بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 22, 2025 at 01:27 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/33* کوئی بات کرو سیلی نوش!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ چپ نہ رہو تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔ میں تو تمہیں بہت ہی دلیر اور نڈر لڑکی سمجھا تھا نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تمہیں جس کا ڈر تھا اسے تمہارے سامنے قتل کر آیا ہوں اس سے تم بچ کر نکل آئی ہو، اپنے منگیتر کا تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے وہ تمہارا منگیتر ہے دشمن نہیں ،جتنی دیر میں اسے پتا چل آتا ہے کہ تم لاپتہ ہو ہم بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، اسے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکے گا کہ ہم کس طرف نکل گئے ہیں ،ہوسکتا ہے اسے یہ شک ہو کہ میں تمھیں زبردستی یا ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہوں، اگر ایسا ہوا تو وہ بدوؤں کے خیموں اور جھنوپڑوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھرے گا۔ پہلے تو وہ ہامون جادوگر کے خیمے میں جائے گا ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔خون میں ڈوبی ہوئی اس کی لاش دیکھے گا تو اسے شک نہیں یقین ہوجائے گا کہ تم ہامون کو قتل کرکے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہو۔ وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ویسے بھی اس سے نہ ڈرو، باقی رہا میں مجھ سے تمہارا ڈرنا بجا ہے ،میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تمہارے دل سے اپنا ڈر نکال سکوں۔ یہ ڈر اس وقت تمہارے دل سے نکلے گا جب میں تمہیں تمہارے ماں باپ تک پہنچادوں گا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا سیلی نوش !،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ اب پھر کہتی ہوں کہ مجھے میرے ماں باپ کے پاس پہنچا دو گے تو بے بہا انعام دلاؤں گی ، ایک کام اور کرنا میرے ماں باپ کو یہ سارا واقعہ سنا نا میں نے سنایا تو شاید یقین نہ کریں، اس منگیتر کے متعلق بھی بتانا کہ یہ کس نیت کا آدمی ہے اور اس نے اپنی نیت کا اظہار کس طرح کیا تھا۔ یہ تو بتاؤں گا ہی نوشی !،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔۔لیکن بار بار انعام کا نام نہ لو مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے میں نے اپنا انعام وصول کر لیا ہے اور،،،،،، کیا کہا ؟،،،،،،نوشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔کیا تمہارا یہ مطلب تو نہیں کہ تم نے مجھے انعام کے طور پر وصول کر لیا ہے؟،،،، کیا تم مجھے میرے باپ باپ کے پاس نہیں لے جا رہے؟ بیوقوف لڑکی!،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میری پوری بات تو سن لو میں بدّو نہیں ہوں نوشی،،،،، اور میں عیسائی بھی نہیں۔ پھر کیا ہو؟ مسلمان!،،،،،، سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں مصری نہیں عربی ہوں اور میرا نام سیلی نوش نہیں عباس بن طلحہ ہے۔ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے میں جب تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دوں گا تو بتانا کے مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اور ان کا کردار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میں ہی ایک اچھا مسلمان ہوں میری جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو میں نے کیا ہے، یہ میرے مذہب کا حکم ہے، جسے ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہیں۔ نوشی کی حیرت زدگی کا یہ عالم کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور عباس بن طلحہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے وہ کسی اور ہی جہان کی مخلوق ہو۔ عباس کچھ آگے نکل گیا تھا اس نے دیکھا کہ نوشی اس کے ساتھ نہیں تو اس نے گھوم کر دیکھا نوشی گھوڑا روک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر حیرت زدگی اور تذبذب کا تاثر تھا۔ اب اس کو غالباً یہ توقع تھی کہ نوشی فوراً یقین کرلے گی کے وہ مسلمان ہے، اور مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے بدل جائے گی، اور بے اختیار کہہ اٹھے گی کہ مسلمان تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔ روک کیوں گئی نوشی؟،،،،،، عباس نے گھوڑا اس کی طرف موڑ کر کہا۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان بہت ہی اچھے لوگ ہوا کرتے ہیں نوشی کا ردعمل کچھ اور ہی تھا اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس طرح کھینچ رکھی تھی کہ گوڑا آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا اور نوشی اس طرح دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ عباس اس سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ نوشی نے گھوڑا ایک طرف موڑ لیا۔ اب تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ نوشی بھاگ نکلنے کا ارادہ کر چکی ہے ۔ اب اس نے اپنے گھوڑے کو چھیڑا اور تیزی سے گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر دیا۔ نوشی کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا اس نے باگ کو زور سے ایک طرف جھٹکا دے کر گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔ میرے راستے سے ہٹ جا عرب کے بدوّ!،،،،،، نوشی نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔ ہوش میں آؤ نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ ہاں کیا سمجھ بیٹھی ہو تم؟ دور رہ فریب کار!،،،،،، نوشیی نے تلوار نیام سے نکال لی اور للکار کر بولی تیرا خیال ہوگا کہ یہ شاہی خاندان کی شہزادی ہے اور شوق یہ تلوار اٹھائے پھرتی ہے، تلوار نکالو پہلے مجھے قتل کروں پھر میری لاش کے ساتھ کھیلتے رہنا لیکن مجھے آسانی سے قتل نہیں کر سکو گے۔ میں تمہیں دھوکا نہیں دے رہا نوشی!،،، میں تیرے دھوکے میں آؤں گی ہی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ مسلمان اعتماد کے قابل ہوتے ہیں؟،،،، تو مسلمان بھی نہیں عیسائی بھی نہیں تو اگر عربی ہی ہے تو صحرائی قزاق ہوگا ، تلوار نکال تجھے افسوس نہ رہے کہ میں نے تجھے مقابلے کا موقع نہیں دیا تھا۔ تمہارے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں نوشی!،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنی راہ الگ لگ سکتا ہوں ،میں اپنے ایک فرض کو نظرانداز کر رہا ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہوکر ایک نوجوان لڑکی کو اس بیان میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہو سکتا ہے کوئی قزاق آ نکلے وہ تمہیں میری طرح نیک نیتی اور احترام سے اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔ نوشی اتنی بھپری ہوئی تھی کہ اب اس کا اثر قبول کر ہی نہیں رہی تھی، اور اسے تلوار لہرا لہرا کر للکار رہی تھی۔ عباس نے آخر تلوار نکالی اور اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی۔ پھر کمر بند سے خنجر نکالا اور وہ بھی پھینک دیا، پھر کچھ ایسی باتیں کی کہ نوشی کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔ میرے دو سوالوں کا جواب دونوں۔۔۔ نوشی نے پوچھا۔۔۔ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم نے کونسا انعام وصول کر لیا ہے؟ میں جاسوس ہوں ۔۔۔عباس نے جواب دیا ۔۔۔میں بہت آگے جاسوسی کے لئے گیا تھا اب واپس اپنے لشکر میں جا رہا تھا، انعام یہ وصول کیا ہے کہ تم سے اور تمہارے منگیتر سے مجھے بڑی قیمتی معلومات ملی ہے ،یہ تو میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تمہاری فوج کیوں پیچھے ہٹتی جارہی ہے، اب تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ،جو مجھے معلوم ہوا تھا اور تم سے اور تمہارے منگیتر سے دو تین نئی باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ اسے میں اپنے لئے اور اپنے لشکر کے لئے بہت بڑا انعام سمجھتا ہوں ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اس ہامون جادوگر کو قتل کردیا ہے۔ اسلام اس توہم پرستی اور پیشنگوئیوں کو نہیں مانتا ۔آنے والے وقت کے راز صرف اللہ جانتا ہے۔ اور وہی ہے جو بگڑے کام سنوارتا ہے ۔ہامون نے سیدھے سادے اور پسماندہ لوگوں کو محض فریب کاری سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ مجھے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ایک شیطان تمہیں دھوکہ دے کر بے آبرو کرنا چاہتا تھا، اور مسلمان کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ تمھیں اس سے بچاؤں۔ تم مجھے میرے باپ تک پہنچانے چلے ہو ۔۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے باپ کو یہ بتانا چاہوں گے کہ تم اصل میں کون ہو، اور کیا ہو؟،،،،،،، میرا خیال ہے تم ایسا نہیں کرو گے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری اصلیت اپنے باپ سے چھپائے رکھوں گی، کیا یہ انعام نہیں ہوگا؟،،، میرا باپ تمہیں گرفتار کر لے گا قتل بھی کروا سکتا ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں تمہارے باپ تک پہنچوں گا ہی نہیں نوشی!،،،، عباس نے کہا ۔۔۔مجھے کوئی لالچ اور کوئی ترغیب نہ دو نہ مجھے ڈرانے کی کوشش کرو ،تمہیں بلبیس شہر کے باہر چھوڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دوں گا اور جب تک تم اپنے باپ تک پہنچوں گی میں بڑی دور نکل گیا ہوں گا،،،، میں تمہیں پھر کہتا ہوں ہوش میں آؤ تمہارے وہم نے ہمارے درمیان ایسی صورت پیدا کر دی ہے جیسے تم مجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہو،اور میں تمہیں ورغلا کر اغوا کرنا چاہتا ہوں ،تو یہ میرا راستہ ہے اور وہ تمہارا راستہ ہے۔ روم کے شاہی خاندان کی اس لڑکی پر اب ایسی خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، یا وہم سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔ گھوڑے سے اترو!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میری تلوار اور خنجر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو اور میرے ساتھ چل پڑو۔ نوشی عباس کے چہرے پر نظریں جمائے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر گھوڑے سے اتری عباس کی تلوار اور اس کا خنجر اٹھایا اور یہ دونوں ہتھیار کسی کو پیش کرنے کے انداز سے ہاتھوں پر رکھے اب اس کے پاس گئی اور دونوں ہتھیار اس کی طرف کر دیے ۔عباس نے اسے کہا کہ وہ تلوار اور خنجر اپنے پاس رکھے لیکن نوشی نے کچھ کہنے کے بجائے سر ہلایا کہ وہ اپنے پاس نہیں رکھے گی۔ عباس نے ہتھیار لے لیے اور نوشی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس نے عباس کو سر سے اشارہ کیا کہ چلو دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو بلبیس کی طرف چل پڑے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* تمہارے شاہی خاندان میں شارینا نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔۔۔ عباس نے پوچھا۔۔۔ تم اسے جانتی ہوگی؟ جانتی ہوں !،،،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ وہ ھرقل کی بیٹی تھی وہ تو کچھ عرصہ ہوا ایسی غائب ہوئی کہ اس کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تم اسے کس طرح جانتے ہو؟ اس طرح کہ وہ ہمارے پاس ہے۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔ہم میں سے کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ایک دوست کے ساتھ آ گئی تھی، اور اب اس کی بیوی ہے میرا یہ دوست میری طرح جاسوس ہے، وہ جاسوسی کے لیے گیا تھا شارینا سے ملاقات ہوئی اور دلی محبت نے دونوں کو ایک کر دیا۔ میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھی ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری گہری دوستی تھی بڑی اچھی لڑکی تھی کیا وہ تمہارے یہاں خوش رہتی ہے؟ میں تمہیں بتاؤں گا تو تم مانو گی نہیں۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔۔ خود جاکر دیکھو تو یہ تمہیں یقین آئے گا کہ وہ کتنی خوش ہے وہ واقعی بہت اچھی خاتون ہیں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ وہ تو بھول ہی گئی ہے کہ روم کے بادشاہ کی بیٹی ہے ، ہمارے ہاں فضاء ہی کچھ ایسی ہے، اور ماحول ایسا جس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں محبت اور خلوص ہے۔ کچھ دیر تک شارینا کی باتیں ہوتی رہیں ،اور نوشی بڑی دلچسپی سے پوچھتی رہی کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کے لئے معاشرتی اور دیگر حالات کیسے ہیں؟ عباس اسے بتاتا گیا۔ معلوم نہیں دل میں یہ بات کیوں آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کچھ دیر خاموش رہے کر کہا ۔۔۔کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلو ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔ مجھے تم نے دیکھ لیا اور اب تمہارے مقابلے میں تلوار نکال لی تھی۔ میں نے تمہارے متعلق ایسی کوئی بات سوچی ہی نہیں۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ اور میں ایسی بات سوچوں گا بھی نہیں تم جو سوچنا چاہتی ہوں سوچتی رہو میں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ ایک سوچ اور آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تمہارے ساتھ تو چلے چلو لیکن معلوم نہیں تمہارا خاندان کیسا ہے؟،،،، میرا مطلب یہ ہے کہ,,,,,,,,,,, میں تمہارا مطلب جان گیا ہوں عباس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔ تم یہ معلوم کرنا چاہتی ہو کہ میں تم بھی تمہاری طرح شاہی خاندان کا فرد ہوں، یا میرے خاندان کی حیثیت کیا ہے ؟،،،،اگر میں کہہ دوں کہ میں بہت ہی امیر کبیر خاندان کا فرد ہوں تو تم میرے ساتھ چل پڑوں گی ورنہ نہیں۔ نوشی ہنس پڑی اس کی ہنسی کا مطلب یہی ہوسکتا تھا کہ عباس بن طلحہ ٹھیک سمجھا۔ تم سن کر شاید حیران ہوگی نوشی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔اسلام میں کوئی شاہی خاندان نہیں ہوتا ہم جنہیں اپنا حکمران بناتے ہیں وہ بھی شاہی خاندان کے نہیں ہوتے ،ہم سب ایک ہیں اور سب کے حقوق اور سب کی حیثیت مساوی ہے ،اگر ہمارے خلیفہ ہمارے لشکر میں آ جائیں تو تم مانو گی ہی نہیں کہ یہ شخص ایک فاتح قوم کا سب سے بڑا سردار ہے، تم کہو گی کہ یہ تو بالکل عام سا آدمی ہے، اسلام میں بادشاہ اور رعایا کا کوئی تصور نہیں، بنی نوع انسان کی محبت اور ہمدردی ہمارا ایمان ہے، میں نے تمہیں اس لئے اس شیطان سے نہیں بچایا کہ تم بڑی خوبصورت اور شاہی خاندان کی لڑکی ہو، بلکہ اس لئے کہ تم مجبور اور بے سہارا لڑکی ہو، اور جذبات میں آکر غلط اور پرخطر راستے پر چل نکلی تھی۔ تو کیا مسلمانوں کے متعلق جو کچھ سنتی رہی ہوں وہ غلط ہے؟،،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔میں نے سنا ہے کہ مسلمان لوٹیرے اور وحشی لوگ ہیں۔ مجھ سے نہ پوچھو ۔۔۔عباس نے کہا ۔۔۔ہم نے مصر کے دو بڑے شہر عریش اور فرما فتح کئے ہیں، اس کے درمیان اور اردگرد بے شمار گاؤں ہیں وہاں جاکر عیسائیوں سے پوچھنا کہ مسلمانوں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے، تمہیں اپنے سوال کا جواب مل جائے گا,,,,,,,,,, میں شاہی خاندان کا ہی فرد ہوں اور تم میرے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہو تو بھی میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جاؤں گا ، کیونکہ تم میرے ہاتھ میں ایک امانت ہو,,,,,,,, اپنے ماں باپ کی امانت,,,,,,, میرے مذہب کا حکم ہے کہ امانت ان تک پہنچاؤ جن کی ملکیت ہے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷* ٹھہرو!،،،،،، عباس نے گھوڑے کی باگ کھینچ کر کہا۔۔۔ گھوڑے کی ٹاپ سن رہی ہو۔ نوشی نے بھی اپنے گھوڑے کی باگ کھینچی اور کان کھڑے کیے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ بڑی ہی دور کی آواز کی طرح سنائی دے رہے تھے ،وہ گھوڑسوار کوئی بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ان دونوں کو یہ خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ نوشی کے منگیتر کو جب پتہ چلے گا کہ نوشی اور سیلی نوش غائب ہیں تو وہ ان کے تعاقب میں ضرور آئے گا، یہ گھوڑسوار نوشی کا منگیتر ہوسکتا تھا ،اور وہ کوئی بدو بھی ہو سکتا تھا ،کسی نے دیکھ لیا ہوگا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور سیلی نوش نوشی کے ساتھ لاپتہ ہے ،قتل کا شک بلکہ یقین انہیں پر ہوسکتا تھا۔ لہذا کوئی بدو ان کے تعاقب میں آرہا ہوگا۔ گھوڑے کے ٹاپ اب واضح ہوگئے تھے اور لگتا تھا جیسے گھوڑا انہی کی طرف آرہا ہے۔ اور دونوں مڑ مڑ کر دیکھتے چلتے ہی گئے۔ گھوڑا خاصی تیز دوڑتا آ رہا تھا ان دونوں کی رفتار معمولی تھی پورا چاند اوپر آگیا تھا اور جنگل کی چاندنی پہلے سے زیادہ شفاف ہو گئی تھی ۔اب جو انہوں نے پیچھے دیکھا تو انھیں گھوڑا نظر آنے لگا وہ رک گئے ۔ وہ گھوڑسوار کوئی عام مسافر ہوتا تو معمول کی چال چلتا لیکن وہ سرپٹ گھوڑا دوڑاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے بالکل قریب آ گیا۔ نوشی!،،،،، گھوڑسوار نے للکار کر کہا۔۔۔ اتنی آسانی سے نہیں جا سکوں گی ، تلوار نکال لے او بدو پھر نہ کہنا کہ میں نے تجھے مقابلے کی مہلت نہ دی تھی۔ وہ نوشی کا منگیتر ہی تھا۔ وہ تلوار لہراتا رہا تھا ۔ اس نے گھوڑا روکا اور عباس کو للکار کر گھوڑا عباس اور نوشی کے اردگرد آہستہ آہستہ دوڑانے لگا۔ میں تجھے موقع دیتا ہوں اے رومی !،،،،،عباس بن طلحہ نے کہا۔۔۔ میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ نہیں لے جا رہا اسے اس کے ماں باپ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ جھوٹے بدو!،،،،، منگیتر نے کہا۔۔۔ میں جانتا ہوں تو اسے کہاں لے جا رہا ہے۔ نوشی نے عباس سے کہا کہ وہ تلوار نکال لے اور اس کے ساتھ کوئی بات نہ کرے۔ نوشی نے اپنی تلوار نکال لی منگیتر نے کچھ ایسے ناروا باتیں کہہ دی کے عباس کو تلوار نکال نی ہی پڑی ۔ ورنہ عباس کی کوشش یہ تھی کہ لڑنے تک نوبت نہ آئے، مگر منگیتر غصے سے باؤلا ہوا جا رہا تھا اور بڑھ بڑھ کر تلوار عباس کے آگے لہراتا تھا۔ آخر عباس اور نوشی کے منگیتر میں تیغ زنی شروع ہوگئی دونوں اپنے گھوڑوں کو گھما پھرا کر اور پینترے بدل بدل کر ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے۔وار روک بھی رہے تھے، دونوں ماہر تیغ زن تھے۔ تلوار ٹکراتی اور جسموں سے دور رہتی تھی۔ نوشی بھی تلوار لہرا کر منگیتر پر حملہ آور ہوئی لیکن عباس نے اسے ڈانٹ کر پیچھے کر دیا اور کہا کہ ایک کے مقابلے میں دو تلواروں کا آنا بزدلی ہے،،،،،،، ان کی لڑائی تیز اور تیز تر ہوتی چلی گئی نوشی اس قدر غصے میں بپھری ہوئی تھی کہ وہ اس لڑائی سے الگ رہ نہ سکی باربار درمیان میں آتی تھی لیکن دو مردوں کی لڑائی میں اس کی دخل اندازی کامیاب نہیں ہوتی تھی۔ عباس بار بار اسے پیچھے رہنے کو کہتا تھا۔ آنے دے آگے اسے ۔۔۔۔منگیتر نے غضب ناک آواز میں کہا۔۔۔ اسے میری ہی تلوار سے مرنا ہے تم دونوں زندہ نہیں جاسکوگے۔ تم پیچھے ہٹ جاؤ عباس!،،،، نوشی نے کہا۔۔ یہ میرے ہاتھوں مرنا چاہتا ہے۔ پیچھے رہ نوشی !،،،،،عباس نے گرج کر کہا۔۔۔ میں اسے زندہ رکھنا چاہتا ہوں۔ منگیتر گھوڑا ایک طرف لے گیا اور ان دونوں کے اردگرد دوڑانے لگا۔ کیا نام لیا ہے اس کا؟،،،، منگیتر نے پوچھا عباس بن طلحہ۔۔۔ عباس نے کہا۔۔۔ میرا نام سیلی نوش نہیں، میں مسلمان ہوں۔ ہاہا ۔۔۔۔منگیتر نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے۔ اب منگیتر قہر اور غضب سے عباس پر حملہ آور ہوا لیکن عباس کی تلوار منگیتر کے پہلو میں اتر گئی عباس نے تلوار کھینچ کر اس کی گردن پر ایسا وار کیا کہ آدھی گردن کاٹ دی منگیتر گھوڑے سے ایک طرف گر پڑا۔ چلو نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے اسے زندہ رہنے کا بہت موقع دیا تھا لیکن اسے اسی انجام کو پہنچنا تھا۔ نوشی کی طرف سے عباس کو کوئی جواب نہ ملا جیسے نوشی وہاں تھی ہی نہیں۔ عباس نے ادھر دیکھا جدھر نوشی کو ہونا چاہیے تھا لیکن ادھر نوشی کا گھوڑا کھڑا تھا اور نوشی گھوڑے کی پیٹھ پر نہیں تھی۔ عباس کو نوشی زمین پر گری نظر آئی، عباس کود کر گھوڑے سے اترا اور نوشی تک پہنچا نوشی کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے۔ عباس نوشی کے پاس بیٹھ گیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہوا ہے؟،،،،، نوشی درد سے کراہتی اتنا ہی کہہ سکی کہ بدبخت مرتے مرتے تلوار میرے سینے میں اتار گیا ہے، یہ نوشی کے آخری الفاظ تھے اور اس کا سر ایک طرف ڈھک گیا۔ عباس کو پتا ہی نہیں چل سکا تھا کہ نوشی کو اس کے منگیتر نے کس وقت اور کس طرح تلوار ماری تھی اس لیے عباس بار بار نوشی سے کہتا تھا کہ وہ دور رہے نوشی کسی وقت اتنی قریب آگئی تھی کہ اس کا منگیتر اس پر وار کر گیا۔ عباس بن طلحہ نے دونوں کی لاشیں وہیں چھوڑی، ان کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھی اور چل پڑا وہ اتنی اچھی نسل کے گھوڑے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اسے ذرا سا بھی افسوس نہ ہوا کہ اتنی خوبصورت لڑکی ماری گئی ہے، اسے اطمینان ہوا کہ اللہ نے اسے اس فرض سے سے جو اس نے خود ہی اپنے لئے پیدا کرلیا تھا جلد ہی سبکدوش کر دیا ہے اور اس نے امانت میں خیانت نہیں کی۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اسی رات کی بات ہے کہ سیلی نوش اور نوشی ،بدوّ کے جادوگر ہامون کو قتل کرکے بدو ملازم اور منگیتر کو سوتا چھوڑ کر وہاں سے چل پڑے تھے ،وہ مطمئن تھے کہ منگیتر اور ملازم کو پتہ نہیں چلا کہ یہ دونوں یہاں سے چلے گئے ہیں دونوں کچھ دور نکل آئے تھے۔ منگیتر کو موت اس طرف لے آئی تھی ورنہ نوشی اور عباس کو خیمے سے غائب پا کر وہ ان کی تلاش میں کسی اور طرف چل پڑا تھا۔ پھر وہ اس طرف کیوں آگیا؟،،،،، اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ منگیتر کو عباس کے ہاتھوں ہی قتل ہونا تھا اور اصل جواب بھی مل گیا وہ اس طرح کہ جب عباس نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں وہیں چھوڑ کر اور ان کے گھوڑے ساتھ لے کر ذرا ہی دور گیا تھا کہ اسے اسی طرف سے جس طرف سے منگیتر آیا تھا دوڑتے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دینے لگے، عباس نے یوں نہ کیا کہ ادھر ادھر ہو کر یا کہیں چھپ کر دیکھتا کہ اب کون آرہا ہے ،اس نے گھوڑا وہیں روک لیا اور آنے والے گھوڑسوار کا انتظار کرنے لگا۔ گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز قریب تر آتے گئ، کچھ ہی دیر بعد شفّاف چاندنی میں اسے گھوڑا اور گھوڑسوار کا ہیولہ نظر آنے لگا وہ کوئی اکیلا آدمی تھا صاف نظر آتا تھا کے اس کے ہاتھ میں تلوار نہیں ہے۔ عباس نے اپنا ایک ہاتھ تلوار کے دستے پر رکھ لیا وہ کوئی بدوّ ہی ہوسکتا تھا۔ وہ گھوڑسوار اس جگہ رک گیا جہاں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں پڑی تھیں۔ وہ گھوڑے سے اترا اور دونوں لاشوں کے پاس بیٹھ کر انہیں دیکھنے لگا چاندنی تو بڑی صاف تھی لیکن اتنی دور سے چہرہ نہیں پہچانا جاتا تھا ۔ عباس کو یوں لگا جیسے وہ نوشی کا بدو ملازم ہے۔ عباس اس کی طرف چل پڑا وہ بدو ملازم ہی تھا۔ جو عباس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔ عباس گھوڑے سے اترا اور اس کے پاس چلا گیا اس ملازم سے اسے کوئی خطرہ نہیں تھا اس لیے کہ وہ ملازم تھا اور دوسرے اس لیے کہ وہ بدو تھا۔ یہ کیا ہوا ہے؟،،،، بدوّ ملازم نے ڈھیلی سی آواز سے پوچھا۔ اس بدقسمت کو موت ادھر لے آئی تھی۔۔۔ عباس نے کہا ۔۔۔۔اور تمہاری یہ شہزادی اسی منگیتر کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے یہ شخص میری تلوار سے مارا گیا ہے کیا تم انکے پیچھے آئے ہو۔ میں شہزادی کے پیچھے آیا تھا۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔بڑی اچھی شہزادی تھی مجھے ملازم سمجھتی ہی نہیں تھی اس کے آنسو نکل آئے۔ بدو ملازم نے عباس بن طلحہ کو بتایا کہ منگیتر کس طرح اس طرف آگیا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ جب عباس اپنے خیمے سے زینیں لےکر نکل رہا تھا تو اس ملازم کی آنکھ کھل گئی تھی وہ چونکہ چھوٹی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے عباس سے یہ پوچھنے کی جرات نہ کی کہ وہ زینیں کہا لے جا رہا ہے۔ لیکن یوں کیا کہ جب عباس نکل گیا تو ملازم نے اٹھ کر اسے دیکھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ ملازم نے عباس کو گھوڑوں پر زین کستے دیکھا پھر عباس اور نوشی کو گھوڑوں پر سوار ہوتے دیکھا ،اور پھر یہ دیکھا کہ وہ کس طرف گئے ہیں اس نے یہ جرات بھی نہ کی کہ نوشی کے منگیتر کو بتاتا کہ عباس اور نوشی کہیں چلے گئے ہیں وہ اپنے خیمے میں جا کر بیٹھ گیا۔ خاصا وقت گزر گیا تو بدو ملازم نے نوشی کے منگیتر کو دیکھا کہ وہ خیمے سے نکل کر چند قدم آگے جا روکا تھا اور ہامون کے خیمے کی طرف دیکھ رہا تھا ذرا دیر وہاں رک کر منگیتر ہامون کے خیمے کی طرف چلا گیا، اس وقت ملازم اپنے خیمے سے باہر آیا اور منگیتر کو دیکھنے لگا اس وقت بھی اس نے یہ ہمت نہ کی کے منگیتر کو بتا دے کہ وہ دونوں کہاں چلے گئے ہیں؟ کچھ وقت بعد منگیتر دوڑتا ہوا اپنے خیمے کی طرف آیا اس وقت ملازم آگے ہوا اور پوچھا کہ وہ کیوں دوڑا رہا ہے ؟،،،،منگیتر نے اسے بتایا کہ ہامون مرا پڑا ہے اور وہ بدو (عباس )اور نوشی کہیں بھی نظر نہیں آ رہے۔ تم ضرور جانتے ہو گے کہ بدو کہاں رہتے ہیں؟،،،، نوشی کے منگیتر نے ملازم سے کہا۔۔۔ وہ بدو ہامون کو قتل کرکے نوشی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے وہ یقیناً اسے اپنے گھر لے گیا ہے تم آؤ اور میرے ساتھ چلو اور مجھے بتاؤ کہ یہ بدوّ کہاں کہاں رہتے ہیں ،ان کے سردار سے مجھے ملاؤ۔ ملازم ابھی اسے کچھ بتا ہی نہیں سکا تھا کہ منگیتر دوڑتا اپنے خیمے میں گیا اور زین اٹھا لایا اس نے ملازم سے کہا کہ فوراً اپنی زین اٹھا لایا اور گھوڑا تیار کرے۔ ملازم نے اسے بتایا کہ سیلی نوش اور نوشی اس طرف نہیں گئے جدھر بدو رہتے ہیں ۔وہ فرما یا بلبیس کی طرف گئے ہیں۔ یہ بدوّ سیلی نوش نہ فرما جائے گا نہ بلبیس نوشی کے منگیتر نے بھپری آواز میں کہا ۔۔۔تم یہ بتاؤ کیا اس طرف بھی بدوؤں کے کوئی قبیلے رہتے ہیں؟ بہت دور جا کر راستہ دائیں کو مڑتا ہے۔۔۔ ملازم نے جواب دیا۔۔۔ یہ راستہ خاصہ آگے جا کر پھر دائیں کو مڑتا ہے اور کچھ اور آگے جا کر ایک علاقہ آتا ہے جس میں بدووں کے دو قبیلے رہتے ہیں۔ کیا تم سیلی نوش کو جانتے ہو ؟،،،،منگیتر نے پوچھا۔۔۔ وہ کون سے قبیلے کا سردار ہے۔ نہیں!،،،، ملازم نے جواب دیا۔۔۔ میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا مجھے کچھ ایسا شک بھی ہوتا ہے کہ یہ شخص بدو ہے ہی نہیں۔ مجھے بھی یہی شک ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ وہ لڑکی کو لے اڑا ہے تم بھی میرے ساتھ چلو۔ ملازم نے غلامانہ سے انداز سے بات کرتے ہوئے اس کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اس نے کہا کہ وہ گھوڑا اتنی تیز نہیں توڑا سکتا اور اگر کہیں لڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ لڑ بھی نہیں سکے گا،،،،،،،، نوشی کا منگیتر اس قدر غصے اور ایسی جلدی میں تھا کہ ملازم کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہ کیا اور گھوڑا دوڑ دیا۔ ملازم نے عباس کو بتایا کہ نوشی کا منگیتر تو چل پڑا لیکن وہ خود وہاں زیادہ دیر رک نہ سکا اس نے سوچا کہ اب اپنے ہی گھر چلا جائے اور واپس بلبیس نہ جائے وہ شاہی محل کی سیاست سے تنگ آ گیا تھا یہ سوچ کر وہ اپنے قبیلے کی طرف چلنے لگا تو اسے نوشی کا خیال آگیا اس نے سوچا کہ ایسا نہ ہو نوشی واپس بلبیس چلی جائے تو پھر وہ اپنے دو چار فوجی اس کے قبیلے میں بھیج کر اسے گرفتار کروا کے بلا لے گی۔ اصل بات یہ تھی کہ بدو ملازم کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکا اور بلبیس کی طرف چل پڑا۔ اس نے راستے میں نوشی اور اس کے منگیتر کی لاشیں دیکھی تو وہ وہیں رک گیا۔ عباس نے اسے سنایا کہ یہ دونوں کس طرح مرے ہیں پھر اسے کہا کہ وہ بلبیس جائے تو نو شی کے ماں باپ کو بتائے کہ کیا واقعہ ہوا تھا۔ لیکن ملازم نے کہا کہ اب تو وہ اپنے قبیلے میں ہی جائے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہ بلبیس گیا تو نوشی کا جرنیل باپ غصے میں اسے ہی قتل کر دے گا۔ یہ مسئلہ عباس بن طلحہ کا نہیں تھا ۔نوشی کے والدین کو اطلاع ملتی نہ ملتی۔بدوّ ملازم وہاں جاتا یا اپنے قبیلے میں چلا جاتا۔ عباس کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ عباس فرما کی طرف چل پڑا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* عباس بن طلحہ ڈیڑھ یا دو دنوں کی مسافت کے بعد فرما پہنچا اور سیدھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس گیا۔ عباس عمرو بن عاص کے جاسوسی کے اس نظام کا ایک بڑا ہی قابل اور دانشمند فرد تھا جو انہوں نے سارے مصر میں ایک جال کی طرح پھیلا دیا تھا۔ عباس ایک مہینے اور کچھ دن بعد جاسوسی کا مشن پورا کرکے واپس آیا تھا کوئی نئی خبر لائے ہو؟،،، عمرو بن عاص نے عباس سے پوچھا۔۔۔ عباس نے اپنی جاسوسی کی پوری رپورٹ سپہ سالار کو پیش کی اور آخر میں نوشی اور ہامون کا واقعہ سنایا کوئی ایک بھی بات چھپائی نہیں اور ذرا ذرا سی تفصیل سنا ڈالی۔ سپہ سالار نے عباس کو ہلکی سی سرزنش کی کہ وہ خواہ مخواہ دوسروں کے مسائل میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ لڑکی کے منگیتر کی بجائے وہ منگیتر کے ہاتھوں قتل ہو جاتا۔ میرا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا سپہ سالار!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں نے جب لڑکی کی زبانی سنا کے وہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں شامل کرنے کے لئے آئی ہے، اور اس کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ بدوؤں کا جو لشکر مسلمانوں سے جا ملا ہے اسے ورغلا کر مسلمانوں سے ہٹایا جائے تو میں نے اپنا فرض سمجھا کہ اپنی شناخت بدل کر ان کے ساتھ ھو لوں۔ یہ دیکھنا بہت ہی ضروری تھا کہ یہ لوگ کیا کاروائی کرتے ہیں اور انھیں کچھ کامیابی حاصل ہوتی ہے یا نہیں ہمارے لیے یہ معاملہ بڑا ہی اہم اور نازک تھا،،،،،،، اس ہامون جادوگر کو میں نے ایک تو اس وجہ سے قتل کیا کہ وہ ایک ایسی لڑکی کی آبروریزی کرنا چاہتا تھا جو اس کے لیے رضامند نہیں تھی، اور اس سے نفرت کرتی تھی، اسے قتل کرنے کا دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے پتہ چلا کہ بدووں کے سرداروں پر اس کا ایسا اثر ہے کہ وہ اس کے اشاروں پر چلتے ہیں میں نے سوچا کہ ایسا نہ ہوجائے کہ یہ شخص اس لڑکی کو حاصل کرنے کی خاطر سرداروں سے کہہ دے کہ وہ اپنا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوجی کو دے دیں، میں نے ہامون کو قتل کرکے یہ خطرہ ہی ختم کردیا۔ پھر شاہی خاندان کی یہ لڑکی بھی ماری گئی اور اس کا منگیتر بھی اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اس علاقے کے بدو رومیوں سے جا ملیں گے اور ہمارے پاس آئے ہوئے بدوّ ہمارا ساتھ چھوڑ جائیں گے،،،،،، یہ بھی دیکھیں سپہ سالار!،،،، ان دونوں سے کتنی اہم معلومات مل گئی ہے بعض معلومات کی تصدیق ہو گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ مقوقس اور اطربون آپس میں متفق نہیں کہ وہ مصر کا دفاع کس طرح کریں۔ مقوقس محتاط رویہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ اور اطربون لڑنے کے حق میں ہے۔ اس رومی لڑکی نے مجھے بتایا تھا کہ ہرقل نے ان دونوں کو پورے اختیارات دے دیا ہے، لیکن یہ بھی کہا ہے کہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھنا کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بغاوت کردیں اس صورت میں مصر کو مسلمانوں سے بچانا ممکن نہیں رہے گا،،،،، لڑکی شاہی خاندان کی تھی اس لیے میں نے اس کی ہر بات قابل اعتماد سمجھی، وہ ہرقل کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی اور کہتی تھی کہ وہ ہمت ہار بیٹھا ہے، شام کی شکست نے اس کی کمر توڑ دی ہے، اس لئے مصر سے دور رہنا چاہتا ہے کہ ایک اور شکست کا داغ اس کے ماتھے پر نہ لگے۔ یہ بدوّ ہمارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔انہیں ہم نے فرما کا مال غنیمت اسی حساب سے دیا ہے جس حساب سے ہم نے اپنے لشکر میں تقسیم کیا ہے وہ بہت ہی خوش ہیں۔ آخری فیصلہ تو آپ کو ہی کرنا ہے سپہ سالار!،،،، عباس بن طلحہ نے مشورہ دیا۔۔۔ میں جو کچھ دیکھ آیا ہوں اس کے پیش نظر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ کو کمک کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور فوراً پیش قدمی کرکے بلبیس پہنچنا چاہیے رومیوں کو سنبھلنے اور دم لینے کا موقعہ نہ دیں انہیں سوچنے کی مہلت نہ دیں۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی تھی وہ غیر معمولی طور پر دانشمند اور جرات مند تھے ان میں خالد بن ولید والی صفات پائی جاتی تھی ،حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا تھا کہ عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ خالد بن ولید کی طرح بے خطر اور بےدھڑک ایسے خطروں میں کود جاتے ہیں ،جہاں مجاہدین کے پورے لشکر کی ہلاکت صاف نظر آنے لگتی ہے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمروبن عاص کمک کے انتظار میں وقت ضائع کرنے کے حق میں نہیں تھے انہوں نے پہلے ہی لشکر کو تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا اور اپنے ماتحت سالاروں اور کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ وہ دشمن کے تعاقب میں رھیں اور اسے دم نہ لینے دیں۔ *جاری ہے۔*
❤️ 👍 😂 😮 9

Comments