بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 24, 2025 at 01:02 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/36* *سلطنت* روم کا بادشاہ ہرقل جو اپنے دور میں طاقت اور دہشت کا ایک نام تھا بذنطیہ میں بیٹھا تھا (آج کا استنبول) مصر سے بہت دور تھا درمیان میں وسیع وعریض بحیرہ روم حائل تھا اور خاصا فاصلہ خشکی کا بھی تھا ۔اس مخدوش صورتحال میں جو مسلمانوں نے اس کے لیے مصر میں پیدا کر دی تھی اسے مصر میں ہونا چاہیے تھا لیکن وہ بزنطیہ میں بیٹھا مقوقس کے نام حکم بھیج رہا تھا۔ ابھی اسے یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ عمرو بن عاص کے لشکر نے بلبیس کا مضبوط قلعہ بھی فتح کرلیا ہے، اور روم کا نامور جرنیل اطربون مارا گیا ہے۔ کچھ دن پہلے ہی یہ اطلاع پہنچی تھی کہ مسلمان نے فرما فتح کرلیا ہے ،اس اطلاع نے اسے آگ بگولا کردیا تھا اس نے مقوقس اور اطربون کے نام ایک پیغام لکھا تھا اور اسی وقت قاصد کو روانہ کردیا تھا۔ اگر تم فیصلہ کرچکے ہو کہ مصر مسلمانوں کو دے ہی دینا ہے تو فوراً دے دو، ہرقل نے پیغام میں لکھا، اپنی فوج کو کیوں مرواتے ہو تم نے شکست قبول ہی کر لی ہے تو یہ خون خرابہ بند کردو، شاید تمہیں معلوم ہو کہ تمہارے درمیان میرے اپنے جاسوس موجود ہیں جو مجھے ہر خبر اور ہر اطلاع بھیج رہے ہیں۔ تم نے مسلمانوں کے سپہ سالار کے پاس پادریوں کا وقت بھیج کر کوئی اچھا اقدام نہیں کیا۔ تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اب تم اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہو، تمہیں یہ دیکھنا چاہئے تھا کہ مسلمان تعداد میں کتنے تھوڑے ہیں اور وہ اپنے وطن سے بہت دور ہیں جہاں سے انہیں رسد اور کمک بروقت نہیں پہنچ سکتی۔ دوسری طرف تم یہ سوچ کے بیٹھے ہو کے مسلمان اور آگے آجائیں اور تم انہیں گھیر کر ختم کردو، لیکن مسلمان قلعے فتح کرتے بڑھتے چلے آ رہے ہیں، اور انہوں نے مصر کے بدوؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے یہ تمہاری نااہلی ہے,,,,,,,,, میں جانتا ہوں تم قبطی عیسائی ہو اور پیرس کو اسقف اعظم نہیں مانتے، میں تمہارے اس اعتقاد کو قبول کرلیتا ہوں لیکن یہ قبول نہیں کروں گا کہ تم سلطنت روم کی عظمت کو بھول جاؤ اور اپنی ہی سلطنت سے بے وفائی کرو۔ اطربون اور تھیوڈور جیسے جرنیل تمہارے ساتھ ہیں، تمہیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے لیکن تمہارا ان سے اختلاف ہے۔ اطربون لڑنا چاہتا ہے ، اور تم مسلمانوں کے ساتھ صلح سمجھوتہ کرنے کے خواہشمند ہو۔ مجھے قیرس کی وفاداری پر بھی شک ہے میں نے اسے اسقف اعظم بنایا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے دھوکہ دے رہا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا رویّہ اور اپنی سوچیں تبدیل کر لو ، اگر مجھے تمہاری طرف سے اطمینان نہ ہوا تو میں مصرآ جاؤں گا۔ پھر میں تمہیں یہ حق بھی نہیں دوں گا کہ اپنی صفائی میں کچھ کہو، اطربون کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہ کرو اور اسے مسلمانوں کے مقابلے میں جانے دو اب میں کسی اچھی خبر کا انتظار کروں گا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* تاریخ یہ داستان اس طرح سناتی ہے کہ ہرقل کا یہ پیغام اس وقت مقوقس کے ہاتھ میں پہنچا جب اس کے سامنے اطربون کی لاش پڑی ہوئی تھی۔ یہ لاش کچھ ہی دیر پہلے اس کے پاس پہنچی تھی اس وقت مقوقس بابلیون میں تھا جو بلبیس سے آگے ایک بڑا ہی مضبوط اور رومیوں کے دعوے کے مطابق ناقابل تسخیر قلعہ تھا،،،،، اس دور میں یہ رواج تھا کہ کوئی جرنیل لڑائی میں مارا جاتا تو سربراہ سلطنت حکم دیتا تھا کہ اس جرنیل کی لاش لائی جائے۔ جرنیل کی لاش کا میدان جنگ میں پڑا رہنا پوری سلطنت کی توہین سمجھا جاتا تھا۔ مقوقس نے اپنی شکست خوردہ فوج کو ایسا حکم نہیں دیا تھا کہ اطربون کی لاش کو اٹھا کر لے آئے ۔شکست کھا کر بھاگنے والے فوجیوں کے تو ہوش ہی ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ اپنی جرنیل کی لاش اٹھا لاتے۔ انکے تو اپنی جانوں کے لالے پڑے ہوئے تھے ۔پھر اس رومی جرنیل کی لاش مقوقس کے پاس کس طرح پہنچ گئی؟ یہ مسلمانوں کی طنز کا ایک انداز تھا۔ مسلمانوں نے رومیوں کا مذاق اڑایا تھا،،،، بلبیس سے رومی فوج جس طرح بوکھلا کر اور تتربتر ہو کر بھاگی تھی اس حالت میں کسی کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے کہ وہ یہ بھی دیکھتے کہ روم کے اتنے نامور جرنیل کی لاش کہاں پڑی ہے۔ اور کیا وہ واقعی مارا گیا ہے، یا یہ شور و غل مسلمانوں نے دھوکا دینے کے لئے بپا کردیا تھا کہ اطربون کا پرچم گر پڑا ہے۔ اور وہ مارا گیا ہے۔ لڑائی ختم ہونے کے فوراً بعد میدان جنگ کی کیفیت اور نفسا نفسی کے عالم جیسی ہوجاتی تھی، گھوڑوں کی اڑائی ہوئی گرد میں کچھ دور تک نظر کام نہیں کرتی تھی، بھاگنے والے لاشوں اور بے ہوش زخمیوں سے ٹھوکریں کھاتے اور گرتے تھے ۔زمین خون سے اس طرح لال ہو جاتی تھی جیسے خون کا مینہ برسا ہو ، زخمیوں کا کراہنا جگر پاش ہوتا تھا۔ دوست اور دشمن کی تمیز ختم ہو جاتی تھی۔ شہریوں کی چیخ و پکار اور آہ و بکا الگ ہوتی تھی، وہ بھاگ بھی رہے ہوتے اور ان عزیزوں کو بھی ڈھونڈتے پھرتے تھے جو لڑائی میں شامل تھے۔ اطربون کی لاش اس طرح ملی کے مجاہدین کی بیویاں بہنیں یا بیٹیاں جو لشکر کے ساتھ تھیں رومی فوج کی پسپائی کے فوراً بعد میدان جنگ میں دوڑتی ہوئی پھیل گئیں زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لا نا انہیں مرہم پٹی کی جگہ تک پہنچانے اور پانی پلانے کی ذمہ داری ان خواتین نے اپنے سر لے رکھی تھی ۔ یہ مسلمانوں کا دستور بھی تھا ان خواتین میں شارینا بھی تھی جو اپنے خاوند حدید کے ساتھ تھی ۔اور اینی بھی تھی جو فہد بن سامر کی بیوی تھی۔ پہلے تفصیلی ذکر آچکا ہے کہ حدید اور فہد بن سامر تجربے کار جاسوس تھے اور آج کے کمانڈو آپریشن کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ شارینا اپنے زخمیوں کو رومیوں کی لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈتی پھر رہی تھی اسے ایک رومی کی لاش کا چہرہ شناسا معلوم ہوا لباس سے وہ کوئی سپاہی نہیں بلکہ اونچے رتبے والا جرنیل لگتا تھا۔ لاش کا چہرہ خون اور مٹی سے لتھڑا ہوا تھا شارینا کو اصل اس کے ساتھ یہ دلچسپی تھی کہ وہ ھرقل کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی اس لئے رومی فوج کے جرنیلوں سے واقف تھی اس نے لاش کے کپڑوں سے ہی لاش کے چہرے سے خون اور مٹی ہٹائی تو چونک کر پیچھے ہٹ گئی جیسے اسے یقین نہ آیا ہو کہ یہ رومی بھی مارا جا سکتا ہے،،،،، وہ رومی جرنیل اطربون کی لاش تھی۔ اطر بون کو شاعرینا ہی اچھی طرح جانتی اور پہچانتی تھی۔ اطربون ایسا جابر جرنیل تھا کہ ہرقل جیسا جابر اور ظالم بادشاہ بھی اس کے آگے جھکا جھکا رہتا تھا ۔اطربون عیش و عشرت کا بھی دلادہ تھا اور اپنا حق سمجھتا تھا کہ کوئی خوبصورت اور جوان عورت خواہ وہ شاہی خاندان کی ہی کیوں نہ ہوتی اسے ایک دو راتوں کے لئے اپنے ہاں لے جائے۔ شاعرینا کی ماں بڑی حسین عورت ہوا کرتی تھی۔ شارینا اس وقت تیرا چودہ برس کی کمسن لڑکی تھی جب اطربون اس کی ماں کو بھی اپنے گھر لے جایا کرتا تھا ۔ حالانکہ شارینا کی ماں ہرقل کی بیویوں میں سے ایک تھی لیکن یہ عورت اطربون کی دوستی سے بہت خوش تھی ۔شارینا کو اچھی طرح یاد تھا کہ اطربون کی نظر اس پر بھی تھی لیکن کم سنی کی وجہ سے اطربون سے بچی رہی تھی ،طربون نے کی بار اس کے گھر آکر اسے اپنی گود میں بٹھایا تھا اور شارینا اچھی طرح سمجھتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ بچی سمجھ کر پیار نہیں کرتا بلکہ یہ بڑی بری نیت سے اس پر ڈورے ڈال رہا ہے۔ اب اسی اطربون کی لاش خاک و خون میں لتھڑی پڑی تھی اور کوئی اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہا تھا ۔اس کے اپنے سپاہی بھاگتے ہوئے اس کی لاش کو روند گئے تھے۔ شارینا اٹھ کھڑی ہوئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی اسے اینی نظر آئی جو ایک زخمی مجاہد کا سر اپنی گود میں رکھے اسے پانی پلا رہی تھی۔ پانی پلا کر اٹھی تو اسنے شارینا کی طرف دیکھا جو اس سے کوئی زیادہ دور نہیں تھی۔ اینی دوڑتی ہوئی شارینا کے پاس گئی اور اسے بتایا کہ وہ زخمی اٹھ کر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اینی نے یہ بھی بتایا کہ وہ اس زخمی مجاہد کو پانی پلا چکی ہے اور اس نے دیکھ لیا ہے کہ زخم ایسا ہے کہ وہ زندہ رہے گا لیکن اسے جلدی پیچھے پہنچانا ہے۔ شارینا کو اس کام کا بہت تجربہ ہو چکا تھا وہ اطربون کی لاش سے ہٹنا نہیں چاہتی تھی اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ تو دو تین مجاہدین لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے پھرتے نظر آئے۔ شارینا دوڑتی ان تک گئی اور انھیں وہ زخمی مجاہد دکھایا اور کہا کہ اسے اٹھا کر پیچھے لے جائیں ۔مجاہدین زخمی کی طرف گئے اور شارینا واپس اطربون کی لاش پر چلی گئی۔ شاعرینا!،،،،،، اینی نے اطربون کی لاش کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یہ رومی فوج کا بڑا جرنیل لگتا ہے میں نے اسے دو بار دیکھا تھا ہمارے گاؤں کے قریب سے گزرا تھا اور دوسری بار گاؤں میں کچھ دیر کے لئے رکابھی اور گاؤں والوں کو ڈرا دھمکا بھی رہا تھا یہ چلا گیا تو سب کہتے تھے کہ بڑا زبردست جرنیل ہے اور اس کا نام اطربون ہے۔ یہ وہی ہے۔۔۔۔ شارینا نے کہا ۔۔۔تم دوڑ کر جاؤ حدید اور فہد کو بلا لاؤ مسعود کہی نظر آجائے تو اسے بھی ساتھ لے آنا۔ یہ مسعود سہیل مکی تھا ،جو جاسوسی اور دیگر زمین دوز کارروائیوں میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اینی تو اس مجاہد کو اپنا پیر و مرشد مانتی تھی، وہ دوڑتی گئی اور اسے حدید مل گیا اینی نے اسے بتایا کہ رومی جرنیل اطربون کی لاش ایک جگہ پڑی ہے اور شارینا اسے، فہد ،اور مسعود کو بلا رہی ہے۔ حدید نے اپنا کام چھوڑا اور فہد اور مسعود کو دوڑ دوڑ کر ڈھونڈا اور پھر تینوں شاعرینا تک پہنچے ،شاعرینا نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دیکھو روم کا وہ جرنیل جسے لوگ ہرقل سے بھی اونچا سمجھتے تھے اور جو یہ عزم لے کر آیا تھا کہ مسلمانوں کو مصر سے بھگائے گا۔ ان تینوں جاسوس مجاہدین کے لئے یہ کوئی نئی خبر نہیں تھی کہ اطربون مارا گیا ہے یہ تو وہ پہلے ہی سن چکے تھے اور رومی فوج کی پسپائی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے جرنیل کا پرچم گرپڑا اور جرنیل بھی گر کر مر گیا تھا۔ کیا ہمیں یہ لاش دکھانے کو بلایا ہے ۔۔۔حدید نے شارینا سے پوچھا۔ میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ یہ کیسا رہے گا کہ ہم یہ لاش مقوقس کو تحفے کے طور پر بھیج دیں۔ حدید نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور تینوں کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا جیسے انہیں یہ تجویز اچھی لگی ہو سوال یہ تھا کہ لاش مقوقس کے پاس کس طرح بھیجی جائے تینوں نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کیا اور ایک ترکیب سامنے آگئی۔ اس شکست میں بے شمار رومی فوجی کٹ مرے تھے بہت سے بھاگ نکلے تھے اور تین ہزار رومی فوجیوں نے قلعے کے اندر ہتھیار ڈال دیے اور جنگی قیدی بن گئے تھے ۔ حدید وغیرہ جب ان کی لاش پر کھڑے تھے اس وقت ہتھیار ڈالنے کا سلسلہ جاری تھا کچھ رومی جو قلعےے میں رہ گئے تھے بھاگ نکلنے کی کوشش میں ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ حدید، فہد ، اور مسعود ایسے دو رومیوں کو پکڑ لانے کے لئے ادھر ادھر بکھر گئے انہیں کسی سپاہی کی نہیں بلکہ کسی عہدیدار کی تلاش تھی یعنی جو شخص ذمہ دار ہو،،،،،،،،، انہیں زیادہ تگ و دود نہ کرنی پڑی وہ جس طرح کے دو فوجی چاہتے تھے ویسے ہی مل گئے ایک اچھے رتبے والا عہدے دار تھا جو زخمی تھا لیکن ایسا زخمی نہیں کہ چلنے پھرنے یا گھوڑ سواری سے معذور ہوتا زخم معمولی تھی، دوسرا فوجی کم رتبہ والا تھا اور جسمانی لحاظ سے بالکل ٹھیک تھا مجاہدین اسے پکڑ کر رہے تھے وہ بھاگنے کی کوشش میں کہیں چھپا ہوا تھا۔ حدید اور اس کے ساتھیوں نے ان مجاہدین سے یہ رومی لے لیا اور کہا کہ وہ اسے قلعے میں لے جائیں گے اور چونکہ وہ تینوں جاسوس ہیں اس لئے اس سے کچھ باتیں معلوم کریں گے۔ تم دونوں ہماری بات غور سے سن لو ۔۔۔۔مسعود بن سہیل مکی نے ان رومیوں سے کہا۔۔۔۔ یہ دیکھو تمہارے سپہ سالار اطربون کی لاش ہے ہم تمہیں تین گھوڑے دیں گے دو تمہارے لیے اور ایک پر یہ لاس ڈال کر لے جانے کے لئے،،،،،،، ہم تمہیں قید سے آزاد کرتے ہیں تمہیں یہ کام کرنا ہے کہ یہ لاش مصر کے فرمانروا کو دینی ہے۔ میں تمہارے زخموں کی مرہم پٹی کروا کے بھیجوں گا۔ مقوقس کو ہمارا یہ پیغام دینا کہ جنہیں تم عرب کے بدو کہا کرتے ہو انہوں نے یہ لاش تحفے کے طور پر بھیجی ہے اور کہا ہے کہ اسے دیکھو اور عبرت حاصل کرو ۔مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ اپنے فوجی افسروں کو بتائے کہ اس نے اطربون کو روکا تھا کہ مسلمانوں کے مقابلے میں نہ جائے لیکن اطربوں نے اس کی نہ سنی اور بڑے جوش و خروش سے بلبیس چلا گیا تھا۔ ہمارے مقابلے میں جو آئے گا وہ اسی انجام کو پہنچے گا مقوقس کو یہ بھی کہنا کہ ہرقل کو ضرور بتائیے کہ اطربون کی لاش مسلمانوں نے تحفے اور عبرت کے طور پر بھیجی ہے۔ یہ بھی سن لو۔۔۔۔ حدید نے کہا ۔۔۔ہم صرف اس کام کے لیے تمہیں قید سے آزاد کر رہے ہیں اگر تمہیں قید میں رکھیں گے تو تم غلام بنا لئے جاؤ گے اور تمہاری باقی عمر دن رات محنت اور مشقت کرتے گزرے گی اور ذلت میں پڑے رہو گے، یہ لاش سیدھی مقوقس تک لے جاؤ اور اسے ہمارے پیغام کا ایک ایک لفظ پہنچاؤ ہم تم دونوں کو اچھی طرح یاد رکھیں گے، ہم نے جس طرح یہ قلعے فتح کرلیے ہیں اسی طرح اگلے قلعے بھی فتح کر لیں گے، اور ہمیں پتہ چل گیا کہ تم نے لاش مقوقس تک نہیں پہنچائی تھی اور ہمارا پیغام نہیں دیا تھا تو تمھیں ایسی موت ماریں گے کہ دیکھنے والے کانپنے لگیں گے۔ تم لوگ شاید نہیں سمجھے ۔۔۔رومی عہدے دار نے کہا۔۔۔ یہ تو ہمارے ساتھ بہت بڑی نیکی ہے کہ تم ہمیں آزاد کرکے واپس بھیج رہے ہو لیکن یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہے کہ ہم اپنے ایک جرنیل کی لاش ساتھ لے جارہے ہیں۔ ہم تمھارا پیغام فرمانروا مقوقس تک لفظ بلفظ پہنچائیں گے اور لاش اس کے حوالے کر کے اس سے داد و تحسین حاصل کریں گے ہو سکتا ہے وہ کوئی انعام بھی دے دے۔۔۔ ان تینوں مجاہدین نے رومی عہدیدار کی مرہم پٹی کروا دی اور دونوں رومیوں کو ایک ایک گھوڑا دیا تیسرا گھوڑا لاش کے لئے دیا جس پر دونوں نے اطربون کی لاش ڈال لی لاش کا سر ایک طرف اور ٹانگیں دوسری طرف تھی۔ وہاں گھوڑوں کی کوئی کمی نہیں تھی مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑے ادھر ادھر کھڑے تھے اور جو گھوڑے زخمی تھے ابھی تک بھاگ دوڑ رہے تھے،،،،،،، دونوں رومی گھوڑوں پر سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے تینوں جاسوس مجاہدین کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے تاکہ کوئی انہیں پکڑ نہ لے۔ ایک روایت یہ ہے کہ اطربون کی لاش سپہ سالار عمرو بن عاص کی اجازت لے کر بھیجی گئی تھی۔ ایک عربی مؤرخ نے یہ بھی لکھا ہے کہ لاش ایک یا دو نائب سالاروں کی تجویز کے مطابق بھیجی گئی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ لاش ان تین جاسوسوں نے بھجوا دی تھی اور سپہ سالار کو بتایا ہی نہیں گیا تھا اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ عمرو بن عاص ایک عظیم سپہ سالار تھے ان کی عظمت کو دیکھتے ہوئے تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے عظیم انسان نے اس طرح کی حرکت کی ہوگی۔ ایسی حرکت کوئی گناہ تو نہیں تھی لیکن اتنی بڑی شخصیت کے لئے یہ بڑی چھوٹی سی حرکت تھی بہر حال اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اطربون کی لاش مقوقس کو بابلیون بھیجی گئی تھی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷* مقوقس کی جزباتی حالت کا اندازہ اس کے سوا کون کرسکتا تھا جسے ایک اطلاع تو یہ ملی کہ مسلمانوں نے بلبیس کا قلعہ بھی سر کرلیا ہے اور رومی فوج بڑی بری حالت میں ہزاروں سپاہی مروا کر اور قید میں دے کر پسپا ہو گی ہے۔ دوسری یہ کہ اطربون جس سے وہ اپنا دایاں بازو سمجھتا تھا مارا گیا ہے۔ مقوقس کی حکمران شخصیت پر سب سے بڑی ضرب تو اس پیغام نے لگائی جو مسلمان نے اسے بھیجا تھا اس پیغام میں بڑی ہی توہین آمیز طنز تھی جسے مقوقس نے ایک چیلنج سمجھ لیا لیکن فوری طور پر وہ کچھ بھی نہ سوچ سکا کہ اسے کیا کرنا چاہیئے۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ہرقل کا قاصد بزنطیہ سے آن پہنچا اور اس نے مقوقس کو ہرقل کا تحریری پیغام دیا ایک تو یہ پیغام ہی ایسا تھا کہ مقوقس برہم ہو گیا دوسری یہ کہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جس میں ایسی کوئی بھی بات جلتی پر تیل کا کام کر سکتی تھی یہ کام ہرقل کے پیغام نے کر دیا اور مقوقس ہرقل کے خلاف مشتعل ہوگیا۔ اطربون کی موت مقوقس کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا اسے معلوم تھا کہ اطربون کی موت نے رومی فوج کے حوصلے اور زیادہ پست اور مسلمانوں کے لشکر کے حوصلے اور زیادہ مستحکم اور تروتازہ کر دیے ہونگے۔ تاریخ میں یہ تو واضح نہیں کہ اس وقت قیرس کہاں تھا ؟،،،،،یہ پتہ ملتا ہے کہ مقوقس نے اسے اطلاع بھجوائیں اور وہ فوراً پہنچ گیا۔ مقوقس نے اسے ہرقل کا پیغام پڑھنے کو دیا۔ قیرس جو پیغام پڑھتا جا رہا تھا اس کی جذباتی کیفیت ویسی ہی ہوتی جارہی تھی جیسی مقوقس کی ہوچکی تھی۔ پیغام میں ہرقل نے قیرس کی وفاداری پر شک کا اظہار کیا تھا اس سے تو قیرس جل اٹھا۔ بعض غیر مسلم تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ مصر میں مسلمانوں کی فتح کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہرقل اور قیرس میں اختلافات پیدا ہوگئے تھے اور قیرس نے درپردہ مسلمانوں کی مدد کی تھی۔ یہ بالکل بے بنیاد بات ہے ہرقل کا پیغام پڑھ کر مقوقس اور قیرس کے درمیان جو گفتگو ہوئی وہ ان تاریخ نویسوں کی تحریر کی تردید کرتی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ ہرقل اور قیرس میں اختلاف پیدا ہوگیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ قیرس نے ہرقل کو مسلمانوں سے شکست دلوانے کے لئے درپردہ ہتھکنڈے شروع کر دیے ہو۔ لیکن اس نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لئے اپنا ایک الگ محاذ کھولنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ ہمارا بادشاہ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا باتیں بنا رہا ہے ۔۔۔۔مقوقس نے حیرت سے کہا ۔۔۔باتیں بھی یوں بنا رہا ہے جیسے اس نے کبھی مسلمانوں کو شکست فاش دی ہو اور مسلمان اس کے نام سے بھی دبکتے ہوں ۔مسلمانوں کی تعداد اس وقت بھی تھوڑی تھی جب انہوں مکل شام سے اسے دھکلنا اور لولہان کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور آخر اسے شام سے نکال ہی باہر کیا۔ آج مجھے سبق دے رہا ہے کہ ہمت نہ ہارو۔ میں جانتا ہوں حقیقت کیا ہے ۔۔۔قیرس نے کہا۔۔۔ ہرقل صرف اس وجہ سے مصر میں نہیں آتا کہ وہ مسلمانوں سے ڈرتا ہے اس نے ملک شام میں ہر محاذ پر مسلمانوں سے شکست کھائی ہے اس کے دل و دماغ پر شکست نقش ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے مصر ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا ہے وہ چاہتا ہے کہ شکشت کی سیاہی کسی اور کے منہ پر ملی جائے۔ اگر آج مسلمان پسپائی اختیار کرلیں تو ہرقل دوڑتا ہوا یہاں آ پہنچے گا اور فتح کا سہرا اپنے سر باندھ لے گا ۔اس نے عیسائیت کا چہرہ مسخ کیا اور مجھے اختیارات دے دیے کہ میں اس کی عیسائیت کو لوگوں میں رائج کرو اور جو نہیں مانتا اسے قتل کروا دوں اور اس کا خاندان ہی اجاڑ کر رکھ دوں میں نے یہ حکم مانا اور اپنی رعایا کا خون خرابہ کیا۔ میں نے بارہا اس سے کہا تھا کہ اپنی رعایا کو اپنا دشمن نہ بناؤ لیکن ہرقل بادشاہ ہے وہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ جسے چاہے اسے زندگی اور جسے چاہے موت دے دے۔ جن لوگوں پر مظالم توڑے گئے اور جنہوں نے ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہیں کی وہ آج اپنی ہی فوج کے ساتھ تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔۔ مجھے شک ہے کہ قبطی عیسائی درپردہ مسلمانوں کی مدد کر رہے ہونگے اسقف اعظم!،،،،،، کوئی ایسا طریقہ سوچیں کہ قبطیوں کو اپنے ساتھ ملایا جائے اپنے دل میں رومی فوج کی عداوت رکھ لینا کوئی بات نہیں لیکن اپنے ملک کے دشمن کی پشت پناہی کرنا بڑا ہی خطرناک اور شرمناک کام ہے اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں کہ قبطیوں کو کس طرح اپنے ساتھ ملایا جائے ہمیں مسلمانوں کو مصر سے نکالنا ہے یا ایک ایک مسلمان کو مصر میں ہی قتل کر دینا ہے ۔ انہوں نے اطربون کی لاش کے ساتھ جو پیغام بھیجا ہے وہ میری برداشت سے باہر ہے انہوں نے میری غیرت کو للکارا ہے میں ان سے عبرت کا انتقام لونگا۔ میں خود یہی چاہتا ہوں۔۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن بنیامین کو ساتھ لئے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے قبطی صرف بنیامین کا حکم مانتے ہیں وہ خود تو قوس کے صحرا میں روپوش ہے لیکن اس نے ایسا نظام بنا رکھا ہے کہ اس کا حکم دور دراز علاقوں کے ہر قبطی عیسائی کے گھر میں پہنچ جاتا ہے وہ سامنے آئے تو میں اس سے معافی مانگ لوں گا اور اسی کو اسقف اعظم بنا رہنے دوں گا اور خود اس رتبے سے دست بردار ہو جاؤں گا۔ میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے۔۔۔۔ مقوقس نے کہا۔۔۔ میں کسی بھی روز اسے گرفتار کروا سکتا تھا لیکن اس لیے خاموش رہا کہ ذاتی طور پر مجھے اس کے ساتھ دلچسپی ہے اور دوسری وجہ یہ کہ قبطیوں کے باغی ہو جانے کا خطرہ تھا۔ مقوقس اور قیرس اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات کرتے رہے اور انھوں نے اطربون کے بعد دوسرے بڑے نامور جرنیل تھیوڈور کو بھی بلا لیا اور یہ مسئلہ اس کے سامنے رکھا اور اسے کہا کہ وہ اپنی رائے دے وہ بھی ان کا ہم خیال نکلا اس نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہرقل کو سلطنت کی بادشاہی سے معزول کردیا جائے۔ معزول نہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے۔۔۔ مقوقس نے مشتعل لہجے میں کہا ۔۔۔معزول کرنے کی صورت میں خدشہ یہ ہے کہ فوج دو حصوں میں بٹ جائے گی اور خانہ جنگی کا خطرہ پیدا ہو جائے گا ایسا ہوا تو مسلمان بڑے آرام سے پورے مصر پر قابض ہو جائیں گے سلطنت روم کی بقا اسی میں ہے کہ ہرقل کو راستے سے ہٹا دیا جائے۔ مقوقس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہرقل کو قتل کروا دیا جائے اور پھر قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملایا جائے اور پھر مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دی جاسکتی ہے بات آخر وہی پر جا رکی کے بنیامین کو ساتھ ملانا ضروری ہے۔ مقوقس نے اسی وقت اپنے ایک خاص آدمی کو بلایا اور اسے کچھ ہدایات دی اور کہا ۔۔۔کہ وہ قوس کے صحرا میں چلا جائے جہاں قبطیوں نے اپنا ایک مرکز بنا رکھا ہے یہ آدمی اپنے آپ کو قبطی عیسائی ظاہر کرے اور بنیامین تک پہنچے، بنیامین اسے مل جائے تو اپنا آپ اس پر بے نقاب کر دے اور کہے کہ مقوقس اور قیرس اس سے ملنا چاہتے ہیں اور دونوں ہرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بنیامین کسی شک میں پڑ جائے اور بات نہ مانے۔۔۔ مقوقس نے کہا ۔۔۔اسے یقین دلانا اور قائل کرنا ہے کہ وہ بے خوف و خطر آ جائے اور اگر وہ گرفتاری کا خطرہ محسوس کررہا ہے تو قیرس اس کے پاس آ جائے گا اور قیرس اکیلا ہوگا۔ اس کے ساتھ فوج نہیں ہوگی۔ اس طرح ضروری ہدایات لے کر یہ آدمی اس جگہ کو روانہ ہو گیا جہاں بنیامین روپوشی کی حالت میں رہتا تھا۔ مصر کے فرمانروا، مصر کے اسقف اعظم، اور رومی فوج کے ایک نامور جرنیل کے دلوں میں روم کے بادشاہ ہرقل کی مخالفت پیدا ہو چکی تھی جو اتنی شدید تھی کہ عداوت تک پہنچ رہی تھی، ان تینوں کی برہمی کیوجہ بڑی صاف تھی یہ وہی ہرقل تھا جو کم تعداد مسلمانوں سے شکست پر شکست کھا کر شام کا پورا ملک انہیں دے آیا تھا ،اور اب بذنطیہ سے یوں حکم بھیج رہا تھا جیسے یہ تینوں بزدل ہوں اور حوصلہ ہار بیٹھے ہوں، اسقف اعظم اور جرنیل تھیوڈور نے مقوقس سے کہا کہ وہ بھی ہرقل کے نام پیغام لکھے جس میں ایک اطلاع بلبیس کی شکست اور اطربون کی موت کی ہو گی اور اس کے بعد اس پیغام کا ایسا جواب دے جیسے اینٹ کے جواب میں پتھر پھینکا جاتا ہے۔ مقوقس تو اور ہی زیادہ مشتعل اور برہم تھا اس نے اسی وقت اپنے ہاتھ سے پیغام لکھنا شروع کردیا قیرس اور تھیوڈوراسے مشورے دیتے رہے اور اس طرح تینوں نے مل کر جو پیغام لکھا وہ کچھ یوں تھا۔ ہاں شہنشاہ روم ہرقل کے نام جس کی سلامتی اور فتح کیلئے ہم سب لوگ دعا گو رہتے ہیں۔ آپ کا پیغام اس وقت ملا جس وقت میں بابلیون میں اطربون کی لاش کے پاس کھڑا تھا ۔مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو صدمہ پہنچا رہا ہوں لیکن یہ بری خبر آپ سے چھپائی تو نہیں جاسکتی ۔ اطربوں نے مسلمانوں کے لشکر پر اس وقت حملہ کیا تھا جب مسلمانوں نے بلبیس کو محاصرے میں لے رکھا تھا پورا ایک مہینہ لڑائی جاری رہی اور آخر اطربون مارا گیا۔ اور اپنی فوج میں بھگدڑ مچ گئی مسلمانوں نے ہماری فوج کو بہت جانی نقصان پہنچایا ہے اور بہت سے فوجیوں نے مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ اطربون کی لاش ہماری اپنی فوج کے آدمی اپنے طور پر نہیں لائے بلکہ ہوا یوں ہے کہ لاش مسلمانوں نے بڑے ہی توہین آمیز پیغام کے ساتھ بھیجی ہے میں آپ کے پیغام کا جواب اس حالت میں دے رہا ہوں کے ساتھ والے کمرے میں اطربون کی لاش پڑی ہوئی ہے،،،،،، آپ کے پیغام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ مجھے بڑا ہی کمزور اور بزدل آدمی سمجھتے ہیں۔ میں نے مسلمانوں کے ساتھ جو صلح کرنی چاہی تھی وہ کسی کمزوری کے تحت نہیں چاہی تھی بلکہ اپنے احوال و کوائف دیکھے کر یہ قدم اٹھایا تھا ۔آپ نے لکھا ہے کہ میں فوج کو نہ مرواؤں اور مصر مسلمانوں کو دے دوں۔ میں نے یہ سوچا تھا کہ اپنی فوج کو خون خرابے سے بچا لوں اور مسلمان فرما سے ہی واپس چلے جائیں میں نے اطربون کو حملے سے روکا تھا بہت کچھ سوچ کر روکا تھا لیکن اطربوں نے میرا حکم نہ مانا اور مجھے بتائے بغیر فوج لے کر بلبیس چلا گیا اور پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا مسلمانوں نے اطربون کی فوج کا جم کر مقابلہ کیا اور پھر اطربون کی فوج کی خیمہ گاہ پر ہر دوسری تیسری رات ایسے شب خون مارے کہ ہماری فوج کا ایک نقصان تو جانی ہوا ۔اور دوسرا نقصان ذہنی تھا وہ یہ کہ ہماری فوج پر مسلمانوں کی دہشت بیٹھ گئی شکست کی وجہ یہی تھی،،،،،، آپ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تھوڑی ہے اور میں اتنی زیادہ فوج ہوتے ہوئے بھی انہیں شکست نہیں دے سکتا۔ میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ وہی تھوڑی تعداد کے مسلمان ہے جنہوں نے آپ کو اور آپ کی فوج کو شام کے ملک سے نکال باہر پھینکا تھا ۔ شام سے ہماری جو بچی کھچی فوج مصر آئی تھی اس پر مسلمانوں کی بے خوفی بےجگری آسیب کی طرح سوار ہو گئی تھی۔ ان شکست خوردہ فوجیوں نے مصر آ کر ساری فوج کو یہ تاثر دیا کہ مسلمان انسان نہیں جنات ہیں جن کے مقابلے میں کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی۔ اس طرح ہماری فوج کا جذبہ مجروح ہوا اور ہماری فوج کی شکست کا باعث یہی ہے میں یہ کہنے کی گستاخی کروں گا کہ اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ آپ پر عائد ہوتی ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ آپ بحیرہ روم کے اس پار جا کر سب کچھ بھول گئے ہیں ۔آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کس طرح جانوں کی بازی لگا کر لڑتے ہیں یہ جذبہ ہماری فوج میں پیدا ہو ہی نہیں سکا،،،،،، میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آپ اسقف اعظم قیرس کے ہاتھوں آپ کی عیسائیت کو نہ ماننے والوں پر جو ظلم و تشدد کروایا تھا آج مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ مصر میں قبطی عیسائیوں کی آبادی لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ لیکن وہ ہماری فوج میں شامل ہوتے ہیں نہیں۔ اسقف اعظم قیرس بھی اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔ آپ نے ان کی وفاداری پر جس شک کا اظہار کیا ہے وہ صحیح نہیں۔ وہ اس رعایا سے تعاون کسطرح حاصل کرسکتے ہیں جس رعایا کے لیے وہ جلاد بنا دیئے گئے تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ مصر کے بدو ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں سے جا ملے ہیں۔ غور کریں کہ وہ ہمارے ساتھ کیوں نہ ملے اور حملہ آوروں کے ساتھ کیوں چلے گئے۔ ان تک ہم نے بھی رسائی حاصل کی تھی لیکن انھوں نے ہمیں انکار دیا اور وہ کہتے تھے کہ ہم لوگ آزاد ہیں اور کسی کے حکم سے ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ہمارے مقابلے میں انہوں نے مسلمانوں کو پسند کیا اور ایک لشکر کی صورت میں مسلمانوں کے لشکر میں چلے گئے،،،،،، میں آپ کو یہ اطمینان دلاتا ہوں کہ قبطی عیسائیوں کو ساتھ ملانے کی پوری پوری کوشش کی جا رہی ہے میں نے بنیامین کی طرف اپنا ایک ایلچی بھیج دیا ہے۔ اور اسے اپنے ہاں بلوایا ہے۔ اسقف اعظم قیرس نے اپنے رویے میں لچک پیدا کر لی ہے۔ اگر بنیامین آگیا تو میں قیرس اور بنیامین کے اختلافات ختم کرا دوں گا۔ اور پھر بنیامین کوقائل کروں گا کہ وہ قبطی عیسائیوں کا ایک لشکر تیار کرکے رومی فوج کے ساتھ آ جائے تاکہ عرب کے ان مسلمانوں کو مصر سے نکالا جائے ۔اگر آپ کو میری یہ الفاظ مطمئن نہ کر سکے تو ہمارے پاس آجائیں اور لڑائی کی نگرانی خود کریں میں آپ کو یہ یقین بھی دلاتا ہوں کہ ہم میں سے کسی نے بھی ہمت نہیں ہاری اور ہمارے حوصلے مضبوط ہیں۔ مقوقس نے یہ پیغام سربمہر کر کے ایک قاصد کو دیا اور ہدایت یہ دی کہ جس قدر جلدی ہو سکے وہ بزنطیہ پہنچے اور یہ پیغام ہرقل کے ہاتھ میں دے دے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ہم پھر واپس بلبیس چلتے ہیں جہاں شہر کے اندر اور باہر لاشیں بکھری ہوئی تھی اور شدید زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ اور جو ہوش میں تھے وہ اپنے آپ کو گھسیٹ رہے تھے کہ عافیت کے کسی مقام تک پہنچ جائیں ۔ مسلمان خواتین زخمیوں کو پانی پلا پلا کر اٹھا رہی تھیں زمین کا وسیع وعریض خطہ خون سے سیراب ہوا جا رہا تھا۔ یہی سے اطربون کی لاش اٹھائی گئی تھی۔ اس کی لاش مقوقس کو بھجوا کر شارینا اور اینی اپنے کام میں مصروف ہو گئی تھیں۔ حدید، فہد، اور مسعود وہاں سے چلے گئے تھے ۔بہت سے مسلمان خواتین زخمیوں کو اٹھا رہی تھی اور انہیں مرہم پٹی کے لیے لے جا رہی تھیں۔ ان کے ساتھ مجاہدین بھی تھے جو ان زخمیوں کو اٹھا اٹھا کر پیچھے لے جارہے تھے جو بے ہوش تھے یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھے۔ محمد يحيٰ سندھو کسی بھی خاتون کے چہرے پر ایسا نقاب نہیں تھا کہ وہ پہچانی نہ جا سکے لیکن ایک خاتون نے اپنا چہرہ اس طرح نقاب میں چھپا رکھا تھا کہ اس کی صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ وہ زخمیوں اور لاشوں کو دیکھتی چلی جا رہی تھی اور اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ کسی کو ڈھونڈ رہی ہے وہاں مجاہدین بھی اور ان کے خواتین بھی اتنی مصروف تھیں کہ انھیں ایک دوسرے کو دیکھنے کی بھی فرصت نہیں تھی زخمیوں کو اٹھانے کی جلدی اس لئے تھی کہ کوئی زخمی خون زیادہ بہہ جانے سے شہید نہ ہوجائے۔ شارینا اور اینی مل کر ایک زخمی کو اٹھا رہی تھی زخمی مجاہد اٹھا اور دونوں لڑکیاں اسے سہارا دے کر لے جانے لگی تو زخمی نے انہیں روک دیا اور کہا کہ وہ خود اپنے سہارے پیچھے چلا جائے گا ۔شارینا نے دیکھا کہ اس زخمی سے اچھی طرح چلا نہیں جا رہا تھا۔ شاعرینا نے اسے کہا۔۔۔ کہ وہ اپنے آپ پر جبر نہ کرے اور اس کا سہارا لے لے اینی بھی زخمی کے دوسرے پہلوؤں کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئی اور اپنا ایک بازو زخمی کے کمر میں ڈال دیا۔ نہ میری بہنو!،،،،، مجاہد نے شارینا اور اینی سے الگ ہوکر اور مسکرا کر کہا۔۔۔ ہمیں سہاروں کا عادی نہ بنائیں ہم سہاروں کے بل پر چلنے پھرنے لگے تو پھر مصر کون فتح کرےگا تم جاؤ اور بے ہوش پڑے ہوئے زخمیوں کو اٹھاؤ مجھے اللہ کا سہارا بہت ہے۔ زخمی چلا گیا شارینا اور اینی دوسرے زخمیوں کو ڈھونڈنے چل پڑی زخمیوں کی قربناک آوازوں اور زخمی گھوڑوں کے بھاگنے دوڑنے کے دھماکوں اور میدان جنگ کی دیگر آوازوں اور آہٹوں میں شارینا کو یوں لگا جیسے اسے کسی عورت نے پکارا ہو ۔شاعرینا نے روک کر دائیں بائیں دیکھا اسے ایک خاتون نظر آئی جس نے چہرہ نقاب میں ڈھانپ رکھا تھا اور صرف آنکھیں ننگی تھیں۔ شارینا!،،،، اس لڑکی نے قریب آکر کہا۔۔۔ تمہیں پہچاننے میں مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی کیا تم شارینا نہیں ہو؟ ہاں میں شارینا نہ ہی ہوں۔۔۔ شارینا نے کہا۔۔۔ چہرے سے نقاب تو ہٹاؤ کہ میں بھی دیکھ سکو تم کون ہو؟ تم نے میری زبان میں بات کی ہے کیا تم مسلمان نہیں ہو؟ نہیں!،،،، اس لڑکی نے کہا۔۔۔ میں اربیلا ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کو بھول نہیں سکتے۔ او ہو۔۔۔۔ اربیلا۔۔۔ شارینا نے اربیلا کو اپنے بازوؤں میں لے کر بڑی تیزی سے کہا ۔۔۔تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ کس کے ساتھ آئی ہو؟ جلدی بولو تمہارا یہاں اکیلے پھرتے رہنا ٹھیک نہیں۔ وہ بدکار اطربون مجھے ساتھ لے آیا تھا۔۔۔ اربیلا نے کہا ۔۔۔سنا ہے وہ مارا گیا ہے اس خبر سے میں بہت ہی خوش ہوں یہاں ایک فوجی افسر روباش کو ڈھونڈتی پھر رہی ہوں یہ بھی دیکھ رہی ہوں کہ اطربون کی کی لاش نظر آئے تو مجھے یقین ہوجائے گا کہ میں آزاد ہو گئی ہوں اس کی لاش کے منہ پر تھوکوں گی۔ اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اسے اطربون اپنے ساتھ داشتہ بنا کر لایا تھا وہ ایک جواں سال فوجی افسر روباش کو دل وجان سے چاہتی تھی اور روباش اس پر فدا ہوا جاتا تھا ۔اس کی شادی ہو سکتی تھی اور ہو بھی جاتی۔ لیکن اطربون کی نظر پڑ گئی اور اس نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے اربیلا کو داشتہ بنا لیا اور اس کے ماں باپ کو کچھ نقد معاوضہ دیا اور ساتھ ہی برے نتائج کی دھمکیاں دے کر ان پر دہشت بھی طاری کردی اربیلا کے ماں باپ پہلے ہی دہشت زدہ رہتے تھے کیونکہ وہ ھرقل کی بنائی ہوئی عیسائیت کو نہیں مانتے تھے اور وہ قبطی عیسائی تھے۔ انہوں نے قبطیی عیسائیوں کو قتل ہوتے یا زیر اعتاب آتے دیکھا تھا دل پر پتھر رکھ کر چپ ہو رہے۔ یہ پانچ چھ مہینے پہلے کی بات تھی اربیلا اطربون کی قید میں بہت روئی تھی تھی مگر اطربون نے اس پر تشدد کرکے اپنے قبضے میں ہی رکھا پھر بھی اربیلا دو تین مرتبہ اپنے محبوب اور روباش سے ملی ایک بار اطربون کو پتہ چل گیا تو اس نے اربیلا کو مارا پیٹا اور روباش کے خلاف بھی کارروائی کی ۔ روباش چونکہ فوجی افسر تھا اور اس کا کوئی دور کا تعلق شاہی خاندان سے بھی بنتا تھا اس لیے اس کے خلاف کوئی سنگین یا شدید کارروائی نہ کر سکا۔ لیکن اسے معاف کرنے پر بھی راضی نہ ہوا اس وقت روباش اسکندریہ میں تھا ۔ اطربون اس کو اسکندریہ سے بلا کر ان فوجی دستوں میں شامل کردیا جو فرما اور بلبیس کے قلعوں میں تھے یہ اس توقع پر کیا کہ روباش لڑائی میں مارا جائے گا۔اب اطربون بارہ ہزار فوج لے کر مسلمانوں پر حملہ کرنے آیا تو اربیلا کو بھی ساتھ لے آیا اربیلا کے علاوہ ایک اور لڑکی بھی اسکے ساتھ تھی۔ مسلمان تو اپنی بیویوں بہنوں یا بیٹیوں کو ساتھ رکھتے تھے لیکن رومی فوج کے افسر داشتاؤں کو محاذ پر لے جاتے تھے۔ اطربون عورت کا دلادہ تھا اربیلہ کو کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ روباش بلبیس کے قلعے میں ہے ۔اربیلا نے شارینا کو بتایا کہ اطربون کی دوسری داشتہ اس کا ساتھ دیتی تو شاید دونوں مل کر اطربون کو زہر پیلا دیتیں یا کسی طرح اسے قتل کر دیتیں۔ لیکن دوسری داشتہ بہت خوش تھی کہ وہ اتنے بڑے جرنیل کی داشتہ ہے۔ اربیلا یہی کر سکتی تھی کہ اطربون کے مارے جانے کی دعائیں کرتی جو وہ کرتی ہی رہتی تھی آخر اس کے کانوں میں بلبیس کے آخری معرکے کے دوران یہ آواز پڑی کہ اطربون مارا گیا ہے ۔رومی فوج کی خیمہ گاہہیں بلبیس کے میدان جنگ سے دو تین میل دور تھے وہاں جو رومی ملازمین وغیرہ تھے وہ سب وہیں سے بھاگ گئے۔ اطربون کی دوسری داشتہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی۔ اربیلا اطربون کے خیمے میں ہی رہی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اتنی خوش قسمت ہو گئی ہے کہ اطربون مارا گیا ہے۔ بہت دیر بعد وہ خیمے سے نکلی تو اس نے دیکھا کہ وہ اتنی بڑی خیمہ گاہ میں اکیلی ہے وہاں کوئی گھوڑا بھی نہیں تھا کہ وہ اس پر سوار ہو کر بھاگ جاتی اس نے بھاگ جانے کا پکا ارادہ کیا بھی نہیں تھا۔ اطربون کی موت سے بےخبر بلبیس کی طرف چل پڑی وہ روباش کی تلاش میں جا رہی تھی وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتی پھر رہی تھی کہ اسے شارینا نظر آگئی ۔ جاری ہے
❤️ 👍 🇦🇹 🩷 7

Comments