
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 24, 2025 at 01:08 PM
Ausaf Arham
✍🏻
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s
✍🏻
*اورنیل بہتارہا*
*قسط نمبر/37*
بڑی مضبوط چوڑی اور اونچی دیواروں کے حصار میں بلبیس کا شہر آباد تھا۔ ان دیواروں کے اندر بھی جگہ جگہ لاشیں پڑی تھیں ان میں بے ہوش، زخمی بھی تھے۔ شارینا کو معلوم تھا کہ ہتھیار کہاں ڈلوائے جا رہے ہونگے۔ اندر ایک بڑا وسیع و عریض میدان تھا شارینا سب سے پہلے قیدیوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔
شارینا اور اربیلا اس میدان سے ابھی کچھ دور ہی تھی کہ انھیں رومی فوجیوں کی ایک ٹولی آتی نظر آئی تعداد میں وہ پچیس تیس ہونگے۔ تین چار مجاہدین انہیں ہانک کر میدان کی طرف جا رہے تھے۔ یہ ٹولی ان دونوں کے قریب سے گزری تو اچانک اربیلا چلائی روباش ۔۔۔وہ اس ٹولی کی طرف دوڑ پڑی تھی، شارینا بھی اس کے پیچھے دوڑی، روباش نے اربیلا کو دیکھا تو ٹولی سے نکل آیا۔
اوئے رومی۔۔۔۔ ایک مجاہد نے روباش کو ڈانٹ کر کہا ۔۔۔کدھر چل پڑے!،،،،،،، اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو، تم قیدی ہو۔
اگر یہ مجاہد روباش کو دھکیل کر پھر ٹولی میں شامل نہ کردیتا تو روباش کو پتا ہی نہ چلتا کہ مجاہد نے کیا کہا تھا کیونکہ مجاہد عربی بول رہا تھا اور روباش یہ زبان نہیں سمجھتا تھا ۔
شارینا نے اربیلا کو وہیں روک لیا اور کہا کہ وہ چہرے پر پہلے کی طرح نقاب ڈال لیے۔
تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔مجاہد نے ان دونوں سے کہا۔۔۔ دوسری عورتوں کے ساتھ جا کر اپنا کام کرو یہاں تماشہ دیکھنے کے لئے مت روکو۔
شارینا نے اربیلا کو ساتھ لیا اور فوراً وہاں سے چل پڑی اور بڑی تیزی سے چلتی ہوئی شہر سے نکل گئی معلوم نہیں اس مجاہد نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رومی فوج کا ایک افسر انہیں دیکھ کر ان کی طرف کیوں چل پڑا تھا؟
شارینا یہ خطرہ محسوس کرتی ہی رہی کے روباش سے پوچھا جائے گا کہ وہ ان لڑکیوں کی طرف کیوں جا رہا تھا؟
شارینا اربیلا کو ساتھ لئے بڑی ہی تیز چلتی اپنے خاوند حدید کے پاس پہنچی۔
اس نے اربیلا کو حدید سے متعارف کروایا اور وہ ساری بات سنائی جو اربیلا نے اسے سنائی تھی یہ بھی بتایا کہ انہوں نے روباش کو قیدیوں میں دیکھا ہے اگر اسے رہائی مل جائے تو یہ دونوں اسلام قبول کرلیں گے،،،،، حدید نے اپنے ساتھیوں کو بتایا حدید اور اس کے ساتھی جاسوسی کے نظام کے مجاہدین تھے ان کا سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ براہ راست تعلق تھا یہ مسئلہ سپہ سالار کا تھا اور وہی اس کا آخری فیصلہ دے سکتے تھے۔ اس وقت سپہ سالار کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ شہر ابھی ابھی فتح ہوا تھا سپہ سالار نہ جانے کہاں کہاں گھوم پھر رہے تھے۔ انہیں شہر کا نظم ونسق کو بحال کرنا تھا اور ہر طرف کی رپورٹ لینی تھی اور سب سے زیادہ نازک اور اہم کام سرکاری مال غنیمت اکٹھا کرنے کا تھا۔ یہ بھی دیکھنا تھا کہ شہریوں کو کسی قسم کی تکلیف اور پریشانی نہ ہو اور لوٹ مار بھی نہ ہو ۔مجاہدین تو لوٹ مار کو گناہ سمجھتے تھے لیکن ان کے ساتھ مصری بدو تھے جو اس افرا تفریح اور نفسانفسی میں اسلامی اصولوں کے خلاف ورزی کا موقع نکال سکتے تھے۔
حدید ، شارینا اور اربیلا کو ساتھ لئے سپہ سالار کی تلاش میں چل پڑا تلاش بسیار کے بعد سپہ سالار مل گئے لیکن ایسی حالت میں کہ وہ شہر کے چند ایک سرکردہ افراد اور اپنے دو نائب سالاروں کے ساتھ مصروف تھے۔ انتظار میں مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا وہاں کوئی مسجد تو تھی نہیں ایک مجاہد نے باہر کھڑے ہوکر اذان دی اور وہی سب باجماعت نماز کے لیے اکٹھا ہو گئے سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنی سرگرمیاں ملتوی کردی اور امامت کے لیے آ گئے۔
یہ موقع اچھا تھا نماز سے فارغ ہوتے ہی حدید سپہ سالار سے ملا اور انہیں اربیلا اور روباش کے متعلق ساری بات سنائی سپہ سالار نے حکم دے دیا کہ روباش نام کے رومی افسر کو قیدیوں سے نکال کر انکے خیمے میں پیش کیا جائے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
عمرو بن عاص نماز کے بہت دیر بعد اپنے خیمے میں آئے تو روباش وہاں موجود تھا ۔حدید، شارینا، اور اربیلا بھی تھے۔ عمرو بن عاص نے چاروں کو خیمے میں بٹھایا اور پوچھا کہ یہ کیا قصہ ہے سب سے پہلے اربیلا نے بولنا شروع کیا اور وہ ایسی روئی کہ بولنے کے لیے دشوار ہو گیا اپنے آپ کو سنبھال کر اس نے وہی بات سنائی جو وہ شاعینا کو سناچکی تھی۔
اب تم کیا چاہتی ہو؟،،،،، عمرو بن عاص نے پوچھا اس سوال کا جواب مجھ سے سنیں۔۔۔۔ روباش نے کہا۔۔۔۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں مظلوم انسان ہوں اور مجھے رہائی چاہیے تو یہ ٹھیک نہیں ہوگا میں اس ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا جس ملک میں کسی کی عزت اور آبرو ہی محفوظ نہ ہو اور ایک جرنیل اپنا قانون چلاتا پھرے۔ ہرقل وہ بادشاہ ہے جس نے اپنا ہی مذہب رائج کردیا ہے اور بزور شمشیر لوگوں کو اپنے مذہب میں لا رہا ہے۔ میں نے مسلمانوں کے متعلق بہت کچھ سنا ہے اگر یہ سب صحیح ہے تو میں آپ کا مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں ۔
اربیلا کی بھی یہی خواہش ہے میں تجربے کار فوجی افسر ہوں میری خدمات آپ کو مایوس نہیں کرے گی۔ اگر آپ نے مجھے قید میں ہی رکھنا ہے تو سوچ لیں کہ آپ ایک قیمتی انسان کو ضائع کر رہے ہیں ۔ میں عیسائی ہو لیکن رومی حکمرانوں سے انتقام لینے کو بے تاب ہوں۔
عمرو بن عاص اتنی آسانی سے کسی غیر کی باتوں میں آنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ انہوں نے روباش کے ساتھ ایسی گفتگو کی جس سے یہ دیکھنا مقصود تھا کہ یہ رومی افسر قابل اعتماد ہے یا نہیں۔
شارینا نے سپہ سالار کو یہ بتایا کہ وہ اربیلا کو بچپن سے جانتی ہے اور اخلاقی لحاظ سے قابل تعریف ہے اور اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔
خاصی لمبی اور بامقصد گفتگو کے بعد عمرو بن عاص نے فیصلہ دے دیا کہ روبا ش اور اربیلا کو حلقہ بگوش اسلام کر لیا جائے اس طرح روباش اور اربیلا نے عمرو بن عاص کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اس کے ساتھ ہی عمرو بن عاص نے اسلامی اصول کے مطابق دونوں کا نکاح پڑھوا دیا ۔ سپہ سالار نے یہ حکم بھی دیا کہ ان دونوں کو اسلامی اصولوں سے پوری طرح آگاہ کردیا جائے اور انہیں نماز پڑھنی سکھا دی جائے،،،،،،،، ایسا حکم دینے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ یہ نظام موجود تھا جو نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کرتا تھا۔ مسلمان جس بستی کو فتح کرتے تھے وہاں کئی لوگ ان کے اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے فوراً ہی ان کی تعلیم و تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق شروع ہوجاتی تھی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص مصر سے تو واقف تھے ،لیکن وہ اس وقت مصر کئی بار آئے تھے جب انہوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور وہ تجارت کے سلسلے میں آیا کرتے تھے وہ سب سے زیادہ اسکندریہ سے متاثر تھے اس کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے۔
اب عمرو بن عاص جس خطے میں پیش قدمی کر رہے تھے اس سے بھی وہ واقف تھے ،لیکن اتنا نہیں جتنا اب ضرورت محسوس ہو رہی تھی، انہوں نے اس وقت مصر کو کسی اور نگاہ سے دیکھا تھا اب وہ اس علاقے کو جنگی نگاہ سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے اپنے جاسوس انہیں معلومات فراہم کر رہے تھے لیکن انہیں وہ غالباً کافی نہیں سمجھتے تھے۔ اب رومی فوج کا ایک افسر ان کے ہاتھ آگیا تھا صحیح اور مکمل معلومات تو اس سے مل سکتی تھی انہوں نے روباش کا نام فاروق اور اربیلا کا نام فاطمہ رکھا تھا۔
تم فوج کے افسر ہو فاروق!،،،،،، عمر بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تم ایک اس دستے کی قیادت کرنے والے ہو اور تجربہ بھی رکھتے ہوں لیکن ابھی میں تمہیں کسی دستے کی کمان نہیں دوں گا۔ تم تھوڑا ہی عرصہ میری جاسوسی نظام میں رہو گے تمہیں شب خون مارنے کے لیے بھی بھیجا جائے گا میں تمہیں نہایت اہم فرد سمجھتا ہوں، ابھی میری ضرورت یہ ہے کہ مجھے دریا نیل تک اور اس سے کچھ آگے کی معلومات مل جائے، یہ تو میں جانتا ہوں کہ آگے دو تین اور قلعے ہیں لیکن جنگی نقطہ نگاہ سے میں ان قلعوں کے احوال و کوائف معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
مجھ سے بہتر اور کون آپ کو یہ باتیں بتا سکتا ہے۔۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہاں سے آپ پشقدمی کریں گے تو تھوڑی دور جاکر صحرا آجائے گا اس سے آگے اس قدر سرسبزوشاداب اور خوشنما علاقہ آجائے گا جو شاید آپ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا ۔نیل کے کنارے پر ایک شہر ام دنین آباد ہے جو بڑا مضبوط قلعہ بند شہر ہے اس کے بالکل قریب دریا کا گھاٹ ہے جہاں کشتیاں بھی کھڑی رہتی ہیں اور درمیانہ درجے کے بادبانی جہاز بھی ہیں ،فرعونوں نے اپنے زمانے میں اس شہر کو اپنا دارلحکومت بھی بنایا تھا دراصل مصر کا دفاعی نظام یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ آپ کی جرات اور آپ کے جذبے کا بڑا ہی سخت امتحان انہیں قلعوں پر ہوگا جنگی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو میں یہ کہنے کی جرات کرونگا کہ آپ کے ساتھ جو لشکر ہے اس کی تعداد بہت کم ہے اس قلعے کے اندر جو رومی فوج ہے اس کی تعداد آپ کے لشکر سے بہت زیادہ ہے،،،،،،، اس قلعے میں اور آگے آنے والے ہر قلعے میں جو رومی فوج ہے اس میں ایک ایسی کمزوری ہے جو آپ کو فائدہ دے سکتی ہے، وہ یہ کہ اس فوج پر آپ کا ایسا رعب طاری ہے کہ جب آپکی فوج سے نعرے بلند ہوتے ہیں تو رومی فوج کے ہر سپاہی کے چہرے پر خوف اور بزدلی کا تاثر آجاتا ہے۔ آپ نے بلبیس فتح کیا ہے ۔اس فتح میں آپ ہاتھ ایک اتنا بڑا قلعہ بند شہر اور بے شمار مال غنیمت ہی نہیں آیا بلکہ آپ کی فوج ایک دہشت بن کر رومی فوج پر طاری ہو گئی ہے ۔وہ جو رومی فوجی بلبیس سے بھاگ گئ ہے وہ جہاں بھی جائی گی وہاں آپ کا رعب طاری کرتے جائی گ مختصر یہ کہ جو جذبہ آپ کے لشکر میں ہے وہ رومی فوج میں نہیں،،،،،،،،
ام دنین کے جنوب میں چند میل دور بابلیون کا بہت بڑا قلعہ بند شہر ہے میں آپ کو پورے خلوص سے مشورہ دیتا ہوں کے اس قلعے کو سر کرنے کے لیے یہ لشکر نہ لے جائیں۔ کیونکہ یہ بہت ہی کم ہے اور شہر کے اندر اتنی زیادہ فوج ہے کہ اس نے باہر آکر آپ کے لشکر پر حملہ کردیا تو آپ کے قدم اکھڑ جائیں گے ۔اس قلعے کی دیواروں پر پتھر پھینکنے والی منجیقیں بھی نصب ہیں یہ آپ کے لشکر کو بہت نقصان پہنچائے گی، اس قلعے کی دیواریں بہت ہی چوڑی اور پتھریلی ہے ان میں آپ شگاف نہیں ڈال سکیں گے ۔یہ فرعونوں کا تعمیر کیا ہوا قلعہ ہے جسے رومیوں نے آکر اور زیادہ مضبوط کردیا ہے رومی اسے ناقابل تسخیر قرار دیتے ہیں جو غلط نہیں،،،،،
دریا کے پار فیوم ایک اور قلعہ بند شہر ہے یہ بھی مضبوطی کے لحاظ سے کچھ کم نہیں جب تک آپ ام دنین اور بابلیون کوفتح نہ کرلیں آپ فیوم تک پہنچ ہی نہیں سکیں گے ،کیونکہ آپ سیدھے چلے جائیں گے تو بابلیون کے اندر کتنی فوج ہے جس کا کچھ حصہ فیوم کا محاصرہ توڑنے کے لیے آپ پر عقب سے حملہ کردے گی ،اگر آپ کو کمک مل جائے تو پھر آپ بابلیون تک کا خطرہ مول لے سکتے ہیں۔
ان تمام علاقے کی اہمیت کا اندازہ اس سے کریں کہ فرعونوں کے احرام اسی علاقے میں ہے اور ابوالہول کا مجسمہ بھی اسی علاقے میں ہے۔ یوں سمجھ لیں کے جس نے یہ وسیع و عریض علاقہ لے لیا اس نے پورا مصر فتح کر لیا ۔ہمیں مقوقس اور اطربوں نے اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا تھا کہ امدنین، بابلیون اور فیوم تک اگر مسلمان پہنچ گئے تو یہ رومیوں کے لئے زندگی اور موت کی جنگ ہوگی، اگر رومی ہار گئے تو ان کا مصر میں کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا ۔ اور ہرقل نے شام سے نکلتے وقت کہا تھا اے ملک شام الوداع اب ہم کبھی واپس نہیں آسکیں گے۔ اگر آپ یہ جنگ جیت گئے تو ہرقل مصر کے ساحل پر کھڑا ہو کر یہی الفاظ کہے گا الوداع مصر اب ہم کبھی یہاں نہیں آ سکیں گے۔
عمر بن عاص فاروق کی یہ تفصیلات غور سے سنتے رہے اور کچھ سوال بھی کرتے گئے اس طرح اس علاقے کا بڑا ہی واضح اور شفاف نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ پھر انہوں نے فاروق سے پوچھا کہ قبطی عیسائیوں کا رویہ کیا ہے؟،،،،،، اور کیا ایسا امکان موجود ہے کہ وہ ھرقل کے خلاف بغاوت کر دیں گے۔
کبھی ان پر بھروسہ نہ کریں۔۔۔ فاروق نے کہا۔۔۔ یہ صحیح ہے کہ قبطی عیسائی جنگ کے دوران رومی فوج کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے لیکن بنیامین بڑا دانشمند اور دوراندیش آدمی ہے وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اس نے ہرقل کو ناراض کردیا اور فاتح اسی کی ہوئی تو مصر میں کسی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اس کے علاوہ ہرقل کا بنایا ہوا اسفق اعظم قیرس بھی بڑا دانشمند اور ہوشیار آدمی ہے وہ ایسی چال چلے گا کہ قبطی عیسائیوں کو اپنا گرویدہ بنا لے گا۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ قیرس اور بنیامین کی سیاست بازی کو سمجھیں اور قبطیوں پر بھروسہ نہ کریں بھروسہ اسی لشکر پر کریں جو اس وقت آپ کے پاس ہے یہ تھوڑا ہے خواہ زیادہ ہے یہ آپ کی اپنی طاقت ہے یہی آپ کے کام آئے گی۔
*=÷=÷=÷=÷=÷۔
مدینہ سے چلی ہوئی کمک ابھی تک عمرو بن عاص تک نہیں پہنچی تھی۔ عمروبن عاص نے بلبیس کی فتح کی پہلی ہی رات امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے نام پیغام لکھوا کر کہ انھوں نے ایک اورقلعہ فتح کرلیا ہے۔ اوراب کمک کے بغیر آگے ایک قدم بھی اٹھانا ایسے خطرے میں کود جانے کے مترادف ہوگا جس میں پورے لشکر کی ہلاکت کا امکان زیادہ ہے۔ قاصد کو مدینہ کے لیے دوڑا دیا تھا۔ ان کو ابھی یہ اطلاع نہیں ملی تھی کہ کمک مدینہ سے چل پڑی ہے۔
اگلے روز نماز فجر کے بعد عمرو بن عاص نے اپنے نائب سالاروں اور ان سے چھوٹے عہدیداروں کو بلایا یہ ایک اہم اجلاس تھا۔
میرے رفیقو!،،،،،، عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ مجھے احساس ہے کہ میں تم سب کو بڑے امتحان میں ڈال رہا ہوں لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں اپنے لشکر کی جسمانی حالت کو میں دیکھ رہا ہوں اس کے باوجود میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہاں سے ہمیں فوراً پیش قدمی کرنی چاہیئے اور ہم آگے آنے والے کسی قلعے کو محاصرے میں لے لیں ،ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ مصر پر فوج کشی کے مخالفین نے جن میں بزرگ صحابی عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، کہا تھا کہ میں اندھا دھند خطروں میں کود پڑتا ہوں اور میں پورے لشکر کو کسی انجان خطرے میں ڈال کر مروا دوں گا۔ میرے مخالفین نے غلط نہیں کہا تھا لیکن میں اندھا دھند کوئی خطرہ قبول نہیں کرتا۔
میں سوچ سمجھ کر اور ہر پہلو کو سامنے رکھ کر خطرے میں داخل ہوا کرتا ہوں۔
ائے سپہ سالار!،،،،،،،، ایک سالار نے کہا ۔۔۔۔اس وقت ہمارا سامنا ان مخالفین سے نہیں جو مصر پر حملے کے خلاف تھے ،ہمارا سامنا رومی فوج سے ہے جو آگے آنے والے قلعوں میں موجود ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ آپ اس دشمن کی بات کریں۔
تو نے میرے دل سے بوجھ اتار دیا ہے میرے رفیق۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ رومی فوج کو دم لینے اور سستانے کی مہلت نہ دی جائے اگر ہم یہی بیٹھے کمک کا انتظار کرتے رہے تو رومیوں کو یہ تاثر ملے گا کہ ہم آگے بڑھنے کے قابل نہیں رہے ۔ اور ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے کثیر تعداد رومی فوج سے خائف ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم یہاں بیٹھے رہے تو کسی بھی وقت رومی فوج آکر بلبیس کو محاصرے میں لے لے گی اور ہمارے لئے رسد رک جائے گی۔ یہ سوچ لو کہ رومی فوج کے لئے پیچھے ہٹنے کو پورا مصر پڑا ہے مگر ہم مات کھا گئے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا نہ کہیں پناہ ملے گی۔ میں رومی فوج پر اپنے لشکر کی دہشت اور اس کا رعب برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔ میں اتنا بھی تاثر نہیں دینا چاہتا کہ ہم تھک گئے ہیں اور کچھ دن سستا کر اگلا قدم اٹھائیں گے۔
کیا ہمیں کمک کی توقع رکھنی چاہیے یا نہیں۔۔۔۔ ایک سالار نے پوچھا۔
کمک آرہی ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔ایسا سوچو ہی نہیں کہ کمک نہیں آئے گی کیا تم سب امیرالمومنین سے واقف نہیں وہ ہمیں تنہا نہیں چھوڑیں گے،،،،،
میرا ارادہ اور فیصلہ یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر ام دنین کو محاصرے میں لے لیں گے۔
اور اپنی پوری طاقت صرف کرکے یہ قلعہ سر کریں گے اگر ہم اللہ کی مدد سے کامیاب ہوگئے تو اس گھاٹ پر کھڑے تمام جہاز اور کشتیاں ہماری ہوگی پھر ہمیں دریائے نیل پار کرنے کی کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
تمام مورخوں نے لکھا ہے کہ حالات کا اور احتیاط کا تقاضا یہ تھا کہ عمرو بن عاص پیش قدمی کا خطرہ مول نہ لیتے اور کمک کا انتظار کرتے لیکن وہ اللہ تعالی کی ذات باری پر بھروسہ رکھنے والے اور خطروں میں کود جانے والے سپہ سالار تھے۔ انہیں اپنے آپ پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے فیصلوں کے خلاف کسی کی کوئی بات نہیں سنتے تھے۔
سالاروں اور عہدے داروں نے کچھ مشورے دیے عمرو بن عاص نے کچھ مشورے قبول کئے اور کچھ رد کئے اور آخر یہ پلان بنا کے فوری طور پر پیش قدمی کی جائے۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷*
ادھر مقوقس نے ام دنین اور بابلیون میں مزید فوج بھیج دی تھی، اس سے پہلے مقوقس اس خوش فہمی میں مبتلا رہا تھا کہ مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے اور اتنی تھوڑی نفری کسی بھی قلعے کو فتح کرنے کے لیے کافی نہیں ،اس خوش فہمی کے زیر اثر اس نے یہ پھندا تیار کیا تھا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اور پھر انہیں نرغے میں لے کر بالکل ہی نیست و نابود کردیا جائے گا۔ لیکن جو ہوا وہ اس کی توقعات کے بالکل الٹ تھا مسلمانوں نے بلبیس جیسا ہر لحاظ سے مضبوط قلعہ بھی لے لیا اور جرنیل اطربون کو مار بھی ڈالا۔
اطربون کی لاش نے اور ہرقل کے پیغام نے مقوقس کو خوش فہمیوں سے نکال دیا تھا۔
ہرقل کا بنایا ہوا اسقف آعظم قیرس بھی اس کے ساتھ مل گیا تھا ،اور قیرس نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ بنیامین کو بھی راضی کر لے آئے گا ۔ اور اب کیا سایوں کو اپنے محاذ پر لے جائے گا۔ اب مقوقس کی سوچیں بدل گئی تھیں اس نے ان دو قلعہ بند شہروں کو نا قابل تسخیر بنانے کے لئے نئی تیار کی ہوئی فوج استعمال کی، ام دنین میں بھی اس نے فوج میں اضافہ کردیا لیکن اس کی زیادہ توجہ بابلیون پر تھی اسے احساس تھا کہ بابلیون ہاتھ سے نکل گیا تو پھر مصر کو مسلمانوں سے بچانا تقریبا ناممکن ہو جائے گا۔
اس نے بابلیون میں فوج میں جو اضافہ کیا تھا وہ صرف اس شہر کے دفاع کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ مقوقس کا پلان یہ تھا کہ مسلمان جدھر بھی حملہ کریں گے وہ بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر عقب سے حملہ کرے گا۔ سپہ سالار عمرو بن عاص کو نومسلم فاروق نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ آگے دفاعی نظام کیسا ہے۔ اس نے عمروبن عاص کو بابلیون سے خبردار کر دیا تھا اس کے باوجود عمرو بن عاص اسی علاقے میں جا رہے تھے۔
عمرو بن عاص نے صرف ایک دن انتظار کیا اور وہ بھی اس لیے کہ بلبیس شہر کا نظم و نسق اور دیگر امور بحال کرنے کے انتظامات کرنے تھے ۔ اگلے ہی روز نماز فجر کے بعد انہوں نے لشکر کو پیش قدمی کا حکم دے دیا
پیش قدمی سے پہلے انہوں نے لشکر سے انتہائی مختصر خطاب کیا اس خطاب کے الفاظ کچھ مختلف ہوں گے اس کا لب لباب یہ تھا کہ اللہ کا حکم ہے کہ تمہارے دین کا دشمن جب بھاگ اٹھے تو اس کے تعقب میں جاؤ اور اس کا ٹھکانہ بھی تباہ کر دو مجھے احساس ہے کہ ہماری نفری بہت تھوڑی ہے لیکن میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ کمک آرہی ہے۔ مدینہ سے کمک شاید کچھ دیر سے پہنچے لیکن اللہ نے فرشتوں کی کمک تمہارے ساتھ کردی ہے۔ میں تمہیں جس خطرے میں لے جا رہا ہو وہاں تم میرے حکم سے نہیں بلکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لڑو گے، یاد رکھنا اسلام کے مجاہدوں کہ ہم یہاں پیٹ گئے تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی، یہاں کی زمین یہاں کے پیڑ اور پتھر اور یہاں کے ریت کے ذرے بھی تمہارے دشمن ہیں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھو۔
مقوقس بابلیون میں آگیا تھا اسے مسلمانوں کی پیشقدمی کی اطلاعات تواتر سے مل رہی تھیں مجاہدین جب ام دنین کی طرف جا رہے تھے تو انہوں نے توجہ نہیں کی تھی کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک دو ایک مسافر آ جا رہے تھے۔ ظاہری طور پر وہ بے ضرر لوگ معلوم ہوتے تھے لیکن وہ مقوقس کے جاسوس تھے جو مجاہدین کے لشکر کو دیکھ رہے تھے کے اس کا رخ کس طرف ہے اور اس کی نفری کتنی کچھ ہے۔
مجاہدین کی نفری تو اور ہی زیادہ کم ہو گئی تھی بلبیس کی لڑائی میں مجاہدین شہید بھی ہوئے اور شدید زخمی بھی ہوئے تھے ، معمولی طور پر زخمی ہونے والے لشکر کے ساتھ جا رہے تھے ان میں کچھ ایسے بھی تھے جنہیں کہا گیا تھا کہ وہ ابھی لشکر کے ساتھ نہ جائیں، اور اس وقت آگے آئے جب ان کے زخم ٹھیک ہو جائیں گے لیکن انہوں نے لشکر کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا اور یہ تاثر دیا کہ وہ لڑنے کے قابل ہیں اور پیچھے نہیں رہیں گے۔
نفری میں مزید کمی اس لیے بھی ہوئی تھی کہ مجاہدین کی کچھ تعداد بلبیس میں رکھنی تھی شہریوں میں نظم ونسق بحال کرنے کے علاوہ کئی اور سرکاری امور تھے جن کی دیکھ بھال ضروری تھی وہاں تین ہزار قیدی بھی تھے ان پر بھی کچھ نفری مقرر کر دی گئی تھی۔
یہ واضح نہیں کہ مجاہدین کا لشکر کتنے دنوں بعد ام دنین پہنچا یہ شہر کوئی زیادہ دور بھی نہیں تھا کہ کئی دن لگ جاتے بہرحال لشکر پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا۔
مسلمانوں کے دو چار جاسوس پہلے ہی اس شہر میں موجود تھے لشکر ابھی شہر کے قریب نہیں پہنچا تھا کہ یہ جاسوس شہر سے نکل آئے کیونکہ محاصرے کی صورت میں دروازے بند ہوجانے کی وجہ سے وہ باہر نہیں آ سکتے تھے۔ انھیں سپہ سالار کو ضروری اطلاعات کی معلومات دینی تھی ،عمرو بن عاص کو بتایا کہ شہر میں رسد اور پانی کی کمی ہے اور یہ دونوں چیزیں باہر سے اندر جاتی ہیں ۔
عمرو بن عاص کے لیے یہ اطلاع بڑی ہی اہم تھی انہوں نے رسد کے راستے بند کردیئے اور پانی بھی روک لیا۔
عمرو بن عاص کو پہلے ہی معلوم ہو چکا تھا کہ وہ جب ام دنین کو محاصرے میں لے گے تو بابلیون سے فوج نکل کر محاصرے پر حملہ کرے گی، عمرو بن عاص کے ساتھ لشکر پہلے ہی کم تھا جو محاصرے کے لیے بھی کافی نہیں تھا ۔ لیکن اسی کم لشکر میں سے انہیں ایسا انتظام بھی کرنا تھا کہ عقب سے حملہ آئے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے اس طرح انہیں محاصرہ کر کے دونوں طرف نظر رکھنی پڑھی۔
تقریباً تمام مستند مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ہر وقت توقع تھی کہ مقوقس بابلیون سے کچھ دستے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرے گا۔ لیکن وجہ معلوم نہیں ہوسکی کہ اس نے یہ کاروائی کیوں نہ کی ۔ بابلیون ام دنین کے جنوب میں چند میل دور تھا تاریخ میں صحیح فاصلہ نہیں لکھا غالبا دس اور پندرہ میل کے درمیان تھا۔
مشہور غیر مسلم مورخ ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ بابلیون سے مقوقس نے فوج نہیں نکالی تھی جس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتی کہ اس کے پیش نظر اطربون کا انجام تھا اگر اطربون نے بلبیس کے محاصرے کے دوران عقب سے جا کر مسلمانوں پر حملے کیے تھے لیکن مارا گیا، مقوقس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کھلے میدان میں شکست نہیں دی جاسکتی اسے اپنی فوج کے مورال کا بھی اندازہ تھا۔ تاریخ میں آیا ہے کہ رومی فوج اسی پر حیران رہ گئی تھی کہ مسلمانوں نے اتنی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ام دنین کو آ کر محاصرے میں لے لیا ہے۔
*جاری ہے۔*
❤️
👍
🩷
7