
꧁✰٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد✰꧂
June 21, 2025 at 02:24 AM
*شیخ طریقت عارف بالله حضرت مولانا شاه محمد قمر الزمان صاحب الہ آبادی دامت برکاتہم*
*قسط۸*
*وعظ:نائبین انبیاء کی ذمہ داری*
*اتباع شہوات*
ناخلفی کا دوسرا سبب صالحین کے بعد آنے والی جماعت کی ناخلفی ظاہر کرنے کیلئے سب سے پہلے تو اللہ تعالی نے اضاعت صلوۃ کو ذکر کیا اور پھر اس کے بعد فرمایا “واتبعوا الشهوات” انہوں نے شہوات کا اتباع کیا ، نماز کی اضاعت میں شہوات کی اتباع ضرور ہے بلکہ اس کا ہی ایک شعبہ ہے اس کے برعکس اگر کوئی خاص اضاعت صلوۃ کے بجائے اقامت صلوة کرتا ہے تو بہت سی شہوات سے محفوظ ہو جائیگا ، اس کی اتباع کا اس کو موقع ہی نہ ملے گا ۔ چنانچہ ہمارے ایک دوست عبدالشکور جاوید جو ڈبل ایم اے تھے وہ کہ رہے تھے کہ نماز کے اوقات اللہ نے ایسے مقررفرمائے ہیں کہ اگر کوئی پابندی سے اپنے اوقات مسنونہ میں نماز ادا کرے تو پھر وہ سینما دیکھ ہی نہیں سکتا ، کیونکہ دن بھر کے جو اوقات سینما کے ہیں ان اوقات میں ہی نمازیں پڑھنی پڑھتی ہیں ، اور رات کو سینما دیکھ کر دیر سے آؤ تو پھر فجر کی نماز کا مسئلہ ہو جاتا ہے ۔ اسلئے نمازی سونے میں جلدی کریگا ۔ اور یہ ٹی وی والوں نے بھی ایسے ہی اوقات رکھے ہیں کہ آدمی نماز ہی نہ پڑھ پائے ، جب رات کو دو بجے تک ٹی وی دیکھیں گے اور غلط قسم کی چیزیں دیکھیں گے تو وہ خود شہوات میں مبتلا ہو جائیں گے ، وہ کیا نماز پڑھیں گے ۔
*ایک تجربہ کی بات*
جب میں پہلی دفعہ حج کرنے گیا تو حج سے فارغ ہوکر جدہ اپنے ایک رشتہ دار کے یہاں چلا گیا ، ان کے یہاں ٹی وی تھا ، اور رات دیر تک وہ لوگ دیکھتے رہتے تھے جس کی وجہ سے یہ آٹھ نو بجے تک سوتے رہتے تھے ، اب مجھے نماز فجر کا مسئلہ پیش آیا گھر کا دروازہ بند ر ہتا تھا اسلئے کیسے نماز فجر ادا کروں ، خیر پہلے دوسرے دن تو فجر کی نماز گھر میں پڑھ لی مگر میں نے سوچا کہ حج میں جو کچھ حاصل کیا ہے سب یہیں ضائع ہو جائیگا لہذا میں بیت الحجاج میں چلا آیا ۔ دوران قیام ایک مرتبہ صاحب خانہ مجھے اندر سے بلانے آئے کہ مولانا جلدی آئیے حضرت بلال رض کی تصویر آرہی ہے ، میں نے کہا کیا حقیقتا حضرت بلال رض کی تصویر ہے ؟ انہوں کہا کہ نہیں فرضی ہے ، میں نے کہا اگر اصلی تصویر بھی ہوتی تب بھی مجھے دیکھنے میں تکلف ہوتا نہ کہ فرضی کو ۔
*اس سے کیا فائدہ ؟*
میرے دوستو بزرگو ! ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں ایسی چیزیں بتلائیں کہ نماز کا موقع ہی نہ ملے عشاء کی نماز کے بعد آپ کہیں چلے جایئے لوگ تلاوت کیا کریں گے ، سورۂ یٰسین کیا پڑھیں گے ، خواص کے یہاں بھی ٹی وی چلتی رہتی ہے ، اب بہانہ بنا لیا ہے کہ ہم بی بی سی دیکھ اور سن رہے ہیں ، چنانچہ ایک مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ مولانا افغانستان کے حملہ کے موقع پر ہم عشاء کی سنت وغیرہ چھوڑ کر بی بی سی سننے کیلئے گھر چلے جاتے ہیں ، ہم نے کہا اس سے کیا فائدہ ؟ اتنے دنوں سے آپ دیکھ رہے ہیں آپ کو کیا فائدہ ہوا ؟ ار ے اتنی دیر تک دعا کرتے تو ایک بات بھی تھی ، یہ حملے اور ایٹم بم برسانے کے منظر دیکھ کر کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ، بس اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ الله تعالی مسلمانوں کی نصرت و مدد فرمائیں ، “ان تنصروا الله ينصر کم” اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ۔ تو تم مصیبت زدہ لوگوں کی دعا سے مدد کر سکتے ہو ، ہم اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا تو کر سکتے ہیں ، اب دعا تو ایک طرف رہی سنت وغیرہ چھوڑ کر ریڈیو سننے کیلئے بھاگ رہے ہیں ، اگر چہ بعد میں پڑھ لیتے ہوں گے مگر اس کو مؤخر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، اس سے اپنے کویا دوسروں کو کیا فائدہ ہوگا ۔ جب تک سر پر ڈنڈ انہیں پڑتا احساس نہیں ہوتا حدیث میں آتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ترى المومنين في تراحمهم و توادهم وتعاطفهم كمثل الجسد اذا اشتکی عضو تداعى له سائر الجسد بالسهر والحمی “ ( مشکوۃ : ۴۲۲) اس سے معلوم ہوا کہ اگر مشرق کے مسلمان کو کوئی اذیت پہنچے تو مغرب کے مسلمان کو دردمند ہونا چاہئے ، آج اس کا کچھ احساس نہیں ہے ، ہنس ہنس کے سنتے اور دیکھتے ہیں ، ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ہمارا ایک بھائی تکلیف میں ہے ، اپنے اوپر جب تک کوئی چیز نہیں پڑتی احساس بھی نہیں ہوتا ہے بے حسی کے یہ حالات ہیں کہ دوسروں پر آفت و بلا دیکھ کر سن کر دل میں رنج و غم بھی نہیں ہوتا ، بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ کہیں اللہ تعالی کی طرف سے یہ عذاب تو نہیں ہے ، اللہ کی طرف سے پکڑ تو نہیں ہے ، زجر و توبیخ تو نہیں ہے ، اپنے حالات اور معاملات کو درست کرنے کی سعی کرنی چاہئے اور توبہ استغفار کو لازم پکڑنا چاہئے اس لئے کہ عذاب الہی سے بچنے کی یہی سبیل ہے ۔ اعاذنا اللہ تعالی
آج بھی عذاب ٹل سکتا ہے ؟ حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ سے آپ لوگ واقف ہوں گے کہ ان کی قوم پر عذاب آچکا تھا ، اور حضرت یونس علیہ السلام اپنی قوم کو چھوڑ کر ہجرت فرما چکے ، اس کے بعد قوم کے لوگوں کو اپنے گناہوں کا احساس ہوا ، آثار عذاب دیکھ کر فورا اللہ تعالی کی طرف رجوع ہوئے بلکہ جن نا جائز کاموں میں مصروف تھے اولا ان کو ترک کر دیا یہاں تک کہ ان کے گھروں میں نا جائز مال کی جو کڑیاں لگی ہوئی تھیں وہ تک نکال پھیکیں اور سچے دل سے تائب ہو گئے ، اور ان کی یہ کیفیت دیکھ کر الله تعالی کو رحم آگیا اور ان سے عذاب کو پھیر دیا کوئی امت ایسی نہیں گذری یا کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس کی امت پر عذاب آچکا ہو اور پھر اس سے عذاب ہٹالیا گیا ہو سوائے حضرت یونس علیہ السلام کے ۔ اسی طریقہ سے میرے دوستو ! آج بھی امت محمدیہ علیہ السلام سے عذاب ٹل سکتا ہے بشرطیکہ ہم کو اپنی اصلاح کی فکر ہو صحیح معنوں میں تو بہ واستغفار کا اہتمام ہو ۔ والله الموفق
📚 *🕌﴿☆٘عُلَمـٰـاءٕهِــنْـد☆﴾🕌*