
Farhat Hashmi
June 20, 2025 at 03:33 AM
*حسبنا اللہ و نعم الوکیل*
*اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہی بہترین کارساز ہے۔*
بیماری میں انسان سب سے زیادہ محتاج، کمزور اور بےبس محسوس کرتا ہے۔ دواؤں کے بعد، دعاؤں سے پہلے، دل جس کی طرف لپکے - وہ *اللہ* ہے۔ کیونکہ وہی ہے جو ہماری دلوں کی خاموش آہیں سنتا ہے، اور ہر بیماری سے شفا عطا کرتا ہے۔
اللہ ہی وہ *حسیب* ہے:
* جس کے سامنے بندہ اپنی درد بھری ضرورتیں پیش کرتا ہے،
* جو رات کی تنہائی میں نکلنے والے آنسو بھی جانتا ہے،
* جو بیماری کی شدت میں بھی اپنے بندے کے معاملات خود سنبھالے ہوئے ہے — *احسان کے ساتھ، علم کے ساتھ، رحمت کے ساتھ۔*
اور اللہ ہی *وکیل* ہے:
* جس نے ہمیں پیدا کیا،
* جو ہر لمحہ ہماری نگہداشت کر رہا ہے،
* جو ہماری بیماری کے ہر لمحے کو مقصد اور اجر سے بھر دیتا ہے، اگر ہم اس پر بھروسہ رکھیں۔
* جو ہمیں ہمارئ ذات کے حوالے بھی نہیں کرتا
پھر دل سے نکلتی ہے وہی پکار:
*اللّهُـمَّ رَحْمَتَـكَ أَرْجـو، فَلا تَكِلـني إِلى نَفْـسي طَـرْفَةَ عَـيْن، وَأَصْلِـحْ لي شَأْنـي كُلَّـه، لَا إِلَهَ إِلَّا أنْـت*
"اے اللہ! میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ مجھے ایک لمحے کے لیے بھی میرے نفس کے سپرد نہ کرنا۔ میرے تمام معاملات درست فرما دے۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔"
بعض اوقات بیماری صرف جسم میں نہیں، بلکہ دل میں بھی ہوتی ہے۔
بظاہر سب کچھ ہوتا ہے: دوا، دعا، علم، نصیحت — مگر عمل کی ہمت نہیں ہوتی۔
انسان خود سے بیزار ہو جاتا ہے، اور وہی کیفیت ہوتی ہے جہاں نفس بندے کو تھام لیتا ہے، پیچھے کھینچ لیتا ہے۔
ایسے میں سچی پکار یہی ہوتی ہے:
*یا اللہ! مجھے میرے نفس کے سپرد نہ کرنا۔*
*مجھے اس بیماری سے نکال دے۔ جسم کی بھی، دل کی بھی، عمل کی بھی۔*
کیونکہ شفا صرف دوا سے نہیں آتی — وہ اللہ کے *اذن* سے آتی ہے۔
یقین جب اس پر ہو جائے جو *الشافی* ہے، جو *الرحمن* ہے، جو *الحسیب* اور *الوکيل* ہے —
تب ہی بندہ بیماری میں بھی پکار اٹھتا ہے:
*حسبنا اللہ و نعم الوکیل*
اللہ ہی کافی ہے، اور وہی بہترین کارساز ہے۔
ماخوذ شفاء کی دعائیں 25
❤️
👍
🤲
❤
💖
💐
🕋
🙏
🤍
🩵
78