Mufti Mubeen Ur Rahman
Mufti Mubeen Ur Rahman
May 29, 2025 at 06:27 AM
‼️ *تحقیقِ حدیث: وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر وعید!* ▪حدیث: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس کے پاس وسعت ہو اور وہ اس کے باوجود بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔‘‘ ☀ سنن ابن ماجہ میں ہے: 3123- عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلا يَقْربَنَّ مُصَلَّانَا». ⬅️ مذکورہ روایت مختلف الفاظ کے ساتھ متعدد کتبِ احادیث میں مروی ہے جیسے: السنن الصغریٰ للبیہقی، السنن الکبریٰ للبیہقی، شعب الایمان للبیہقی، مسند احمد، سنن الدارقطنی اور مستدرک حاکم وغیرہ۔ 📿 *تحقیقِ حدیث:* مذکورہ حدیث متعدد جلیل القدر محدثین کرام کے نزدیک معتبر اور قابلِ قبول ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں: 1⃣ امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’مستدرک حاکم‘‘ میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے یعنی ان کے نزدیک بھی صحیح ہے: 7565- أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ الرَّازِيُّ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ عَيَّاشٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ كَانَ لَهُ مَالٌ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَانَا». وَقَالَ مَرَّةً: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يَذْبَحْ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَانَا». هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ. تعليق الذهبي في «التلخيص»: صحيح. 2️⃣ امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری‘‘ میں اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اس کے مرفوع اور موقوف ہونے میں اختلاف ہے، درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے: وَأَقْرَبُ مَا يُتَمَسَّكُ بِهِ لِلْوُجُوبِ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يقربن مصلانا»، أخرجه بن مَاجَهْ وَأَحْمَدُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، لَكِنِ اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ وَوَقْفِهِ، وَالْمَوْقُوفُ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ، قَالَهُ الطَّحَاوِيُّ وَغَيْرُهُ. (كتاب الأضاحي) 3⃣ امام عبد الرؤف مناوی رحمہ اللہ نے ’’فیض القدیر‘‘ میں امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی موافقت کی ہے: قال أحمد: يكره أو يحرم تركها؛ لخبر أحمد وابن ماجه: «من وجد سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا» (طب عن ابن عباس) قال ابن حجر: رجاله ثقات، لكن في رفعه خلف. (حرف الهمزة) ⬅️ اسی طرح اپنی ایک اور کتاب ’’التیسیر بشرح الجامع الصغیر‘‘ میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے: (من كان له سعة ولم يضح فلا يقر بن مصلانا) أخذ بظاهره أبو حنيفة فأوجبها على من ملك نصابا، وقال البقية: سنة. (ه ك عن أبي هريرة) وإسناده صحيح. (حرف الميم) 4️⃣ امام شہاب الدین احمد قسطلانی رحمہ اللہ نے ’’ارشاد الساری‘‘ میں امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی یہی بات نقل فرمائی ہے جو کہ موافقت کی علامت ہے: قال ابن حجر: وأقرب ما يتمسك به للوجوب حديث أبي هريرة رفعه: «من وجد سعة فلم يضحّ فلا يعبرنّ مصلانا» أخرجه ابن ماجه، ورجاله ثقات، لكنه اختلف في رفعه ووقفه، والموقوف أشبه بالصواب، قاله الطحاوي وغيره. (كتاب الأضاحي) 5️⃣ امام محدث عینی رحمہ اللہ نے ’’عمدۃ القاری‘‘ میں امام حاکم کے حوالے سے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے: ووجه الوجوب ما رواه ابن ماجه عن عبد الرحمن الأعرج عن أبي هريرة قال: قال رسول الله ﷺ: «من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا»، وأخرجه الحاكم وقال: صحيح الإسناد. (كتاب الأضاحي) 6️⃣ امام محمد بن عبد الباقی زرقانی رحمہ اللہ نے بھی ’’شرح الزرقانی علی الموطأ‘‘ میں اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اس کے مرفوع اور موقوف ہونے میں اختلاف ہے، درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے: وَأَقْرَبُ مَا يُتَمَسَّكُ بِهِ لِلْوُجُوبِ الَّذِي ذَهَبَ إِلَيْهِ الْحَنَفِيَّةُ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَفَعَهُ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، لَكِنِ اخْتُلِفَ فِي رَفْعِهِ وَوَقْفِهِ، وَالْوَقْفُ أَشْبَهُ بِالصَّوَابِ، قَالَهُ الطَّحَاوِيُّ وَغَيْرُهُ. (بَاب الضَّحِيَّةِ عَمَّا فِي بَطْنِ الْمَرْأَةِ وَذِكْرِ أَيَّامِ الْأَضْحَى) 7️⃣ علامہ شمس الدین محمد سفارینی رحمہ اللہ نے بھی ’’کشف اللثام‘‘ میں مسند احمد میں روایت کردہ اس حدیث کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ اس کے مرفوع اور موقوف ہونے میں اختلاف ہے، درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے: وأقرب ما يتمسك به للوجوب حديثُ أبي هريرة رفعه: «من وجد سَعَةً، فلم يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانا»، أخرجه الإمام أحمد، وابن ماجه، ورجالُ الإمام أحمد ثقات، لكنه اختلف في رفعه ووقفه، والموقوف أشبه بالصواب، قاله الطحاوي وغيره. (باب الأضاحي) 📿 *چند وضاحتیں:* 1⃣ ماقبل کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ متعدد جلیل القدر محدثین کرام کے نزدیک مذکورہ حدیث کے راوی ثقہ ہیں، اس لیے یہ روایت معتبر، قابلِ قبول اور قابلِ استدلال ہے۔ اسی طرح متعدد محدثین کرام اور فقہاء عظام رحمہم اللہ نے اس حدیث کو بطورِ استدلال پیش کیا ہے، یہ بھی ان کے نزدیک اس حدیث کے معتبر ہونے کی دلیل ہے۔ 2️⃣ اس حدیث کے مرفوع یا موقوف ہونے میں محدثین کرام کا اختلاف ہے، متعدد محدثین کرام نے اس کے موقوف ہونے کو درست قرار دیا ہے، جبکہ حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو محض موقوف قرار دینے کی بات درست نہیں کیوں کہ یہ مرفوع حدیث ہی کے حکم میں ہے۔ گویا کہ اول تو اگر اس کو موقوف تسلیم کرلیا جائے تب بھی محض اس بنا پر حدیث کو غیر معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ یہ کوئی جرح اور عیب نہیں، دوم یہ کہ یہ مرفوع حدیث ہی کے حکم میں ہے کیوں کہ ایسی بات قیاس واجتہاد سے نہیں کہی جاسکتی، اس لیے یہ بات صحابی نے حضور اقدس ﷺ سے سن کر ہی بیان فرمائی ہے۔ ☀ مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: وَمِمَّا يُؤَيِّدُ الْوُجُوبَ خَبَرُ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ يُضَحِّيَ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَحْضُرْ مُصَلَّانَا»، وَأَمَّا قَوْلُ ابْنِ حَجَرٍ: «إنَّهُ مَوْقُوفٌ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ» فَمَدْفُوعٌ، لِأَنَّ مِثْلَ هَذَا الْمَوْقُوفِ فِي حُكْمِ الْمَرْفُوعِ. (بَابٌ فِي الْأُضْحِيَّةِ) 3⃣ حضرات احناف اس جیسی روایات کی رو سے قربانی کو واجب قرار دیتے ہیں، چوں کہ یہ روایت معتبر ہے اس لیے اس روایت کو غیر معتبر قرار دے کر احناف کے مذہب کو غلط قرار دے دینا واضح طور پر غلط ہے، اور چوں کہ قربانی کی اہمیت اور تاکید دیگر متعدد روایات سے بھی ثابت ہوتی ہے اس لیے زیرِ نظر روایت کو غیر معتبر قرار دے کر احناف کے مذہب کو غلط قرار دینے کی آڑ میں مسلمانوں کے دلوں سے قربانی کے عمل کی اہمیت ختم کرنے کی مروجہ کوششیں بے بنیاد اور قابلِ مذمت ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے بندہ کی کتاب ’’قربانی شریعت کے مطابق کیجیے‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ 4️⃣ آجکل جو حضرات قربانی کے وجوب یا تاکید سے متعلق وارد ہونے والی تمام روایات کو غیر معتبر قرار دے کر مسلمانوں کو شکوک وشبہات میں مبتلا کرکے ان کے دلوں سے قربانی کی اہمیت ختم کرنا چاہتے ہیں، ان کی چالوں کو سمجھنا چاہیے اور ان سے دور رہنا چاہیے۔ ✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ فاضل جامعہ دار العلوم کراچی محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی 8 ذو الحجہ 1442ھ/ 19 جولائی 2021
❤️ 👍 23

Comments