بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 24, 2025 at 01:18 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/39* *ہیلو بولیس* کے جن کھنڈرات میں عمرو بن عاص مدینہ سے آئے ہوۓ کمک سے جا ملے تھے وہ کھنڈرات کا ہی شہر تھا کوئی ایک بھی مقام صحیح و سلامت کھڑا نظر نہیں آتا تھا وہاں صحرائی لومڑیوں سانپ بچھوؤں اور چمگادڑوں کا بسیرا تھا۔ کھنڈرات بتاتے تھے کہ یہ عالیشان عمارتوں اور پرسکوں مکانوں کا شہر ہوا کرتا تھا ۔ اس شہر کا شمار مصر کے چند ایک عظیم شہروں میں ہوتا تھا۔ ہیلو بولیس یونانی لفظ ہے اس شہر کا یہ نام کسی قدیم دور میں یونانیوں نے رکھا تھا۔ اس کے بعد مصر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بادشاہ کی جھولی میں گرتا چلا آیا اور ان فاتحین میں سے کسی نے ہیلو پولیس کا نام عین الشمس رکھ دیا جو آگے چل کر عین شمس بن گیا ۔اب اس شہر میں کوئی آبادی نہیں تھی صدیوں بعد جن انسانوں نے ان ہیبت ناک کھنڈرات میں جا ڈیرے ڈالے وہ عرب کے مجاہدین تھے۔ اور ان کے ساتھ مصری بدو تھے انھیں بھی وہاں عارضی قیام کرنا تھا ۔ پہلی رات جب لشکر گہری نیند سویا ہوا تھا تو گستی پہرے پر پھرنے والے ایک مجاہد نے ایک کھنڈر سے ہلکی ہلکی روشنی آتی دیکھی۔ اسے معلوم تھا کہ اپنا کوئی مجاہد اندر نہیں ہوگا ،ہوتا بھی تو آدھی رات کے وقت روشنی کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جنگ کے دوران سب سے زیادہ خطرہ دشمن کے جاسوسوں کا ہوتا تھا جاسوس ان کسانوں کے روپ میں اور کچھ اپاہیج فقیروں کے روپ میں بھی لشکر کے کیمپ میں آ جاتے اور جو دیکھنا ہوتا وہ دیکھ لیا کرتے تھے، اسی شک کی بنا پر اس مجاہد نے اندر جا کر دیکھنا ضروری سمجھا۔ صحرا کی شفّاف چاندنی میں کھنڈر کچھ زیادہ ہی ہے ہیبت ناک لگ رہا تھا مجاہد سنتری نے ہر طرف گھوم پھر کر اندر جانے کا ایک راستہ دیکھ لیا یہ غلام گردش سی تھی جو اوپر سے ڈھکی ہوئی تھی اس لئے اندر تاریکی تھی۔ مجاہد آہستہ آہستہ اندر گیا تو اسے محسوس ہونے لگا جیسے چھت میں کوئی انسان بیٹھے بیٹھے سرگوشیوں میں باتیں کر رہے ہو، یہ بد روحیں ہو سکتی تھیں، ایک خوف سا تھا جو مجاہد کے دل پر چھا گیا لیکن مجاہدین اسلام کی فتح مندی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ خوف پر چھا جایا کرتے تھے۔ وہ آگے بڑھتا گیا اس کی رہنمائی بڑی ہی مدھم سی روشنی کر رہی تھی جو اندر سے آرہی تھی۔ کسی ایسی چیز سے مجاہد کو ٹھوکر لگی کہ اچانک تیز ہوا آندھی سی آ گئی اتنی بلند اور ہیبت ناک پھڑپھڑاہٹ سنائی دی کہ مجاہد دیوار کے ساتھ لگا اب وہ خوف پر قابو نہ پا سکا یہ آندھیاں طوفان نہیں ہوسکتا تھا یہ یقینا بدروحیں تھی جنہوں نے یہ دھماکہ خیر طوفانی آوازیں پیدا کی تھیں مجاہد نے ہوا کے جھونکے بھی محسوس کیے اس نے باہر کی طرف دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ تو بڑے پروں والے چمگادڑ ہیں جو چھت اور دیواروں کے ساتھ چپکے ہوئے تھے اور یہ ان کا مسکن ہے۔ ان کے پروں نے اتنی ہوا دی کے مجاہد اسے طوفانی ہوا کے تھپیڑے سمجھتا رہا۔ وہ اٹھا اور جھکا جھکا آگے بڑھا اس نے اندر کی روشنی کا بھید معلوم کرنے کو اپنا فرض سمجھ لیا تھا۔ ایک جگہ سے چھت گری ہوئی تھی اور وہاں سے چاندنی کی کرنیں اندر آرہی تھی لیکن اور آگے سے جو روشنی آرہی تھی وہ چاندنی کی سفیدی میں گڈمڈ نہیں ہوسکتی تھی ۔ مجاہد گری چھت کے ملبے پر چڑھا اور جب آگے گیا تو ایک دروازہ نظر آیا جس کے کواڑ نہیں تھے۔ مجاہد اس دروازے میں داخل ہوا تو یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کی دیواریں بتا رہی تھی کہ یہ کبھی شاہانہ عمارت ہوا کرتی تھی اور یہاں کسی بادشاہ نے عمر گزاری ہے۔ کمرہ زرد پیلی روشنی میں ٹھیک طرح نظر آ رہا تھا ایک کونے میں کوئی شخص ہاتھ جوڑے بیٹھا کچھ بڑبڑا رہا تھا اس کے سامنے چھوٹی سی مشعل جل رہی تھی اس کے قریب کچھ سامان جو روزمرہ کی زندگی کے لیئے ضروری تھا پڑا تھا۔ اس شخص کے کپڑے میلے سے رنگ کے تھے ۔اور وہ سر سے ننگا تھا اس کے دودھ جیسے سفید بال کندھوں پر آ گئے تھے ۔اور سر کی چوٹی پر کوئی بال نہیں تھا چوٹی ہتھیلی کی طرح صاف تھی۔ مجاہد دبے پاؤں چلتا اس کے قریب جا پہنچا۔ اس شخص نے آہستہ آہستہ سر مجاہد کی طرف گھمایا اور سر سے اشارہ کیا کہ وہ بیٹھ جائے۔ مجھے معلوم تھا تم آؤ گے۔۔۔ اس بوڑھے نے بڑھاپے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں عرب کے ان مہمانوں کے انتظار میں تھا تم آ گئے تمہیں آنا ہی تھا۔ پہلے یہ بتا میرے بزرگ محترم!،،،، مجاہد نے پوچھا ۔۔۔کیا تو زندہ ہے یا جو اس دنیا سے اٹھ گئے ہیں ان میں سے کسی کی روح ہے ؟ میں تجھے بدروح نہیں روح کہہ رہا ہوں اور وہ پاک ہوتی ہے اور تیرا چہرہ بتا رہا ہے کہ تیرا وجود بدی سے پاک ہے۔ ابھی زندہ ہوں ۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ بڑی مدت بعد میری زبان حرکت میں آئی ہے میں کسی سے نہیں بولتا کوئی میرے ساتھ بات نہیں کرتا۔ کیا یہاں کوئی اور آیا کرتا ہے ؟،،،،،مجاہد نے پوچھا۔ ہاں!،،،،، بوڑھے نے رعشہ گیر آواز میں جواب دیا ۔۔۔۔یہاں سے تھوڑی تھوڑی دور دو گاؤں ہیں وہاں سے تیسرے چوتھے روز ایک دو آدمی آتے ہیں اور کچھ کھانے پینے کے لئے دئے جاتے ہیں۔ اے بزرگ!،،،،،، مجاھد نے کہا۔۔۔۔ تو ان کے پاس ہی کیوں نہیں چلا جاتا یہاں اکیلے پڑا کیا کر رہا ہے؟ عبادت !،،،،،،بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ خاک و خون کی دنیا سے تعلق توڑ کر یہاں بیٹھا ہوں بہت آئے سب رخصت ہو گئے اب تیرا لشکر آیا ہے ۔ کیا میرا لشکر بھی رخصت ہو جائے گا ؟،،،،مجاہد نے پوچھا۔ نہیں !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔۔ تیرا لشکر رخصت ہونے کے لیے نہیں آیا بلکہ انہیں رخصت کرنے کے لئے آیا ہے جنہوں نے اپنے آپ کو انسانوں کا بادشاہ سمجھ لیا تھا فرعون خدا بن گئے تھے، کہاں ہیں وہ سب رخصت ہو گئے۔ کمرے میں ہلکی ہلکی چڑ چڑ اور دھیمی دھیمی پھڑپھڑاہٹ سنائی دینے لگی مجاہد نے اوپر اور ہر طرف دیکھا چمگادڑ واپس آکر چھتوں میں بیٹھ رہے تھے ۔کچھ آواز غلام گردش سے بھی آ رہی تھی فضا بڑی ہی پراسرار تھی اور بار بار یہی خیال آتا تھا کہ یہاں مرے ہوئے لوگوں کی روحیں رہتی ہیں۔ مجاہد سفید ریش ضعیف العمر سے کوئی اور بات کرنی ہی والا تھا کہ اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اور خوف کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی وہ اس لئے کہ اسے سامنے والی دیوار کے ساتھ ایک سیاہ کالا سانپ رینگتا نظر آیا جس کا رخ ان کی طرف نہیں بلکہ دوسری طرف تھا۔ وہ دیکھو سانپ ۔۔۔ مجاہد نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔ میں ہر روز دیکھتا ہوں۔۔۔ بوڑھے نے لاتعلق سے لہجے میں کہا۔۔۔ ہم اکٹھے رہتے ہیں سانپ صرف اس انسان کو ڈستا ہے جو انسان خود سانہ بن جاتا ہے۔ یہاں ایک ہی نہیں تین چار سانپ رہتے ہیں میں نے ان پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میں انسان ہوں اور انسان کسی کو ڈسا نہیں کرتے۔ ہر انسان اپنے وجود میں سانپ کا زہر لیے پھرتا ہے۔ پیار کر پیار ملے گا۔ اب بتا تیرے لشکر کا سردار کہاں ہے؟ کیا تو اسے ملنا چاہے گا؟،،،،، مجاہد نے پوچھا اور کچھ سوچ کر کہا۔۔۔ تجھے اس سے ملنا ہی ہوگا ہمارے لشکر کا سردار نہیں سپہ سالار ہوتا ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں تجھے اپنے سپہ سالار کے پاس لے جاؤں ، ہمارا لشکر یہاں قیام کیے ہوئے ہے ہم کسی پر شک تو نہیں کیا کرتے لیکن شک رفع کر لینا ضروری سمجھتے ہیں۔ میں تجھ جیسے بزرگ پر بھی شک نہیں کروں گا لیکن بظاہر بے ضرر اور بے کار سے آدمی دراصل دشمن کی آنکھ اور کان ہوا کرتی ہیں کیا تو میرے سپہ سالار کے پاس جائے گا؟،،، میری ایک بات سمجھنے کی کوشش کر بیٹا!،،،، بوڑھے نے کہا ۔۔۔اگر تیرا سپہ سالار فرعون جیسا ہے یا فارس کے آتش پرست بادشاہوں جیسا ہے یا رومی ہرقل جیسا بادشاہ ہے تو وہ تجھے حکم دے گا کہ اس بوڑھے کو گھسیٹ کر پیش کرو ،وہ یہاں ہمارے درمیان بیٹھا کیا کر رہا ہے۔ اور اگر وہ اس جیسا سردار ہے جس کا مجھے ایک صدی سے انتظار ہے تو جا اسے بتا اور وہ خود میرے پاس آئے گا یا اسے بتا کہ وہ تیرے ہی انتظار میں بیٹھا ہے۔ بوڑھے کی اس بات سے اور یہ بات کہنے کے انداز سے مجاہد کچھ ایسا مرعوب ہوا کہ اس کے دل میں تقدس سا پیدا ہو گیا۔ اسے شک پھر بھی رہا۔ لیکن اس کا تقدس اس شک پر حاوی ہوگیا ۔ وہ اٹھا اور باہر کو چل پڑا۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* مجاہد جب باہر شفّاف چاندنی میں نکلا تو اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ روحوں کے دیس میں چلا گیا تھا۔ اس ہیبت ناک کھنڈر کا اس پر جو خوف طاری ہوا تھا وہ کھنڈر کے اندر ہی نکل گیا تھا اس نے یہ بھی محسوس کیا جیسے یہ سفید ریش جھریوں بھرے چہرے والا بزرگ اس دنیا کا زندہ انسان نہیں، کیونکہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے اندر گیا تھا اس لئے اس نے اس شک کو فراموش نہ کیا کہ اس بوڑھے کے پاس گاؤں کے جو آدمی آتے ہیں ان میں کوئی جاسوس ہوسکتا ہے ۔ بہرحال اس نے اپنی گشت کا وقت پورا کیا اور اپنے کماندار کو جگا کر بتایا کہ اس کھنڈر میں ایک بوڑھا آدمی رہتا ہے اور اس کے پاس گاؤں کے کچھ لوگ آتے ہیں۔ مجاہد نے کماندار کو بوڑھے کی کچھ باتیں بھی سنائی۔ فجر کی نماز کا وقت ہو گیا کھنڈرات کے اس شہر میں اذان کی مقدس آواز اٹھی اور کھنڈروں میں سے صدائے بازگشت سنائی دینے لگی ۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اللہ کی آواز کھنڈروں میں سے گھوم پھر کر روحوں کو بھی بیدار کر رہی ہوں اور مصر کے اس صحرا میں پھیلتی جا رہی ہو۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے امامت کے فرائض ادا کئے نماز کے بعد کماندار نے اپنے دستے کے سالار کو رات کے مجاہد کی رپورٹ سنائی اور سالار نے عمرو بن عاص تک یہ بات پہنچا دی۔ اتنی دور پردیس میں ذرا ذرا سا شک بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ عمرو بن عاص نے رات کی ڈیوٹی والے مجاہد کو طلب کیا اور اسے کہا کہ وہ پوری بات سنائے۔ مجاہد نے بوڑھے کا ایک ایک لفظ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کو سنایا اور اس وقت اس کے جو اپنے تاثرات تھے وہ بھی بیان کیے۔ عمرو بن عاص نے جب بوڑھے کہ یہ الفاظ سنے کے تیرہ سردار فرعون ہرقل جیسا بادشاہ نہ ہوا تو وہ خود میرے پاس آئے گا۔ عمرو بن عاص نے کہا کہ میں ابھی اس کے پاس چلوں گا۔ مجھے وہاں لے چل ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے رات والے مجاہد سے کہا ۔۔۔اور سالار سے کہا۔۔۔ اس بوڑھے کے لئے کچھ کھانے کا سامان ساتھ لے چلو۔ کچھ ہی دیر بعد عمرو بن عاص کمک کے سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ مجاہد کی رہنمائی میں اس کھنڈر میں داخل ہورہے تھے جس میں وہ بوڑھا بیٹھا عبادت کر رہا تھا۔ ان کے پیچھے دو مجاہد بوڑھے کے لئے دودھ اور کھانے کی کچھ اشیاء اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ جب سپہ سالار بوڑھے کے کمرے میں داخل ہوئے اس وقت بوڑھا لاٹھی کے سہارے کمرے میں یوں ٹہل رہا تھا کہ بڑی مشکل سے پاؤں گھسیٹتا اور آگے رکھتا تھا ۔ صبح کا اجالا دو بے کواڑ کھڑکیوں میں سے اندر آ رہا تھا لیکن چھوٹی سی مشعل پھر بھی چل رہی تھی ۔ بوڑھا اس پارٹی کو دیکھ کر رک گیا۔ تجھ پر اللہ کی سلامتی ہو ۔۔۔عمرو بن عاص نے بوڑھے سے کہا۔۔۔ تو نہ کہتا تو بھی میں تیرے پاس آ جاتا۔ تو بادشاہ معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ بوڑھے نے روک کر کہا۔۔۔ مصری کی مٹی تیرے قدموں کی منتظر تھی آجا میرے پاس اس زمین پر بیٹھ جا۔۔۔۔بوڑھا قدم گھسیٹا وہاں تک جا پہنچا جہاں وہ رات بیٹھا ہوا تھا اس نے اپنے پاس زمین پر ہاتھ مارا جو عمرو بن عاص کے لیے اشارہ تھا کہ یہاں بیٹھ جاؤ ۔ عمرو بن عاص نے اشارہ کیا تو مجاہدین آگے بڑھے اور دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں بوڑھے کے آگے رکھ دی، پھر عمرو بن عاص، اور زبیر بن العوام اس کے پاس بیٹھ گئے، مجاہدین پیچھے ہٹ کر کچھ دور جا بیٹھے، پہلے اپنے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔۔ تو کب سے یہاں پڑا ہے؟ اور کیا کر رہا ہے؟ اور تیرے پاس کون آتا ہے؟ پہلے مجھے اس کا شکر ادا کرنے دے جس نے مجھے زندہ رکھنے کے لئے یہ نعمتیں تیرے ہاتھ بھیجی ہے۔۔۔۔بوڑھے نے کہا۔۔۔ پھر تجھے پہلے اس شہر کے عروج و زوال کی بات سناؤں گا کہ تو عبرت حاصل کرے کہ ایک طاقت اور ہے جو نظر نہیں آتی اور وہی طاقت انسان کو بلندیوں تک پہنچا کر پستیوں میں پھینک دیتی ہے، لیکن ہر کسی کو نہیں میں نے رات تیرے اس آدمی سے کہا تھا کہ وہ فرعون کہاں ہے جو خدا بن بیٹھے تھے، سن سپہ سالار تو نے اس زمین کا احترام کیا تو آسمان کی بلندی تک پہنچے گا اور اگر تو نے یہ کہا کہ تو خود ہی آسمان کی بلندی تک پہنچ گیا ہے تو اس زمین کے نیچے جاکر گم ہوجائے گا۔ تو عبادت کس کی کرتا ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے بوڑھے کا مذہب اور عقیدے معلوم کرنے کے لئے پوچھا۔ اپنی ۔۔۔۔بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میں اپنی ذات کی عبادت کرتا ہوں حیران مت ہو سپہ سالار تو اسے خدا کہہ لے، کچھ کہہ لے، جو کچھ بھی ہے وہ میری اپنی ذات میں ہے اپنی ذات سے یہ مراد نہیں کہ سب مجھے لائق عبادت سمجھیں ۔ میں اپنی بات کر رہا ہوں ۔کیا تو میرے اس عقیدے کو پسند نہیں کرے گا کہ میں کسی بت کی عبادت نہیں کرتا؟ میں آگ کی عبادت نہیں کرتا ۔اور میں نے اپنا کوئی خدا نہیں بنا رکھا ۔لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ وہ مذہب ابھی تک میرے سامنے نہیں آیا جو مجھے یہ بتائیے کہ عبادت کے لائق کون ہے؟ اتنا جانتا ہوں کہ وہ خدا ہے یا جو کوئی بھی ہے وہ بندوں کو نظر نہیں آتا۔ نظر آنا بھی نہیں چاہیے۔ مجھ سے سن وہ کون ہے۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہمیں ایسے ہی نظر نہ آنے والے خدا نے بھیجا ہے کہ جاؤ میرے بندوں کو گمراہی سے نکالو اور انہیں بتاؤ کہ میں اپنے ہر بندے کی ذات میں موجود رہتا ہوں، اور یہ بھی بتاؤں کہ سدا بادشاہی میری ہے کسی بندے کی نہیں اور بندہ بندوں کو غلام نہیں بنا سکتا۔ یقین ہو چلا ہے کہ میں تیرے ہی انتظار میں زندہ ہوں۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں نہیں مصری کی مٹی تیرے انتظار میں تھی۔ لیکن مت سوچنا کہ تیری ذات کا انتظار تھا ۔اپنے آپ کو اس خدا کا قاصد سمجھ اور اس نے جو پیغام دے کر تجھے بھیجا ہے اس پر دھیان رکھ اور گمان میں نہ رہنا کہ اب کوئی موسٰی نہیں آئے گا ۔فرعون کو موسٰی نے نیل میں ڈبو دیا فرعون کو نہیں بلکہ فرعونیت کو اپنے آپ کو موسٰی سمجھ کہ مصر سے فرعونیت ابھی گئی نہیں۔ تیری عمر کتنی ہوگی آئے بزرگ !،،،عمرو بن عاص نے پوچھا ۔۔۔عمر کی مت پوچھ بوڑھے نے جواب دیا لگتا ہے یہ دنیا وجود میں آئی تھی تو میں بھی اس کے ساتھ آ گیا تھا اور اس وقت دنیا سے رخصت ہونگا جب یہ دنیا رخصت ہو جائے گی جہاں تک یاد کام آتی ہے میری عمر ایک سو سے بیس پچیس سال اوپر ہو گی بڑی بڑی بستیاں بستے اور اجڑتے دیکھی ہے۔ عمرو بن عاص اور تمام مسلمان جوتش اور نجوم یا کسی بھی ایسے علم کے پیشنگوئیوں کے قائل نہیں تھے ،عقیدہ یہ تھا کہ غیب کا حال احوال صرف اللہ جانتا ہے پھر بھی کسی خیال سے عمرو بن عاص نے اس بوڑھے سے پوچھا کیا وہ پیشن گوئی کرنے کا علم رکھتا ہے۔ نہیں اے سپہ سالار۔۔۔ بوڑھے نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایسا کوئی علم نہیں دنیا دیکھی ہے اور وہی کہتا ہوں جو دیکھا ہے، اور دیکھ رہا ہوں، گمراہ کو دیکھ کر کون پیشنگوئی نہیں کرسکتا کہ یہ شخص تباہی کے گڑھے میں گرے گا، اور جن کے اعمال نیک اور بنی نوع انسان کی محبت کے حامل ہوتے ہیں ان کے متعلق کوئی بھی شخص پیشن گوئی کرسکتا ہے کہ یہ سب سے بلندیوں کی طرف جا رہا ہے،،،،،،،،میں سمجھتا ہوں تو نے یہ کیوں پوچھا ہے،،،،، میں تجھے پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکا ہوں۔ تیرا یہاں میرے پاس آنا اور اس مٹی پر میرے ساتھ بیٹھنا اس امر کی دلیل ہے کہ فتح تیری ہوگی۔ اور تونے اسے اپنی ذاتی فتح سمجھ کر خود ہی انعام حاصل کرنے کی کوشش کی تو پھر پیشنگوئی الٹ جائے گی۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* اس شہر کے بارے میں کچھ بتا ۔۔۔عمرو بن عاص نے پوچھا ۔ آہ یہ شہر ۔۔۔۔بوڑھے نے کہا یہ شہر عظمت کی یادگار بھی ہے اور عبرت کا نشان بھی، لگتا ہے جیسے یہ شہر فرعونوں نے میری آنکھوں کے سامنے آباد کیا تھا اور اس کی عمارتوں اور شاہانہ مکانوں میں اپنی پوری شہنشاہیت اور قدرت کا تمام تر حسن سمو دیا تھا۔ انہوں نے اس شہر کا نام مدینۃ الشمس رکھا تھا ۔ مجھے اس شہر کے جو بن اور عروج کا قصہ میرے آباء و اجداد نے اورانہیں ان کے آباؤ اجداد نے سنایا تھا ۔میرے باپ دادا مذہبی پیشوا تھے اور مذہبی پیشوائی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ لیکن آگے چل کر میں عقیدوں میں الجھ گیا اور کچھ عرصہ تو یوں گزرا کے سمجھ نہ سکا کہ عبادت کرو تو کس کی کروں،،،،،،یہ میرا ذاتی معاملہ ہے میں تجھے اس شہر کی داستان سنا رہا ہوں،،،،،، جانے دے اس بات کو کہ یونانی یہاں کب اور کیسے آیے میں صرف یہ بتاتا ہوں کہ یہ شہر مختلف علوم کا مرکز بن گیا تھا۔ یونان کے مشہور فلسفی افلاطون، ارسطو ،اور سقراط اسی شہر میں آکر علم و فضل سے فیضیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے فلسفے اور ہیئت کی تعلیم یہیں سے حاصل کی تھی۔ عجیب بات سن فرعونوں کا زوال شروع ہوا تو اس شہر کا عروج شروع ہو گیا فرعونیت پر نزع کا عالم طاری ہوا تو اس شہر میں مختلف مذہبوں اور مذہبی عقیدوں کی عبادت گاہیں ابھرنے لگی، مینار اور گنبد نظر آنے لگے اور ان سے شہر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ،مختلف مذہبی شخصیتوں نے یہاں کے مدرسوں سے تعلیم پائی تھی اور سارے مصر میں اور اردگرد کے ممالک میں پھیلائی،،،،، فارس کے آتش پرستوں نے یہاں اپنے آتشکدے بنائے لیکن رومیوں نے آکر انہیں مصر سے بے دخل کردیا اور اپنے ساتھ عیسائیت لائے، اہل مصر نے عیسائیت قبول کرنی شروع کردی اور آتشکدوں اور دیگر عبادت گاہوں کی جگہ گرجے ابھرنے لگے،،،،، یہاں سے اس شہر کی تقدیر الٹے پاؤں چل پڑی، وجہ یہ ہو گئی کہ یہاں جو بھی عقیدہ پھیلا وہ لوگوں نے متاثر ہو کر قبول کر لیا تھا ،لیکن رومیوں نے یہاں بزور شمشیر عیسائیت پھیلائی آج بھی دیکھ لے۔ یہ مت سمجھ کہ میں یہاں اس کھنڈر میں بیٹھا ہوں اور مجھے باہر کی کوئی خبر نہیں پل پل کی خبر مجھ تک پہنچتی ہے،،،،، آج بھی دیکھ لے رومی بادشاہ ہرقل نے اپنی ہی عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور ایسے ظلم و ستم سے اسے پھیلا رہا ہے کہ سنو تو جگر کانپ اٹھتا ہے۔ ہزاروں لوگ ہرقل کی عیسائیت کو قبول نہ کرنے کے جرم میں موت کے گھاٹ اتارے جا چکے ہیں،،،،،،، رومیوں نے یہاں آتے ہیں اس شہر سے عبادتگاہوں کو اجاڑنا شروع کردیا تھا۔ بڑے خوبصورت بت اور حسین مرتیاں اٹھا کر لے گئے ،کیا تو مانے گا کہ انھیں کوئی مینار اچھا لگا تو وہ سالم کا سالم اکھاڑ کر لے گئے ۔ بے انداز کتابیں جو علوم کا خزانہ تھیں یہاں سے اٹھا لیں کچھ جلائی اور کچھ روم بھیج دیں ۔مختصر یہ کہ انہیں یہاں جو کچھ بھی اچھا لگا وہ اٹھایا اور بحرہ روم سے پار روم بھیج دیا ۔ یوں کہہ لیں کہ رومیوں نے اس اتنے حسین اور عظیم شہر کا وہی حال کردیا جو گدھ اور لومڑیاں مردار کا کیا کرتی ہیں،،،،،، انہوں نے علوم کا یہ سرچشمہ بند کردیا تو اس شہر کی رونقیں ہیں مانند پڑ گئی۔ باہر سے علم کے شیدائیوں نے آنا ہی چھوڑ دیا۔ یونانیوں نے اس شہر کا نام پہلے ہیلو بولیس رکھا تھا لیکن رومیوں نے اس کا نام بدل کر عین الشمس رکھ دیا ۔ اب لوگ اسے عین شمس کے کھنڈر کہتے ہیں۔ آج دیکھ اس شہر کی زنگ آلود دیواریں جھکی ہوئی چھتیں، اور دیمک کے کھا ہوئے کواڑ والے دروازے، اس شہر کی عظمت پر آنسو بہا رہے ہیں۔ میں تجھے اس شہر کی نہیں بلکہ بادشاہوں کے عروج و زوال کی بات سنا رہا ہوں،،،،،،،،،، اس داستان سے میں نے عرق نکالا ہے اور اس کے زیر اثر کبھی کا پیش گوئی کر رہا ہوں کہ ایک لشکر آ رہا ہے جو طوفان بادوباراں کی طرح سب کچھ اڑا اور بہا لے جائے گا۔ اور ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔عروج اسی کو حاصل ہوگا جو ایک ایسا عقیدہ لائے گا جو کسی انسان کی تخلیق نہیں ہو گا بلکہ اس کی تخلیق ہو گا جو انسان کا خالق ہے۔ تیرا لشکر طوفان بادوباراں کی طرح یہاں پہنچا ہے میں سب کچھ سن چکا ہوں یہ بھی معلوم ہے کہ رومیوں کے مقابلے میں تیرے پاس طاقت ہے ہی نہیں لیکن سوچ ، تو نے شاید سوچا بھی ہوگا کہ تیرے ساتھ کوئی ایسی قوت ہے جو رومیوں کی جنگی قوت کو روندتی تجھے یہاں تک لے آئی ہے۔ لیکن ان کامیابیوں سے اس خوش فہمی میں نہ پڑ جانا کہ اب تو فتح ہی فتح ہے ۔کسی بھی قلعے کو اپنا سمجھ جب تو اپنا جھنڈا اس پر گاڑ دے گا ۔ یہ مت سوچ کے یہ قلعہ تو بس اپنے ہاتھ آ یا کے آیا۔ یہ بھی یاد رکھ کہ تو آیا نہیں بھیجا گیا ہے۔ جس نے مجھے بھیجا ہے اسے ہم اللہ کہتے ہیں۔۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ ہم دنیا کی جاہ و حشمت کے لیے نہیں لڑتے ہم اللہ کی خوشنودی کے لئے اوراسکاپیغام ساری دنیا میں پہنچانے کے لیے لڑتے ہیں ہمارا نصب العین ہ بنی نوع انسان کی نجات ہے ۔ جا فتح تیری ہے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص اور سالار زبیر بن العوام رضی اللہ عنہا وہاں سے اٹھے سپہ سالار نے حکم دیا کہ جب تک ان کا لشکر ان کھنڈرات میں ہے اس بزرگ کا کھانا ہمارے ذمے ہوگا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* ادھر بابلیون میں مقوقس کے یہاں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔ اس نے تو یہ پلان بنایا تھا کہ مسلمان اور آگے آ جائیں تو انھیں گھیرے میں لے کر ختم کردیا جائے لیکن اس کا یہ پلان بری طرح ناکام ہوا اور اطربون جیسا جرنیل مارا گیا ۔سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ رومی فوج کو اتنا جانی نقصان اٹھانا پڑا جس کی مقوقس کو توقع نہیں تھی، اور اس کے ساتھ نقصان یہ کہ جو فوج زندہ تھی اس کا لڑنے کا جذبہ بری طرح مجروح ہو گیا تھا۔ اس فوج میں وہ دستے بھی تھے جو شام میں مسلمانوں سے نہیں لڑے تھے شام سے بھاگ کر آنے والے فوجیوں نے انہیں بتایا تھا کہ مسلمان کس بے جگری اور بے خوفی سے لڑتے ہیں اب انہوں نے مسلمانوں کو دیکھ لیا تو انہیں یقین آیا کہ مسلمان تو اس سے زیادہ نڈر اور بے خوف ہے جتنا انہیں بتایا گیا تھا۔ ذہنی طور پر یہ فوج شکست قبول کرچکی تھی۔ مقوقس پر دوسری چوٹ یہ پڑی تھی کہ ہرقل نے اسے مسلمانوں کی فتوحات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور اسے بڑا سخت پیغام بھیجا اس پیغام کے جواب میں مقوقس نے ہرقل کو ایسا ہی پیغام بھیجا اور اس پر شام کی شکست کی طنز بھی کی تھی، اس کا اثر یہ ہوا کہ مورخوں کے مطابق ہرقل اور مقوقس کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورت پیدا ہو گئی تھی۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ مقوقس نے ہرقل کے بنائے ہوئے اسقف اعظم قیرس کے مشورے سے اپنا ایک خاص آدمی قبطی عیسائیوں کے اسقف اعظم بنیامین کی طرف اس درخواست کے ساتھ بھیجا تھا کہ بنیامین قیرس سے ملے اور مسلمانوں کی پسپائی کا کوئی بندوبست کیا جائے۔ مقوقس کا یہ آدمی بنیامین تک پہنچ گیا تھا اس نے مقوقس اور قیرس کی ہدایت کے مطابق بنیامین کو تفصیل سے سنایا کہ ہرقل نے مقوقس اور قیرس پر کیا الزام عائد کیے ہیں۔ اور یہ دونوں ہرقل کے خلاف ہوگئے ہیں پھر اس آدمی نے بنیامین کو یقین دلایا کہ قیرس نے اسے نیک نیتی سے بلایا ہے اور ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ اسے گرفتار کر لیا جائے گا ۔ یہ بھی بتایا کہ ان کی ملاقات کی خبر ہرقل کو نہیں ملے گی کیونکہ اس ملاقات کا واحد مقصد عیسائیت کا تحفظ اور فروغ ہے۔ اور مسلمانوں کا راستہ روکنا بھی مقصود ہے۔ بنیامین اصل عیسائیت پر قربان ہوا جا رہا تھا اور اصل عسائیت کو ہی بحال کرنا چاہتا تھا۔ اصل عیسائیت پر اس نے اپنا ایک بھائی قربان کردیا تھا۔ بنیامین مقوقس کے اس آدمی کے ساتھ ہی آ گیا اور جب مسلمانوں کا لشکر ام دنین کی طرف بڑھ رہا تھا بنیامین بابلیون میں قیرس اور مقوقس کے پاس پہنچ گیا۔ مقوقس اور قیرس نے اس کا استقبال بڑے ہی خلوص سے کیا۔ اور اسے پہلا یقین یہ دلایا کہ یہ ملاقات خفیہ ہوگی اور اگر بنیامین نے اس ملاقات کو ناکام کیا تو بھی اسے بحفاظت واپس بھیج دیا جائے گا۔ بنیامین اور قیرس کی یہ ملاقات تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ بعض یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی فتح کا باعث یہ تھا کہ قبطی عیسائی ان کے ساتھ مل گئے تھے اور انہوں نے رومی فوج کو زمین دوز طریقوں سے بھی نقصان پہنچایا تھا ۔ یہ محض بے بنیاد بات ہے مصر میں مجاہدین اسلام کو اللہ کے سوا کسی کی مدد حاصل نہیں تھی۔ بنیامین جب بابلیون پہنچا تو مقوقس نے قیرس سے کہا کہ وہ دونوں الگ بیٹھ کر بات کریں اور اس میں وہ خود دخل انداز نہیں ہو گا۔ مقوقس اور قیرس کا مقصد یہ تھا کہ قبطی عیسائی رومی فوج کے ساتھ ہو جائیں قیرس نے بنیامین کے آگے یہی مقصد رکھا اور کہا کہ عیسائیت کو بچانا اور اسلام کا راستہ روکنا ہے۔ بنیامین زیادہ زور اس بات پر دیتا تھا کہ جب تک ہرقل زندہ ہے وہ اپنی عیسائیت سے دستبردار نہیں ہو گا نہ کسی کو دستبردار ہونے دے گا۔ قیرس نے اسے بتایا کہ ہرقل اب اثرانداز نہیں ہو سکے گا۔ مقوقس نے یہاں تک کہا کہ ہرقل نے بے جا دخل اندازی کی تو اسے مجبور کر دیا جائے گا کہ وہ مصر سے دستبردار ہو جائے۔ اور اپنی عیسائیت کو سنبھال کر رکھے۔ مقوقس نے ان دونوں مذہبی پیشواؤں کو الگ بیٹھ کر بات کرنے کو کہہ دیا لیکن انہیں یہ نہ بتایا کہ وہ خود کیا سوچ رہا ہے۔ اس نے ہرقل کو بلبیس کے قلعے کی فتح کی خبر سنا دی تھی ،اور پھر یہ خبر سنائی کہ مسلمان نیل تک پہنچ گئے ہیں۔ اور اطربون کے بعد اس کا ایک اور منظورنظر جرنیل حنّابھی مارا گیا ہے۔ مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل کیا ہو گا۔ مقوقس کو یہ بھی شکایت تھی کہ ہرقل بزنطیہ سے مصر کے لیے امدادی فوج نہیں بھیج رہا اتنی شکستوں کے بعد مقوقس کو یہ توقع تھی کہ ہرقل اسے مصر کی فرمانروائی سے معزول کر دے گا ۔ اس کے علاوہ مقوقس کو ہرقل سے توقع تھی کہ قبطیوں کو اپنا دشمن بنائے رکھے گا اور اپنی عیسائیت کو نہیں چھوڑے گا ۔ اور اس کا نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ کسی بھی وقت قبطی بنیامین کے اشارے پر بغاوت کر دیں گے۔ بنیامین اور قیرس الگ بیٹھے گفت و شنید کر رہے تھے مقوقس نے اپنے جرنیل تھیوڈور کو بلایا اور اپنے خاص کمرے میں جابیٹھا ،تھیوڈور کے ساتھ مقوقس کی رازداری تھی ،اب بازی تھیوڈور کے سر تھی، وہ اور مقوقس مزید شکست کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ تھیوڈور !،،،،،مقوقس نے کہا ۔۔۔بنیامین اور قیرس کو میں نے الگ بیٹھا دیا ہے لیکن میں سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب تک ہرقل ہمارے سروں پر موجود ہے ہم کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ،اور ایک روز مسلمان سارے مصر پر چھا جائیں گے اور ہرقل اس کا الزام ہمارے منہ پر تھوپ دے گا۔ میں ساری صورتحال سے واقف ہوں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔یہ بتائیں کہ اس کا حل کیا ہے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہرقل کو معزول کر دیں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ لیکن یہاں اس کے حامی فوج میں موجود ہیں وہ ہم دونوں کو یا مجھے قتل کروا دیں گے، دوسری صورت زیادہ بہتر ہے وہ یہ کہ ہم ہرقل کو قتل کروا دیں۔ جرنیل تھیوڈور نے سر جھکا لیا جیسے گہری سوچ میں کھو گیا ہوں مقوقس اسے کچھ دیر دیکھتا رہا آخر تھیوڈور نے سر اٹھایا اور آہستہ آہستہ سر اوپر نیچے ہیلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ مقوقس سے اتفاق کرتا ہے۔ کام خطرناک تو ہے لیکن آسان نہیں۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔۔اس کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں۔ کیا اس کا انتظام کیا ہوگا؟ میں انتظام کر چکا ہوں ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔ دو آدمی تیار کرلیے ہیں ان کے ساتھ ایک ایسی خوبصورت اور ہوشیار لڑکی جائے گی کہ اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہرقل نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی یہ لڑکی میں تحفے کے طور پر ہرقل کو بھیج رہا ہوں اسے میرے اپنے دو قابل اعتماد آدمی لے جائیں گے اس کام کے لئے میں نے انہیں ایک خزانہ پیش کیا ہے۔ محمد يحيٰ سندھو کیا اس لڑکی پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔۔۔ تھیوڈور نے پوچھا۔۔۔۔ ظاہر ہے لڑکی کم عمر ہو گی وہاں جاکر ڈر ہی نہ جائے۔ قتل خنجر یا تلوار سے تو نہیں کرنا ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔۔۔۔ ہرقل کی شراب میں زہر ملانا ہے جو یہ لڑکی آسانی سے ملا دے گی میں نے لڑکی کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ ہرقل کس طرح شراب پیتا ہے۔ اور اس دوران کیا کرتا ہے اور لڑکی کس طرح موقع پیدا کرکے ذرا سا زہر اس کے گلاس میں ڈال دے ، زہر اتنا تیز ہے کہ اس کے چند ذرے شراب میں پڑ گئے تو کام کر دیں گے۔ احتیاط تو آپ کرینگے ہی۔۔۔ تھیوڈور نے کہا۔۔۔ ایک احتیاط سب سے زیادہ ضروری ہے، یہ جو دو آدمی ساتھ جا رہے ہیں انھیں کوئی پہچان نہ سکے۔ مقوقس نے اسے بتایا کہ اس نے یہ احتیاط خاص طور پر پیش نظر رکھی ہے انہیں وہ نہایت معمولی قسم کے لوگوں کے لباس میں بھیج رہا تھا ،لڑکی کو بھی کسی غریب آدمی کی بیٹی کے لباس میں بھیجنا تھا اور چہرے پر نقاب رکھنا تھا،،،،،، مقوقس نہ جانے کب سے ہرقل کے قتل کا پلان بنا رہا تھا اور اب اس نے عملدرآمد کا پکا فیصلہ کر لیا تھا ۔ اس نے تھیوڈور کو بتایا کہ دونوں آدمیوں اور اس لڑکی کو وہ دو بار ریہرسل کروا چکا ہے۔ تھیوڈور نے اس کی تائید ہی نہ کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی۔ اس کے بعد دونوں نے بائبل پر ہاتھ رکھ کر حلف لیا کہ وہ اس راز کو راز ہی رکھیں گے اور ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دیں گے۔ ادھر بنیامین اور قیرس عیسائیت کے نام پر مسلمانوں کے خلاف متفق ہوگئے۔ بنیامین صرف ہرقل کی ضمانت چاہتا تھا مقوقس نے اسے یقین دلایا کہ ہرقل اس اقدام کو پسند کرے گا ۔ مقوقس نے یہ بھی کہا کہ ہرقل کو عیسائیت سے زیادہ اپنی سلطنت پیاری ہے۔ اسے مصر چاہیے مذہب نہیں۔ قیرس نے تو پہلے ہی بنیامین کو یقین دلا چکا تھا ۔ تھیوڈور کے سوا کسی کو معلوم نہ تھا کہ مقوقس کس بنیاد پر ہرقل کی ضمانت دے رہا ہے، وہ تو ہرقل کو اس دنیا سے ہی اٹھا رہا تھا۔ بنیامین یہ وعدہ کرکے رخصت ہوا کہ وہ اپنے مشیروں کو اس فیصلے سے آگاہ کر دے گا۔ اور پھر قبطی فوج میں شامل ہو جائیں گے وہ فوج میں شامل ہو یا نہ ہو بغاوت نہیں کریں گے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ ذرا سا بھی تعاون نہیں کریں گے۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* مجاہدین اسلام کا لشکر عین شمس کے کھنڈرات میں قیام کئے ہوئے تھا کمک پہنچ گئی تھی اور اب سپہ سالار عمرو بن عاص کو آگے بڑھنا تھا وہ زیادہ دیر انتظار کرنے والے سپہ سالار نہیں تھے۔ لیکن لشکر میں زخمیوں کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی تھی ان کی مرہم پٹی ہو رہی تھی اور توقع تھی کہ کچھ دنوں تک یہ لڑنے کے قابل ہو جائیں گے غوروخوص کرکے یہ بھی طے کرنا تھا کہ اگلا قدم کدھر اٹھایا جائے۔ عین شمس کے کھنڈرات کا شہر ذرا بلندی پر تھا اور دفاعی لحاظ سے یہ موزوں تھا دشمن اچانک حملہ کر دیتا تو اس شہر کی بلندی فائدہ دے سکتی تھی۔ اس کے علاوہ وہاں پانی کثرت سے موجود تھا جس کے ختم ہونے کا امکان نہیں تھا اشیائے خوردنی کی ایسی افراط کے خوراک کی قلت کا خطرہ تھا ہی نہیں۔ ایک روز عمرو بن عاص نے زبیر بن عوام اور دوسرے تمام سالاروں کو طلب کیا۔ میرے رفیقو !،،،،،عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا۔۔۔۔ اب بابلیون کا قلعہ بند شہر ہمارے سامنے ہے لیکن وہاں جو رومی فوج ہے اس کا کوئی شمار ہی نہیں ایک تو مفتوحہ قلعوں سے بھاگے ہوئے فوجی بابلیون میں جا پہنچے ہیں، اور دوسرے یہ کہ مقوقس اپنی زیادہ سے زیادہ فوج شہر میں لے آیا ہے ظاہر ہے اس شہر کا محاصرہ کرنا ہوگا،،،،،،،، اگر اللہ میری دعا قبول فرما لے تو رومی باہر آکر کھلے صحرا میں لڑائی کریں، دعا کرو میرے بھائیوں اللہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے کہ رومیوں کو قلعے سے باہر لے آئے، اللہ نے ہمیں مایوس تو کہیں بھی نہیں کیا۔۔۔ زبیر بن العوام نے کہا۔۔۔ اگر ہمارے لیے رومیوں کا باہر آ کر لڑنا بہتر ہوا تو اللہ یہ صورت بھی پیدا کر دے گا۔ یہ بات بھی دل میں بٹھا لو میرے رفیقو!،،،،، عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔۔۔اب ہم مصر کی فتح و شکست کے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں اب ہم کہیں بھی ہار گئے تو ہماری منزل اگلے جہان ہوگی یا ملک شام،،،،،،،،،، میں اپنے اسی اصول کا پابند رہوں گا کہ کہیں بیٹھے دشمن کا انتظار نہ کرتے رہیں ،دشمن کے سر پر سوار رہیں ،اس اصول نے ہمیں ہر معرکے میں کامیاب کیا ہے۔ ادھر بابلیون میں مقوقس اور تھیوڈور دو تین جرنیلوں کو بٹھائے مسلمانوں کو پسپا کرنے کی اسکیم بنا رہے تھے ۔ مقوقس کہہ رہا تھا کہ ان عربوں نے بابلیون بھی لے لیا تو پھر ان کے کہیں بھی پاؤں نہیں جم سکیں گے۔ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کسی جگہ کہا تھا کہ ہم کہیں سے پسپا ہوئے تو یاد رکھو دشمن ملک میں ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی ،اور بھاگنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہوگی۔ لیکن بابلیون میں مقوقس یہی الفاظ اپنے جرنیلوں سے کہہ رہا تھا کہ ہم بابلیون سے اکھڑ گئے تو پھر سارے مصر میں ہمیں کہیں بھی جم کر لڑنے کی مہلت نہیں ملے گی، خود اپنے لوگ ہمیں اپنے گھروں میں پناہ نہیں دیں گے۔ میں مسلمانوں کی چال سمجھ گیا ہوں ۔۔۔جرنیل تھیوڈور نے کہا ۔۔۔افسوس ہے اطربون جیسا تجربہ کار جرنیل نہ سمجھ سکا،،،،،، عربوں کا سپہ سالار پہلے حملے سے ہیں اس اصول کا کاربند چلا آرہا ہے کہ اپنی تعداد کو نہ دیکھوں، اور حملہ کرنے میں زیادہ دیر نہ کرو ،ایک جگہ بیٹھے نہ رہو، اور دشمن پر اس طرح ٹوٹ پڑو کہ وہ اس حملے کو غیرمتوقع سمجھے ،یہی وجہ ہے کہ عرب ہر معرکے میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں۔ ادھر ہم ہیں کہ قلعہ بند ہو کر دشمن کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں ،محاصرے میں ہمارا طریقہ جنگی رہا ہے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر نکال کر عربوں پر حملہ کرتے ہیں ،عرب ہماری یہ چال سمجھ گئے ہیں اور انہوں نے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ آپ سب کے سامنے ہے۔ تم جو چاہتے ہو وہ بیان کرو ۔۔۔۔مقوقس نے کہا۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ ہم قلعہ بند ہو کر نہ لڑیں۔۔۔۔ تھیوڈور نے کہا ۔۔۔۔ہم عربوں کو اتنی مہلت دے ہی نہیں کہ وہ آکر بابلیون کا محاصرہ کر لیں ان کے سپہ سالار کا ایک اصول یہ ہے کہ دشمن کے سر چڑھے رہو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ دل چھوڑ بیٹھے، اور حوصلہ ہار بیٹھے، یہی اصول میں آپ کو دینا چاہتا ہوں آپ نے شاید سنا نہیں کہ مصر کے لوگ ہمیں بزدل اور کمزور کہنے لگے ہیں۔ جو قلعوں کی دیواروں کی پناہ میں بیٹھ کر اپنا دفاع کرتت ہیں،،،،،، اب ہمیں باہر جا کر مسلمانوں کو للکارنا چاہیے۔ یہی دعا سپہ سالار عمرو بن عاص مانگ رہے تھے انہوں نے اپنے دو تین جاسوس بابلیون بھیج رکھے تھے۔ جو دوسرے مفتوح شہروں سے بھاگے ہوئے شہریوں کے بہروپ میں وہاں گئے تھے، اللہ ان کی دعا قبول کر رہا تھا۔ مقوقس نے کہا کہ فوج کو شہر سے باہر کھلی جنگ کے لئے تیار کیا جائے اور کوئی پہلو کمزور نہ رہ جائے۔ *جاری ہے*
❤️ 👍 😮 🩷 5

Comments