Noval Warld Urdu Poetry Sad Funny Mix Jokes Hd Status Urdu Stories Islamic ❤️
June 17, 2025 at 03:07 PM
*🪽💛یـار _مــن_ستمگـر🌸* *قســـط_1* *از قــلــم :: اکبـــر علـی خـان 🌸🩵* "پلیز جلدی اٹھو کلاس لگنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے ہیں " تقدیس نے مبالغہ سے کام لیا تھا تاکہ وہ جلدی اٹھ جائے کیونکہ وہ اس سے آدھے گھنٹے سے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہ بھول گئی تھی کہ اٹھاکسے رہی ہے جس نے پانچ منٹ کے لفظ پر پٹانخ سے آنکھیں کھول کر ریسٹ واچ پر نگاہ ڈالی اور پھر سے ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تھی "کمینی، چنڈال نا ہو تو" تقدیس جھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی "تم بھی کس کے پیچھے جان کھپا رہی ہو، چلو ہمیں لیٹ ہو رہا ہے " علیشہ نے تقدیس کے غصے کو کنٹرول کیا اور پھر وہ دونوں اسے بغیر بتائے اور اٹھائے مدرسہ پہنچ گئے تھے مدرسہ اور ہاسٹل اٹیچ تھا بس تھوڑا چل کر جانا پڑتا تھا "مجھے سمجھ نہیں آتا اس لڑکی کا کیا ہوگا ؟" تقدیس کلاس میں جائے تک بڑبڑا رہی تھی "وہی جو منظور خدا ہوگا " پیچھے سے آتی آواز پر تقدیس اور علیشہ نے مڑ کر دیکھا "تم۔ ۔" تقدیس نے دانت پیسا تھا "یس مائی فرینڈ ائی ایم " اس نے سر کو بڑے انداز میں کام کیا "سچی دیکھنا کسی تم سوتے ہی دوسری دنیا میں پہنچ جاؤں گی " تقدیس نے چڑ کر کہا "وہ تو ہر وقت میں رہتی ہی ہوں" وہ خواب ناک لہجے میں کہتی ہوئی کلاس میں گھس گئ تھی ٹقدیس آگے کچھ کہتی علیشہ نے اسے روک دیا تھا اور پھر جب وہ تینوں بریک فاسٹ پر ملے تو انہیں اس کی آنکھیں گلابی گلابی نظر آئیں "مجھے پورا یقین ہے کہ یہ پورا پریڈ سوتی رہی ہے " تقدیس نے اس سے گھورتے ہوئے کہا تھا "یہ پیچھے بیٹھی ہی اسی لیے ہے اور اگر یہ ہمارے ساتھ بیٹھی ہو تی تو تم اسے سونے نہیں دیتی'' علیشہ نے اسے مسکراتے ہوئے کہا تھا "اتنی سچی بات علیشہ اگر تم اس سے پہلے کرتی تو قسم لے لو تقدیس کا بھائی تم پر ضرور مر مٹتا " اس نے علیشہ کو گھورتے ہیں کہا تھا جس پر وہ دونوں کھول اٹھی تھی اس کی اس بے سروپا بات پر ان کا دل چاہا کہ اسے کچا چبا جائے اور وہ جلدی سے برگر کا آخری لقمہ منہ میں ٹھو ستی وہاں سے بھاگ لی کیوں کہ ان دونوں کا کوئی بھروسا نہیں تھا ۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔۔۔۔ "منتشاء کل اگزام ہیں اور تم سو رہی ہو ؟" اسے وقفے وقفے سے ان دونوں نے اٹھایا تھا پھر روم میٹس نے بھی اٹھایا مگر وہ ٹھس گھوڑے گدھے بیچ کر پڑی رہی پھر بنا کسی کے اٹھائے رات کے آخری پہر وہ جھومتی ہوئی اٹھ بیٹھی اور قریب ہی بیٹھی علیشہ کے ہاتھ سے کاپی چھین کر کاپی پر نظریں دوڑانے لگی اسے بمشکل آدھا گھنٹہ ہی ہوا ہوگا پڑھتے ہوئے پھر وہی کاپی ہاتھ میں لیے وہ سو گئی تھی علیشہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی تھی " سچ کہتی ہے تقدیس پتا نہیں اس سر پھری کا کیا ہوگا " اور پھر جب وہ اگزام ہال سے نکلی تو انہوں نے دیکھا کہ اس کا چہرہ چمک رہا تھا اس کا صاف مطلب تھا کہ اس کا پیپر بہت اچھا گیا تھا وہ ان کے مدرسے اور کالج کی ٹاپر تھی سب حیران ہوتے تھے کہ وہ بنا پڑھائی کئے کیسے ٹاپ پوزیشن حاصل کر لیتی تھی آج تک کسی نے اسے پراپر طریقے سے پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا تھا آج ہاسٹل میں آخری دن تھا کل سب گھر جانے والے تھے تو سب بہت خوش بھی تھے اور غمگین بھی تھے خوش اس لیے تھے کہ ہاسٹل کی قید سے آزاد ہونے والے تھے ہر وقت کی پڑھائی سے آزاد ہونے والے تھے اور غمگین اس لیے تھے کہ اچھے دوستوں سے جدا ہونے والے تھے "قسم لے لو جو مجھے تم دونوں میں سے کسی کی ذرا سی بھی یاد آئی تو۔ ۔۔" وہ بڑا سڑا سا منہ بنا کر بولی کیونکہ وہ دونوں کب سے بیٹھے اموشنل ہو رہے تھے "تم بہت پتھر دل ہو منتشاء پتہ نہیں تمہارا کیا ہوگا؟" تقدیس نے ہمیشہ کا جملہ دوہرایا "چلو آج میں تمہیں بتا ہی دیتی ہوں کہ میرا کیا ہوگا ؟، تم دونوں تو جانتی ہو، I am the princess of the dream world، پھر مجھے میرا شہزادہ عنقریب ملے گا ،جیسا کہ تمہیں مل گیا " اس نے تقدیس کو چڑایا "ساری زندگی بس خواب ہی دیکھتے رہنا تم " تقدیس نے چڑ کر کہا "اللہ نہ کرے، اتنی بری بد دعا تو نہ دو اسے " علیشہ کو بہت برا لگا تھا مگر اسے جیسے کوئی فرق ہی نہیں پڑھتا تھا جبھی رومانہ اپنی فرینڈ جویریہ کے ساتھ آتی دکھائی دی "یہ لو تمہارے دشمن بھی ٹپک پڑے" علیشہ کے کہنے پر اس نے چونک کر کوریڈور کے سرے پر دیکھا جہاں سے وہ دونوں آ رہی تھی "یہ دونوں کیوں میری دشمن ہوگی بھلا، یہ مسلمان ہیں اور کوئی بھی مسلمان میرا دشمن نہیں ہے " اس نے بڑے عالمانہ انداز میں کہا تھا "اگزامز کیسے گئے تم تینوں کے؟" رومانہ نے قریب سے گزرتے ہوئے پوچھا تھا "الحمدللہ العالمین " تینوں کے مشترکہ جواب پر وہ دونوں طنزیہ مسکراتی ہوئی آگے بڑھ گئی تھی جب ہی ہاسٹل کا بیل بجنے لگا تھا جواس بات کی نشاندہی کرتا تھا کہ اب ان سب کو پریئر ہال میں جمع ہونا ہے "ضرور استاد جی لیکچر دیے گے" اس نے منہ بنا کر کہا "شرم کرو منتشاء تم دین کی بات کو لیکچر سے مشابہت دے رہی ہو " تقدیس نے اسے چھڑکا تھا جس پر وہ خاموش رہی کچھ وہ تینوں خاموشی سے پریئر ہال میں موجود پیچھے کی کرسیوں پر جا بیٹھی تھیں "بچیوں ہمارا مقصد حیات اللہ کو یاد رکھنا ہے اللہ کے وہ بندے جو اسے بھول گئے ہیں انہیں اللہ یاد کروانا ہے ، اور جو ہمارا دشمن ہے اس کے چالوں سے خود بھی بچنا ہیں اور دوسروں کو بھی بچانا ہے " مختصر سی تعالیم سن کر جب وہ تینوں واپس اپنے روم میں آئی تو وہ تینوں خاموش تھے "کیا ہوا تم اتنی خاموش کیوں ہو ؟" تقدس نے حیران ہوتے ہوئے منتشاء سے پوچھا تھا کیونکہ منتشاءاور خاموشی کبھی ایک جگہ نہیں رہتی "سوچ رہی تھی کہ میں کہاں سے شروع کروں ؟" "کیا ؟" دونوں نے حیران ہو کر پوچھا تھا "دنیا میں تہلکہ مچانا، خاص کر اپنے دشمنوں میں" اس کے جواب پر وہ دونوں اٹھ کر اپنے کام کرنے لگی تھیں ابھی تو انہیں بہت کچھ کرنا تھا پیکنگ کرنا بھی باقی تھا اور ایک مرتبہ منتشاء کی بکواس شروع ہوتی تو رکنے کا نام نہیں لیتی تھی ۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔۔ تقدیس شام کے وقت چاۓ کامگ لے کر ٹیریس پر چلے آئی اس کا دل شدت سے اپنی دوست کو یاد کر رہا تھا جس کا بچھڑ کر یہ حال تھا جیسا کہ وہ انھیں بھول ہی گئی ہو آج ان کو ہاسٹل سے گھر پہنچے وہ تیسرا دن تھا "السلام و علیکم" وہ سیل فون کان سے لگاتے ہی سلام کی "وعلیکم اسلام، میں اچھی ہوں اس لئے پوچھنا مت کے میں کیسی ہوں ؟، اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم دونوں بھی اچھے ہو اس لئے میں بھی نہیں پوچھوں گی کہ تم دونوں کیسی ہو ؟" دوسری جانب وہ سلام کا جواب دیتے ہی شروع ہوگئی تھی "کیا کر رہی تھی؟ " تقدیس نے اس کی بکواس کو نظر انداز کرکے تحمل سے پوچھا "تمہیں کوس رہی تھی "کیوں؟ "تقدیس حیران ہوئی "ایک بات بتاؤ جب دیکھو تم سیل فون پر شروع ہو جاتی ہو چلو علیشہ کا سمجھ میں آتا ہے کہ وہ میری طرف سنگل ہے مگر تم تو۔۔۔۔ کیوں عویمر بھائی تمہیں لفٹ نہیں کرواتے؟ " ادھر سے اس نے آخری الفاظ نہایت آہستگی سے کہا جیسے وہ رازداری سے پوچھنا چاہ رہی ہو جس پر تقدیر جھلا گئی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ مزید بکواس کرتی تقدیس نے سیل فون آف کر دیا "پتہ نہیں اس کا کیا ہوگا جب دیکھو پٹانگ ہانکتی رہتی ہیں" وہ برا سا منہ بنا کر پلٹی تھی کہ ساکت رہ گئی کیونکہ منتشاء جس کے بارے میں بکواس کر رہی تھی وہ چیئر پر بیٹھا ہوا اطمینان سے اسے دیکھ رہا تھا پتہ نہیں وہ کب سے یہاں بیٹھا تھا اور پھر اس نے تقدیس کےمگ میں موجود چائے کا سیپ بھی لے رہا جو تقدیس کا جھوٹا تھا "یہ چائے کیوں پی رہے ہو تم یہ جھوٹا ہے" وہ تک آئی تھی مگ لے نے "کس سے بات کر رہی تھی؟" اس کے سوال کے ساتھ ساتھ اس نے تقدیسکے ہاتھ کو بھی نظرانداز کیا جو اس نے مگ لینے کے لیے بڑھایا تھا "کسی سے بھی تم سے مطلب؟، تم نے میری چائے کیوں پی جا کر دوسری چائے لینا تھی" اس نے خفگی سے کہا "جھوٹی چائے پینے سے محبت بڑھتی ہے " اس نےتقدیس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے بازو والے چیئر پر بٹھاتے ہوئے کہا تھا اور ساتھ ہی چائے کا مگ بھی تھما دیا اور مسکرا کر اس کو دیکھتا ہوا واپس لوٹ گیا تھا "محبت بڑھتی ہے" اس نے منہ بنا کر کہا تھا پھر کچھ دیر بعد خود بھی مگ کو اپنے لبوں سے لگا گئی تھی "تقدیس تم یہاں ہو اور میں کب سے تمہیں ڈھونڈ رھی ھوں" علیشہ ہانپتی کانپتی اوپر آئی تھی جس پر تقدیس چونک اٹھی "کیوں کیا ہوا ؟" "نیچے ٹائیگرنے ہراس پھیلا رکھا ہے" علیشا کے کہنے پر وہ سمجھ گئی تھی کہ ٹائیگر سے مراد کون ہے "مگر کیوں ؟" وہ جو آرام سے بیٹھی تھی جلدی سے اٹھ کر علیشہ کے ساتھ نیچے جاتے ہوئے اس نے پوچھا "کیونکہ ان کا ضروری فائل کسی نے اپنی جگہ سے ہٹا دیا ہے اسی لئے " "میرا ایک بھائی ہیں وہ بھی لاکھوں میں ایک ہے" تقدیس بڑبڑائی "اور اللہ کرے کہ کسی کو ایسا ہٹلر بھائی نا ملے" علیشہ تقدیس کے پیچھے دعا کرتے ہوئے اتری تھی جہاں ٹائیگر سامنے کھڑا گھر کے چھوٹے بڑے پر برس رہا تھا "میں نے کتنی دفعہ کہا ہے میرے کمرے میں سامان کو کوئی نہ چھوا کرے لیکن نہیں کوئی میری سنتا ہی نہیں ہے اس گھر میں " وہ غصے کی وجہ سے دہاڑے جا رہا تھا "اللہ اتنا غصہ! " علیشہ دل میں کڑھی تھی اب پتا نہیں اس کے کڑھن تھی یا اور کچھ وہ اگلے پل اس پر ہی الٹ پڑا "تمہیں میں نے فائل ڈھونڈنے کے لیے بھیجا تھا نا کہاں غائب ہو گئی تھی؟، تم دونوں کا ہر وقت ساتھ رہتے ہوئےجی نہیں بھرتا کیا ؟، ہاسٹل میں بھی ساتھ رہتے تھے اب یہاں بھی 24گھنٹے ساتھ رہتے ہو پتہ نہیں کیا کرتے ہو دونوں دن بھر ، امی اور چاچی کی مدد ہی کر دیا کرو ، پتہ نہیں اتنی کام چور کیوں ہو تم دونوں " وہ لفظوں اور آنکھوں سے آگ اگل رہا تھا علیشہ نے خود کو تائی امی کے پیچھے روپوش کرنے کی پوری کوشش کی "ارے یار چل بھی تم نے دھاڑ دھاڑ کر اپنا کھانا ہضم کر لیاہے " عویمر اسے اپنے ساتھ کھیچ کر لے گیا تھا "اف اللہ کا شکر " علیشہ نے جیسے اطمینان کا سانس لیا "ویسے بھائی بھی اچھا مذاق کرتے ہیں" اب اسے عویمر کی بات یاد کر کے ہنسی آ رہی تھی ساتھ تقدیس بھی ہنسنے لگی تھی "پتا نہیں یہ جس کی قسمت میں جائے گے اس بیچاری کا کیا حال کریں گے " دل کھول کر ہنسنے کے بعد علیشہ نے جیسے اس بے چارے پر افسوس کیا تھا جس کے بارے میں وہ جانتی ہی نہیں تھی "اب جانا کہاں ہے لے دے کت افسوس کرنے والی کی ہی قسمت میں ہوگے اور کیا " "اللہ نہ کریں ۔۔" تقدیس کی بات پر اس کا دل سہم گیا تھا "ٹہر جا چڑیل نہیں تو " اگلے ہی پل وہ تقدیس کے پیچھے دوڑی تھی ۔۔*۔۔۔*۔۔ "میں نے آپ لوگوں سے کتنی دفعہ کہا ہے کہ مجھے ابھی کسی سے شادی نہیں کرنی" وہ امی سے نا چاہتے ہوئے بھی اونچی آواز میں بول گئ تھی " کیوں نہیں کرنی شادی ، ساری زندگی باپ کے گھر پر پڑی رہو گی" امی کے کہنح کہنے پر اس نے انہیں دکھ سے دیکھا تھا "آپ کومیں سمجھا نہیں سکتی اس لئے جو کہنا ہے کہے مگر اتنا بتا دوں میں میری مرضی کے خلاف کرے گے تو اچھا نہیں ہوگا" وہ کہہ کر جانے کے لئے پلٹی تھی "اگرمیری سگی بیٹی ایسی ہوتی تو میں منہ توڑ کر رکھ دیتی توبہ کیسی منہ پھٹ ہے" وہ اپنی سوتیلی ماں کی دل جلانے والی بات سن کر واپس مڑی تھی تاکہ کہہ سکے کہ یہ وہی تھیں جنھوں نے اسے کبھی سگی بیٹی نہیں سمجھا تھا ہمیشہ لفظ سوتیلی کے خنجر سے گھائل کرتی رہیں تھیں مگر امی کے ساتھ کھڑے بابا کو دیکھ اسے سمجھ آیا کہ انہوں نے ایسے جملے کا کیوں استعمال کیا تھا "یہ تم کس لہجے میں بات کر رہی ہو اپنی ماں سے ، سوتیلی ہی سہی مگر ماں ہیں تمہاری " "بابا۔۔ وہ۔۔" اس نے کہنے کی کوشش کی مگر پھر خاموش ہوگئ کیونکہ بابا کو وضاحت دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ امی کی زبان سمجھتے تھے افسردہ نظروں سے انہیں دیکھتی دکھتے دل کے ساتھ وہ واپس اپنے کمرے کی جانب بڑھی تھی کہ اس کے قدم بابا کے الفاظ سن کر بے جان ہوئے تھے "اسے سرخ جوڑا پہناو مولانہ صاحب ابھی آتے ہی ہوگے" "بابا۔۔۔" اس کے لبوں نے بابا کو بے یقین نظروں سے دیکھتے ہوئے جنبش کی جو وہاں کہنے کے بعد رکے نہیں تھے سرخ جوڑا پہنتے ہوئے ، عفراء سے تیار ہوتے ہوئے اس ساقط بس ایک لفظ ذہن میں بری طرح گردش کر ہی تھی کہ ، اگر آج اس کی سگی ماں آج زندہ ہوتی تو کیا اس کے ساتھ پھر بھی ایسا برتاو ہوتا؟ ہوش تو اسے تب آیا جب اس نے قازی صاحب کے پوچھنے پر تین مرتبہ نہ صرفاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم اقرار کیا تھا بلکہ پیپرز پر سائن بھی کر دیے تھے "اف اللہ یہ میں نے کیا کر دیا ؟" بابا کی سختی کرنے پر اس نے یہ سب کر تو لیا پھر اس کے بعد اپنے کمرے میں آ کر بیڈ پر گر کر ٹوٹ کر روئی دل کھول کر رونے کے بعد اسے سخت غصہ آیا وہ بھی دو دن بعد زندگی اس کی تھی اور اس پر اسے کا ہی حق نہیں تھا بچپن سے باپ اور سوتیلی ماں کے ما تحت رہتی آئی تھی اور اب کوئی اور مالک زندگی بن بیٹھا تھا جس کے بارے میںاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم اسے کچھ خبر بھی نہیں تھی، اس سے بڑی ٹریجڈی کسی لڑکی کے لئے اور کیا ہوگی؟، وہ غصے سے تن فن کرتی ہوئی اٹھی ، عفراء سے پتا چلا کہ وہ فارنر تھا جس نے ایک سال ہوا اسلام قبول کیا تھا اور ایک سال سے یہاں وہاں بھٹکتا پھر رہا تھا بابا اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ بنا سوچے سمجھے اسے گھر اٹھا لائے اور ساتھ میں اپنی بیٹی کا نکاح بھی کروا دیا تھا کیا وہ اتنی ارزاء تھی بابا کے لیے کہ راہاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم چلتے کسی کے ساتھ بھی اس کا نکاح پڑھا دیتے وہ غصے سے کھولتی ہوئی گیسٹ روم تک پہنچی تھی دروازہ بنا ناک کئے ہی دھڑام سے کھول کر اندر داخل ہوتی ہوئی منتشاء نے دیکھا کہ وہ دروازے کی جانب پشت کئے سیل فون پر بات کر رہا تھا اس کے اتنی طوفانی انٹری پراچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم حیران ہوتا ہوا اس کی جانب مڑا تھا (تو یہ ہے وہ دربدر بھٹکنے والا فارنر") چھ فٹ کا نکلتا ہوا قد، سیاہ اسٹرپس والے چپل میں قید سفید پیر ، سیاہ شلوار سوٹ میں وہ ملبوس تھا، منتشاء اسے نیچے سے دیکھتی اوپر بڑھ رہی تھی نظریں سفید گردن سے ہوتی ہوئی اوپر اٹھی ہلکی ہلکی شیو تھی اس کے چہرے پر اوراچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم اس کے اوپر ، گلابی عنابی لب، منتشاء کو لگا اس کا غصہ ٹھنڈا پڑنے لگا وہ دوبارہ دماغ میں غصہ بھڑکاتی ہوئی اس کے آنکھوں میں دیکھ کر مخاطب ہونے کی کوشش کی "آپ۔۔۔۔" مگر جیسے ہی منتشاء کی نظریں اس کی اچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم آنکھوں سے ٹکرائی اسے لگا اس کا غصہ بھک سے کہی اڑ گیا ہو ایسا کیوں ہو رہا تھا اس کے ساتھ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی بس اتنا محسوس ہو رہا تھا دل و دماغ کے ساتھ پورا جسم جیسے ان نیلی آنکھوں کے سحر میں جکڑ گیا ہو، عجیب نشیلی اور سحر انگیز آنکھیں تھی اس کی، "you want to say something " اس کی آواز بھی بہت خوبصورت تھیی مگر وہ ہونق بنی بس اسے تکی جا رہی تھیاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم جسے اس نے وہ زبان پہلی مرتبہ سنا ہو "maybe you don't know english " اس نے انگلش میں ہی کہا تھا جس پر وہ بڑی دقت سے سر ہلائی تھی جس پر وہ مسکرایا تھا آہ اس کی مسکراہٹ بھی غضب کی تھی "آئے نا آپ اندر بیٹھ کر بات کرتے ہیں" اس نے کمرے کے اندر موجود صوفے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا اس پر اس کی نظریں منتشاء سے ہٹ کر صوفے کی جانب اٹھی تھی اور اس وقت منتشاء کو لگا جیسے وہ کسی مقناطیسی قید سے آزاد ہوئی ہو وہ رکی نہیں تھی اگلے ہی پل الٹے قدموں سے وہ بھاگ نکلی تھی وہاں سے کمرے میں آ کر بھی کتنی ہی دیر تک وہاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم رہی تھی " آہ میرے اللہ " وہ اپنی حالت پر حیرت سے دنگ تھی وہ پہلا انسان تھا جس کے سامنے اس کی نون سٹاپ زبان بالکل بھی اسٹارٹ نہیں ہوئی تھی ۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔ علیشہ کب سے منتشاء سے بات کر رہی تھی،اچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم کبھی اس کے کسی بات پر افسوس کرتی تو کبھی غمگین ہوتی اور تو کبھی کوس رہی ہوتی علیشہ کو اپنی یہ دوست بہت عزیز تھی اسے ہی نہیں تقدیس کو بھی وہ اتنی ہی پیاری تھی علییشہ حیران تو اس کی صلاحیتوں پر ہوتی تھی فی الحال تو منتشاء کے کسی بات پر بہت حیران ہو رہی تھی "سچ۔۔۔" ایسا لگا جیسے اس نے کوئی ناقابل یقین بات سنیں ہو پھر اس کا خوب صورت قہقہے کی آواز ماحول میں گونج گیا تھا لیکن شاید وقت برا تھا کہ قریب سے گزرتے ماحین بقول اس کے ٹائیگر نے اسے بری طرح گھورا تھا جس سے اس کا قہقہہ دم توڑ گیا منتشاء اور بھی نجانے کیا کیا بتا رہی تھی مگر اسے اب ایک بھی بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس کا ذہن ماحین میں اٹکا تھا "کس سے بات کر رہی ہو؟"جبھی تقدیس آئیاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم تھی جس کے ہاتھ میں چائے کا ٹرے تھا علیشہ نے سیل فون تقدیس کو پکڑا دیا تھا جس سے پر تقدیس نے اسے چائے کی ٹرے تھما دی "ایک کپ اپنے بھائی کو دینا اور ایک کب میرے بھائی کو " تقدیس کہتی ہیں ٹیرس کی سیڑھیوں کے جانب بڑھ گئی تھی عویمر تو اسے راستے ہی مل گیا تھا جسےاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم اس نے ایک کپ تھما دیا۔ مگر وہ تو ڈر اس ٹائیگر کے لیے رہی تھی جسے چائے دینے پر اسے ہسنے کے اوپر سے ایک لمبا لیکچر سننا تھا جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتے ہوئے وہ اس کے کمرے میں گئی خوف کی وجہ سے اس سے دوسری غلطی بھی سرزد ہوئی تھی وہ دروازہ ناک کے بنائی ہیاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم شیر کے کچھار میں داخل ہوئی تھی اب تو علیشہ کی خیر نہیں تھی موٹر سنگر کے سامنے خیال تیار ہو رہا تھا ہمیشہ فارمل ڈریس سے ہٹ کر بلیک جینز پر وائٹ شرٹ میں وہ بہت اچھا لگ رہا تھا بات اچھے لگنے کی نہیں تھی وہ تو اسے ہر انداز میں اچھا لگتا تھا وہ بہت روڈ تھا اس لئے بہت برا تھا اس کے لیے لیکن اس کے دل کے لئے نہیں خیر یہ بات اس کے دل کی تھی جس پر وہ خود بھی کبھی کان نہیں دھرتی تھی اگرجواچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم کبھی منتشاء یا تقدیس کو پتہ چل جائے تو۔۔؟ "چاۓ " اسے شاید خبر نہیں ہوئی تھی کہ وہ کمرے میں موجود ہیں اس لیے علیشہ کے مخاطب کرنے پر وہ چونکا تھا اگلے ہی پل اس کی پیشانی پر واضح شکنیں نمودار ہوئی تھی جس سے علیشہ کا گلا خشک ہوا تھا "تم یہاں کیسے ؟" وہ اس سے یسے پوچھ رہاتھا جیسے رستہ چلتا کوئی اس کے کمرے میں آ گھسا ہو "۔وہ۔۔۔ ۔یہ۔ ۔۔ چائے۔ ۔" علی شاہ نے بوکھلا کر کے سامنے کیا "دروازہ ناک کیا تھا تم نے؟" وہ اب اس کے سر پر پہنچ گیا تھا "نن۔ ۔۔۔نہیں۔ ۔" علیشہ نے خوف سے کانپتے ہوئے کہا "تم اتنی نان سینس کیوں ہو؟، کیا تم بچی ہو کہ تمہیں سب کچھ سکھانا پڑے گا، ابھیاچھے اور پیارے ناولز کے لئے رابطہ کرے شرارتی چڑیل تین دو ایک ایٹ جی میل.کوم کچھ دن پہلے ہی کیسے جاہلوں کی طرح گلا پھاڑ کر ہنس رہی تھی" وہ غصے سے غرایا تھا "سس۔۔۔ سوری" علیشہ کی آنکھیں بھیگنے لگی تھی "گیٹ لاسٹ " غصے بھری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے باہر جانے کا اشارہ کیا "یہ۔ ۔یہ۔ ۔" اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے چائے اس کی جانب بڑھایا اور ماحین نے غصے میں میں نہ چاہتے ہوئے بھی کپ تھامنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا ادھر علیشہ کا ہاتھ لرزا تھا اور چائے کا کپ ماحین کے ہاتھ پر گرا اور ساتھ ہی وائٹ شرٹ پر نقش و نگار بناتا ہوا زمین بوس ہوا تھا ۔۔۔جاری ہے
❤️ 👍 🆕 🙏 💖 😂 😮 🥰 159

Comments