محبین دارالعلوم دیوبند✅                              Muhibbeen Darul Uloom deoband
محبین دارالعلوم دیوبند✅ Muhibbeen Darul Uloom deoband
June 18, 2025 at 05:27 AM
میرے عہد کے دارالعلوم دیوبند میں اردو ادب یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو ادب کی سنجیدہ، صالح اور تہذیبی روایت کا ایک روشن اور نادر مرکز دارالعلوم دیوبند بھی ہے، وہ ادارہ جو بہ ظاہر فقہ و حدیث، تفسیر و اصول کا مظہر ہے، درون خانۂ دل میں ایک ایسا ذوق جمال بھی رکھتا ہے جس کی سادگی میں سچائی اور فصاحت میں وفا پوشیدہ ہوتی ہے، اس چمن میں جہاں ہزاروں محدثین، مفسرین اور متکلمین پروان چڑھے، وہیں اہل ذوق و سخن کی بھی ایک دنیا آباد رہی، جس کی فکری روشنی دیوبند کی فصیلوں سے نکل کر اردو کے افق پر دمکنے لگی ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں ان خوش نصیبوں میں ہوں جنہوں نے دارالعلوم کی فضا میں صرف علم دین کی کرنیں ہی نہیں؛ بلکہ اردو ادب کے جھلملاتے ستارے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، پورے آٹھ برس، عالمیت و فضیلت کے مدارج طے کرتے ہوئے، کبھی کسی اسکول کی عمارت نہ دیکھی؛ لیکن دارالعلوم کے در و دیوار پر اردو کے جمال کی نقوش نگاری ضرور دیکھی۔ اردو ادب یہاں کسی بیرونی شجر کی طرح نہیں؛ بلکہ اس خاک سے پھوٹنے والی ایک فطری کونپل کی مانند ہے، اردو بیت بازی کے باقاعدہ مقابلے اساتذہ کی سرپرستی میں ہوتے ہیں، عروض کی باریکیاں سکھائی جاتیں ہیں، تقطیع کی مشقیں ہوتیں ہیں، اور فن شاعری کا ذوق پروان چڑھتا ہے، دارالعلوم میں ادب ایک لوازمہ نہیں؛ بلکہ تہذیب کا جزو لاینفک ہے۔ ہم نے آنکھوں سے وہ زمانہ دیکھا جب دارالعلوم کے طلبہ نے "دارالعلوم دیوبند کے اردو شعراء" کے نام سے اپنا ادبی حلقہ واٹس ایپ پر قائم کیا، جس میں حسیب الرحمان شائق، جناب ندیم رہبر، شیزان ناظم، زبیر احمد ثانی جیسے خوش گو اور صاحب ذوق طلبہ کی تخلیقات محفل کو مہکاتی تھیں، ان کی شاعری میں وہ صداقت، وہ سوز اور وہ تاثر تھا جو صرف مدرسے کی روحانی تربیت اور علمی فضا سے ہی پیدا ہو سکتا ہے۔ بزم سجاد کی دیواری نشریہ "آئینہ ایام" اس اردو جمال کا ناطق ترجمان ہے، یہ دیواری پرچہ ہفتہ وار شائع ہوتا ہے اور اس میں جو تحریریں، اشعار اور مضامین شامل ہوتے ہیں وہ ادبی دنیا کے لیے خاموش شہادت ہوا کرتے ہیں کہ دیوبند کا طالب علم صرف متون کے حافظ نہیں؛ بلکہ شعور کے معمار بھی ہیں۔ ہم نے حضرت مولانا ولی اللہ قاسمی ولی بستوی جیسے ماہر فن سے علمِ عروض سیکھا، ان کی رہنمائی میں جو تمرینات کیں، وہ آج بھی حافظے میں اس طرح محفوظ ہیں جیسے کسی کاتب نے صفحۂ دل پر قلم سے کندہ کر دی ہوں۔ یہ سب کچھ دارالعلوم دیوبند کے اس پہلو کی نشان دہی کرتا ہے جو اکثر تشنہ اعتراف رہا ہے، دارالعلوم صرف ایک دینی ادارہ نہیں، ایک تہذیبی و فکری اکادمی ہے، جہاں منطق و فلسفہ، فقہ و تفسیر کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے لطیف رجحانات بھی نشوونما پاتے ہیں، یہاں کا ہر طالب علم، جب چاہے، کسی "غزل" میں اپنے احساس کو ڈھال دے یا کسی "مضمون" میں اپنی رائے کو تہذیب کے خوشبو سے معطر کر دے۔ ہم دارالعلوم کے ان ایام کو یاد کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ صرف تعلیم کے سال نہ تھے؛ بلکہ تہذیب کے اوراق تھے, وہ دن ہمارے حافظے کا ایسا روشن گوشہ ہیں جس میں علم و ادب کی دوستی نے ہمیں ایسا بنایا کہ ہم دین کے معمار بھی بنے اور اردو کے خادم بھی۔ نام نہاد اردو کے ٹھیکے داروں سے عرض ہے کہ: تو جس جگہ آج نکتہ چیں، کبھی مدتوں میں رہا وہیں میں گدائے راہ گزر نہیں، مجھے دور ہی سے صدا نہ دے وہ جو شاعری کا سبب ہوا وہ معاملہ بھی عجب ہوا میں غزل سناؤں ہوں اس لیے کہ زمانہ اس کو بھلا نہ دے مبارک صدیقی قاسمی مدرسہ اسلامیہ یتیم خانہ ارریہ بہار بہ روز بدھ 18 جون 2025
❤️ 👍 💖 11

Comments