
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
June 20, 2025 at 04:33 AM
*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم*
*قسط۷*
*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*
*دعاء موسی علیہ اسلام میں دعوت کی پوری تعلیم موجود ہے*
میرے دوستو ! غور کرو کہ حضرت موسی علیہ السلام دعا فرمارہے ہیں “رب اشرح لى صدري ويسر لی امری “ اے اللہ ! میرے سینے کو علم سے بھی کھول دیجئے اور حلم سے بھی کھول دیجئے ، اور اس کے ساتھ ساتھ میرے امر کو آسان کر دیجئے علم بھی ہو اورحلم بھی لیکن اگر آسان نہیں ہوگا تو ہوسکتا ہے کہ دشواری کی وجہ سے ملول ہو جائیں ۔ سبحان اللہ کتنی مرتب دعا ہے دعوت کی پوری تعلیم اس کے اندر موجود ہے فرعون کے پاس جارہے ہیں ، وہ ظالم و جابر ہے ، سب کچھ کر سکتا ہے لیکن اللہ کے بھروسہ پر علم وحلم سے مسلح ہو کر فریضۂ دعوت کو انجام دینے کیلئے چل پڑے ۔ اس سے پہلے کا واقعہ سن چکے ہیں کہ ان کی والدہ ماجدہ نے ان کو اللہ کے بھروسہ پر صندوق میں ڈال کر دریا میں ڈال دیا جس کی وجہ سے وہ فرعون کے دربار تک پہنچ گئے ، اور پوری پرورش بھی وہیں ہوئی ، یہ اللہ کی شان حکمت ہے کہ کیسے موسی علیہ السلام کو فرعون کے دربار میں پہنچایا ، اس کا قصہ قرآن کریم میں مذکور ہے ، چنانچ فرعون کے ذہن میں یہ سب باتیں تھیں اسی لئے وہ کہتا بھی تھا کہ وہ شخص جس کی میں نے محل میں پرورش کی آج وہ میرے سامنے اس طرح کلام کر رہا ہے ۔
لیکن موسی علیہ السلام اللہ تعالی کی طرف سے بول رہے تھے ، ان کو کیا خوف و ہراس ہوتا ، اللہ تعالی کی طرف سے قوت حاصل تھی فرعون کیا کرسکتا تھا ۔ میرے دوستو ! موسی علیہ السلام کی یہ دعا دعوت کے باب میں بہت ہی جامع ہے ، اس دعا کے دو جز تو آپ نے سن لیا کہ شرح صدر اور تیسیرامرکی التجاء کی ۔ یعنی سینہ کی کشادہ ہونے اور معاملہ کی آسانی کیلئے دعا فرمائی ۔ پھر تیسری دعایہ کی “ واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولی" ( سورة طه: ٤٥ ) دعوت کیلئے زبان کی فصاحت کی بھی ضرورت پڑتی ہے ، اسلئے کہ اپنے مافی الضمیر کو آدمی اچھی طرح ادا کر لیتا ہے ، یہ بھی سیکھنے کی چیز ہے ، اس لئے موسی علیہ السلام نے زبان کی درستگی کیلئے دعا کی ۔ الله تعالی نے بھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو حکم دیا کہ آپ مؤثر کلام کیا کیجئے ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ( فاعرض عنهم و عظهم و قل لهم قولا بليغا[ سورۂ نساء : ۶۳]
یعنی اے نبی پاک ! آپ ان لوگوں سے تغافل کیجئے اور ان کو نصیحت فرماتے رہئے اور ان سے ایسی باتیں کہئے جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں ۔ اور مؤثر کلام اسی وقت ہوگا جب کہ اس کے اندر خلوص اورصدق کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت ہو ۔
*ایسے وعظ اور بیان سے کیا فائدہ !*
سنئے دعوت وتبلیغ کے کام میں تاثیر کی ضرورت پڑتی ہے پہلے خود آپ اپنے قلب میں اثر پیدا کر لیجئے ، اپنے الفاظ میں اثر پیدا کر لیجئے ، دیکھئے پھر لوگ آپ کے وعظوں سے متاثر ہوتے ہیں یا نہیں ، ظاہر بات ہے کہ اس کیلئے زبان کی درستگی کی بھی ضرورت ہے ، تا کہ ہماری بات کو لوگ سمجھ سکیں ، یہ نہیں کہ واعظ تین تین گھنٹہ بولتا چلا جائے اس کے بعد سامعین یہ کہنے لگیں کہ معلوم نہیں مولوی صاحب نے کیا کہا سمجھ میں نہیں آیا ، ان کا بولنا اچھا تو لگ رہا تھا ، مگر مقصد کچھ نہیں سمجھ میں آیا کہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ پس ایسی بات کہنا چاہئے کہ لوگ سمجھ لیں ، بس زور شور سے اشعار پڑھ لئے اور قوالی کے طرز پر کچھ بیان کر ڈالا تو اس سے کیا فائدہ ، ایسے وعظ سے کیا فائدہ اور ایسے بیان سے کیا فائدہ ؟ الله تعالی ہم سب لوگوں کو کام کی باتیں بیان کرنے کی توفیق دیں اور لوگوں کو اثر قبول کرنے کی توفیق دیں ۔ آمین
*اضاعت صلوۃ کا مطلب*
بہر حال میں آپ لوگوں کے سامنے یہ بیان کررہا تھا کہ اللہ تعالی نے صالحین کے بعد آنے والوں کی بد عملی و بدکرداری ظاہر کرنے کیلئے اضاعت صلوۃ کو سب سے پہلے ذکر کیا ، اور اضاعت صلوة کی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ نماز کو بالکل ترک کردیا جائے ، ایک صورت یہ ہے کہ نماز کو تاخیر سے پڑھا جائے ، ایک صورت یہ بھی ہے کہ نماز کو سنت کے خلاف پڑھا جائے ، ایک صورت یہ بھی ہے کہ نماز کو بے وقت پڑھا جائے ، یہ سب اضاعت صلوة کے اندر داخل ہیں ، اضاعت صلوة کا سب سے اعلی درجہ تو یہ ہے کہ نماز کو ترک کرے ، دوسرا درجہ یہ ہے کہ سنت کے مطابق نہ پڑھے ، واجبات تک کو ترک کر دے ، تو اس کیلئے علم کی ضرورت ہے تا کہ نماز کی اضاعت نہ ہونے پائے ، نماز کی بربادی نہ ہونے پائے ، آپ نے وقت بھی خرچ کیا اور معلوم ہوا کہ کچھ بھی ہاتھ نہ آیا ، بلکہ اضاعت صلوة کی صورت اختیار کی ۔ العیاذ بالله تعالی
📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*
❤️
❤
👍
4