
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 22, 2025 at 12:46 PM
Ausaf Arham
✍🏻
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s
✍🏻
*اورنیل بہتا رہا*
*قسط نمبر/31*
ہامون کے ٹھکانے تک پہنچتے شام ہوگئی۔ وہ بڑے جانوروں کی کھالوں کا بنا ہوا خیمہ تھا جو عام قسم کے خیموں سے دو گنا کشادہ تھا۔ خیمے کے باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، آنکھیں لال سرخ اور دانت زردی مائل تھے، اس کے چہرے پر کراہت اور نحوست کا تاثر تھا جسے چھپایا نہیں جاسکتا تھا ،اس کے سر کے بال شانوں تک آئے ہوئے تھے، اور اس نے سر پر بڑا ہی میلہ اور بد رنگ سا کپڑا باندھ رکھا تھا، دو آدمی اس کے پاؤں میں بیٹھے اس کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ یہ تھا وہ شخص ہامون جو ان بدوؤں کا پیرومرشد بنا ہوا تھا۔
سیلی نوش ، نوشی، اس کا منگیتر، اور بدوّ ملازم اس کے سامنے گئے اور رک گئے۔ بدوّ ملازم نے جھک کر اسے سلام کیا ہامون نے انھیں اس طرح دیکھا جیسے وہ خود نہیں بلکہ یہ چاروں حقیر اور قابل نفرت انسان ہوں۔
اے ہامون!،،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں تیرے لیے مہمان لایا ہوں یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ یہ شاہی خاندان کے لوگ ہیں۔ یہ لڑکی شہزادی ہے اور یہ اس کا منگیتر ہے اور یہ فوج میں عہدیدار ہے، اور یہ شخص اس کا ملازم ہے۔
ہامون نے ہاتھ سے اشارہ کیا جو یہ تھا کہ زمین پر بیٹھ جاؤ ،اس کے انداز میں شاہی خاندان کا ذرا سا بھی احترام معلوم نہیں ہوتا تھا ،چاروں زمین پر بیٹھ گئے۔
کوئی بادشاہ ہو یا بھیکاری یہاں آکر سب ایک ہوتے ہیں۔۔۔ ہامون نے جھومتی ہیں آواز نے کہا ۔۔۔ہرقل بادشاہ ہے لیکن رومی بادشاہی کا رس صحراؤں کی ریت نے چوس لیا ہے۔ کہاں ہے ہرقل اس نے اپنی شہزادی کو کیوں بھیجا ہے؟
ہم سے پوچھ ہامون۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم یہی معلوم کرنے آئے ہیں کہ رومی بادشاہی کو ریت کے ذروں نے چوس لیا ہے اور باقی جو رہ گئی ہے کیا وہ نیل کے دریا میں ڈوب تو نہ جائے گی؟
ریت کی اندھی جو عرب سے اٹھی ہے وہ نیل تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا حکم چلا رہا ہے، مقوقس اور اطربون اسکندریہ میں بیٹھے اپنی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، پھر اس کی آندھی کو کون روکے گا۔
تو روکے گا ہامون ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہم تیرے پاس ہی فریاد لے کر آئے ہیں جو بات تو نے کہی ہے کہ سب دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہی بات اس شہزادی کے دل میں ہے اور اس کے دل کو جلا رہی ہے یہ اپنی ایک فوج بنانا چاہتی ہے جس میں اس علاقے کے بدوّ شامل ہوں گے ،ذرا غیب کے پردوں کے پیچھے جھانک اور بتا کہ اس میں اس شہزادی کو کامیابی ہوگی یا نہیں ؟،،،یا سلطنت روم کے لیے ان سیاہ پردوں کے پیچھے کیا ہے؟
میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔۔۔ ہامون نے مخمور سی آواز میں کہا ۔۔۔کبھی تو میرا حال ایسا ہوجاتا ہے کہ کچھ جاننا چاہتا ہوں تو کچھ سراغ نہیں ملتا ، زمین بھی چپ اور آسمان بھی چپ رہتا ہے۔ بعض پردے سفید ہوتے ہیں اٹھاؤ تو ان کے پیچھے ساری فضا اور ہر چیز سیاہ کالی ہوتی ہے ،اور بعض پردے سیاہ کالے ہوتے ہیں ہٹاؤ تو ان کے پیچھے سب کے دودھ جیسے سفید اجالے نظر آتے ہیں،،،،، اندر چلو۔
ہامون اٹھا اور خیمے کے اندر چلا گیا۔ سیلی نوش، نوشی، اور اس کا منگیتر بھی اس کے پیچھے خیلے میں چلے گئے اور سب کے بعد بدوّ ملازم بھی جھکا جھکا سا خیمے میں گیا اور اپنے آقاؤں کے پیچھے زمین پر بیٹھ گیا۔ ان چاروں نے خیمے میں نگاہیں دوڑائیں تو انہیں یوں لگا جیسے کسی بڑے ہی پراسرار اور ڈراؤنے ماحول میں آ گئے ہوں، جس کا اس زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،تاثر یہ پیدا ہوتا تھا جیسے یہ خیمہ نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان پھیلے ہوئے خلاء میں معلق ہے اور یہ ان جیسے انسانوں کا ٹھکانہ نہیں۔
یہ ہامون کی دنیا تھی خیمے میں پانچ چھ خشک انسانی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں، خیمے کے کچھ حصے میں ہامون نے زمین پر گدا رکھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا رکھی تھی دو انسانی کھوپڑیاں اور بازوؤں کی تین چار ہڈیاں وہاں بھی رکھی تھی اور کچھ اور سامان بھی تھا اور سب سے زیادہ خوفناک چیز ایک سیاہ کالا ناگ تھا جو کھلی ہوئی ٹوکری سے باہر نکل رہا تھا۔
ہامون اپنی جگہ بیٹھ گیا ٹوکری سے نکلتا ہوا ناگ اس کی گود میں سے گزرنے لگا لیکن آگے جانے کی بجائے اس نے پھن پھیلا دیا اور اس کی گود میں جھومنے لگا۔
ہامون کے دائیں طرف ایک کالا پردہ لٹک رہا تھا ہامون نے یہ پردہ ایک چھڑی سے دھکیل کر ہٹا دیا اور اس کے پیچھے سے جو چیز برآمد ہوئی وہ دیکھ کر نوشی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی وہ انسانی ہڈیوں کا مکمل ڈھانچہ تھا۔
مت ڈرو شہزادی!،،،،، ہامون نے کہا۔۔۔ کبھی تیرا بھی یہ حسین و جمیل جسم اسی حالت میں لوگوں کے سامنے آئے گا اور دیکھنے والے سوچیں گے کہ یہ کون تھا۔ وہ خود ہی اپنے آپ کو جواب دیں گے کہ یہ کوئ انسان ہی تھا ۔ یہ ڈھانچہ مجھے میرے استاد نے دیا تھا اور میرے استاد کو اس کے استاد نے دیا تھا اور یہ روایت چلی آرہی ہے
کہ یہ کبھی مصر کی ملکہ ہوا کرتی تھی۔ اس کا شغل میلہ یہ تھا کہ ایک تو انسانوں کو قتل کروا کر ان کے تڑپنے کا خون بہنے کا اور آخری سانس نکل جانے کا تماشہ دیکھا کرتی تھی۔ پھر اس کا ایک شغل اور بھی تھا، کسی غلام کو ساری رات اپنے ساتھ رکھتی اور صبح اسے خنجر دے کر کہتی کہ اس سے اپنا پیٹ اس طرح چاک کر لو کہ سب کچھ باہر آ جائے۔ غلام اس حکم کی تعمیل کرتا اور ملکہ کی تفریح طبع کا ذریعہ بنتا تھا۔ آخر یہ اپنے ایک غلام کے ہی ہاتھوں اس انجام کو پہنچی، اس غلام نے ساری رات ملکہ کے ساتھ گزاری لطف اندوز ہوا جب ملکہ نے اسے اپنا خنجر دے کر کہا کہ اپنا پیٹ چاک کر لو تو غلام نے خنجر لیا اور ملکہ کا پیٹ چاک کر دیا اس کے پیٹ سے سب کچھ باہر آگیا اور غلام اسے تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگاتا رہا۔ ملکہ تڑپ تڑپ کر مر گئی تو غلام نے اپنا پیٹ چاک کر لیا۔ آج اس ملک کو دیکھ لو ۔۔۔۔اس نے اس ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا ۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے اس کی روح کا سراغ لگایا ہے اور کبھی کبھی اس کی روح کو بلایا کرتا ہوں۔
ہامون کی یہ بات سننے والے تین آدمی اور ایک نوجوان لڑکی تھی ان پر ایسا تاثر چھا گیا جیسے ان کی روحیں ان کے جسموں سے نکل گئی ہوں اور پیچھے گوشت پوست کے اکڑے ہوئے جسم رہ گئے ہوں، ایک تو بات ایسی تھی اور دوسرے ہامون کے سنانے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والوں پر بڑا ہی عجیب تاثر پیدا ہوتا تھا۔
ایک بات بتاؤ گے ہامون !،،،،،نوشی نے دل مضبوط کرکے پوچھا۔۔۔ اس ملکہ کی روح کے ساتھ تمہاری کیا باتیں ہوتی ہیں؟
بڑی لمبی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔ہامون نے کہا۔۔۔ ابھی میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک روح کی باتیں تمہیں سناؤ گا ضرور۔۔۔۔ تمہارے کام آئیں گی۔
اگر تم شہزادی ہو تو ملکہ بھی بن سکتی ہو، اس ملکہ کی روح نے مجھے بتایا تھا کہ ملکہ اتنی زیادہ خوبصورت تھی کہ اس کے حکم سے اپنا پیٹ اپنے ہاتھوں چاک کرنے والے فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ اس ملکہ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں وہ تم جیسی ہی خوبصورت ہو گی کوئی عورت ملکہ بھی عورت جیسی حسین بھی ہو وہ اپنے آپ کو دیوی سمجھ کر خدا کو بھول جاتی ہے۔ لیکن خدا اپنے کسی بندے کو نہیں بھولتا اور ہر بندے کے. وہ اعمال بھی دیکھتا ہے جو بندہ اپنے آپ سے بھی چھپاتا پھرتا ہے۔
آج کا ہرقل کل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا۔ لمبی باتیں ہیں بڑی لمبی باتیں تم اپنی بات کرو۔
سیلی نوش نے نوشی کی ساری بات ہامون کو سنائیں اور پھر اسے یاد دلایا کہ وہ بتائے کہ یہ لڑکی کامیاب ہوگی یا نہیں؟،،، اور کامیابی نظر نہ آئے تو کیا کوئی ایسی صورت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
اس وقت تک اتنا لمبا کالا ناگ ہامون کے گردن کے گرد ایک چکر لگا چکا تھا اور اس کا منہ دوسرے کاندھے پر تھا۔ ناگ نے ہامون کے اشارے پر منہ اٹھاکر پھن پھیلا دیا جو اتنا ہی چوڑا ہو گیا تھا جتنا چوڑا ہامون کا چہرہ تھا ۔اب تو ہامون اور ہی زیادہ خوفناک نظر آنے لگا تھا ناگ کا باقی حصہ ہامون کی گود میں اکٹھا ہو گیا تھا اور کنڈلی مارنے کے انداز سے حرکت کر رہا تھا۔
ہامون نے ہاتھ لمبا کرکے ایک ڈنڈا اٹھایا جو کم و بیش دو فٹ لمبا اور دو اڑھائی انچ موٹا تھا اس پر مختلف رنگوں کا کپڑا لپیٹا ہوا تھا اور اس کے ایک سرے پر مختلف پرندوں کے رنگ برنگے پَر بندھے ہوئے تھے۔ ہامون نے اوپر دیکھنا شروع کردیا ذرا ہی دیر بعد اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اس نے ڈنڈا اوپر کردیا اور ڈنڈا بھی لرزنے لگا یہ لرزاں یا ریشہ بڑھتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا۔
وہ جب کھڑا ہو گیا تو اس کا جسم اتنی زور سے لزرنے لگا جیسے یہ شخص گر پڑے گا۔ اور شاید زندہ نہ رہ سکے اس کا سر پیچھے ہی پیچھے ہوتا جا رہا تھا اور اس طرح اس کا منہ پوری طرح آسمان کی طرف ہوگیا ناگ اس کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔
ہامون نے دوسرے ہاتھ سے ناک اپنی گردن سے الگ کرنا شروع کر دیا اور اسکا جسم پہلے سے زیادہ کانپنے لگا۔ ہامون نے اس قدر زیادہ کانپتے ہوئے ہاتھ سے نہ جانے کس طرح ناگ کو پکڑ لیا اور اسے اپنے پیچھے ایک کالے کپڑے پر رکھ دیا ناگ نے کچھ دیر ادھر ادھر رینگ کر سر اٹھایا اور پھن پھیلا دیا۔
ہٹا دے پردہ!۔۔۔۔۔ ہامون نے منہ اور زیادہ اوپر کرکے بڑی بلند آواز سے کہا ۔۔۔دکھا دے جو کچھ بھی ہے،،،،،، ہٹا دے پردہ۔
اس کے جسم نے اور ہی زیادہ تھرکنا اور لزرنا شروع کردیا اس کے ساتھ وہ اپنا سر بڑی زور زور سے کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی آگے اور پیچھے مارتا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی کہا جو کوئی بھی نہ سمجھ سکا نہ یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ کون سی زبان ہے ، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کوئی غیر مرئی طاقت ہے جس نے اس کے بدن پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور یہ طاقت اس کے جسم کو توڑ پھوڑ کر پھینک دے گی دیکھنے والوں پر خوف طاری ہوا جا رہا تھا۔
خاصی دیر بعد ہامون کا جسم سکون میں آنے لگا تھرکنا کم ہوتا گیا پھر رعشہ سا رہ گیا اور آخر جسم ساکن ہو گیا۔
ہامون کے چہرے اور کچھ حرکت سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ابھی نارمل حالت میں نہیں آیا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دور کی کوئی چیز دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کبھی وہ ڈنڈے کو زور زور سے ہلاتا اور اسے ہوا میں اس طرح مارتا جیسے کسی آدمی یا جانور کو مارا جاتا ہے ۔وہ بڑی تیزی سے پیچھے کو مڑا۔
اس کا ناگ سیاہ کپڑے پر ادھر ادھر رینگ رہا تھا۔
اس نے ڈنڈا سر سے اوپر کیا اور اس طرح اوپر سے نیچے کومارا جیسے وہ ناگ کو مارنا چاہتا ہو، اب ہامون کی پیٹھ ان لوگوں کی طرف تھی اس نے ڈنڈے سے سانپ کو چھیڑا تو سانپ نے پھن پھیلا لیا۔
بتا تو نے کیا دیکھا ہے۔۔۔ ہامون نے ناگ سے پوچھا۔۔۔ جلدی صحیح بول۔
سب کچھ تاریک ہے۔۔۔ یہ آواز ہامون کی نہیں تھی بلکہ کسی چھوٹے سے بچے کی تھی یا کسی بوڑھی عورت کی۔
سیلی نوش ،نوشی، اس کے منگیتر اور بدو ملازم نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
پھر دیکھ !،،،،،ہامون نے ناگ سے کہا۔۔۔ میں نے پردے اٹھا دئیے ہیں جو تو دیکھ سکتا ہے وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ پھر دیکھ۔
ہامون بار بار ڈنڈے کا وہ سرا جس پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے ناگ کے فن کے قریب لے جا کر زور زور سے ہلاتا تھا ۔اور اسی زور دار طریقے سے ناگ پھن دائیں بائیں ہلاتا اور کبھی پیچھے لے جاکر ڈنڈے پر جھپٹا تھا۔
تاریکی میں ایک مدھم سے کرن نظر آتی ہے۔۔۔ پھر اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی جو پہلے بھی سنائی دی تھی۔
ہامون نے دو تین مرتبہ پھر ناگ سے کچھ ایسے ہی سوالات پوچھے اور اسے جواب بچے یا بوڑھی عورت کی زبان سے ملے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ڈنڈا بڑی زور زور سے ہوا میں مارنے لگا وہ اچھلتا بھی تھا اور اس کی حرکتیں پاگلوں جیسی تھی۔
وہ اکڑوں بیٹھ گیا اور اب اس کا منہ ان لوگوں کی طرف تھا اس نے سر جھکا لیا اور خاصی دیر بعد سر اٹھایا اور نوشی کے چہرے پر نظریں گاڑ دی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اٹھا اور نوشی کے سر سے ایک بال اکھاڑ لیا واپس اپنی جگہ گیا قریب پڑی ایک انسانی کھوپڑی اٹھا کر اپنے سامنے رکھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر نوشی کے بال پر پھونک ماری اور بال کھوپڑی کے سر پر رکھ دیا۔
تمہیں دو تین دن یہاں رہنا پڑے گا۔۔۔ ہامون نے انھیں کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے ایک دو دن زیادہ رکنا پڑے پورا جواب نہیں مل رہا۔۔۔ مل جائے گا۔ کامیابی صاف طور پر نظر نہیں آ رہی میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا تمہارے رہنے کا انتظام موجود ہے میں نے مہمانوں کے لیے خیمے لگا رکھے تھے۔ تمہیں پورا آرام ملے گا اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود ہے۔
محمد يحيٰ سندھو
شاہی محل والا آرام نہیں ملے گا زمین پر سونا پڑے گا ۔اب جاؤ باہر دو آدمی موجود ہیں انہیں کہو وہ تمہیں مہمان والے خیموں میں لے جائیں گے۔
ہامون کے خیمے میں بڑے دیئے جل رہے تھے جن کی پیلی اور لرزتی روشنی میں ہامون پہلے سے زیادہ ڈراؤنا اور پراسرار نظر آرہا تھا وہ چاروں اٹھے اور خیمے سے نکل گئے۔ باہر جو دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ انھیں ایک طرف لے گئے تقریبا سو قدم دور ایک سرسبز ٹیکری تھی جس کے قریب تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔
ان آدمیوں نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے خیمے ہیں اور ان میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں۔ دونوں آدمی یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ وہ انکے لئے کھانا لائیں گے ۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
اگلی صبح ہاموں نے چاروں کو اپنے خیمے میں بلایا اور پھر ویسی ہی حرکتیں کی جیسی اس نے گزشتہ رات کی تھی ۔اس روز تو وہ بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا اور نظر یہ آتا تھا کہ ہوش وحواس میں نہیں آ سکے گا۔ اسی کیفیت میں اس نے اپنے ناگ سے کچھ سوال پوچھے اور اسے اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز میں جواب ملے۔ ایک بار اس نے غصے کی حالت میں ناگ کی گردن پکڑی اور اسکا منہ اپنے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھنجوڑا اور پھر اسے منہ سے نکال لیا۔
دو اڑھائی گھنٹے بعد اس نے ان چاروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور سورج غروب ہونے کے بعد آئیں۔
وہ شام کے بعد ہامون کے خیمے میں گئے اس شام خیمے میں دو کی بجائے چار دیئے جل رہے تھے۔ ہامون نے انہیں وہیں بٹھایا جہاں پہلے بٹھایا کرتا تھا۔ ہامون خود ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔وہی ڈنڈا اس کے قریب پڑا تھا جس پر رنگ برنگ کپڑے لپیٹے ہوئے تھے اور ایک سرے پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی چاروں دیے بجھ گئے۔
ہامون نے کسی اجنبی زبان میں بڑے غصے میں کچھ کہا اور ڈنڈا زمین پر مارا۔ پہلے ایک دیا جلا۔ ہامون نے اسی زبان میں کوئی لفظ بولا تو دوسرا دیا جل اٹھا ۔اسی طرح باقی دو دئیے بھی باری باری جل اٹھے۔ پھر ہامون نے وہی حرکتیں شروع کر دیں لیکن اب اس کا انداز کچھ مختلف تھا۔
اس نے کہا کہ نوشی وہیں بیٹھی رہے اور باقی تینوں باہر نکل جائیں۔ تینوں آدمی خیمے سے نکل گئے اور خیمے کے پردے گر پڑے۔
کوئی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہامون نے تینوں کو پکارا اور اندر بلایا تینوں اندر چلے گئے۔
یہ سارا معاملہ اس لڑکی کا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ مجھے اشارہ بھی مل گیا ہے اور استاد کی روح نے بھی بتایا ہے کہ ایسی بات ہے ہی نہیں کہ یہ لڑکی جو چاہتی ہے اس میں فوراً کامیاب ہوجائے گی۔ میں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ میں اپنی ذمہ داری پوری کرو گا۔ لیکن اس لڑکی کو اپنے عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔ وہ میں تمہاری موجودگی میں بھی کرسکتا ہوں لیکن نہیں کروں گا ۔کیونکہ تم اس لڑکی کو اس حالت میں دیکھو گے تو کہو گے کہ یہ تو پاگل ہو گئی ہے ۔اور پھر ہو سکتا ہے کہ اس کا منگیتر لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے جائے ۔اگر اس کام میں کسی نے دخل اندازی کی تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگڑے گا لیکن یہ ناگ مجھے اور اس لڑکی کو بھی ڈس لے گا اور ہمیں مرنے میں ایک دو لمحے ہی لگیں گے۔
ہمیں تجھ پر اعتماد ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی دخل نہیں دے گا لیکن یہ کام ہونا چاہیے ۔یہ لڑکی اور اس کا یہ منگیتر شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے جو انعام مانگو گے تمھیں دے دیں گے۔
مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔میری یہ دنیا جو تم خیمے کے اندر دیکھ رہے ہو آباد رہنے دی جائے تو میرے لئے یہی انعام کافی ہے۔
اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔
*جاری ہے۔*
❤️
👍
🙏
5