꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
June 19, 2025 at 04:35 AM
*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم* *قسط۶* *وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری* حضرت سیدنا موسی علیہ السلام کی دعا دیکھئے ! حضرت سیدنا موسی علیہ السلام فرعون کی طرف جارہے ہیں ، بھیجنے والے اللہ تعالی ہیں ، اللہ ہی کے حکم سے جارہے ہیں ، اور پھر اللہ کی طرف سے معجزات بھی ساتھ لے جارہے ہیں ، آپ کے ہاتھ میں عصا ہے جو اژدہا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے ، اور دوسرا معجزہ ید بیضا ہے یعنی ہاتھ گریبان میں ڈال کر نکالئے تو نہایت روشن سفید چمکتا ہوا نکلتا تھا ۔ ہر چیز سے مرصع ہیں لیکن حضرت موسی علیہ السلام کو اس پر ذرا بھی ناز نہیں ہوا غرور نہیں آیا کہ ہم کو اللہ نے معجزات سے نوازا ہے ہم کو کسی چیز کی کیا ضرورت ہے بلکہ جب فرعون کے یہاں جانے لگے تو کہا کہ اے اللہ ! یہ سب معجزات اپنی جگہ پر ہیں لیکن میری آپ سے یہی گذارش ہے کہ میرے سینے کو کھول دیجئے : رب اشرح لی صدری ويسر لي أمري [ سورة طه : ۲۵ ] اے میرے رب ! میرے سینہ کو کھول دیجئے اور میرے ہر معاملہ کو آسان فرمائیے ۔ یہ عصا اسی وقت کام آسکتی ہے جب کہ آپ چاہیں گے ورنہ تو ہم عصا کو پٹکتے رہ جائیں گے اور وہ اژدہ نہیں بنے گی ، وہ بھی اللہ کی تائید ہی سے اژدہا بنتی ہے ، آپ فرعون جیسے جابر و ظالم کے پاس مجھے بھیچ رہے ہیں ، معجزات سے آپ نے نوازا ہے ، عجیب و غریب معجزات سے مشرف فرمایا ہے ۔ تاہم میرے سینے کو میرے لئے علم اور حلم سے کھول دیجئے علم بھی دیجئے اورحلم بھی دیجئے علم اسلئے کہ اس کی روشنی میں اس کو دین و ایمان کی دعوت دوں اور حلم اسلئے کہ اگر وہ فرعون سخت کلامی کرے ، سخت معاملہ کرے تو میں اس کو برداشت کرسکوں ، پس دونوں ہی کی ضرورت ہے ۔ *شرح صدر کا مطلب* اس وجہ سے شرح صدر کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ نے بیان القرآن میں لکھا ہے کہ علم بھی وسیع عطا فرمایا اور تبلیغ دین میں مخالفین کی مزاحمت سے ایذا پیش آتا ہے، اس میں تحمل اور حلم بھی دیا تا کہ اپنے کلام میں مزے کے ساتھ مخالفین کونصیحت کرسکیں ۔ علم کے ساتھ حلم کا ہونا ضروری ہے بہت سے لوگ تند مزاج ہوتے ہیں ، ان کے پاس علم تو ہوتا ہے لیکن حلم سے عاری ہوتے ہیں اسلئے اگر وہ کسی کے سامنے صحیح بات رکھیں اور صحیح مقصد کی طرف دعوت بھی دیں لیکن اگر مخاطب بھی تندخو ہو اور اس کی بات نہ مانے بلکہ سخت کلامی کرے تو ایسا شخص برداشت کرسکتا ہے ؟ بلکہ وہ خود اس سے گر جائیگا پھر کسی کی کیسے اصلاح ہوگی ، اسلئے داعی کو حلم کا اختیار کرنا بہت ضروری ہے ۔ مخاطب تو بگڑا ہوا ہے ہی ، اس کیلئے نرمی کی ضرورت ہے ، اسلئے کہ وہ شریعت کو سخت سمجھ کر شریعت سے بھاگ رہا ہے ، لہذا ایسے موقع پر نرمی سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ تو شریعت کو سخت و کڑوا سمجھ کر دین سے دور ہورہا ہے اس لئے تم کو اپنے کلام میں نرمی اور شیرینی ملا کر دین کو پیش کرنا ہوگا ، ورنہ تو کریلا نیم چڑھا کا مصداق ہو جائیگا ، یعنی ایک تو دین کی کلفت و تلخی پھر تمہارے کلام کی تلخی و سختی ، اس طرح دو تلخی و سختی جمع ہو جائیں گے جس سے مزید دوری ہو جائیگی ، اس کو خوب سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں ، ابھی دیکھئے بیان میں آنے سے قبل موسمبی کا رس پینا چاہا تو وہ ترش معلوم ہوا ، میں نے کہا کہ بھائی یہ تو ترش ہے اور اس میں گل قند ملا دیا جس کی وجہ سے میٹھا ہو گیا ، کتنا خوش گوار ہو گیا اس کے بعد پی لیا ، اسی طریقہ سے کڑوی چیز میں جب شیرینی مل جاتی ہے تو وہ کڑوا پن غائب ہو جاتا ہے ، بچوں کے پیٹ میں کیڑے ہوجاتے ہیں تو اس کیلئے جو دوا دی جاتی ہے وہ نہایت کڑوی ہوتی ہے اسلئے اسے بتاشہ میں رکھ کر دیتے ہیں تا کہ اسکی کڑواہٹ بچے کو محسوس نہ ہو بلکہ وہ میٹھا معلوم ہو اور باآسانی پی لے ، تو کڑوے کے ساتھ ہمیں میٹھا بننا پڑے گا تب جا کر اصلاح ہوگی ۔ ایک مصری عالم علامہ سید علی محفوظ رح “صاحب ابداع “اپنی تصنیف ہدایة المرشدين میں لکھتے ہیں کہ کلفت شریعت کی بناپرلوگ شریعت سے بھاگتے ہیں اگرتم نے اس کے اندر اپنی کلفت کو بھی ملا دیا تو لوگ اور زیادہ بھاگیں گے ، اس بنا پر کلفت کوشرینی سے لذیذ بنادو اور پھر لوگوں کو اپنے قریب کر لواس کے بعدان کے سامنے ٹھنڈے دل سے نرمی سے دین کو پیش کرو ، انشاء الله لوگ ضرور قبول کریں گے ۔ والله الموفق 📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*
❤️ 😃 2

Comments