MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
MUFTI ABDUSSUBHAN MISBAHI
June 20, 2025 at 12:35 PM
*شدید گرمی اور شدید سردی کا سبب* ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: رَبِّ، أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا. فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ؛ نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ، وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الْحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ“• (صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، باب صفة النارِ، وأنها مخلوقة،حدیث نمبر:3260) ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جہنم نے اپنے رب سے شکایت کی اور عرض کیا: اے رب! میرے بعض حصے بعض کو کھا گئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے اُسے دو سانس لینے کی اجازت دی: ایک سردیوں میں اور ایک گرمیوں میں۔پس جو سخت ترین گرمی تم محسوس کرتے ہو، وہ جہنم کی گرمی کی سانس ہے۔ اور جو شدید ترین سردی تم محسوس کرتے ہو، وہ بھی جہنم کی سرد سانس ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ اس حدیث میں موسموں کی شدت کے پیچھے ایک غیر مرئی روحانی حقیقت کا بیان ہے۔ بظاہر ہم گرمی اور سردی کو صرف موسمی تبدیلی سمجھتے ہیں۔ مگر نبی کریم ﷺ نے بتایا کہ ان دونوں کی جڑیں ایک عظیم غیبی حقیقت سے جڑی ہوئی ہیں: جہنم کی سانسوں سے ہے! *جہنم کی شکایت:* آگ، جو ایک بےجان چیز ہے، اس نے اپنے رب سے شکایت کی۔ یہ کوئی مجازی بات نہیں بلکہ اللہ کی قدرت ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو اظہار کا موقع دے سکتا ہے۔ جہنم نے کہا: میرے کچھ حصے ایک دوسرے کو کھا رہے ہیں، یعنی اس کی شدتِ گرمی خود اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ *دو سانسوں کی اجازت:* ربّ کریم نے اُسے دو مرتبہ سانس لینے کی اجازت دی: ایک سانس گرمیوں میں، جس کی وجہ سے دنیا میں شدید گرمی آتی ہے۔ اور ایک سانس سردیوں میں، جس سے شدید ٹھنڈ یعنی زمہریر پیدا ہوتی ہے۔ *گرمی اور زمہریر:* جو لو، جھلسا دینے والی گرمی، اور جسم سُکھا دینے والی حدت تمازت ہم گرمیوں میں محسوس کرتے ہیں، وہ محض سورج کی تپش نہیں، بلکہ اس کے پیچھے جہنم کی گرم سانس کارفرما ہوتی ہے۔ اور جو ہڈیوں میں گھس جانے والی ٹھنڈک، سرد لُو، اور زمہریر کا عالم ہوتا ہے، وہ دراصل جہنم کی سرد سانس کا اثر ہوتا ہے۔ جہنم ایک حقیقت ہے، اور اس کے اثرات دنیا میں بھی نمودار ہوتے ہیں تاکہ ہم آخرت کے عذاب سے بچنے کی فکر کریں۔ گرمی اور سردی کی شدت کو صرف موسم کا حصہ سمجھ کر نظر انداز نہ کریں، بلکہ اسے تذکیر (یاددہانی) سمجھیں کہ اصل عذاب کتنا ہولناک ہوگا۔ جب گرمی کی شدت ہو، تو دل میں یہ احساس جگائیں: اے اللہ! اگر دنیا کی گرمی ایسی ہے، تو جہنم کا کیا حال ہوگا؟ مجھے اُس سے بچا لے۔ جب سردی ناقابلِ برداشت ہو جائے، تو یہ دعا کیجیے: اے اللہ! زمہریر کے عذاب سے بھی بچا لے، اور ہمیں اپنی رحمت کی چادر عطا فرما۔ یہ حدیث ہمیں موسموں میں اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے، جہنم کے وجود کو یاد رکھنے، اور اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی دعوت دیتی ہے۔ شدتِ گرمی و سردی فقط موسم کا پیغام نہیں، یہ آخرت کی صدا ہے، جو دنیا کے کانوں تک آ رہی ہے!

Comments