
Mufti Mubeen Ur Rahman
June 10, 2025 at 03:54 AM
✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اِصلاح*❄✨
*سلسلہ نمبر 1031:*
🌻 *ماہِ ذو الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے کیسے رکھے جائیں؟*
📿 *ماہِ ذو الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے کیسے رکھے جائیں؟*
ایامِ بیض کے روزے ہر قمری یعنی اسلامی مہینے کی 13، 14 اور 15 تاریخ کو رکھے جاتے ہیں جن کی بڑی ہی فضیلت احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، جبکہ ماہِ ذو الحجہ میں 10 ذو الحجہ سے لے کر 13 ذو الحجہ تک روزے رکھنا ممنوع اور ناجائز ہے، اس لیے لوگ یہ سوال پوچھتے ہیں کہ ایسی صورت میں ماہِ ذو الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے کب رکھے جائیں؟ ذیل میں اس مسئلہ کی وضاحت کے لیے چند باتیں ذکر کی جاتی ہیں:
1️⃣ ہر قمری یعنی اسلامی مہینے میں تین روزے رکھنے کی فضیلت سے متعلق وارد ہونے والی تمام روایات کے پیشِ نظر یہ بات سامنے آتی ہے کہ قمری اور اسلامی مہینے کی کسی بھی تاریخوں میں تین روزے رکھنا بڑی ہی فضیلت کی بات ہے، چاہے ایک ساتھ رکھے جائیں یا وقفے کے ساتھ، البتہ اگر ان تین روزوں کے لیے ایامِ بیض یعنی 13، 14 اور 15 تاریخوں کا انتخاب کیا جائے تو یہ اس سے بھی زیادہ فضیلت اور اہمیت کی بات ہے کیوں کہ حضور اقدس ﷺ سے ان تاریخوں کی صراحت، تاکید اور پسندیدگی ثابت ہے، گویا کہ ایامِ بیض میں تین روزے رکھنے میں دو فضیلتیں جمع ہوجاتی ہیں: ایک تو مہینے میں تین روزے رکھنے کی فضیلت، اور دوم: ایامِ بیض کی رعایت کرنے کی فضیلت۔یہی وجہ ہے کہ متعدد حضرات فقہائے احناف نے بھی یہ صراحت فرمائی ہے کہ مہینے میں تین روزے رکھنا بھی مستحب ہے اور ان روزوں کے لیے ایامِ بیض کا انتخاب کرنا بھی مستحب ہے۔ اس لیے عام حالات میں مہینے کے تین روزوں کے لیے ایامِ بیض ہی کا انتخاب کرنا چاہیے کہ ان کی فضیلت زیادہ ہے، البتہ اگر کوئی شخص کسی وجہ سے ایامِ بیض کے ایام میں یہ تین روزے نہ رکھ سکا تو وہ دیگر تاریخوں میں مسلسل یا وقفے کے ساتھ تین روزے رکھ سکتا ہے، اس سے کم از کم مہینے میں تین روزے رکھنے کی فضیلت تو حاصل ہوہی جاتی ہے اور یہ بھی بڑی سعادت کی بات ہے۔
2️⃣ مذکورہ تفصیل کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ ماہِ ذو الحجہ میں ایامِ بیض کے روزے 13 ذو الحجہ کی بجائے 14 ذو الحجہ سے رکھے جاسکتے ہیں کہ اس میں ایامِ بیض کی دو تاریخیں تو میسر آہی جاتی ہیں، اسی طرح 10 ذو الحجہ سے 13 ذو الحجہ تک ان چار دنوں کے علاوہ ذو الحجہ کے پورے مہینے میں کسی بھی تاریخوں کو تین روزے مسلسل یا الگ الگ رکھ لیے جائیں تو بھی مہینے میں تین روزے رکھنے کی فضیلت حاصل ہوجائے گی ان شاء اللہ۔
⬅️ *فائدہ:* ایامِ بیض کے روزوں کے تفصیلی فضائل اور مسائل کے لیے بندہ کا رسالہ ’’ایامِ بیض کے روزوں کے فضائل واحکام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
📚 *عبارات*
☀ البحر الرائق:
وَالْمَنْدُوبُ صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَيَنْدُبُ فِيهَا كَوْنُهَا الْأَيَّامَ الْبِيضَ. (كتاب الصوم)
☀ حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:
قوله: (ويندب كونها الأيام البيض) أفاد أن صوم ثلاثة أيام من الشهر أيا كانت مندوب، وكونها خصوص هذه الأيام مندوب آخر، فمن صام غيرها منه أتى بأحد المندوبين.
(فصل في صفة الصوم وتقسيمه)
☀ فتح الباري لابن حجر:
(قَوْلُهُ: بَابُ صِيَامِ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ) كَذَا لِلْأَكْثَرِ، ولِلْكُشْمِيهَنِيِّ: صِيَامُ أَيَّامِ الْبِيضِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ إِلَخْ ...... قَالَ الْإِسْمَاعِيلِيّ وابن بَطَّالٍ وَغَيْرُهُمَا: لَيْسَ فِي الْحَدِيثِ الَّذِي أَوْرَدَهُ الْبُخَارِيُّ فِي هَذَا الْبَابِ مَا يُطَابِقُ التَّرْجَمَةَ؛ لِأَنَّ الْحَدِيثَ مُطْلَقٌ فِي ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَالْبِيضُ مُقَيَّدَةٌ بِمَا ذُكِرَ. وَأُجِيبَ بِأَنَّ الْبُخَارِيَّ جَرَى عَلَى عَادَتِهِ فِي الْإِيمَاءِ إِلَى مَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِ الْحَدِيثِ وَهُوَ مَا رَوَاهُ أَحْمد وَالنَّسَائِيّ وَصَححهُ ابن حِبَّانَ مِنْ طَرِيقِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ بِأَرْنَبٍ قَدْ شَوَاهَا، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَأْكُلُوا، وَأَمْسَكَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ: «مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْكُلَ؟» فَقَالَ: إِنِّي أَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ. قَالَ: «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمِ الْغُرَّ» أَيِ الْبِيضَ. وَهَذَا الْحَدِيثُ اخْتُلِفَ فِيهِ عَلَى مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ اخْتِلَافًا كَثِيرًا بَيَّنَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَفِي بَعْضِ طُرُقِهِ عِنْدَ النَّسَائِيِّ: «إِنْ كُنْتَ صَائِمًا فَصُمِ الْبِيضَ: ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ». وَجَاءَ تَقْيِيدُهَا أَيْضًا فِي حَدِيثِ قَتَادَةَ بْنِ مِلْحَانَ وَيُقَالُ: ابن مِنْهَالٍ عِنْدَ أَصْحَابِ السُّنَنِ بِلَفْظِ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ»، وَقَالَ: «هِيَ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ». وَلِلنَّسَائِيِّ مِنْ حَدِيثِ جَرِيرٍ مَرْفُوعًا: «صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ، أَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ» الْحَدِيثَ، وَإِسْنَادُهُ صَحِيحٌ. وَكَأَنَّ الْبُخَارِيَّ أَشَارَ بِالتَّرْجَمَةِ إِلَى أَنَّ وَصِيَّةَ أَبِي هُرَيْرَةَ بذلك لَا تخْتَص بِهِ، وأما ما رَوَاهُ أَصْحَاب السّنَن وَصَححهُ ابن خُزَيْمَة من حَدِيث بن مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ يَصُومُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ غُرَّةَ كُلِّ شَهْرٍ، وَمَا رَوَى أَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ مِنْ حَدِيثِ حَفْصَةَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ: الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسَ وَالِاثْنَيْنِ مِنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى، فَقَدْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا وَمَا قَبْلَهُمَا الْبَيْهَقِيُّ بِمَا أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَصُوم مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مَا يُبَالِي مِنْ أَيِّ الشَّهْرِ صَامَ. قَالَ: فَكُلُّ مَنْ رَآهُ فَعَلَ نَوْعًا ذَكَرَهُ، وَعَائِشَةُ رَأَتْ جَمِيعَ ذَلِكَ وَغَيْرَهُ فَأَطْلَقَتْ. وَالَّذِي يَظْهَرُ أَنَّ الَّذِي أَمَرَ بِهِ وَحَثَّ عَلَيْهِ وَوَصَّى بِهِ أَوْلَى مِنْ غَيْرِهِ، وَأَمَّا هُوَ فَلَعَلَّهُ كَانَ يَعْرِضُ لَهُ مَا يَشْغَلُهُ عَنْ مُرَاعَاةِ ذَلِكَ أَوْ كَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ لِبَيَانِ الْجَوَازِ، وَكُلُّ ذَلِكَ فِي حَقِّهِ أَفْضَلُ، وَتَتَرَجَّحُ الْبِيضُ بِكَوْنِهَا وَسَطَ الشَّهْرِ، وَوَسَطُ الشَّيْءِ أَعْدَلُهُ، وَلِأَنَّ الْكُسُوفَ غَالِبًا يَقَعُ فِيهَا، وَقَدْ وَرَدَ الْأَمْرُ بِمَزِيدِ الْعِبَادَةِ إِذَا وَقَعَ، فَإِذَا اتَّفَقَ الْكُسُوفُ صَادَفَ الَّذِي يَعْتَادُ صِيَامَ الْبِيضِ صَائِمًا، فَيَتَهَيَّأُ لَهُ أَنْ يَجْمَعَ بَيْنَ أَنْوَاعِ الْعِبَادَاتِ مِنَ الصِّيَامِ وَالصَّلَاةِ وَالصَّدَقَةِ، بِخِلَافِ مَنْ لَمْ يَصُمْهَا فَإِنَّهُ لَا يَتَأَتَّى لَهُ اسْتِدْرَاكُ صِيَامِهَا وَلَا عِنْدَ مَنْ يُجَوِّزُ صِيَامَ التَّطَوُّعِ بِغَيْرِ نِيَّةٍ مِنَ اللَّيْلِ إِلَّا إِنْ صَادَفَ الْكُسُوفَ مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ. وَرَجَّحَ بَعْضُهُمْ صِيَامَ الثَّلَاثَةِ فِي أَوَّلِ الشَّهْرِ؛ لِأَنَّ الْمَرْءَ لَا يَدْرِي مَا يَعْرِضُ لَهُ مِنَ الْمَوَانِعِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يَصُومُ مِنْ أَوَّلِ كُلِّ عَشْرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَهُ وَجْهٌ فِي النَّظَرِ، وَنُقِلَ ذَلِكَ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ يُوَافِقُ مَا تَقَدَّمَ فِي رِوَايَةِ النَّسَائِيِّ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو: صُمْ مِنْ كُلِّ عَشْرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا. وَرَوَى التِّرْمِذِيُّ مِنْ طَرِيقِ خَيْثَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ ﷺ كَانَ يَصُومُ مِنَ الشَّهْرِ السَّبْتَ وَالْأَحَدَ وَالِاثْنَيْنِ وَمِنَ الْآخَرِ الثُّلَاثَاءَ وَالْأَرْبِعَاءَ وَالْخَمِيسَ. وَرُوِيَ مَوْقُوفًا وَهُوَ أَشْبَهُ. وَكَأَنَّ الْغَرَضَ بِهِ أَنْ يَسْتَوْعِبَ غَالِبَ أَيَّامِ الْأُسْبُوعِ بِالصِّيَامِ. وَاخْتَارَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ أَنْ يَصُومَهَا آخِرَ الشَّهْرِ لِيَكُونَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى، وَسَيَأْتِي مَا يُؤَيِّدُهُ فِي الْكَلَامِ عَلَى حَدِيثِ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي الْأَمْرِ بِصِيَامِ سِرَارِ الشَّهْرِ. وَقَالَ الرُّويَانِيُّ: صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ مُسْتَحَبٌّ، فَإِنِ اتَّفَقَتْ أَيَّامُ الْبِيضِ كَانَ أَحَبَّ، وَفِي كَلَامِ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنَ الْعُلَمَاءِ أَيْضًا أَنَّ اسْتِحْبَابَ صِيَامِ الْبِيضِ غَيْرُ اسْتِحْبَابِ صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ.
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی
13 ذو الحجہ 1443ھ/ 13 جولائی 2022
❤️
👍
21