بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 23, 2025 at 02:50 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/35* عمرو بن عاص کو جاسوسوں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اطربون بلبیس میں موجود نہیں، وہاں دو جرنیل تھے جن میں ایک نوشی کا باپ تھا جو فرما سے شکست کھا کر بھاگا تھا ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بتا دیا تھا اور کہا تھا کہ اب اور زیادہ چوکنّے رہیں۔ اس وقت مصر کا فرمانروا مقوقس اور اطربون کسی اور مقام پر تھے جس کا تاریخ میں نام نہیں آیا۔ یورپی مورخ الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ جب مقوقس اور اطربون کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا محاصرہ کر لیا ہے تو دونوں چونک اٹھے اور ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے اس وقت اتفاق سے وہ اکٹھے بیٹھے اسی پالان پر باتیں کر رہے تھے۔ جو انہوں نے مسلمانوں کو گھیر کر مارنے کے لئے تیار کیا تھا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ دونوں کو توقع ہی نہیں تھی کہ مسلمان اتنی تیزی سے ایسا دشوار گزار اور لمبا راستہ طے کر لیں گے۔ ہم ابھی تیار نہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ ہمیں کوئی ایسی چال چلنی پڑے گی کہ وقت حاصل کریں اور مسلمانوں کو بلبیس کے باہر ہی الجھائے رکھیں۔ ہم بالکل تیار ہیں۔۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔ہم اب یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ مسلمان بلبیس پر بھی قابض ہو جائیں میں اب انہیں مزید مہلت دینے کے حق میں نہیں۔ عریش اور فرما کے بعد میں انہیں بلبیس کسی قیمت پر نہیں لینے دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔لیکن ٹھنڈے دماغ سے سوچو تو اسی نتیجے پر پہنچو گے کہ ہمیں کچھ وقت حاصل کرنا پڑے گا۔ تاریخ کے مطابق ان کے درمیان جتنی بھی گفتگو ہوئی اس میں یہ تاثر بڑا ہی واضح تھا کہ ان میں اختلاف رائے ہے اور دونوں میں سے کوئی بھی جھکنا نہیں چاہتا مقوقس کی حیثیت اطربون سے اونچی تھی مقوقس مصر کا فرمانروا، اور اطربون ایک جرنیل تھا۔ آخر مقوقس کی مانی گئی اس نے یہ تجویز پیش کی کہ پادریوں کا ایک وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کی طرف بھیجا جائے جو یہ مذاکرات کرے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں اور بتائیں کہ وہ کن شرائط پر مصر سے نکلیں گے۔ اطربون نے کہا کہ وہ اگر یہ شرط پیش کر بیٹھے کہ انہوں نے مصر کا جو علاقہ فتح کر لیا ہے وہ اپنی عملداری میں رکھیں گے، اور اس سے آگے پیش قدمی نہیں کریں گے تو کیا ہم مان لیں گے، اطربون نے یہ بھی کہا کہ مسلمان یہ شرط بھی پیش کرسکتے ھیں کہ بلبیس انہیں دے دیا جائے۔ میں انہیں مصر کی ایک بالشت زمین بھی نہیں دوں گا۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں انہیں ایک چکر میں ڈالنا چاہتا ہوں مجھے پادریوں کا وفد ان کے پاس بھیج لینے دو تم فوج تیار کرو ،اور اطربون ان بدبخت قبطی عیسائیوں کو مت بھولو میں ان کے اسقف اعظم بنیامین کو بھی اپنے جال میں لانے کی سوچ رہا ہوں۔ آخر ان دونوں میں طے یہ پایا تھے پادریوں کا وفد مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس بھیجا جائے اسی وقت چار یا غالباً چھے بزرگ پادریوں کی طرف آدمی دوڑا دیے گئے کہ وہ فوراً مقوقس کے پاس پہنچیں۔ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس تھا ۔اگر پادریوں کا ہی وفد بھیجنا تھا تو اس میں قیرس کی شمولیت لازم تھی لیکن قیرس کو نہ بلایا گیا تاریخ میں ایسے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ ہرقل اور قیرس میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ اس وقت قیرس اسکندریہ میں تھا ہرقل ابھی تک بذنطنیہ میں بیٹھا حکم بھیج رہا تھا جو مقوقس اور اطربون کے لیے محض بے کار اور بے بنیاد تھے۔ مقوقس کے متعلق ہم ایک بات دہرانہ چاہیں گے یہ بات پوری تفصیل سے اس داستان میں پیش کی گئی ہے۔ بات یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس کو قبول اسلام کے لئے ایک پیغام بھیجا تھا جو حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ لے کر گئے تھے، مقوقس نے اس پیغام کا جواب خلاف توقع نہایت احترام سے دیا تھا اس نے حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ جو باتیں کی تھیں ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم کرتا ہے، اس نے پیشن گوئی کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد مسلمان مصر کے میدان پر قابض ہو جائیں گے۔ یہاں یہ واقعہ دہرانہ بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مقوقس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دو نوخیز لڑکیاں تحفے کے طور پر بھیجی تھی، ان میں سے ایک حضرت ماریہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں شامل ہوئی تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک روا رکھنا کیونکہ ان کے ساتھ تمہاری رشتہ داری بن گئی ہے۔ محاصرے کا ساتواں آٹھواں روز تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کو اطلاع دی گئی کہ مصری پادریوں کا ایک وفد ان سے ملنے آیا ہے۔ عمرو بن عاص نے وفد کو اسی وقت خیمے میں بلوایا اور احترام سے وفد کا استقبال کیا چونکہ یہ وفد مذہبی پیشواؤں کا تھا اس لئے مذہب کے حوالے سے بات کی اور امن و امان اور بنی نوع انسان سے محبت کرنے کے موضوع پر واعظ دے ڈالا۔ عمرو بن عاص نے یہ واعظ تحمل اور بردباری سے سنا اور کہا کہ ان کا اپنا مذہب یہی تعلیم دیتا ہے لیکن وہ بتائیں کہ ان کے آنے کا مقصد کیا ہے۔ پادری نے وہ بات کہی جو مقوقس نے اسے بتائی تھی یعنی یہ کہ مسلمان یہیں سے واپس اپنے ملک میں چلے جائیں اور اگر ان کی کوئی شرط ہے تو وہ بتائیں۔ میری اپنی کوئی ذاتی شرط نہیں۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ہم اپنے مذہب کے اصولوں کے پابند ہیں اس لئے میں وہ شرط پیش کروں گا جو اسلام نے ہمیں بتائی ہے,,,,,,, اسلامی اصول یہ ہے کہ میں آپ کو اور آپ کے حکمرانوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتا ہوں جتنے بھی لوگ اسلام قبول کرلیں گے ان میں اور ہم میں کوئی فرق نہیں رہے گا، وہ ہماری قوم کے افراد ہوں گے اسلام نے بنی نوع انسان میں مساوات قائم رکھنے کا حکم دیا ہے، اسلام میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا اور لوگ رعایا نہیں کہلاتے، آپ کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا ،لیکن ان سے ہم جزیہ وصول کریں گے ان کے ساتھ بھی ہمارا سلوک اور رویہ ویسا ہی ہوگا جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے، اسلام کو قبول نہ کرنے والوں کے بھی مال و اموال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہم ہوں گے اور ان کی تمام ضروریات ہم پوری کریں گے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ وفد نے یہ شرط قبول نہ کی اور عمرو بن عاص کو قائل کرنے لگے کہ وہ خونریزی یہی روک دیں اور واپس چلے جائیں ، مقوقس کے کہنے کے مطابق پادریوں نے کچھ زروجواہرات کی پیشکش بھی کی لیکن عمرو بن عاص نے کہا کہ اسلام کے جذبہ جہاد میں ہوس ملک گیری نہیں ہوتی نہ ہی شاہی خزانوں کے ہاتھ آنے کے خواب دیکھے جاتے ہیں۔ عمرو بن عاص جانتے تھے کہ یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے کیونکہ کسی بھی قیمت پر وہ مقوقس کی یہ شرط نہیں مان سکتے تھے کہ مسلمان مصر سے نکل جائیں۔ عمرو بن عاص نے از راہ مذاق پادریوں کے وفد سے کہا کہ ان کے مصریوں کے ساتھ رشتے داری بھی ہے اس لئے مصر پر عربوں کا خاصا حق ہے۔ پادری سمجھ گئے کہ اس مسلمان سپہ سالار کا اشارہ کس طرف ہے۔ اشارہ یہ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام مصر گئے تھے تو مصر کے بادشاہ نے انھیں ایک لڑکی پیش کی تھی ابراہیم علیہ السلام نے اس لڑکی کے ساتھ شادی کر لی اور اس کا نام ہاجرہ رکھا تھا ۔ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے پھر اس رشتے کا اشارہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی تھا ذکر ہو چکا ہے کہ مقوقس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو لڑکیوں کا تحفہ بھیجا تھا جن میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ بنی۔ ہم یہ رشتے داری نہیں بھول سکتے۔۔۔ وفد کے بڑے پادری نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔لیکن اس قسم کے رشتے داری کو صرف کوئی پیغمبر ہی زندہ کرسکتا ہے۔ کیا ہم ایک دوسرے کا وقت ضائع نہیں کر رہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہماری بات چیت یہاں پر ختم ہوتی ہے کہ ہم کسی بھی شرط پر مصر سے واپس نہیں جائیں گے، مسلمان جانے کے لیے نہیں آئے ایک پیغام لائے ہیں جو انہیں قبول ہے تو ٹھیک ورنہ اس کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا۔ عمرو بن عاص نے اس سے آگے کوئی اور بات سننے یا کہنے سے انکار کردیا ۔ مقوقس نے اس وفد سے کہا تھا کہ وہ کچھ وقت حاصل کرنا چاہتا ہے تاکہ پوری فوج کو تیاری کرکے مسلمانوں کو گھیرا جائے۔ ہمیں کچھ وقت دیں ۔۔۔وفد کے لیڈر نے کہا۔۔۔ میں فرمانروائے مصر کے ساتھ بات کر لوں اور پھر آپ کو جواب دینے آؤں گا۔ یہ بھی سوچ لینا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ مجھے دھوکا نہیں دے سکو گے میں صرف تین دن کی مہلت دیتا ہوں مجھے اسلام کی شرط کے مطابق جواب نہ ملا تو وہ خونریزی ہو گی جسے آپ روکنا چاہتے ہیں۔ تاریخ میں آیا ہے کہ اس گفت و شنید کے بعد پادریوں نے مہلت میں اضافے کی درخواست کی وہ زیادہ دنوں کی مہلت چاہتے تھے لیکن عمرو بن عاص نے تین کے بجائے مہلت پانچ دن کردی ،پادری پھر آنے کا وعدہ کرکے چلے گئے۔ پادریوں کا وفد واپس مقوقس سے جا کر ملا اور اسے بتایا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار کے ساتھ کیا مذاکرات ہوئے ہیں مقوقس بہت زیادہ دنوں کی مہلت کی توقع رکھتا تھا لیکن پادریوں نے اسے بتایا کہ سپہ سالار پانچ دنوں سے زیادہ مہلت دینے پر راضی نہیں ہوا ،تو مقوقس گہری سوچ میں کھو گیا۔ میرے لیے پانچ دن بہت ہیں۔۔۔۔ اطربون نے بڑی جوشیلی آواز میں کہا۔۔۔ میں ان پانچ دنوں میں اچھی خاصی فوج تیار کر لونگا اور مسلمانوں پر حملہ کروں گا میں ضمانت دیتا ہوں کہ مسلمانوں کو پسپا کرکے ہی دم لونگا، بلبیس کے محصور لوگوں کے متعلق ایک اطلاع مقوقس کو پہنچی۔ وہ یہ تھی کہ اندر لوگ بہت پریشان ہیں ان کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتا کر لیا جائے۔ بلبیس میں وہ لوگ بھی تھے جو عریش اور فرما سے بھاگ کر یہاں پہنچے تھے، انہوں نے دیکھا تھا کہ مسلمانوں نے ان کی فوج کو کس طرح کاٹا اور بھگایا تھا ،ایک طرف تو ان لوگوں پر مسلمانوں کی دہشت طاری تھی اور اس کے ساتھ ہی عریش اور فرما سے آئے ہوئے لوگ بلبیس کے لوگوں کو بتاتے تھے کہ اپنی فوج کو لڑنے نہ دیں اور اگر فوج لڑتی ہے تو اس کے ساتھ تعاون نہ کریں، وہ اس کی وجہ یہ بتاتے تھے کہ مسلمان شہریوں کے لئے ذرا سی بھی پریشانی پیدا نہیں کرتے بلکہ ان کے جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن شہری اگر اپنی فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا مقابلہ کریں اور انھیں جانی نقصان پہنچائیں تو پھر مسلمانوں کی شرائط بڑی سخت ہوتی ہے۔ مقوقس نے دو پادریوں کو یہ کہہ کر بلبیس بھیجا کہ وہ اندر جاکر لوگوں کو بتائیں کہ وہ ڈرے نہیں اور ان کے امن و امان کی ضمانت فرمانروائے مصر اپنے ذمے لیتا ہے ،اور یہ یقین دلانا ہے کہ وہ مسلمانوں کو مار بھگائے گا ۔ پادری گئے اور سپہ سالار عمرو بن عاص سے ملے اور شہر کے اندر جانے کی اجازت چاہی۔ عمرو بن عاص نے ان سے پوچھا کہ اندر جانے سے ان کا مقصد کیا ہے پادریوں نے یہ جھوٹ بولا کہ وہ لوگوں کو قائل کرنے جارہے ہیں کہ اسلام قبول کرلیں تو وہ عافیت سے رہیں گے۔ عمرو بن عاص نے انہیں اجازت دے دی دونوں پادری شہر کے بڑے دروازے تک گئے اور ان کے لیے دروازہ ذرا سا کھلا دونوں اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔ پادریوں کو توقع تھی کہ وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو لوگ اپنی فوج کے شانہ بشانہ شہر کے دفاع میں لڑیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر کے یہ بات شروع ہی کی تھی کہ لوگوں نے شوروغل بپا کردیا کہ مسلمانوں کا مقابلہ نہ کیا جائے ۔ بعض آوازیں ایسی بھی آئیں جن میں رومی فوج کے خلاف طنز اور ناپسندیدگی تھی، یہ آوازیں کہتی تھی کہ اپنی فوج نے مسلمانوں کو روکا ہی کہاں ہے؟،،،،،،، یہ فوج پورا ملک شام مسلمانوں کو دے آئی ہے اور اب مسلمانوں نے اس فوج کو لہولہان کر کے اس سے مصر کے دو قلعے لے لیے ہیں۔ پادریوں نے لوگوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی بہت کوشش کی کہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ کوئی شہر چھوٹا یا بڑا بغیر لڑے دشمن کے حوالے کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی فوج کو لڑنے کا موقع دیں اور اس فوج کی پشت پناہی کریں تاکہ مسلمانوں کو مار بھگایا جائے۔ لیکن لوگوں کا شوروغل روکا نہ جاسکا۔ اور یہ بات طے شدہ سمجھ لی گئی کہ شہر کے لوگ اپنی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں۔ پادریوں نے واپس جاکر جب مقوقس اور اطربون کو بتایا کہ بلبیس میں شہر کے لوگوں کا ردعمل اور ان کا مطالبہ کیا ہے تو اطربون بھڑک اٹھا اس نے کہا کہ وہ اپنی فوج کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ذلیل اور رسوا ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔مقوقس نے پھر اطربون روکا اور کہا کہ کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی مسلمانوں کو واپس جانے پر آمادہ کر لیا جائے گا ۔اطربون خاموش رہا لیکن اس کی خاموشی بتاتی تھی کہ وہ کچھ اور سوچ رہا ہے۔ اطربون تاریخ کا ایک نامور جرنیل تھا اس نے مقوقس سے حکم لیے بغیر اور اسے بتائے بغیر بارہ ہزار نفری کی فوج تیار کرلی اور ایک روز بلبیس کی طرف کوچ کر گیا ۔مقوقس کو پتہ چلا لیکن اس نے اطربون کو روکنے کی جرات نہ کی بلبیس وہاں سے کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ایک صبح فجر کی اذان دی جا چکی تھی اور مجاہدین کا لشکر نماز کی تیاری کررہا تھا کہ ہزاروں دوڑتے گھوڑوں کا طوفان آگیا ، یہ اطربون کی بارہ ہزار گھوڑ سواروں کی فوج تھی جو مجاہدین پر عقب سے حملے کے لئے آ گئی تھی، اطربون نے وقت بڑا اچھا دیکھا تھا اسے معلوم تھا کہ اس وقت مسلمان نماز کے لیے کھڑے ہوگئے ہونگے یا نماز کی تیاری میں مصروف ہوں گے اس نے ٹھیک سوچا تھا کہ مسلمان حملہ روکنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے اور جتنی دیر میں وہ تیار ہوتے ہیں اتنی دیر میں اس کے بارہ ہزار گھوڑسوار ان پر غالب آجائیں گے اور انہیں ان کے ہی خون میں ڈبو دیں گے۔ اطربون نے مجاہدین کو بے خبری میں آ لینے میں کوئی کسر چھوڑی تو نہیں تھی لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں اور دیگر ذمہ دار افراد کو پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ عقب سے یا پہلوؤں سے ان پر حملہ ضرور ہوگا اور وہ ہر وقت چوکنّے اور تیار رہیں۔ اطربون کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ مجاہدین کو خاص طور پر حکم دیا گیا تھا کہ نماز کے وقت اپنی تلواریں، برچھیاں، کمانیں، اور تیرکش اپنے ساتھ رکھا کریں اور گھوڑے ہر وقت تیار رہیں۔ عمرو بن عاص وہ سپہ سالار تھے جو ایسا لگتا تھا جیسے ہوا میں دشمن کی بو پا لیتے ہیں اور اس بو سے دشمن کے ارادے بھانپ لیتے ہیں۔ بدوؤں کو ملا کر مجاہدین کی تعداد پانچ ہزار سے ذرا ہی زیادہ تھی ،فرما میں مجاہدین کی شہادت کچھ زیادہ ہی ہوئی تھی اور شدید زخمیوں کی بھی کمی نہ تھی جو بلبیس میں لڑنے کے قابل نہیں تھے، اور بدو ناتجربے کاری کی وجہ سے خاصی تعداد میں مارے گئے تھے ،اتنا جانی نقصان کے بعد بدوؤں کا حوصلہ ٹوٹ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ان کے حوصلے میں پہلے سے زیادہ تازگی اور غضب پیدا ہوگیا ،فرما کے مال غنیمت میں سے ہر بدو کو اتنا حصہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کے خلوص اور فیاضی کے متعلق ان کے دلوں میں ذرا سا بھی شک نہیں رہا تھا۔ عمرو بن عاص نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ دشمن کی تعداد کتنی ہے اور اس میں سوار کتنے اور پیادہ کتنی ہیں، انہوں نے یہ محسوس کر لیا کہ رومیوں کی یہ ساری فوج گھوڑ سوار ہے اس اچانک حملے کے لئے عمرو بن عاص نے پہلے ہی ہدایات دے رکھی تھی، اور یہ بھی بتا رکھا تھا کہ حملے کی صورت میں لشکر کی ترتیب کیا ہوگی اور کونسے دستے محفوظ ہیں (ریزور) میں ہونگے اب وہ اچانک حملہ آ گیا تھا جو مجاہدین کے لیے غیر متوقع نہیں تھا۔ ہر کوئی پلک جھپکتے اپنے اپنے ہتھیار سے مسلح ہو گیا اور گھوڑوں کی پیٹھوں پر جا چڑھے اور اس ترتیب میں ہو گئے جو انہیں پہلے ہی بتا دی گئی تھی۔ سالاروں کو اس معاملے میں ذرا سی بھی مشکل پیش نہ آئی۔ عمرو بن عاص نے ایک بندوبست اور بھی کررکھا تھا انہیں یہ توقع تھی کہ عقب سے حملہ ہوا تو ہوسکتا ہے شہر کے اندر سے بھی فوج باہر آجائے اور اس صورت میں مجاہدین کا لشکر گھیرے میں آ جائے اور پھر بڑی مشکل پیدا ہوجائے گی، عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو یہ ہدایت پہلی ہی دے دی تھی کہ ایسی صورت پیدا ہو گئی تو آدھی ریزور فورس فوراً شہر میں داخل ہونے کی کوشش کرے ،عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ لشکر کی کچھ ہی تعداد شہر میں چلی گی تو اندر ایسی بد امنی اور افرا تفری پیدا ہوجائے گی کہ رومی لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اطربون کی بارہ ہزار سوار فوج مجاہدین پر جب آن پڑی تو وہ دیکھ نہ سکا کہ مجاہدین کی خاصی تعداد دائیں اور بائیں کی طرف نکل گئی ہے، ابھی سحر کی تاریکی تھی معرکہ تو بڑا گھمسان کا تھا اور نظر یہی آتا تھا کہ اتنی زیادہ فوج مجاہدین کو کاٹ پھینکے گی لیکن اطربون گھوڑ سواروں پر دائیں اور بائیں پہلو سے بیک وقت حملے ہوگئے اس طرح رومیوں کے حملے کی جو شدت تھی وہ وہیں ختم ہوگئی، اور سواروں کو جان کے لالے پڑ گئے تعداد کے تناسب کو دیکھا جاتا تو شکست مجاہدین کے حصے میں آتی تھی، لیکن جو جذبہ مجاہدین میں تھا وہ رومیوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا تھا ،مجاہدین کو احساس تھا کہ انہیں تعداد کی کمی جذبے اور حوصلے کے استحکام سے پوری کرنی ہے اور پھر یہ اعتقاد کے اللہ ان کے ساتھ ہے۔ عمرو بن عاص دیکھتے رہے کہ ابھی شہر کے دروازے کھلیں گے اور اندر کی فوج باہر آئے گی یا ہوسکتا ہے اطربون کی فوج اندر جانا چاہیے لیکن کوئی دروازہ نہیں کھل رہا تھا۔ عمرو بن عاص اور دیگر سالاروں نے صورتحال کو اپنے قابو میں کر لیا اور قدم جمالیے۔ مجاہدین کے نعروں میں ایسا جوش و خروش تھا جو رومی سواروں پر بری طرح اثر انداز ہو رہا تھا دن آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے عمرو بن عاص نے فوراً اپنے ماتحت سالاروں کو پیغام بھیجا کہ پیچھے ہٹتے ہوئے رومیوں کے تعاقب میں نہ جائیں ،کچھ دیر بعد اطربون کی یہ فوج لاشوں کی اچھی خاصی تعداد اور زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئی اور مجاہدین کو پھر ترتیب میں کر لیا گیا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اور باقی دن لاش اٹھانے میں گزر گیا اور جو شدید زخمی تھے انھیں بھی اٹھا کر لے آئے اور لشکر کے ساتھ جو خواتین تھیں انہوں نے زخمیوں کی دیکھ بھال شروع کر دی۔ عمرو بن عاص نے اپنے جاسوس یہ دیکھنے کے لئے بھیج دیئے کہ اطربون کی فوج کہاں ہے ۔میدان جنگ میں صاف نظر آ رہا تھا کہ رومیوں کی اموات خاصی زیادہ ہوئی ہے۔ شام کے بعد جاسوسوں نے بتایا کہ تین چار میل دور اطربون کی فوج نے پڑاؤ کر لیا ہے اور خیمے بھی لگا لیے ہیں۔ عمرو بن عاص نے اسی رات کے لیے ایک اور بندوبست کر لیا جو یہ تھا کہ شب خون مارنے والے جانبازو کا ایک دستہ تیار کیا جس کی نفری چالیس اور پچاس کے درمیان تھی۔ آدھی رات کے بعد دن بھر کے تھکے ہوئے رونی سوار خیموں میں بڑی گہری نیند سو رہے تھے کہ ان پر آگ برسنے لگی یہ ایک طرح کی مشعلیں تھیں جو شب خون مارنے والے مجاہدین دوڑتے گھوڑوں سے رومیوں کے خیموں پر پھینک رہے تھے، یہ صرف چالیس پچاس جانبازوں کا شب خون تھا،، رومی اپنے گھوڑوں کو خشک گھاس کھلایا کرتے تھے جو وہ ساتھ لائے تھے ،کسی جانباز نے ایک مشعل گھاس کے درمیان پھینک دی اور خشک گھاس جل اٹھی یہ آگ بڑی تیزی سے پھیلنے لگی گھوڑوں نے قیامت کا شور و غل برپا کردیا، اور وہ رسیاں تھوڑا تھوڑا کر بھاگنے لگے۔ ادھر خیمے تو چند ایک ہی جلے تھے، لیکن سارے لشکر میں ادھم بپاہوگیا ،مشعلے کوئی زیادہ نہیں پھینکی گئی تھی چند ایک ہی تھی لیکن رات کو خیموں اور خشک گھاس کے اٹھتے شعلوں نے بڑا ہی دہشت ناک منظر بنا دیا تھا ۔جانبازوں نے رومیوں کو نیند سے جاگ کر خیموں سے نکلتے اور بھاگتے دوڑتے دیکھا تو سرپٹ گھوڑے دوڑاتے دو دو تین تین رومیوں کو پرچھیوں اور تلواروں سے گھائل کرتے دوڑتے ہی چلے گئے، اور اس طرح رومیوں کا خاصا نقصان کر کے واپس آ گئے۔ عمرو بن عاص نے جانبازوں کا ایک پورا دستہ تیار کررکھا تھا جسے آگ پھیلانے اور شب خون مارنے کی خاص طور پر ٹریننگ دی گئی تھی۔ اگلے روز اطربون حملہ کرنے کے قابل نہ رہا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس شب خون میں رومیوں کا جانی نقصان کوئی ایسا زادہ تو نہ تھا کہ وہ اگلے روز حملے کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ لیکن ہوا یہ کہ اطربون کی ساری فوج پر مسلمانوں کی ایسی دہشت نظر آتی تھی جسے اطربون نے خاص طور پر محسوس کیا اور اس روز حملہ ملتوی کردیا۔ عمرو بن عاص نے بلبیس کے محاصرے کو برقرار رکھا اور نظر رکھی کہ کوئی دروازہ کھلے گا اور فوج آئے گی لیکن ایسا نہ ہوا ۔ عمرو بن عاص نے شہر پر حملے کی ذرا سی بھی کاروائی نہ کی ۔ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ لڑائیاں اطربون کی سوار فوج کے ساتھ جاری رہے گی۔ اور اس کے بعد شہر کی فوج باہر آئے گی یا کوئی اور صورت حال پیدا ہو گی۔ محمد يحيٰ سندھو تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بلبیس کی یہ لڑائی پورا ایک مہینہ جاری رہی۔ اس کا انداز ایسا ہی رہا جیسے پہلے روز تھا۔ اطربون اپنے سواروں سے حملہ آور ہوتا تھا اور مسلمان نہایت اچھی ترتیب میں آکر اس لشکر کا مقابلہ کرتے اور پہلوؤں سے اس پر حملہ آور ہو کر اسکا اچھا خاصا جانی نقصان کر دیتے۔ عمرو بن عاص نے دو دو چار چار راتوں کے وقفے سے رومیوں کے کیمپ پر شبخون کا سلسلہ جاری رکھا ،رومی رات کو پہرہ تو بہت کھڑا کرتے تھے لیکن شب خون مارنے والے جاں باز پھر بھی اپنا کام کر آتے تھے ، اس طرح رومیوں کو خاصا نقصان پہنچتا رہا اور ان کی تعداد کم ہوتی چلی گئی ۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ رومی سواروں کے حوصلے مجروح ہوگئے اور ان میں جوش و خروش بہت ہی کم رہ گیا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* مدینہ میں کمک تیار ہو کر بمشکل چلی ہی تھی یہ کمک بلبیس کی لڑائی تک نہیں پہنچ سکتی تھی اسے پہنچتے ایک مہینہ بھی لگ سکتا تھا ۔عمرو بن عاص نے اللہ کی آس پر لڑائی جاری رکھی، رومیوں کا جانی نقصان تو بہت ہوا تھا لیکن مجاہدین کا اور بدوؤں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہ تھا ،بدوؤں کا حوصلہ قائم تھا اور مجاہدین کے جوش و خروش اور ایمان کی قوت میں ذرا سی بھی کمزوری نہ آئی تھی، ان کی کیفیت یہ تھی کہ جسم تو جیسے ٹوٹ پھوٹ گئے تھے لیکن روح تروتازہ تھی، اور وہ روحانی قوت سے لڑ رہے تھے۔ اطربون کو یہ سہولت حاصل تھی کہ اسے کمک مل سکتی تھی لیکن اس سوال کا جواب کسی مؤرخ نے نہیں دیا کہ اس نے کمک کیوں نہ مانگوائی، اور مقوقس نے کمک کیوں نہ بھیجی، شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بلبیس شہر کے اندر فوج موجود تھی جو ابھی تک لڑائی میں شامل نہیں ہوئی تھی اور وہ تازہ دم تھی۔ مؤرخوں نے بلبیس کی اس لڑائی کو بہت ہی خونریز لڑائی لکھا ہے ۔ مجاہدین کا لشکر شہیدوں اور زخمیوں کی وجہ سے بڑی تیزی سے خطرناک حد تک کم ہوتا جارہا تھا، لیکن عمرو بن عاص یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ مہینے کے آخر میں رومی سواروں کا جو حملہ آیا اس میں جوش وخروش بھی کم تھا اور تعداد بھی کم تھی اور اطربون اپنی فوج کے سب سے آگے تھا۔ شب خون مارنے والے مجاہدین نے اطربون کا پرچم دیکھ لیا وہ اکیلا نہیں تھا بلکہ اپنے گھوڑسوار محافظوں کے حصار میں تھا ۔ تاریخ میں ان جانباز مجاہدین کے نام نہیں ملتے جنہوں نے اللہ کا نام لے کر عزم کر لیا کہ آج اطربون کو گرا لیں گے، اگر وہ بچ نکلا تو اس کا پرچم تو ضرور ہی گرا آئیں گے۔ وہ چاروں اطربون کے گھوڑسوار محافظوں کے حصار تک جا پہنچے اور بڑی ہی بے جگری سے محافظوں سے لڑے اور ان میں سے تین مجاہدین شہید ہوگئے، لیکن چوتھے مجاہد نے زخمی ہو کر بھی اطربون کو جا لیا اور ایک ہی وار میں اسے گھوڑے سے گرا دیا۔ اس کے ساتھ ہی وہ خود بھی گھوڑے سے گرا اور شہید ہو گیا۔ ادھر بلبیس شہر کے دو تین دروازے کھل گئے اور اندر والی رومی فوج باہر آنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی باہر والی رومی فوج میں ایک آواز جو بڑی ہی بلند تھی ساری فوج میں گونج گئی ، اطربون مارا گیا ہے۔۔۔ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔۔۔۔ رومی فوج شاید اسی آواز کے انتظار میں تھی۔ رومیوں کے قدم اکھڑ گئے اور انہوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا ۔ یہ آواز بلبیس سے باہر آنے والی فوج نے بھی سن لی۔ مجاہدین کے حوصلے تو اس طرح اور بلند ہوگئے۔ جیسے آگ مزید بھڑک اٹھی ہوں انہوں نے اللہ کے اور فتح کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ عمرو بن عاص نے ریزور دستے کو پہلے ہی حکم دے رکھا تھا کہ جونہی شہر کے دروازے کھلے یہ دستہ دروازوں پر ٹوٹ پڑے اور اندر چلا جائے، اس دستے نے اس حکم پر عمل کیا اور مجاہدین کی خاصی نفری لڑتی لڑتی شہر میں داخل ہوگئی۔ ادھر رومی سوار سرپٹ بھاگ اٹھے ۔ یہ حالت دیکھ کر بلبیس کی جو فوج باہر آئی تھی وہ بھی شہر کے اندر آنے کی بجائے بڑی بری تتربتر ہو کر گھوڑ سواروں کے پیچھے دوڑتی چلی گئی۔ مجاہدین کا لشکر شہر میں داخل ہو گیا شہر کے اندر تاریخ کے مطابق تین ہزار اچھے بھلے رومی فوجیوں نے مجاہدین کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور قید قبول کرلی، باہر اطربون کی لاش اٹھانے والا بھی کوئی نہ تھا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اطربون کوئی عام سی قسم کا جرنیل نہ تھا اس کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکا دینے کی صلاحیت میدان جنگ میں مکاری اور چال بازی کو تاریخ آج بھی یاد کرتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھی اطربون کی پُرخطر خوبیوں سے اچھی طرح واقف تھے۔ جب فلسطین میں رومی اور مسلمان برسرپیکار تھے تو اس وقت بیت المقدس کو مسلمانوں سے بچائے رکھنے کی ذمہ داری اطربون کے سپرد تھی ، ہرقل کہا کرتا تھا کہ اطربون ہے تو فلسطین بھی اپنا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیت المقدس کو فتح کرنے کے لیے عمرو بن عاص کو بھیجا تھا ،امیر المؤمنین اس سپہ سالار کی خوبیوں اور صلاحیت سے آگاہ تھے اور انھیں توقع تھی کہ اطربون کا مقابلہ صرف عمرو بن عاص کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے جب عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے کے لئے بھیجا تھا تو یہ تاریخی الفاظ کہے تھے ۔ میں نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس کا کیا نتیجہ سامنے آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا تھا کہ عمرو بن عاص نے بیت المقدس فتح کرلیا اور اطربون بھاگ گیا تھا۔ اب روم کا وہ اطربون عمرو بن عاص کے جانبازوں کے ہاتھوں مارا گیا اور بلبیس کی فتح نے عرب کے اطربون کے قدم چومے۔ *جاری ہے۔
❤️ 👍 😂 13

Comments