
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 22, 2025 at 03:34 PM
Ausaf Arham
✍🏻
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s
✍🏻
*اورنیل بہتارہا*
*قسط نمبر/34*
جب نوشی بدوؤں کے علاقے میں چلی گئی تھی، اس کا شکست خوردہ جرنیل باپ بلبیس پہنچا اور فرما کی شکست کی خبر سنائی تو وہاں موت کا سکوت طاری ہو گیا ۔ اس کی فوج کے بکھرے ہوئے سپاہی جب ایک ایک دو دو کر کے بلبیس پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کی شجاعت اور بہادری کی ایسی باتیں سنائی کہ بلبیس میں جو فوج تھی اس پر دہشت سی طاری ہو گئی ۔
دو یوروپی مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رومی فوج میں یہ بات پھیل گئی اور سپاہیوں کی زبان پر چڑھ گئی کے مسلمانوں کی فوج کی تعداد بہت ہی تھوڑی نظر آتی ہے لیکن جب لڑائی شروع ہوتی ہے تو ان کی تعداد کئی گناہ بڑھ جاتی ہے ،اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار اور غیبی طاقت ہے ورنہ انسان اس طرح نہیں لڑ سکتے۔
جاسوسوں نے سپہ سالار عمر بن عاص کو رومی فوج کی یہ کیفیت بھی بتا رکھی تھی، یہ اس جذبہ جہاد کا کرشمہ تھا جس سے مجاہدین سرشار تھے اور انہوں نے اپنا تعلق براہ راست اللہ کے ساتھ جوڑ رکھا تھا۔
فتح اور شکست کے فیصلے میدان جنگ میں ہی ہوا کرتے ہیں اور تاریخ ان فوجوں اور ان کے جرنیلوں کی ہی کہانیاں سناتی ہے جو میدان جنگ میں لڑتے ہیں ،لیکن جنگ کے پس پردہ کچھ اور ڈرامے بھی ہوتے ہیں جو آنے والے نسلوں تک کم ہی پہنچتے ہیں یہ ان لوگوں کی انفرادی کہانیاں ہوتی ہیں جو میدان جنگ سے دور ایسا کردار ادا کرتے ہیں جو فتح یا شکست پر اثرانداز ہوتا ہے، لیکن ایسے کردار تاریخ سے متعارف نہیں ہوتے کبھی کوئی اس دور کا وقائع نگار تاریخی نوعیت کے احوال و کوائف اکٹھے کرتے ہوئے کسی ایسے گمنام کردار سے متعارف ہو گیا تو اس نے پردوں کے پیچھے ایک کہانی تاریخ کے دامن میں پوری تفصیل سے ڈال دی،
ان میں غدار بھی ہوتے ہیں اور نوشی اور عباس بن طلحہ جیسے وہ کردار بھی جو جذبوں سے سرشار ہو کر کسی دنیاوی لالچ کے طلبگار نہیں ہوتے، نوشی ایسی ہی ایک لڑکی تھی جسے قومی جذبے نے دیوانہ بنا ڈالا تھا لیکن وہ آخر انسان تھی اور نوجوان۔
ایسی کہانیاں اگلی نسلوں تک سینہ بسینہ پہنچتی ہے یا کوئی وقائع نگار تفصیل سے ایسے واقعات بیان کر کے نئی روایت آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر جاتا ہے۔
آئیے مدینہ چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں سے ابھی تک سپہ سالار عمرو بن عاص کو کمک کیوں نہیں بھیجی گئی تھی،،،،،، عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جنگی صورتحال سے قاصدوں کے ذریعے آگاہ رکھتے تھے ،اور ہر بدلتی صورت تفصیل سے لکھوا کر بھیجتے تھے ۔تیز رفتار اور بڑی ہی سخت جان قسم کے قاصد تھے جنہیں اس کام کی خصوصی تربیت دی گئی تھی۔
نقشے پر مصر اور مدینہ کا نقشہ دیکھیں بڑا ہی زیادہ فاصلہ ہے ،وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ اس دور میں گھوڑے کی پیٹھ پر یہ فاصلہ ایک مہینے میں طے ہوتا تھا ، یا اس سے زیادہ دن لگتے تھے لیکن تیز رفتار قاصد چند دنوں میں یہ فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے۔ یہ راستہ ان علاقوں میں سے گزرتا تھا جو مجاہدین اسلام نے سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیے تھے، قاصد خشکی کے راستے سے بحیرہ قلزوم پھر بحر احمر کے کنارے کنارے مدینہ تک آتے جاتے تھے۔ تمام راستے میں چوکیاں بنا دی گئی تھی جن میں نہایت اعلی نسل کے تازہ دم گھوڑے تیار رکھے جاتے تھے۔ قاصد تھکے ہوئے گھوڑوں کو چوکی پر چھوڑتے اور تازہ دم گھوڑے پر سفر جاری رکھتے تھے۔ کہیں کہیں وہ کھانے پینے اور ذرا سا سستانے کے لئے رک جاتے تھے لیکن کیا دن اور کیا رات وہ گھوڑے کی پیٹھ پر مسلسل سفر میں رہتے تھے اس طرح پیغام رسانی کا نظام صحیح معنوں میں برق رفتار بنادیا گیا تھا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
ہر چند روز کے بعد عمرو بن عاص کا قاصد مدینہ پہنچتا اور تازہ صورتحال کا پیغام امیرالمومنین تک پہنچاتا تھا۔ تاریخ کے مطابق ہر پیغام میں عمرو بن عاص کمک کے لیے لکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسی بات کبھی نہیں لکھی تھی کہ انہیں کمک نہ ملی تو وہ پیش قدمی روک دیں گے اور یہ جنگی مہم آگے نہیں بڑھ سکے گی، ان کا ہر پیغام حوصلہ افزا ہوتا تھا جیسے انہیں کسی بھی قسم کی مایوسی نہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس قسم کے حوصلہ افزا پیغامات کو دیکھ کر کمک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، ان کی زیادہ تر توجہ مصر پر ہی مرکوز تھی کیونکہ عمرو بن عاص بہت ہی تھوڑی نفری لے کر ایسی صورتحال میں مصر چلے گئے تھے کہ امیرالمؤمنین کے اہم ترین اور بزرگ مشیر اس مہم جوئی کے خلاف تھے۔
خود حضرت عمررضی اللہ عنہ نے بہت ہی سوچ بچار کے بعد عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت دی تھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقیناً سوچتے ہونگے کہ مصر میں ناکامی ہوئی تو انہیں مصاحبوں اور مشیروں کے آگے سرمشار ہونا پڑے گا کہ منع کرنے کے باوجود مجاہدین کے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا گیا تھا۔
تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مصر پر لشکر کشی کے سب سے بڑے مخالف بزرگ صحابی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ تھے اس مخالفت میں وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے ناراضگی تک بھی پہنچ گئے تھے ،لیکن اب وہی حضرت عمر پر زور دے رہے تھے کہ عمرو بن عاص کو کمک بھیجی جائے پھر کیا وجہ تھی کہ کمک میں تاخیر ہورہی تھی ۔ تاریخ نویسوں نے اس سوال پر قیاس کے گھوڑے دوڑائے ہیں اور اس طرح کچھ وجوہات سامنے آگئی ہے۔
یہ خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ اس دور کے مشیر اور دیگر سرکردہ افراد جن سے امیرالمومنین مشورے طلب کیا کرتے تھے ہمارے آج کے سیاسی لیڈروں جیسے نہیں تھے، ان کے یہاں اپنی انا کا کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں، ان کے پیش نظر دین اور ملت کا سودوزیاں رہتا تھا ،ایسا نہیں ہوتا تھا کہ معلوم کرلیتے کے امیرالمومنین کیا چاہتے ہیں اور پھر ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے، ایسا بھی نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین اپنی مخالفت کو برحق ثابت کرنے کے لئے اس کام میں بھی روڑے اٹکاتے جو دین اور سلطنت اسلامیہ کے لیے بہتر ہوتا تھا ،وہ سب اپنے آپ کو سربراہ مملکت کے آگے نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالی کے آگے جواب دہ سمجھتے تھے، پہلے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کمک بھیجنے پر زور دے رہے تھے پھر دوسرے مخالفین نے بھی کہنا شروع کردیا کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو یوں تنہا نہ چھوڑاجائے سب جانتے تھے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی طرح خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ پورے لشکر کو جانوں کے خطرے میں ڈال دیں۔
آخر ایک روز امیرالمؤمنین نے فجر کی نماز کے بعد سب کو روک لیا اور کمک کے مسئلہ پر بات شروع کی حضرت عمر بڑے ہی اثر انگیز انداز سے اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ میں بات کیا کرتے تھے ،انہوں نے ایسا نہ کہا کہ آج مخالفین بھی کمک بھیجنے پر زور دے رہے ہیں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اچھی نیتوں کا اجر بہت اچھا دیا کرتا ہے ،پھر انہوں نے کمک کی تاخیر کی وجوہات بیان کی جو مختصراً یوں ہے کہ عراق سے کسریٰ ایران کو بے دخل کر دیا گیا تھا لیکن اس کی حالت اس شیر جیسی تھی جو بری طرح زخمی ہو چکا ہو لیکن ابھی مرا نہ ہو خطرہ تھا کہ زخمی شیر آخری حملہ ضرور کرے گا اس خطرے کے پیش نظر عراق کے محاذ سے کوئی نفری نکالی نہیں جاسکتی تھی۔
ادھر پورے کا پورا ملک شام سلطنت اسلامیہ میں شامل کر لیا گیا تھا لیکن طاعون کی وباء مجاہدین کے لشکر کا تقریباً تیسرا حصہ چاٹ گئی تھی، اور بہت سے نامور سپہ سالار دنیا سے اٹھ گئے تھے ،اس قدرتی آفت کی پیدا کردہ کمی کو پورا کرنا تھا اس میں مزید کمی نہیں کی جاسکتی تھی۔
پھر حضرت عمر نے ایک وجہ یہ بتائی کہ انھیں یقین ہے کہ عمرو بن عاص عریش کو فتح کر چکے ہیں اور زیادہ سے زیادہ آگے بڑھے تو فرما تک جائیں گے اور وہاں کمک کا انتظار کر کے آگے بڑھیں گے۔
حضرت عمر کو پہلے عمرو بن عاص نے یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ بدوؤں کا ایک لشکر ان کے ساتھ آن ملا ہے۔ جس نے رسد کا مسئلہ حل کر دیا ہے اور اب یہ لشکر لڑائی میں بھی شامل ہو گا۔ حضرت عمر کو اس پیغام سے تسلی ہوگئی تھی کہ کمک کی ضرورت پوری ہو گئی ہے اس روز انہوں نے اور سب نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ اللہ کی خوشنودی حاصل ہو تو اللہ کس طرح مدد کرتا ہے ،کسی کو توقع تھی ہی نہیں کہ غیرمسلم بدوؤں کی اتنی زیادہ نفری مجاہدین سے آن ملے گی اور رسد اور کچھ اور ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ پھر فرما کی فتح کی اطلاع بھی آگئی امیرالمومنین نے کہا کہ اسی کمک سے اتنا بڑا شہر فتح کرلیا گیا ہے اور اب عمرو بن عاص مدینہ کی کمک کے بغیر آگے نہیں بڑھیں گے۔
مسجد میں جو حضرات موجود تھے ان میں سے بعض نے کچھ مشورے دیے اور اس مسئلہ پر کچھ باتیں ہوئیں آخر سب مطمئن ہوگئے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=*
چند ہی دن گزرے تھے کہ فرما سے عمرو بن عاص کا ایک اور پیغام آ گیا، پچھلے پیغام میں انہوں نے صرف فتح کی اطلاع دی تھی، اب انہوں نے تفصیلات لکھ کر بھیجی تھی جس میں یہ بتایا کہ اپنا کتنا جانی نقصان ہوا ہے اور بدو کتنے مارے گئے ہیں، ان تفصیلات میں ایسے شدید زخمیوں کا بھی ذکر تھا جو ہمیشہ کے لئے یا کچھ عرصے کیلئے لڑائی کے قابل نہیں رہے تھے ۔فرما کی فتح نے جانوں کی قربانی خاصی زیادہ لی تھی۔ بدو اس لیے زیادہ مارے گئے تھے کہ انھیں کسی منظم لشکر کے ساتھ رہ کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ عمرو بن عاص نے لکھا کہ اللہ کی طرف سے انہیں کمک مل گئی تھی لیکن اب اپنے لشکر اور بدوؤں کی اس کمک کی تعداد اتنی رہ گئی ہے کہ کمک کی شدید ضرورت ہے۔
عمرو بن عاص نے یہ بھی لکھا کہ وہ اگلی صبح بلبیس کی طرف کوچ کر رہے ہیں ۔
اس اطلاع نے امیرالمومنین کو پریشان کردیا انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اتنے تھوڑے لشکر کے ساتھ بلبیس کو محاصرے میں لینا کس قدر بڑا خطرہ ہے۔ عمرو بن عاص نے اتنی جلدی پیش قدمی کے فیصلے کا جواز بھی لکھا تھا ہم یہ جواز پہلے بیان کرچکے ہیں ، یعنی رومیوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور انہیں یہ تاثر بھی نہ ملے کہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس جواز سے بڑی اچھی طرح واقف تھے ، وہ جانتے تھے کہ رومیوں کی چال یہ ہے کہ مسلمان مصر میں اور زیادہ اندر آ جائیں اور پھر انہیں گھیرے میں لے لیا جائے، اور اسکے رسد کمک کے راستے بند کردیئے جائیں، لیکن دشمن کی چالوں سے صرف واقف ہو جانا ہی کافی نہیں ہوتا ۔ ان چالوں کو بے کار کرنے کے لئے کوئی نئی چال سوچنی پڑتی ہے۔
عمرو بن عاص انکی چال اور نیت کو سمجھ کر ہی فرما سے کوچ کر رہے تھے، اور جلدی سے جلدی بلبیس پہنچنا چاہتے تھے، لیکن سوال یہ تھا کہ ان کے ساتھ مجاہدین کی جو تعداد تھی کیا وہ بلبیس کو فتح کرنے کے لئے کافی تھی؟،،،،
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ جو لشکر تھا اس کی نفری رومیوں کے مقابلے میں بہت ہی تھوڑی تھی، بعض مؤرخوں نے یہ تعداد چار ہزار لکھی ہے بعض نے کچھ کم بعض نے ذرا زیادہ لکھی ہے، ان سب کی بتائی ہوئی تعداد پر غور کیا جائے تو اندازہ یہ ہے کہ بدوؤں کو ملا کر لشکر کی تعداد پانچ ہزار سے چند سو زیادہ تھی۔
لشکروں کو باقاعدہ فوج کی حیثیت حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ہی دی تھی ،باقاعدہ تنخواہ اور مراعات مقرر کی تھی لیکن مصر پر فوج کشی کے وقت تک یہ تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ لوگ رضاکارانہ طور پر لشکروں میں شامل ہوتے تھے۔ اب حضرت عمررضی اللہ عنہ نے شدت سے محسوس کیا کہ عمرو بن عاص کیلئے کمک بھیجوانا ہے۔ تو انہوں نے وہی طریقہ اختیار کیا جو اس وقت رائج تھا وہ یہ کہ مسجد میں اعلان کیا گیا کہ مصری کیلئے کم از کم چار ہزار تعداد کا لشکر بھیجنا ہے اور لوگ آگے آئیں ۔
مشہور ومعروف مؤرخ ابن الحکم نے چند ایک مؤرخوں کے حوالوں سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر پہلے ہی ایک صحابی پر تھی جن کا نام گرامی زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ تھا ،جنگ کا بہت تجربہ رکھتے تھے اور قیادت کی مہارت میں خاصے مشہور تھے زبیر بن العوام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔
ایک روایت تو یہ ہے کہ امیرالمومنین کی نظر ان پر تھی لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب سے عمرو بن عاص مصر میں داخل ہوئے تھے زبیر رضی اللہ عنہ نے چند مرتبہ یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ انہیں مصر عمرو بن عاص کے لشکر میں بھیجا جائے ۔ تاریخ میں یہ ذکر نہیں کہ انھیں کیوں نہ بھیجا گیا ، قرین قیاس یہ ہے کہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ نے انہیں ریزور میں رکھا ہوگا کہ جہاں صورتحال بہت ہی مخصوص ہو جائے زبیر کو وہاں بھیجا جائے بہرحال اب حضرت عمر نے انہیں بلایا۔
ابوعبداللہ ۔۔۔۔امیرالمومنین نے زبیر کو ان کے دوسرے نام سے مخاطب ہوکر پوچھا ۔۔۔کیا تو مصر کی عمارت کا خواہشمند ہے؟
نہیں امیرالمومنین!،،،،، زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔۔۔ مجھے عمارت کی ضرورت ہے نہ خواہش۔ اگر آپ مجھے کسی محاذ پر بھیجنا چاہتے ہیں تو میں جہاد اور مجاہدین کی اعانت کے لیے جاؤں گا ،دل میں کوئی لالچ لے کر نہیں، میں جانتا ہوں آپ مجھے مصر بھیجنا چاہتے ہیں میں سن چکا ہوں کہ مصر کے لیے کمک تیار ہو رہی ہے ،میں جاؤں گا اور جب دیکھوں گا کہ عمرو بن عاص نے مصر فتح کر لیا ہے تو اس کے کسی کام میں دخل نہیں دوں گا اور اسے عمارت کے رتبے پر دیکھ کر روحانی مسرت کا اظہار کروں گا۔
اس وقت کے عربی معاشرے میں زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کو جو حیثیت حاصل تھی اس کا مختصر سا ذکر ہو جائے تو بے محل نہ ہوگا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد بھائی اور صحابی ہونا ہی ان کی عظمت کی بہت بڑی دلیل تھی۔ لیکن انھیں اس سے زیادہ عظمت عطا ہوئی تھی ،انہوں نے سولہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، حبشہ کی دونوں ہجرتوں میں شامل تھے، اور جب مکہ سے مدینہ کو ہجرت ہوئی تو اس میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ،یہ شرف زبیر کو ہی حاصل تھا کہ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور ہر بار جان کی بازی لگا کر لڑے۔
جنگ خندق میں ضرورت محسوس ہوئی کے عیسائیوں کے دو قبیلوں کے متعلق معلوم کیا جائے کہ وہ اہل قریش کا ساتھ دے رہے ہیں یا نہیں اور اگر ان کا ساتھ دے رہے ہیں تو ان کی کتنی نفری ہے اور کب کمک کے طور پر آرہی ہے، یہ بڑا ہی خطرناک کام تھا جس کے لیے زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور دشمن کے اندر جاکر صحیح خبر لے آئے، پھر ایک اور موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاسوسی کی ضرورت محسوس کی تو آپ کو رضاکار ڈھونڈنے پڑے یہ بھی بڑا ہی پرخطر کام تھا اس کے لئے بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر دشمن کی بستیوں میں گئے اور صحیح خبریں لے آئے۔
تاریخ میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے زبیر بن العوام میرا حواری ہے۔
اس سے زیادہ عظیم اور مقدس خراج تحسین اور کیا ہوسکتا ہے۔ فتح مکہ کے دن مجاہدین کے لشکر میں تین علم تھے جن میں سے ایک زبیر بن العوّام رضی اللہ تعالی عنہ کے ہاتھ میں تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ، اور امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ، بھی زبیر بن العوام رضی اللہ تعالی عنہ سے خصوصی عقیدت اور محبت رکھتے تھے ،ان میں کچھ ایسے اوصاف تھے کہ کوئی ایک بار ان سے متعارف ہو جاتا تو ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا ،اور جس لشکر کی قیادت انہیں دی جاتی وہ لشکر ان کے اشاروں پر جان قربان کرتا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ زبیر بن العوام کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مصر کے لیے کمک تیار کریں۔ زبیر رضی اللہ تعالی عنہ پہلے ہی بے تاب تھے کہ انہیں جہاد کی کوئی ذمہ داری سونپی جائے، انہوں نے اسی روز سے کام کی ابتدا کردی یہ کام ایک یا دو دنوں میں ہونے والا نہیں تھا ،زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دن رات ایک کر دیا اور لوگوں کو اکٹھا کرنے لگے یہ بتانا ممکن نہیں کہ انہوں نے کمک کتنے دنوں میں اکٹھا کر لیا، البتہ یہ بالکل واضح ہے کہ وہ جو کمک انھوں نے تیار کیا اس کی تعداد چار ہزار تھی۔
یہ کمک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پیش کی گئ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس چار ہزار نفری کی ایک ایک مجاہد کو دیکھا اور پھر اسے چار حصوں میں تقسیم کیا پھر ہر حصّے کا الگ سالار مقرر کیا، ہر سالار کے ماتحت ایک ایک ہزار مجاہدین تھے، ان میں ایک تھے زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ، دوسرے عبادہ بن ثابت رضی اللہ عنہ، تیسرے تھے مقداد بن اسود سلمی رضی اللہ عنہ، اور چوتھے تے خارجہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ، ان چاروں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری زبیر بن العوام کو دی گئی۔
کمک کی تعداد کے متعلق تاریخ میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے ۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی، وہ تاریخ لکھنے والے مؤرخوں نے جن میں بٹلر بھی شامل ہے صحیح بات لکھی ہے اور بتایا ہے کہ یہ غلط فہمیاں کیوں کر پیدا ہوئیں۔
یہ غلط فہمی امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے الفاظ سے پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اس کمک کے ساتھ جو تحریری پیغام عمرو بن عاص کو بھیجا تھا اس کے الفاظ یہ تھے۔
میں تمہارے لئے چار ہزار مجاہدین بھیج رہا ہوں ایک ایک ہزار مجاہدین پر ایک ایک سالار مقرر کر دیا ہے، یہ سالار جنگ لڑنے اور لڑانے کی اتنی مہارت اور اتنا جذبہ رکھتے ہیں کہ یوں سمجھو کہ ایک ایک سالار ایک ایک ہزار مجاہدین کے برابر ہے ،تم یوں سمجھ لو کہ میں تمہیں بارہ ہزار سرفروش مجاہدین بھیج رہا ہوں ،اور مجھے پوری امید ہے کہ بارہ ہزار جاں باز دشمن سے مغلوب نہیں ہوسکتے دشمن کی تعداد کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔
اس تحریر سے کچھ تاریخ نویس یہ سمجھ بیٹھے کہ کمک کی تعداد بارہ ہزار تھی ، صحیح تعداد چار ہزار تھی، صحیح طور پر نہیں لکھا جاسکتا کہ یہ کمک کتنے دنوں بعد عمرو بن عاص تک پہنچی، وہ تو تیز رفتار قاصد تھے جو حیران کن رفتار سے اتنا زیادہ فاصلہ چار پانچ دنوں میں طے کر لیا کرتے تھے، یہ پورا لشکر تھا جو اتنی تیز رفتاری سے سفر نہیں کرسکتا تھا ۔
جب یہ کمک نماز فجر کے بعد مدینہ سے روانہ ہوئی تو امیرالمومنین رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم، اور تقریباً تمام بزرگ صحابہ اکرام اس کمک کے ساتھ مدینے سے دور تک گئے اور پھر ایک جگہ رک کر مجاہدین کو الوداع کہی، سب نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے مدینہ کی منڈیروں پر عورتیں دامن پھیلائے کھڑی مجاہدین کے لیے دعائیں کر رہیں تھیں۔
*=÷=÷=÷=÷=÷÷=÷۔=÷=÷*
آخر ایک روز سپہ سالار عمرو بن عاص نے کمک کا انتظار کیے بغیر لشکر کو بلبیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیدیا۔ کوچ فجر کی نماز کے بعد ہوا تھا اور یہ فروری 640 عیسوی کا پہلا ہفتہ تھا۔
ایک روز پہلے عمرو بن عاص نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین کی طرف بھیج دیا تھا جس میں انہوں نے ایک تو بلبیس کی طرف پیش قدمی کی اطلاع لکھی اور دیگر امور کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ کمک کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے،،،، ہم اس پیغام کا ذکر پہلے کر چکے ہیں۔
عمرو بن عاص نے ایک روز پہلے لشکر سے خطاب کیا تھا اس سے پہلے بھی ایک بار انہوں نے لشکر سے خطاب کیا اور بتایا تھا کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے لیے مصر کتنا اہم ہے۔ مصر کو انہوں نے پیغمبروں کی سرزمین کہا تھا انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس راستے پر وہ مصر فتح کرنے جارہے ہیں یہ پیغمبروں کا راستہ ہے ۔اس راستے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام ،اور پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام، جا چکے ہیں اس راستے سے حضرت عیسی علیہ السلام، اور حضرت موسی علیہ السلام بھی گئے تھے۔ اب عمرو بن عاص نے جو لشکر سے خطاب کیا اس میں انہوں نے کہا کہ ہم جس شہر بلبیس کو فتح کرنے جا رہے ہیں وہ فرما سے زیادہ اہم اور قیمتی شہر ہے۔ اور رومی یہ شہر ہم سے بچانے کے لیے بے دریغ جانوں کی قربانیاں دیں گے لیکن اللہ کا حکم ہے کہ ہم یہ شہر ہر قیمت پر فتح کریں۔
انہوں نے لشکر کو جذباتی الفاظ سے بھڑکایا نہیں اور انہیں سبز باغ نہیں دکھائے نہ ایسا تاثر دیا کہ رومی بلبیس کو پلیٹ پر رکھ کر انہیں پیش کر دیں گے، انہوں نے حقیقت بیان کی اور جن دشواریوں کا سامنا تھا وہ من و عن بیان کر دی، انہوں نے بتایا کہ اپنی تعداد بہت تھوڑی ہے اور دشمن کی جنگی تعداد کئی گنا زیادہ ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ عریش اور فرما ہمارے لئے صرف اس لئے آسان تھی کہ رومی ہمیں دھوکہ دے کر مصر میں کچھ اور آگے لانا چاہتے تھے، ہم اور آگے آگئے ہیں اور مزید آگے جا رہے ہیں یوں سمجھ لو کہ بلبیس ایک پھندہ ہے جس میں رومی ہمیں پھنسا کر ہمیشہ کے لئے بیکار کر دینا چاہتے ہیں۔
مت بھولو کہ تمہارا براہ راست تعلق اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ ہے، سپہ سالار عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ تم اللہ کے حکم سے اللہ کے راستے پر جا رہے ہو یہ ہمارا ایمان ہے، اور ہمارا دشمن ہمیں شکست دے کر یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہمارا ایمان غلط ہے، اور یہ کسی انسان نے خود ہی گھڑ لیا ہے، ہمیں کفار پر ثابت کرنا ہے کہ ہم دین الہی کے پیروکار ہیں۔ اور اپنے ساتھ یہی دین لائے ہیں جو ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ اور اس کے ساتھ اللہ کا یہ حکم کہ یہ دین اللہ کے ہر بندے تک پہنچانا ہمارا فرض ہے ،اس فرض کی ادائیگی کے لئے ہمیں سمندروں کا سینہ چیرنا ہے پہاڑوں کے جگر چاک کرنے ہیں اور دشت و جبل کو اپنے قدموں تلے روندنا ہے۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو تمام حقائق سے آگاہ کیا اور انہیں ٹھوس قسم کی ہدایات دیں، انھوں نے لشکر کو پیش قدمی کے دوران جس طرح تقسیم کیا اور جس ترتیب سے لشکر کو پیش قدمی کرنی تھی وہ سب لشکر کو بتایا اور اچھی طرح ذہن نشین کرایا کہ یہ تقسیم اور یہ ترتیب کیوں کی گئی ہے۔
پیش قدمی کے دوران لشکر کی تقسیم اور ترتیب یہ تھی کہ سب سے آگے ہر اول دستہ تھا اور اس دستے سے بہت آگے چند ایک مجاہدین مقامی کسانوں اور محنت کشوں کے بھیس میں بکھرے ہوئے جارہے تھے ۔
وہ جاسوس تھے اور دیکھ بھال کرتے جا رہے تھے کچھ دستہ ہراول سے دور پیچھے تھے ان کے دائیں اور بائیں خاصے فاصلے پر ایک دستہ جا رہا تھا اور ایک دو دستے عقب میں آرہے تھے ،مطلب یہ کہ لشکر ایک مسلح قافلے کی صورت میں نہیں جا رہا تھا۔
یہ ترتیب یہ سوچ کر کی گئی تھی کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رومی جرنیل انہیں اس مقام پر لے آئے ہیں جہاں وہ کسی بھی وقت لشکر پر پیش قدمی کے دوران بہت زیادہ نفری سے دائیں اور بائیں سے یا عقب سے حملہ کر سکتے ہیں۔ جاسوسوں نے سپہ سالار کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ رومی مجاہدین کے لشکر کو پہلے آگے لا کر اور پھر گھیرے میں لے کر مارنا چاہتے ہیں۔
عمرو بن عاص روایتی لڑائیاں لڑنے والے سپہ سالار نہیں تھے وہ دشمن کی شاطرانہ چالوں کو سمجھتے تھے اور ایسی ہی چال چلنے کی مہارت رکھتے تھے ،دشمن کی نیت کو اوران چالوں کا توڑ کرنے کو جو ابھی دشمن کے ذہن میں ہوتی تھی۔ عمرو بن عاص نے جاسوسی کا اتنا کارگر نظام قائم کردیا تھا کہ ان کے جاسوس تو جیسے دشمن کے پیٹ میں اتر کر خبر لے آتے تھے۔
یہ مسافت بڑی طویل تھی اور دشوار گذار بھی دشوار گزار اس لئے کہ اس علاقے میں آ کر دریائے نیل کئی ایک شاخوں میں تقسیم ہو جاتا تھا ، بعض نہریں تو زیادہ چوڑی نہیں تھی اور یہ عام نہروں جیسی ہی تھی، لیکن بعض شاخیں دریاؤں جیسی تھی پانی کی افراد کی وجہ سے علاقے میں دلدل تھی اور درختوں کی بہتات تھی اور کچھ علاقہ پہاڑی اور غیر ہموار بھی تھا نیل کی ان شاخوں کو عبور کرنا بھی ایک مسئلہ تھا سب سے بڑا اور خطرناک مسئلہ تو یہ تھا کہ رومی فوج کسی بھی علاقے میں انھیں گھیرے میں لے سکتے تھے۔
تاریخ کے مطابق راستے میں ایک بڑا ھی قدیم قصبہ آیا جس کا نام مجدل ہوا کرتا تھا ۔ اس قصبے میں جاکر دیکھا رومی فوج کا کوئی ایک سپاہی بھی نظر نہ آیا عمرو بن عاص نے اس قصبے کے قریب پڑاؤ کیا اور قصبے کے سرکردہ افراد کو بلا کر پوری تفتیش کی کہ یہاں کبھی رومی فوج کی کچھ نفری رہی ہے یا نہیں، اور رومیوں نے شہر کے لوگوں کو کوئی فوجی اور جنگی نوعیت کی بات بتائی ہے یا نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس قصبے میں کبھی فوج نہیں آئی اور کبھی انہیں فوج کی طرف سے کوئی ہدایت یا کوئی حکم دیا بھی نہیں گیا۔
ان سرکردہ افراد نے عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ رومی فوج کے ساتھ تعاون سے انکار کی جرات تو نہیں کر سکتے لیکن تعاون سے گریز ضرور کریں گے۔
عمرو بن عاص نے انہیں کہا کہ قصبے کا کوئی آدمی قصبے سے باہر نہ جائے اور کوئی آدمی بلبیس کی طرف جاتا نظر آیا تو دور سے اسے تیر کا نشانہ بنا لیا جائے گا۔ عمرو بن عاص کا مطلب یہ تھا کہ رومیوں کو قبل از وقت اطلاع نہ پہنچ سکے کہ اسلامی لشکر آ رہا ہے اور اس کا رخ کس طرف ہے۔
عمرو بن عاص نے ان سرکردہ افراد سے یہ بھی کہا کہ لوگوں کو یقین دلا دیں کہ اب اس شہر کو اور اپنے آپ کو مسلمانوں کی عملداری میں سمجھیں اور انہیں بتائیں کہ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی پوری پوری ذمہ داری مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اور اس لشکر کا کوئی ایک بھی فرد کسی گھر میں داخل نہیں ہوگا۔
تاریخ میں عمرو بن عاص کے لشکر کی اس پیش قدمی کا پورا راستہ بتایا گیا ہے جو دیکھو تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مجاہدین صحیح معنوں میں اللہ کے سرفروش تھے۔ وہ تو اتنی تھوڑی تعداد میں بڑے ہی طاقتور دشمن کے گھر میں داخل ہو چکے تھے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو دشمن کی تلواروں سے کٹتے دیکھا تھا ،لیکن ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس کے چہرے پر گھبراہٹ یا خوف کا ذرا سا بھی تاثر ہو۔
مجدل سے بہت دور جا کر ایک اور بستی آئی جو ابھی بلبیس شہر سے دور ہے اور اس کا نام قنترہ ہے۔ ہراول سے بہت آگے آنے جانے والے جاسوس بہت پہلے اس بستی تک پہنچ گئے اور ان میں سے ایک واپس آیا اور ہر اول دستے کو بتایا کہ اس شہر جیسی بستی میں رومی فوج کی کچھ تعداد موجود ہے جو اتنی تھوڑی نہیں کے بھاگ جائے گی۔
ہراول دستے کے سالار نے سپہ سالار کو اطلاع بھیجوا دی اور خود اپنے دستے کو ساتھ لے کر بستی کو گھیرے میں لینے کے لئے چلا گیا۔
عمرو بن عاص کو اطلاع پہنچی تو انہوں نے درمیان والے دستوں میں سے ایک دستہ آگے بھیج دیا یہ کوئی قلعہ بند شہر نہیں تھا۔
رومی فوجی شہر سے باہر آگئ مجاہدین ان پر حملہ آور ہوئے اور رومی فوجی کچھ تو کٹ مرے اور باقی بستی کے اندر چلے گئے۔ مجاہدین نے انہیں ڈھونڈ نکالا اور سب کو ختم کردیا تاریخ میں اسے معمولی سی مزاحمت لکھا گیا ہے۔ لیکن ہم اسے معمولی مزاحمت نہیں کہیں گے کیونکہ عمرو بن عاص نے کمک کے بغیر وہاں تک جا کر بہت بڑا خطرہ مول لیا تھا ،لشکر کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی اور وہ یوں سمجھیں کہ ایک شیر کے جبڑوں میں چلے گئے تھے۔ بزرگ صحابہ اکرام اسی لئے امیرالمومنین سے کہتے تھے کہ عمرو بن عاص کو مصر پر لشکر کشی کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ یقینی ہلاکت کا خطرہ بھی مول لے لیا کرتے ہیں۔
عمرو بن عاص اس مقام تک پہنچ گئے تھے بلکہ آگے نکل گئے تھے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہ تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسے سپہ سالار تھے جو خطرہ مول لے لیا کرتے تھے، لیکن ہر پہلو پر غور کرلیتے اور ایک خطرے کے اندر چھپے ہوئے خطروں کو بھانپ اور ناپ تول لیا کرتے تھے ۔ اب وہ جو بلبیس کی طرف جا رہے تھے تو ان کی نظر صرف بلبیس پر یا ان کے ذہن میں بلبیس کا محاصرہ ہی نہیں تھا ،بلکہ انہوں نے اور بھی بہت کچھ سوچ لیا تھا جو اپنے ماتحت سالاروں کو کچھ پہلے بتا دیا تھا ،اور باقی اب بتایا۔
آگے کی بجائے اپنی نظریں پیچھے زیادہ رکھنا عمرو بن عاص نے بلبیس کی طرف پیش قدمی کرنے سے پہلے اپنے سالاروں سے کہا تھا رومی اتنے بھی کم عقل نہیں کہ ایک شہر میں محصور ہو کر ہی لڑتے رہیں گے۔ وہ عقب سے یقینا حملہ کریں گے ۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ بلبیس کے اندر کی فوج ہمارا مقابلہ اس طرح نہیں کرے گی جس طرح فرما میں کیا تھا۔
ایسی ہی کچھ اور ہدایات دے کر عمرو بن عاص نے پیش قدمی کا حکم دیدیا اور اسی شام بلبیس تک جاپہنچے، اور رات ہی رات شہر کو محاصرے میں لے لیا ۔ عمرو بن عاص جب شہر کے اردگرد محاصرے کو دیکھ رہے تھے تو وہ ہر سالار عہدے دار اور ہر کمانڈر سے یہ کہتے گئے کہ یہ مت بھولنا کے اب تمہارا مقابلہ روم کے بڑے ہی چالاک اور شاطر جرنیل اطربون سے ہے۔
*جاری ہے۔*
❤️
👍
11