بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
May 24, 2025 at 01:37 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 *اورنیل بہتارہا* *قسط نمبر/40* دو ہی دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے فیصلہ سنا دیا کہ کل صبح بعد نماز فجر بابلیون کی طرف کوچ ہوگا ،اور اس شہر کو محاصرے میں لیا جائے گا ۔ یہ توقع ہی نہیں تھی کہ رومی قلعہ سے باہر آ کر لڑیں گے،،،،، ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ایک جاسوس بابلیون سے آیا اس نے عمرو بن عاص کو یہ خبر سنائی کہ رومی باہر آ کر لڑیں گے جاسوس نے بابلیون کی فوج کو کھلی لڑائی کی مشق کرتے ہوئے دیکھا تھا ۔اور پھر وہاں بنائے ہوئے اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا تھا کہ اب مقوقس اور تھیوڈور محاصرے میں نہیں آئیں گے بلکہ بابلیون سے دور آ کر مجاہدین اسلام کو للکاریں گے۔ عمرو بن عاص نے اسی وقت اپنے سالاروں کو طلب کیا اور خوشخبری کے انداز سے یہ خبر سنائی، تمام سالار یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئے انہیں پوری امید تھی کہ رومیوں کو میدان کی کھلی جنگ میں ٹکنے نہیں دیں گے۔ عمروبن عاص نے سب سے پہلے تو اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں انہوں نے رومیوں کو لا کر لڑانا تھا۔ پھر انہوں نے سالاروں کو لڑائی کی ترتیب سمجھا دیں۔ یہ بھی کہا کہ پیشتر اس کے کہ رومی شہر سے نکل کر کسی اور جگہ للکاریں فوراً کوچ کر کے اپنی پسند کے میدان میں پہنچ جائیں۔ رومی مجبور ہو جائیں گے کہ وہاں آئیں۔ عشاء کی نماز کے وقت بابلیون سے ایک اور جاسوس آگیا جس نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو یہ اطلاع دی کہ آج دوپہر رومی فوج شہر سے نکل آئی ہے، اور اس کا رخ عین شمش کی طرف ہے، اس جاسوس نے رومی فوج کی تعداد بھی بتائیں جو مجاہدین کی تعداد سے کئی گناہ زیادہ تھی۔ عشاء کی نماز کی امامت کروا کے اٹھ کھڑے ہوئے اور مجاہدین سے یوں خطاب کیا کہ پہلی بار رومی کھلے میدان میں آ رہے ہیں ،اور ان کی تعداد ہم سے بہت ہی زیادہ ہے تم نے کبھی تعداد کی پرواہ نہیں کی، کیا یہ ہمارا ایمان نہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے، جس نے اتنی کم تعداد کے باوجود ہمیں نیل تک پہنچا دیا ہے؟ اسلام کے مجاہدوں میں ایک بات پہلے کئی بار کہہ چکا ہوں وہی بات اب بھی کہوں گا ،اگر میدان جنگ سے ہمارے قدم اکھڑ گئے تو ہم میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہیں جاسکے گا، ہمارا تو نام و نشان مٹ ہی جائےگا، مصر میں اسلام کے لیے دروازے ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گے۔ اس خطاب کے بعد عمرو بن عاص نے کہا کہ صبح نماز فجر کے فوراً بعد کوچ ہوگا۔ یہ تو انہوں نے رات کو ہی لشکر کو بتا دیا تھا کہ رومی فوج باہر نکل آئی ہے اور اب اس کا ارادہ کھلے میدان میں لڑنے کا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عمرو بن عاص کی جنگی پالیسی اور چالیں خالد بن ولید کے عین مطابق تھی، انتہائی خوفناک خطرہ مول لینے میں یہ دونوں تاریخ ساز سپہ سالار ایک جیسے تھے۔ عمرو بن عاص نے فوج کی ترتیب سالاروں کو سمجھا دینے کے علاوہ ایک اقدام یہ کیا کہ پانچ پانچ سو جانبازوں کے دو دستے الگ کر دیئے، ایک دستے کے قائد خارجہ بن حذافہ، اور دوسرے کے مقداد بن اسود تھے، یہ صحابی تھے اور کمک کے ساتھ ایک ایک دستے کے سالار کی حیثیت سے آئے تھے۔ عین شمس اور بابلیون کے درمیانی علاقے میں کچھ علاقہ پہاڑی تھا جس میں بڑے بڑے کشادہ غار بھی تھے، اس علاقے کو بنو وائل کہتے تھے۔ ایک جانباز دستے کو بن وائل کے غاروں کی طرف روانہ کردیا گیا ،اور دوسرے کو ام دین کے قریب ایک پہاڑی سلسلے میں جا کر چھپ جانے کو بھیج دیا گیا۔ ان دونوں دستوں کو رات کو ہی روانہ کر دیا گیا تھا تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے۔ نماز فجر کے فوراً بعد باقی لشکر نے کوچ کیا۔ آج اس علاقے کو عباسیہ کہتے ہیں جہاں یہ لشکر جا پہنچا اس دور میں یہ وسیع و عریض میدان ریگستانی ہوا کرتا تھا ۔حسب معمول جاسوس مختلف بہروپوں میں آگے بھیج دیئے گئے تھے۔ ادھر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے جنہوں نے تھیوڈور کو جا کر اطلاع دی کہ مسلمانوں کا لشکر عباسیہ کی طرف آرہا ہے۔ تھیوڈور یہ خبر سن کر بہت ہی خوش ہوا اس نے اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ اسے توقع یہ تھی کہ مسلمان عین شمس کے کھنڈروں سے باہر نہیں آئیں گے اور انہیں مار بھگانے میں مشکل پیش آئے گی، تھیوڈور نے اپنی فوج کو وہیں روک لیا۔ سلطنت روم کے جانبازوں!،،،،، تھیوڈور نے بڑی بلند اور جوشیلی آواز میں اپنی فوج سے خطاب کیا ۔۔۔۔تمہارا دشمن آج تک تمہیں بزدل اور کمزور سمجھتا رہا ہے آج وہ تمہارے سامنے آ کر لڑنے آرہا ہے۔ اس کی تعداد تمہاری تعداد کے نصف بھی نہیں ہے، آج ثابت کرکے دیکھا دو کہ بزدل کون ہے ،اگر تم اس میدان سے پیچھے ہٹ گئے تو پھر اتنے زرخیز اور خزانوں سے بھرے ہوئے ملک سے محروم کر دیئے جاؤ گے، سلطنت روم بحیرہ روم کے پار سکڑ جائے گی، پھر تمہاری قسمت میں مسلمانوں کی غلامی یا بحیرہ روم میں ڈوب مرنا لکھ دیا جائے گا۔ آج قسم کھا لو کہ ان مٹھی بھر مسلمانوں کو کاٹ کر اس ریگستان میں پھینک دو گے۔ تاریخ میں آیا ہے کہ تمام فوج نے بلند آواز میں خدا کے نام پر قسم کھائی کہ وہ فتح حاصل کریں گے ورنہ جانیں دے دیں گے۔ *=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷* میدان جنگ عین شمس اور بابلیون سے دور نہ تھا ۔ سورج جب سر پر آیا اس وقت دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہو چکی تھیں۔ عمرو بن عاص درمیان والے دستوں کے سامنے گھوڑے پر سوار تھے ۔ ادھر تھیوڈور بھی اپنی درمیانی والی فوج کے سامنے گھوڑے پر سوار تھا۔ عمرو بن عاص کے کہنے پر ان کا ایک محافظ سوار آگے بڑھا اور بلند آواز سے رومیوں سے کہا کہ حملے میں پہل تم کرو تا کہ تمہیں افسوس نہ رہے کہ عرب کے مسلمانوں نے تمہیں موقع نہیں دیا تھا۔ عمرو بن عاص کے اس محافظ نے اپنا اعلان ختم کیا ہی تھا کہ تھیوڈور نے حملے کا حکم دے دیا۔ عمرو بن عاص کی پہلے دی ہوئی ہدایت کے مطابق پہلو والے دستے اور زیادہ دائیں اور بائیں کو چلے گئے ،سپہ سالار نے دیکھ لیا تھا کہ رومی ایک ہجوم کے مانند ہلہ بول رہے ہیں، یہ انہیں پہلے ہی توقع تھی اس کے مطابق انہوں نے مجاہدین کو ہدایت دے رکھی تھی۔ جب مجاہدین کے پہلو والے دستے اور زیادہ باہر کو ہوگئے تو اس کے مطابق رومی سواروں کو بھی پھیلنا پڑا ۔ عمرو بن عاص یہی چاہتے تھے۔ عمرو بن عاص نے بڑھتے ہوئے رومیوں کا سامنا کیا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دستوں سے کہا کہ لڑتے ہوئے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنا تاکہ دشمن اور آگے آجائے۔ تاریخ میں اس لڑائی کو معرکہ عین شمس کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی کہ مصر کی لڑائیوں میں یہ معرکہ سب سے زیادہ خونریز اور تیز تھا۔ کیونکہ وہ ایسا ریگزار تھا جس میں ریت کے ساتھ مٹی بھی تھی اس لیے اس قدر زیادہ گرد اٹھی کے دونوں طرف کے آدمی اس میں چھپ گئے اور دوست اور دشمن کی پہچان محال ہو گئی۔ مجاہدین کے جو دستے دائیں اور بائیں پھیل گئے تھے انہیں انکے سالار دشمن کے پہلوؤں میں لے گئے، اور پہلوؤں سے حملہ کیا جس سے دشمن کے سپاہی کٹنے لگے ،اور دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ رومی دونوں پہلوؤں کے دباؤ سے اندر کو اکٹھے ہونے لگے جس سے ان کے لیے پینترے بدلنے کی جگہ نہ رہی، ان کے گھوڑے آگے پیچھے سے اور دائیں بائیں سے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراتے تھے۔ کثیر تعداد دشمن کو ایسی ہی چال سے بے بس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو عمرو بن عاص کی جنگی فہم و فراست نے کر دیا۔ لیکن دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ وہ مجاہدین پر حاوی ہوتے نظر آنے لگے تھے۔ تھیوڈور بڑی اچھی چالیں چل رہا تھا اور اس کے احکام بڑی تیزی سے دوسرے جرنیلوں تک پہنچ رہے تھے۔ اپنی فوج کو یوں سکڑتا اور بے بس ہوتا دیکھ کر تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا لیا اور پھر پھیلا دیا ،معلوم ہوتا تھا کہ رومی فوجیوں نے جو قسم کھائی تھی وہ پوری کرکے ہی رہیں گے۔ تھیوڈور نے فوج کو پیچھے ہٹا کر پھر جو حملہ کیا وہ کامیاب ہوتا نظر آرہا تھا ۔اس نے مجاہدین کے پھیلاؤ کے مطابق اپنے دستے کو پھیلا دیا تھا۔ گردوغبار میں چھپا ہوا سورج آگے چلا گیا، اور مغرب کی طرف نیچے جانے لگا اس وقت مجاہدین نے اپنے سالاروں کی قیادت میں پھر وہ پوزیشن حاصل کر لی تھی کہ رومی فوج پھر اندر کی طرف سُکڑ و سمٹ گئی اس وقت اس فوج پر عقب سے قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ بنو وائل کے غاروں میں چھپا ہوا منتخب جانبازوں کا پانچ سو کا دستہ تھا ،جو وہاں اشارے کا منتظر تھا سپہ سالار نے ان کی طرف قاصد دوڑا دیا اور اس دستے کے سردار نے پیغام ملتے ہیں ان سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔ رومی یہ سمجھے کہ یہ مسلمانوں کا کوئی اور لشکر ہے جو عقب سے آگیا ہے ۔ رومی فوجیوں پر جو دہشت پہلے ہی طاری تھی اور جسے تھیوڈور کے خطاب نے اور قسم نے دبا لیا تھا وہ پھر ابھر آئی، اور فوجیوں کے دلوں کو گرفت میں لے لیا۔ رومی فوجی بوکھلا اٹھے اور ہجوم کی صورت میں لڑائی سے نکل کر ام دنین کی طرف بھاگنے لگے ،رومی صفوں میں انتشار پیدا ہوگیا تھا اور ان کی ترتیب ٹوٹ گئی تھی وہ ڈری ہوئی بھیڑوں کی طرح ام دنین کی طرف نکلے۔ جونہی وہ پہاڑی کے قریب سے گزرے تو اس پہاڑی کے غاروں میں سے جاں باز مجاہدین کا دوسرا پانچ سو کا دستہ نکلا اور ان رومیوں پر ٹوٹ پڑا ۔ تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اب رومیوں کو یقین ہوگیا کہ مسلمانوں کا ایک نہیں بلکہ تین لشکر ہیں۔ رومیوں کی کوئ ترتیب رہی نہیں تھی، اور وہ جرنیلوں کے قابو سے نکل گئے تھے، وہ ایسے خوفزدہ ہوئے کے اپنے دفاع میں بھی نہ لڑے وہ صرف پسپا ہونے اور زندہ نکل جانے کی کوشش میں تھے۔ جانباز مجاہدین نے ان کا ایسا قتل عام کیا کہ شاید ہی کوئی رومی زندہ نکلا ہوگا۔ یہ خالد بن ولید کی ایک خصوصی چال تھی جس سے وہ اس رومی فوج سے زیادہ تعداد کی فوج کو بھی بے بس کر کے ختم کر دیا کرتے تھے۔ بھاگنے والے بہت سے فوجی واپس بابلیون میں جا پناہ گزین ہوئے، لیکن بابلیون کے اندر جو فوج تھی اس نے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا پھر سنا کے مجاہدین نے کس طرح رومی فوجیوں کو کاٹا ہے تو وہ قلعہ بابلیون سے بھاگ اٹھے ،دریائے نیل کے کنارے بے شمار کشتیاں فوج کے استعمال کے لیے بندھی رہتی تھی بھگوڑے فوجی ان کشتیوں پر جا چڑھے اور ملاحوں کو ڈرا کر کشتیاں کھلوا لی اور دریا پار کر گئے۔ مقوقس بابلیون میں تھا وہ اپنی فوج کا یہ حشر دیکھ رہا تھا لیکن اس کی بے بسی اور کسمپرسی کا یہ عالم کے اس نفسانفسی اور کھلبلی پر قابو نہیں پایا جا سکتا تھا۔ اگر وہ فوجیوں کی اس ذہنی کیفیت میں انہیں روکتا تو وہ فوجیوں کے ہاتھوں بھی قتل ہو سکتا تھا۔ عمرو بن عاص بابلیون پر حملہ کرتے تو شاید یہ قلعہ بھی لے لیتے لیکن جاسوسوں نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فوج باہر بھیج کر خاصے دستے بابلیون میں ہی تیار رکھے گئے تھے۔ یہ مقوقس اور تھیوڈور کی احتیاطی تدبیر تھی انہیں احساس تھا کہ ان کی فوج پسپا بھی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں مسلمانوں کا بابلیون پر حملہ متوقع ہو سکتا تھا۔ اس لیے انہوں نے بابلیون میں اچھی خاصی فوج دفاع میں رکھی ہوئی تھی۔ عمرو بن عاص نے بہتر سمجھا کے بابلیون پر طاقت صرف کرنے کی بجائے باہر جو رومی فوج خوفزدگی کے عالم میں بھاگتی اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی ہے اسے ختم کر لیا جائے۔ کئی ایک مؤرخوں نے لکھا ہے کہ متعدد فوجی افسر اسکندریا کو بھاگ گئے تھے، رومی فوج جو مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری تھی اس کی تعداد کسی بھی مؤرخ نے نہیں لکھی۔ صرف یہ لکھا ہے کہ جانی نقصان کا کوئی شمار نہ تھا مجاہدین اسلام نے ایک دو اور قلعے بغیر لڑے لے لیے ۔ لیکن ان کی اصل فتح یہ تھی کہ رومیوں کی تمام تر فوج پر مجاہدین کی دہشت طاری ہو گئی تھی ۔ اور اب یہ فوج کچھ عرصے کے لئے لڑنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ *=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷* اب تو ہرقل نے مقوقس کو بخشا ہی نہیں تھا، شہروں اور قلعوں کی بات الگ تھی مسلمانوں نے اب جو فتح حاصل کی تھی اس سے انہیں نیل کے دونوں کناروں کا قبضہ مل گیا تھا۔ مقوقس نے تو ہرقل کو یقین دلا رکھا تھا کہ وہ عرب کے ان بدوؤں کو نیل تک پہنچنے ہی نہیں دے گا ۔ معرکہ عین شمس سے رومی فوج جس طرح تتر بتر ہو کر بھاگ گئی اس سے فیوم کا تمام علاقہ خالی رہ گیا تھا ۔عمروبن عاص نے آگے بڑھ کر اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا۔ فیوم کا ذکر پہلے آ چکا ہے یہ علاقہ اس قدر وسیع و عریض تھا کہ اسے مصر کے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ عمروبن عاص کے حکم سے اس صوبے کے بڑے شہروں میں مسلمانوں کے عمال پہنچ گئے اور انہوں نے ان لوگوں سے وہ ٹیکس وصول کرنے شروع کر دیے جو ان پر عائد ہوتے تھے ۔ تاریخوں میں آیا ہے کہ ان لوگوں پر بھی مسلمانوں کا ایسا رعب بیٹھ گیا تھا کہ انہوں نے بلا چوں وچرا ٹیکس ادا کرنے شروع کردیے ۔ تاریخ میں یہ بھی آیا ہے کہ لوگوں میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ فاتح مسلمان رومی فوج کے افسروں اور دیگر حاکموں کو پکڑ کر زنجیروں میں باندھ دیتے اور پھر اپنے سپہ سالار کے سامنے لے جاتے ہیں اور سپہ سالار انہیں سزا دیتا ہے۔ اس صوبے میں جو مسلمان عمال حاکم مقرر کیے گئے انہیں عمرو بن عاص نے بڑی سختی سے حکم دیا تھا کہ لوگوں کی حیثیت دیکھ کر اس کے مطابق ٹیکس وصول کرے اور کسی کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملے۔ ہرقل تک اس شکست کی خبر پہنچانا مقوقس کا فرض تھا اور مقوقس کو معلوم تھا کہ ہرقل کا ردعمل بڑا ہی شدید ہوگا۔ یہ تو مقوقس دیکھ چکا تھا کہ ہرقل اپنی شام کی شکست اور وہاں سے پسپائی پر پردہ ڈالنے کے لئے تمام تر الزام مقوقس کے منہ پر تھوپ رہا ہے۔ مقوقس نے ہرقل کے نام پیغام لکھوایا اور ایک قاصد کو دے کر بزنطیہ کو روانہ کر دیا۔ مقوقس کو اب ہرقل کا کوئی ڈر نہیں تھا اس نے ہرقل کے قتل کا بڑا پکا انتظام کردیا تھا۔ اسے امید تھی کہ اس پیغام سے پہلے ہرقل اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہوگا۔ اس کے تیار کیے ہوئے دو آدمی لڑکی کو ساتھ لے کر روانہ ہو گئے تھے۔ *=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=* یہ دو آدمی لڑکی کو ساتھ لئے اسکندریہ پہنچے انہیں بحری جہاز وہاں سے ہی مل سکتا تھا۔ انہوں نے معمولی سی آدمیوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے ،اور لڑکی کو غریبانہ اور میلا سا لباس پہنا دیا گیا تھا ۔اس کا سر اور چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھی۔ اسکندریہ پہنچے تو پتہ چلا کہ بحری جہاز دو دنوں بعد روانہ ہو رہا ہے وہ ایک سرائے میں رک گئے۔ یہ سرائے بندرگاہ کے بالکل قریب تھی اور یہاں عام طور پر وہی لوگ ٹھرا کرتے تھے جنہیں بحری جہاز کی روانگی کا انتظار ہوتا تھا۔ جب ایک جہاز تیار ہوجاتا تھا تو بحری جہاز کا کپتان خود یا اس کا کوئی آدمی سرائے میں آکر اعلان کرتا تھا کہ جہاز کل فلاں وقت روانہ ہو رہا ہے۔ جہازوں کے کپتان اور عملے کے آدمی اسی سرائے میں آ کر کھانا کھایا کرتے تھے۔ بزنطیہ کی طرف والے بحر روم کے ساحل تک جانے والا بحری جہاز تیار ہو رہا تھا ایک دن پہلے اس جہاز کا کپتان سرائے میں آیا وہ دیکھنے آیا تھا کہ یہاں کتنے مسافر ہیں۔ مسافروں کو پتہ چلا کہ جہاز کا کپتان آیا ہے تو سب باہر نکل آئے۔ اتفاق سے کپتان نے اس لڑکی کو دیکھ لیا، معلوم نہیں اس نے لڑکی کو کیسے اور کہاں دیکھا اس وقت لڑکی کے چہرے پر نقاب نہیں تھا۔ کپتان لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گیا اسے پتہ چلا کہ یہ لڑکی بھی جا رہی ہے۔ اس زمانے میں جہازوں کے کپتان جہازوں میں اپنے آپ کو بادشاہ سمجھا کرتے تھے۔ اور عموماً یہ لوگ بڑے ہی بدکار بلکہ مجرمانہ ذہنیت کے ہوتے تھے ۔ اس کپتان نے اس لڑکی پر بری نظر رکھ لی۔ کپتان چلا گیا تو کچھ دیر بعد اس جہاز ایک کا ایک اور آدمی سرائے میں آیا اور جانے والے مسافروں میں گھومنے پھرنے لگا وہ ان دو آدمیوں سے ملا جو لڑکی کو لے جا رہے تھے۔ ان کے پاس ویسے ہی رک گیا اور اس طرح باتیں کیں جیسے یہ ملاقات ویسے ہی ہو گئی ہو۔ لیکن وہ کپتان کا بھیجا ہوا آدمی تھا اور یہ اہتمام اس لڑکی کو پھسانے کے لیے تھا۔ جہاز کے اس آدمی نے ان دونوں سے پوچھا کہ ان کے ساتھ یہ لڑکی کون ہے اور کیوں آئی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ان کے ساتھ جہاز میں جائے گی، جہاز کے آدمی نے کہا کہ اس عمر کی لڑکی جہاز میں نہیں جا سکتی یا یہ کہ وہ اس جہاز میں نہیں جاسکتی، کسی اور جہاز میں جاسکتی ہے لیکن اگلا جہاز ایک مہینے سے زیادہ دنوں بعد جائے گا۔ یہ سن کر دونوں آدمی پریشان ہوگئے انھیں تو بہت جلدی جانا تھا، انھیں اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ فرمانروائے مصر مقوقس کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں نہ ہی انہیں ہرقل کے ساتھ دشمنی تھی کہ اسے قتل کرنا ہی تھا ،بلکہ ان کی دلچسپی اس کثیر رقم اور بیش بہا انعام پر تھی جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔ وہ اتنا لمبا انتظار نہیں کر سکتے تھے کرنا چاہتے ہی نہیں تھے ،انہیں خدشہ نظر آتا تھا کہ دیر ہو گئی تو مقوقس اپنا یہ ارادہ بدل سکتا ہے،،،،،، انہوں نے جہاز کے اس آدمی کو رشوت پیش کی اور کہا کہ کسی طرح وہ اس لڑکی کو جہاز میں لے چلے۔ بہت ہی مشکل کام ہے ۔۔۔جہاز کے آدمی نے اپنی رشوت کا بھاؤ چڑھانے کے لئے کہا ۔۔۔اسے مردانہ لباس پہنا کر لے جایا تو جا سکتا ہے لیکن اتنے لمبے سفر میں اسے کپتان سے چھپا کر رکھنا بڑا ہی خطرناک ہو گا، کپتان اتنا سخت اور ظالم آدمی ہے کہ لڑکی کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گا۔ ان آدمیوں نے رشوت میں اضافہ کردیا اور منت سماجت الگ کی اور کہا کہ جہاز میں اسے چھپائے رکھنے کا کام بھی وہی کرے۔ ان دونوں آدمیوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ کسی سے پوچھ ہی لیتے کہ یہ لڑکی کیوں نہیں جا سکتی یا یہ کہ یہ کس کا حکم ہے، ان کی عقل پر وہ خزانہ سوار تھا جو مقوقس نے انہیں پیش کیا تھا۔ آخر جہاز کے اس آدمی نے منہ مانگی رشوت لے کر ان آدمیوں سے کہا کہ اپنا کوئی لباس نکالو کمرے کا دروازہ بند کر کے لباس لڑکی کو پہنایا، پھر اس کا سر اور چہرے کا کچھ حصہ اس طرح ڈھانپ دیا جس طرح لوگ صحرائی سفر میں یا ویسے ہی ڈھانپا کرتے تھے ،اچھی طرح جائزہ لے کر جہاز کے آدمی نے فیصلہ سنایا کہ اب یہ نہیں پہچانی جا سکے گی۔ لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔۔۔ جہاز کے آدمی نے کہا ۔۔۔میں لڑکی کو جہاز میں چھپائے رکھنے کی پوری کوشش کروں گا لیکن کپتان کو پتہ چل گیا، اس نے لڑکی کو دیکھ لیا تو پھر میں ذمہ دار نہیں ہو نگا ،کپتان کو راضی کرنا اور اس کی سزا سے بچنا تمہارا کام ہو گا۔ *=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=* اگلے روز مسافر بندرگاہ پر جاکر جہاز میں سوار ہونے لگے یہ دونوں آدمی لڑکی کو مردانہ لباس میں ساتھ لئے سوار ہوگئے جہاز کے کسی آدمی نے دیکھا تک نہیں ،کرایہ وصول کرنے والے نے کرایہ وصول کر لیا یہ خاصا بڑا جہاز تھا مسافروں کے لیے دو منزلہ جگہ تھی ایک طرف جہاز کا سامان پڑا تھا اور اضافی بادبان بھی لپٹے رکھے تھے۔ جب مسافر اپنا اپنا ٹھکانہ کر رہے تھے اور اپنا سامان بھی رکھ رہے تھے اس وقت جہاز کے اس آدمی نے جس نے رشوت لی تھی آ کر لڑکی کو ساتھ لیا اور جہاں بادبان رکھے تھے وہاں ایک ذرا گہری جگہ بٹھا دیا اور ایک بادبان کا کچھ حصہ اس کے اوپر کردیا۔ وہ کوئی سیدھی سادی دیہاتی لڑکی نہیں تھی کہ بھیڑ بکری بنی رہتی کہ جہاں باندھ دیا وہی بندھی رہے، وہ بڑی ہی عیار اور مکار طوائف زادی تھی اس کم عمری میں ہی کایاں اور گھاگ مردوں کو انگلیوں پر نچا سکتی تھی۔ اس کا کارگر ہتھیار حسن تھا اور کم عمری اور پھر وہ تربیت تھی جو ماں نے اسے دی تھی، اس نے جہاز کے اس آدمی سے پوچھا کہ جہاز کتنے دنوں بعد منزل پر پہنچے گا۔ دس بارہ دن لگنا چاہیے۔۔۔ اس آدمی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن اس کا انحصار ہواؤں پر ہے، ہوا موافق اور تیز ملی تو جہاز بھی تیز جائے گا۔ اگر ہوا میں زور ہی نہ ہوا تو پندرہ سے بیس دن بھی لگ سکتے ہیں ،اور اگر طوفان آگیا تو پھر جہاز کو طوفان نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچا دے۔ تو کیا میں اتنے دن یہی چھپی بیٹھی رہوگی؟۔۔۔ لڑکی نے پوچھا. نہیں!،،،،، جہاز کے آدمی نے کہا۔۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم پہچان ہی نہ جا سکوں گی اس لئے تمہیں ہر وقت چھپے رہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، یہ تو تمہیں جگہ بتانے کے لئے بٹھایا ہے کہ چھپنے کی صورت میں یہاں چھپنا ہے ،دوسری بات یہ کہ کپتان ہر وقت باہر تو نہیں پھرتا رہتا دن کے وقت کچھ دیر سو جاتا ہے، اس وقت میں تمہیں یہاں سے نکال کر عرشے پر بھیج دیا کروں گا بے خطر گھومتی پھرتی رہنا۔ لڑکی کو وہاں بیٹھا کر یہ آدمی سیدھا کپتان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کا شکار آگیا ہے، پھر کپتان کو وہ جگہ بتائی جہاں اس نے لڑکی کو چھپایا تھا ،کپتان نے خوش ہو کر اس آدمی کو کچھ انعام دیا۔ جہاز کا لنگر اٹھا دیا گیا اور عملے نے بادبان کھول دیے کپتان جہاز کو کنٹرول کرنے والی جگہ جا کھڑا ہوا اور پہیے کو پکڑ لیا جہاز بندرگاہ سے ہٹ کر کھلے سمندر کی طرف روانہ ہو گیا۔ جب سورج سارا دن گزر جانے کے بعد سمندر میں ڈوب رہا تھا اس وقت خشکی کا کہیں نام و نشان بھی نظر نہیں آتا تھا ، جدھر نگاہ جاتی سمندر ہی سمندر نظر آتا تھا۔ لڑکی دن بھر کے دوران تین مرتبہ باہر نکلی اور عرشے پر سمندر کے نظارے سے لطف اندوز ہوتی رہی تھی، یہ اس کا پہلا سمندری سفر تھا ،وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ بھی جا کر بیٹھی رہی تھی۔ جہاز کا وہ آدمی آ گیا اور لڑکی سے کہا کہ کھانا کھا کر وہ فوراً اپنے چھپنے کی جگہ چلی جائے اور رات وہیں گزارے اس آدمی نے تسلی دی کے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ اپنے آدمیوں کے ساتھ کھانا کھا کر لڑکی چھپنے والی جگہ چلی گئی اور کچھ دیر بعد سو گئی۔ *جاری ہے۔*
❤️ 11

Comments