ضمن میں ایمان پر اِستقامت اور اس کی برکات بیان کی گئی ہیں۔ دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی بقاء کا بیان کیا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ بیان کرکے یہ سبق دیا گیا کہ اگر علم حاصل ہو جائے تو فطرت میں عاجزی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور علم کی مزید سے مزید تر تلاش وجستجو کی کوشش کی جائے۔ حضرت ذوالقرنین کے دنیوی اسفار اور ان کی خدا ترسی کو بیان کیا گیا ہے۔
آخری رکوع میں بتایا گیا ہے کہ ایک خدا کے پجاری بنو، جس کی عبادت اصحابِ کہف نے کی تھی، جس کی عبادت کی طرف اصحاب ِکہف نے بلایا تھا، اگر اللہ سے ملاقات پر یقین ہے تو نیک اعمال کر کے اس سے ملاقات کرنے جاؤ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان لاؤ، اللہ کو خوش کر کے اس سے ملنے جاؤ اور شرک کرکے نہ جاؤ۔
*تمت سورة الکہفِ بعون اللہ سبحانہ وتعالیٰ*
❤️
7