بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
بــــےمـــثال تحــاریــر✍️📚
June 19, 2025 at 05:18 PM
Ausaf Arham ✍🏻 https://whatsapp.com/channel/0029Vb0FeaJJJhzP3joTGh0s ✍🏻 مکمل تعارف: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نام: عمر بن خطاب بن نفیل القرشی العدوی کنیت: ابو حفص لقب: الفاروق (حق و باطل میں فرق کرنے والا – رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا) پیدائش: 584 عیسوی، مکہ مکرمہ اسلام قبول کرنے کی عمر: تقریباً 26 سال مدت خلافت: 13 ہجری تا 23 ہجری (10 سال) قبولِ اسلام کا واقعہ حضرت عمرؓ نے اسلام دشمنی میں شدت اختیار کی یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا۔ راستے میں کسی نے بتایا کہ ان کی بہن (حضرت فاطمہ بنت خطابؓ) اور بہنوئی (حضرت سعید بن زیدؓ) اسلام لا چکے ہیں۔ وہاں قرآن کی سورہ طہ کی تلاوت سن کر دل پگھل گیا اور فوراً دارِ ارقم جا کر اسلام قبول کر لیا۔ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: > "اللهم أعز الإسلام بأحب هذين الرجلين إليك: بأبي جهل أو بعمر بن الخطاب" "اے اللہ! اسلام کو ان دو میں سے جس سے تو چاہے، عزت دے: ابوجہل یا عمر بن خطاب سے۔" (ترمذی: 3681، مستدرک حاکم: 4409) خدمات و خلافت اسلامی ریاست کا نظم و نسق قائم کیا دیوان نظام (محکماتی نظام) کی بنیاد رکھی . قاضی کا تقرر کیا ہجری تقویم کا آغاز نماز تراویح باجماعت باقاعدہ شروع کرائی مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺ کی توسیع . جزیہ، زکات، بیت المال کی تنظیم فتوحات اسلامیہ حضرت عمرؓ کے دور میں عظیم سلطنتیں اسلامی خلافت میں شامل ہوئیں: شام (رومی سلطنت شکست) فارس/ایران (ساسانی سلطنت کا خاتمہ) مصر (قبطی سلطنت ختم) بیت المقدس کی فتح (حضرت عمرؓ خود وہاں گئے) سیرت و اخلاق بہت سادہ زندگی گزارتے، اکثر پیوند زدہ کپڑے پہنے رات کو گلیوں میں گشت کرتے، رعایا کے حالات خود دیکھتے عدل و انصاف میں بے مثال: خلیفہ ہونے کے باوجود خود پر بھی حد قائم کرنے کو تیار رہتے احادیث میں حضرت عمرؓ کے فضائل . الہام یافتہ شخصیت > "اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔" (ترمذی: 3686) . شیطان بھی عمرؓ سے ڈرتا تھا > "اے عمر! شیطان تمہیں دیکھ کر وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے جس پر تم چل رہے ہو۔" (بخاری: 3683، مسلم: 2396) جنت کی بشارت > "عمر جنت میں جائیں گے۔" (بخاری: 3679) . حق ان کی زبان پر جاری ہوتا تھا > "اللہ نے عمر کی زبان پر حق کو جاری کر دیا ہے۔" (مسند احمد: 238) شہادت حضرت عمرؓ پر 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو نمازِ فجر کے دوران فیروز نامی مجوسی غلام (ابو لؤلؤ) نے حملہ کیا۔ 3 دن بعد یکم محرم 24 ہجری کو شہید ہوئے۔ مدینہ منورہ میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کے پہلو میں دفن ہیں۔ . اعلانِ عام کے ساتھ ہجرت اکثر مسلمان مکہ سے چھپ کر مدینہ ہجرت کرتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے تلوار لے کر خانہ کعبہ میں اعلان کیا: > "جو چاہتا ہے کہ اُس کی بیوی بیوہ ہو جائے یا اس کے بچے یتیم ہوں، وہ میرے پیچھے مدینہ آ جائے۔" پھر کھلے عام ہجرت کی — یہ واقعہ ان کی شجاعت کی نشانی ہے۔ . خلافت و عدل کا آغاز حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد خلیفہ منتخب ہوئے۔ ان کے دور میں خلافت کی بنیاد پر عدل کا مثالی نظام قائم کیا گیا۔ عدلیہ، افسران کی نگرانی، عوامی فلاح، مالی شفافیت جیسی اصلاحات کیں۔ فتح بیت المقدس 16 ہجری میں حضرت عمرؓ کے دور میں بیت المقدس فتح ہوا۔ مسیحی حکمران نے کنجی دینے کی شرط رکھی کہ "خلیفہ خود آئیں"۔ حضرت عمرؓ نے ایک غلام اور ایک اونٹ کے ساتھ سادہ لباس میں سفر کیا۔ ایک واقعے کے مطابق جب داخل ہوئے تو اپنے پیوند زدہ کپڑے دھو رہے تھے۔ بیت المقدس میں داخل ہو کر صفائی کی، اور عبادت کی جگہ کو پاک کیا۔ حضرت عمرؓ نے گوشت، گھی، دودھ، شہد چھوڑ دیا، اور صرف خشک روٹی کھاتے۔ دن رات محنت کی، رعایا کی خبر لی، مدینہ کے باہر خیمے لگا کر کھانے تقسیم کیے۔ . رات کو گشت (تفقد الرعیۃ) رات کو بھیس بدل کر گلیوں میں نکلتے، عوام کے حالات دیکھتے۔ ایک بار ایک عورت اپنے بچوں کو پانی میں پتھر پکا رہی تھی تاکہ بچے سونے تک صبر کریں۔ عمرؓ فوراً بیت المال سے اناج اٹھا کر خود عورت کے گھر پہنچے اور خود کھانا پکا کر دیا۔ . ایک یہودی کا کیس: عدل کی عظیم مثال ایک یہودی نے حضرت عمرؓ کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ قاضی شریح کے سامنے حضرت عمرؓ پیش ہوئے، قاضی نے کہا: "یا امیر المومنین"۔ حضرت عمرؓ ناراض ہو گئے: "جب ہم عدالت میں ہوں تو سب برابر ہیں!" (الکامل فی التاریخ، ابن اثیر) حضرت عمرؓ کا وصیت نامہ شہادت سے پہلے 6 رکنی شوریٰ بنائی: عثمان، علی، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص وصیت کی کہ: > "جو خلیفہ بنے وہ عدل کرے، ظالم نہ ہو، امت کے مال کو اپنی دولت نہ بنائے۔" شہادت کا واقعہ مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز نے 26 ذوالحجہ 23 ہجری کو فجر کی نماز میں خنجر مارا۔ تین دن تک زندہ رہے، پھر شہید ہوئے۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے پہلو میں دفن ہوئے۔ قول مشہور: "دریا کے کنارے کتا بھی بھوکا مرے" > "اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرے تو عمر سے سوال ہوگا!" (احیاء العلوم، جلد 2، کتاب آداب السلطنت) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو لؤلؤ فیروز نامی ایک مجوسی غلام نے نمازِ فجر کے دوران مسجد نبوی ﷺ میں حملہ کر کے زخمی کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو کئی روز زخموں کی حالت میں رکھا گیا۔ تین دن بعد، یعنی یکم محرم الحرام کو آپ کی وفات ہوئی۔ حوالہ جات: تاریخ الخلفاء از امام جلال الدین سیوطی البدایہ والنہایہ از امام ابن کثیر سیر اعلام النبلاء از امام ذہبی تحریر: صاحبزادہ سید حمزہ احمد شاہ بخاری آستانہ عالیہ جلال پور شریف

Comments