
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
June 19, 2025 at 05:16 PM
Ausaf Arham
✍🏻
https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s
✍🏻
ایک ہی سوراخ سے دوسرے بار ڈسنے کا چانس لیکن کیسے؟
اسرائیل کا احساس
اسرائیل کے قیام کے فوری بعد اس پر کئی مسلمان ممالک نے حملہ کیا جس میں ان کو شکست ہوئی لیکن اس کے باوجود وہ رکے نہیں اور 20 سے 25 سال میں یکے بعد دیگرے کئی جنگیں ہوئیں۔ سال 1973 کی یوم کپور کی جنگ میں مصر نے اسرائیل کو بڑا ٹف ٹائم دیا اور اچھا خاصا نقصان پہنچایا یہاں تک کہ کچھ مبصرین کے مطابق یہ جنگ مصر کی جیت تھی۔ اس جنگ کے بعد اسرائیل کو احساس ہو گیا کہ مشرق وسطیٰ میں اپنی دھاک بٹھانے اور عرب ممالک کے "شر" سے بچنے کے لیے ان عرب ممالک کو اندر سے کمزور کرنا ہوگا اور ایسا کرنے کا سب سے آسان طریقہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو باہمی خانہ جنگی میں مبتلا کر کے کیا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کا ایندھن
مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کس طرح شروع کی جائیں؟ یہ اب اہم سوال تھا کیونکہ اس زمانہ میں عرب ممالک میں تقریباً سب امریکی کیمپ میں تھے تو سرمایہ دار-کمیونسٹ جنگ کو یہاں لانا مشکل تھا۔ اس چیز میں جو بات سب سے فائدہ مند ثابت ہو سکتی تھی وہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ڈیموگرافی یعنی کہ ان ممالک میں سنی و شیعہ آبادیوں کا مختلف تناسب تھا۔ سنی شیعہ تفریق اس خطہ میں خانہ جنگی کا سب سے بہترین ایندھن تھا اور یہ اسرائیل کے بعد میں بہت کام آیا ہے۔
دیکھیں عراق و ایران میں شیعہ کی تعداد زیادہ تھی اور ہے اسی طرح شام و خلیج مین سنیوں کی تعداد زیادہ تھی اور ہے۔ اسی طرح لبنان میں شیعہ سنی تعداد تقریباً برابر ہے سو یہ تفریق مشرق وسطیٰ میں خانہ جنگی کو شروع کرنے کے لیے بہت زیادہ موزوں تھی لیکن ادھر مسئلہ یہ تھا کہ شیعہ کے ساتھ کوئی طاقتور سیاسی قوت نہیں تھی۔ جن دو ملک میں شیعوں کی اکثریت تھی اس میں ایک پر صدام کا گروہ قابض تھا جو کہ سنی تھے اور دوسرے پر پہلوی خاندان کا سیکولر گروہ قابض تھا اور کوئی ایسی ریاست موجود نہیں تھی جو کہ خانہ جنگی میں شیعہ کو استعمال کر سکیں اور انکی سرپرستی کر سکیں لیکن اس موقع پر انقلاب ایران ان کے بہت کام آیا جس کے نتیجہ میں ایران کے اندر ایک شیعہ بنیاد پرست حکومت وجود میں آئی تھی۔
اہم وضاحت
یاد رہیں کہ میں ہرگز یہ نہیں کہ رہا ہوں کہ ایران کا انقلاب مغرب- اسرائیل کی مدد سے آیا ہے کیونکہ یہ بہت بڑا دعویٰ ہوگا لیکن انقلاب ایران نے مشرق وسطیٰ میں شیعہ پراکسیز پیدا کر کے اس خطہ کی خانہ جنگی میں بھرپور حصہ ڈالا ہے جس کا فائدہ اسرائیل کو ہی ہوا ہے اور یہ والی بات ایک دم حقیقت ہے۔ ایران انقلاب بیشک اسرائیل و مغرب کی مدد سے نہ آیا ہو لیکن اس کا فائدہ اسرائیل و امریکہ کو بیشمار ہوا ہے۔
ایران عراق جنگ
انقلاب ایران کے بعد ایران اس انقلاب کو باقی ممالک خاص کر شیعہ اکثریتی ملک عراق میں اکسپورٹ کرنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ مشرق وسطیٰ کی جدید تاریخ میں مسلمانوں کی آپسی خانہ جنگی کا پہلا پوائنٹ ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں 1980 سے 1988 کے درمیان دو شیعہ اکثریت مسلمان ممالک میں ایک خونی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس کے نتائج بھیانک ہوتے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجہ میں دونوں ممالک کو شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے و مشرق وسطیٰ کے دو مضبوط ملک آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کو کمزور کر دیتے ہیں اور اس کا بالواسطہ فایدہ اسرائیل کو ہوتا ہے۔
صدام کی غلط پالیسی اور بعد میں احساس
اس جنگ کے بعد صدام اپنے نقصان کی برپائی کے لیے بظاہر کمزور ملک کویت پر تیل کی چوری کے بہانہ حملہ کر دیتا ہے تاکہ وہ اپنی حالت سدھار سکیں۔ کویت پر اس کے حملہ کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ امریکہ سمیت یورپی ممالک کو باقاعدہ طور پر مشرق وسطیٰ میں گھسنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں گھس جاتے ہیں اور ان کے Base آج تک وہاں موجود ہے۔ صدام حسین شاید مغربی ممالک کی یہ بات بھانپ چکا تھا کہ یہ مشرق وسطیٰ کو خانہ جنگی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں سو اس نے عربوں کو دوبارہ سے متحد کرنے کی کوشش کے لیے اسرائیل پر میزائل داغنا شروع کر دیے لیکن اسرائیل نے ایک بھی میزائل کا جواب نہیں دیا تھا کیونکہ وہ خود لڑنے کے بجائے مشرق وسطیٰ کو آپسی خانہ جنگی کے ذریعے کمزور کرنا چاہتا تھا اور اگر وہ صدام کو جواب دے دیتا تو یہ ممکن تھا کہ کئی عرب دوبارہ متحد نہ ہو جائیں۔
صدام کی موت
اس جنگ کے بعد صدام اچھی طریقہ سے اسرائیل اور مغرب کی یہ سازش سمجھ چکا تھا اور چونکہ وہ طاقت میں تھا تو خطرناک بھی ثابت ہو سکتا تھا۔ اس لیے امریکہ نے اسکو راستے سے ہٹانے کے لیے اس پر کیمیائی ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر عراق پر دوبارہ حملہ کر دیا اور اس کو تختہ دار تک پہنچا دیا یعنی کہ پھانسی کر دیا۔ صدام عراق کے خلاف امریک کا کیس اتنا کمزور تھا کہ اکثر یوروپی ممالک نے بھی اسکی مدد نہیں کی لیکن اس موقع پر ایران نے امریکہ کی خوب مدد کی اور یاد رہے کہ ایران کو آج ہوبہو انہیں حالات کا خود سامنا ہے جو اس وقت صدام کے عراق کو تھا۔
عرب بہار
صدام کو راستے سے ہٹانے کے بعد عراق میں بھی شیعہ قسم کی حکومت ہی آئی اور اب یہ بھی زیادہ تر ایران کے زیراثر ہی تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد عرب ممالک میں بغاوتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو تیونس سے لیکر شام تک پہنچ جاتا ہے اور اسکو عرب بہار یا The Arab Spring کہا جاتا ہے۔ اس عرب بہار کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ میں موجود تمام طاقتور ممالک Proxy وار کے ذریعے سے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ معمر القذافی کا لیبیا ہو یا اسد فیملی کا شام سب میں ہی بغاوت پھوٹ جاتی ہے اور یہ ممالک جو کہ کافی ترقی یافتہ تھے قرون وسطیٰ کے قبائلی جنگوں کی مانند جنگوں کی وجہ سے راکھ کا ڈھیر بن جاتے ہیں۔
مذہب کا غلط استعمال و فرقہ ورانہ گروپس
ان سب جنگوں میں جو سب سے اہم پراکسیز استعمال ہوئی ہے جو ایک دوسرے سے اور مختلف ممالک سے لڑتی رہی ہے وہ مذہبی گروہ تھے۔ چاہے وہ داعش ہو، حزب اللّٰہ ہو، احرار عرب ہو یا النصرہ ہو یہ سب آپس میں بھی لڑے اور مسلمان ممالک سے بھی لڑے اور یوں اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں مشرق وسطٰی تباہ و برباد ہو گیا جو کہ اسرائیل کی دیرینہ خواہش تھی۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اسرائیل کی اس خواہش کو اس کے لیے شیعہ سنی جنگوں نے باقاعدہ اہتمام سے پورا کیا ہے۔ اس میں شیعہ گروہوں کی سرپرستی ایران اور روس نے کی ہے اور سنی گروہوں کی سرپرستی عرب و امریکہ نے کی ہے۔ یاد رہے اس میں سارے کے سارے مذہبی گروہ نہیں تھے بلکہ کچھ قومی گروپ جیسے کرد قوم والے بھی تھے لیکن زیادہ نقصان اور لڑائیاں مذہبی گروہوں نے ہی کی ہے۔
خانہ جنگی کا نتیجہ
اب ان ساری خانہ جنگیوں کے بعد حالات یہ ہے کہ مصر میں ایک ڈکٹیٹر السیسی مغربی قوتوں اور اسرائیل کی مدد سے حکومت میں آگیا ہے جو کہ اسرائیل کا ہی پالتو ہے، "قذافی" کا لیبیا تباہ و برباد ہے جو خود کو نہیں سنبھال پا رہا ہے، تو وہ اسرائیل سے کیا لڑے گا، شام کی اپنی حالت دیکھنے والی نہیں ہے اور اس کے اپنے لوگ دربدر ہے اور سب کچھ تباہ ہے سو جولانی بھی اسرائیل سے لڑنے کی اب کوئی طاقت نہیں رکھتا ہے، عراق میں صدام کے بعد اب تک ایسی مضبوط اور پائیدار حکومت آئی ہی نہیں ہے جو کہ آزادانہ فیصلہ تک کر سکیں، خلیج و اردن ویسے ہی امریکہ کی گود میں ہے، لبنان میں تو مسلمانوں کی واضح اکثریت تک بھی نہیں ہے اور ایرانی حکومت جو کہ پچھلے چالیس سال سے اپنے ملک کے باہر لڑ رہی تھی، اسکا حال یہ ہے کہ اس کا دارالحکومت تک اسرائیل و امریکہ کے جاسوسوں سے بھرا پڑا ہے۔ مختصر یہ کہ مشرق وسطیٰ میں کوئی ایک ملک اب ایسا نہیں بچا جو اسرائیل کو آنکھیں دکھا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے سارے ممالک میں اب ایسی حکومتیں ہے جو کہ براہ راست اسرائیل و امریکہ کی پٹھو ہے یا پھر انکا حال اتنا بدحال ہے کہ انکو اپنے ملک کو اٹھانے میں بھی اب سالوں لگیں گے یعنی کہ اسرائیل کا وہ دیرینہ خواب پورا ہو گیا جو اس نے یوم کپور جنگ کے بعد دیکھا تھا یعنی مشرق وسطیٰ کے ممالک نے اپنی طاقت کو آپسی خانہ جنگی میں ضائع کر دیا ہے اور اب کوئی اس کو آنکھیں نہیں دکھا سکتا ہے۔
افسوسناک بات
افسوس کہ اسرائیل کے اس خواب کی تکمیل میں ایران اور عربوں کیوجہ سے افغانیوں نے بھی "'فاطمیون و داعش" کے واسطہ اپنا حصہ پہنچایا ہے اور پاکستانی بھی "ذینبیون" اور دیگر تنظیموں کے زیر اثر اپنا حصہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ڈال چکے ہیں اور امت مسلمہ کی ان "قربانیوں" کا ثمر اسرائیل اب انجوائے کر رہا ہے۔ یاد رہے عربوں اور ایرانی دونوں نے اس جنگ میں مذہب کا بےدریغ استعمال کیا سو کلین چٹ دونوں کو نہیں مل سکتی ہے گرچہ یہ دونوں ہی اثر و رسوخ کے لیے لڑ رہے تھے نہ کہ دین و ملت کے لیے ان کی لڑائی تھی۔
ایران کی حالت
مشرق وسطیٰ کو "ہیجڑا" و قبرستان بنانے کے بعد اب اس پر اسرائیل کو اطمینان ہے اور اسے مزید شیعہ - سنی لڑائی کی تاحال ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ اب ایران میں بھی شیعہ "بنیاد پرست حکومت" کو برداشت نہیں کرنا چاہتا ہے کیونکہ ان سے جتنا فایدہ لیا جانا تھا، وہ لیا جا چکا ہے سو وہ اب ایران پر حملہ آور ہے۔ ایران پچھلے 40 سالوں سے باہر اتنا مصروف تھا کہ اندر اس کا دھیان ہی نہیں گیا سو اس کا خمیازہ اب وہ بھگت رہا ہے۔ آجکل ایران اسی حالت میں ہے جن حالات میں کبھی "صدام حسین" تھا مطلب یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کے خلاف باقی "مسلم" ممالک کو کھڑا کر دیں لیکن وہ کس کو کھڑا کریگا جب سب کو وہ خود ہی تباہ کر چکا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ انقلاب ایران اسرائیل کو فایدہ پہنچانے کے وقت پر ہوا، ایران لگاتار ہی اسرائیل کو فایدہ پہنچاتا رہا اور اب جب اس سے سارا فایدہ لے لیا گیا ہے تو ایران کو دوبارہ انقلاب سے پہلے والے پہلوی دور میں پہنچانے کی کوشش ہو رہی ہے کیونکہ اب شیعہ بنیاد پرستی کی ضرورت نہیں رہی ہے یا اس لیول پر نہیں رہی ہے۔
کیا انقلاب ایران سازش تھی؟
کیا انقلاب ایران اسرائیل اور مغرب کی ایک سازش تھی؟ یا اس کو محض اسرائیل و مغرب نے استعمال کیا ہے؟؟؟ اسکے بارے میں لوگوں کی مختلف رائے ہیں۔ کچھ افراد کے مطابق یہ سب Staged تھا یعنی سازش تھی اور کچھ کے مطابق یہ سازش نہیں تھی لیکن محض اس کو استعمال کیا گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر موخرلذکر موقف کو زیادہ درست سمجھتا ہوں یعنی یہ سازش نہیں تھی بلکہ ایک "Genuine انقلاب" تھا لیکن اس کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔
ایک سوراخ سے دو بار ڈسوانا
دیکھیں اب تک جو ہوا سو ہوا لیکن نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے کہ "بندہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا ہے"۔ اب حالات ایسے بن چکے ہیں کہ ایران کم و بیش صدام والی حالت پر آ گیا ہے یعنی اسرائیل اور امریکہ کا براہ راست نشانہ بن چکا ہے اور وہ ایران میں کم سے کم بھی رجیم چینج کرنے کی کوشش تو ضرور کریں گے۔ ایسی حالت میں جب مشرق وسطیٰ کے اندر اسرائیل کا ایک بھی مضبوط مخالف نہیں بچا ہے، اگر ایران بھی ان کے زیر اثر چلا جاتا ہے تو یہ "امت مسلمہ" کا بہت سخت نقصان ہوگا کیونکہ ناجائز ریاست اسرائیل اس خطہ کا اکیلا بادشاہ بن جائے گا۔
پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ
دوسری اہم بات یہ کہ اگر ایران میں امریکہ و اسرائیل نواز حکومت آتی ہے تو ایران کے ہمسایہ ہم "پاکستانی" ہے اور ہم مسلمانوں میں واحد ایٹمی طاقت ہے سو ظاہر ہے کہ پھر ان کا اگلا مرحلہ براہِ راست "ہم" ہونگے۔ ایک طرف بھارت ہمارا دشمن ہے، دوسری طرف افغانستان سے ہمارے حالات کشیدہ ہے، ایسے میں ایران میں بھی اگر اسرائیل نواز حکومت آتی ہے تو بس پھر ہمارا اللّٰہ ہی حافظ ہے۔
ایران کا مکمل سپورٹ
اس لیے مسلمان امت کو دوبارہ پہلے والی غلطی نہیں کرنی چاہیے جب صدام جیسے مضبوط آواز کو عربوں اور مسلمان ملت نے کفار کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا تھا بلکہ امت مسلمہ اور ہمارے پاکستان کے وسیع تر مفادات میں ہمیں اس ایران اسرائیل جنگ میں ایران کو "کھلم کھلا" سپورٹ کرنا چاہیے کیونکہ اس جنگ کی بعد ایران کو بھی اندازہ ہو جائے گا کہ حالات کتنے سنگین ہے اور اگر ایران کا یہ "رجیم" بچتا ہے تو ان شاءاللہ امت مسلمہ مستقبل میں کسی بلاک کی طرف جا سکتی ہے لیکن اگر نہیں بچتا ہے تو اسرائیل مشرق وسطیٰ کا اکیلا بادشاہ بن جائے گا اور ہمیں اپنی جان کے لالے پڑے ہونگے سو فل سپورٹ ٹو ایران
نوٹ
جیوپولیٹیکل مدعے کافی پیچیدہ ہوتے ہیں اور ایک ہی چیز کے پیچھے درجنوں مختلف وجوہات ہوتی ہے جبکہ میں نے اس کو یہاں کافی Linear بیان کیا ہے سو یہ تجزیہ ناکافی ہے، مکمل نہیں تاہم اسکے اندر میں نے ایک رخ ضرور دکھایا ہے جو رخ ہم عوام کے لیے سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم کسی پراکسی جنگ کا حصہ نہ بنیں اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے سے بچ سکیں۔ اس تحریر میں باقی کا Nuance شامل نہیں اور ان کے لئے شاید کتاب بھی کم پڑ جائیں۔
باقی اس کو ہرگز فرقہ ورانہ تناظر میں نہ دیکھیں۔ ایران کا ذکر محض اسی لیے زیادہ کیا ہے کیونکہ تاحال وہ سرخیوں میں ہے حالانکہ اس دوران سعودیوں و باقی عربوں کا کردار ایران سے بھی زیادہ برا رہا ہے۔
عبید
👍
2