꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
June 16, 2025 at 04:14 AM
*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم* *قسط۳* *وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری* *خانقاہ کا مطلب* اس بنا پر میرے دوستو ! اس بیان کی بھی ضرورت ہے ، اسلئے کہ خانقاہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان مسائل کو نہ بیان کیا جائے ، خانقاہ تو اصل وہی ہے جہاں مسائل بھی بیان کئے جائیں اور ان پر عمل بھی کرایا جائے ، حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رح کی خانقاہ میں کوئی جاتا اور اپنے طور پر ذکر کا کوئی وظیفہ شروع کر دیتاتو فرماتے تم سے کس نے کہا تھا وظیفہ پڑھنے کو ابھی تم کو اس کی ضرورت نہیں ہے اسلئے ابھی تم قرآن شریف کی قرآت درست کرو تجوید سیکھو ، نماز ، روزہ کے مسائل سیکھو ، مسائل اگر معلوم نہیں ہوں گے تو نماز کیسے صحیح ہوگی ، اگر سجدہ سہو واجب ہے اور آپ نے سجدہ نہیں کیا تو بتلایئے کہ نماز ناقص ہوگی کہ نہیں ؟ پس جس مقصد کیلئے آئے ہو وہی ناقص ! تو پھر آنے سے کیا فائدہ ؟ ارکان اسلام کے مقابلہ میں ہمارے وظائف کا کوئی درجہ نہیں لہذا مسائل جاننے کی بھی بہت ضرورت ہے ، علماء کو بھی جاننا ضروری ہے اور عوام کو بھی ، جب علماء مسائل نہیں جانیں گے ، عوام نہیں جانے گی تو شریعت مقدسہ کیسے باقی رہے گی ؟ ہماری نماز اور روزے کیسے درست ہوں گے ؟ زکوۃ اور حج کس طرح ادا کریں گے ؟ پس جب یہ ارکان ہی صحیح طور سے ادا نہیں ہوں گے تو ان وظائف کو لے کر کیا کریں گے ؟ ارکان اسلام کو چھوڑ کر وظائف کا کوئی درجہ باقی نہیں رہتا ، حدیث نبوی میں آیا ہے : *ما تقرب الى عبدي بشيء أحب إلى ما افترضته عليه ولا يزال عبدي يتقرب الي بالنوافل حتى احبه* ( بخاری ) میرا کوئی بندہ کسی چیز سے بھی میرا تقرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے ان فرائض سے زیادہ پسند ید ہ ہو جو میں نے بندہ پر فرض کیا ہے ، اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں ۔ مثلا کسی کی چھ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے اور وہ ان چھ گھنٹوں کے علاوہ خارج اوقات میں بھی کام کرتا ہے تو اس کو اصل تنخواہ پر زیادہ کام کرنے کی مزید اجرت ملے گی اور اگر اپنا لازمی کام انجام نہیں دیتا صرف خارج میں کچھ کام کر لیتا ہے تو اس سے اصل کام کی بھی شاید تنخواہ نہ ملے گی ۔ اسی طرح پہلے پانچ اوقات کی نماز پڑھنا پڑے گی اس کے بعد دیگر نوافل اگر پڑھتے ہیں وہ قابل قبول ہیں ور نہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ، اس طرح پہلے زکوۃ فرض ادا کرنی پڑے گی پھر نفلی صدقات قابل قبول ہوں گے ، اسی طرح ہر فرض میں یہی ترتیب رہے گی کہ اصل فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل کی ادائیگی کا اعتبار ہے جبھی قرب نوافل سے سرفراز ہو گے ورنہ نہیں ، قرب فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا قرب بھی ضروری ہے یہ دونوں مل کر ہی نور على نور اور سرورعلی سرور ہو گا ۔ اور اسی سے ولایت خاصہ کا مقام حاصل ہوگا ، اس کے متعلق حدیث قدسی میں آیا ہے : ” فكنت سمعه الذي يسمع به و بصره الذي يبصر به و يده التي يبطش بها و رجله التي يمشي بها ‘ ‘[ مشکوة : ۱۹۷ ]میں اس کا کان ہو جاؤں گا جس سے وہ سنتا ہے ، اور میں اس کی آنکھ ہو جاؤں گا جس سے وہ دیکھتا ہے ، میں اس کا ہاتھ ہو جاؤں گا جس سے وہ پکڑتا ہے ، میں اس کا پیر ہو جاؤں گا جس سے وہ چلتا ہے ۔ *ایک مثال سے وضاحت* حضرت مولانا اسماعیل شہید صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اس زمانہ میں لوگ فرائض کی ادائیگی کو حاکم وقت کا بیگار سمجھتے ہیں ، یعنی یہ حاکم وقت کا جبری کا م ہے ، پس جب فرائض کے ساتھ آپ کو بدظنی ہے فرائض کے ساتھ آپ کو اعتقاد نہیں ہے ، فرائض سے آپ کو دلچسپی نہیں ہے تو ایسے ہی ہے کہ کسی در بار میں گئے اور اس کے دربان سے دوستی کر لیا اور اس کو کافی سمجھ لیا تو کیا اس سے بھی بادشاہ کے دربار تک رسائی ہوسکتی ہے ؟ وہ ملازم ہے بے چارہ کیا کرے گا ، در بان آپ کو بھلا کہاں پہنچائے گا ، اسلئے کہ دربان بادشاہ تک آپ کو پہنچا نے ہی کیلئے ہے مگر جب آپ نے در بان سے اتنی دوستی کر لی کہ اسی کی چائے پیتے پیتے صبح کر دی ، اسی کی ملا قات کو کافی سمجھ لیا تو آپ بادشاه تک کیسے پہنچیں گے ؟ در بان سے دوستی تو صرف اس لئے ہوتی ہے کہ وہ بادشاہ تک پہنچا دے اور جب اس کی دوستی اتنی حد تک پہنچ گئی ہے کہ بادشاہ ہی کو آپ بھول گئے تو بادشاہ کہے گا اس نالائق کو نکال دو ، آیا تھا ہماری ملاقات کیلئے اور در بان کی دوستی پر اکتفاء کر لیا بلکہ ممکن ہے اس کے ساتھ ساتھ در بان کو بھی نکال دیا جائے ، اسلئے کہ ہمارے پاس آنے والوں کو ہم تک رسائی میں روڑا بن رہا ہے ۔ اسی طریقہ سے میرے دوستو بزرگو ! فرائض کو چھوڑ کر نوافل میں لگنا ایسا ہی ہے جیسے در بان سےتعلق پیدا کر کے بادشاہ کے تعلق سے بے نیازی اختیار کرنا ۔ العیاذ باللہ تعالی 📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*
❤️ 1

Comments