
سبق آموز واقعات وحکایات
June 21, 2025 at 11:44 AM
*بسم اللہ الرحمٰن الرحیم*
> *ایک لاش جو مسجد کے حجرے سے ملی – مگر مرنے والا صرف ایک انسان نہ تھا!*
*تحریر: ندیم اشرف، طالب علمِ دار العلوم دیوبند*
*یقیناً دنیا کی ہر وہ شے جو حیات سے جڑی ہو، ایک دن فنا کا ذائقہ چکھتی ہے، مگر کچھ موتیں محض زندگی کا اختتام نہیں ہوتیں، بلکہ وہ ایک تازیانہ ہوتی ہیں ایک کرب، ایک فریاد، ایک سوال، جو زبان سے نہیں نکلتا، مگر آنکھوں کو زخمی کر دیتا ہے، اور دل کو اندر سے اس طرح چیر دیتا ہے جیسے کوئی چپ چاپ، لیکن بے رحمانہ، تیز دھار خنجر، سینے کو چیر کر رکھ دے۔* *چائیباسہ کی مدینہ مسجد کے اندر، امام شاہباز انصاریؒ کی رسّی سے جھولتی لاش بھی ایسا ہی ایک زخم تھی جو صرف ان کے گلے میں رسّی کی شکل میں نہیں، بلکہ پورے سماج کی گردن پر لعنت کی صورت میں لٹکی ہوئی تھی۔*
*مسجد…! اللہ کا گھر، جس کے در و دیوار پر تقدیس و طہارت کے فرشتے پہرہ دیتے ہیں، جہاں مؤذن کی صدا زمین و آسمان کے درمیان اللہ کی کبریائی کا اعلان کرتی ہے، جہاں قرآن کی تلاوت ہر صبح سورج کی پہلی کرن کے ساتھ نئی روشنی بن کر گونجتی ہے اسی مسجد کے حجرے میں جب ایک پیش امام کی لاش رسّی سے جھولتی پائی گئی، تو یہ محض ایک فرد کی موت نہ تھی، یہ پورے معاشرے کی بے حسی کا جنازہ تھا، جو ہمارے سامنے اسی اللہ کے گھر سے اٹھا، جہاں سے ہمیں روشنی، ہدایت اور انسانیت سیکھنی تھی۔*
*کاش کہ یہ واقعہ صرف اتنا ہوتا کہ ایک تنگ دست، پریشان حال، مالی مشکلات میں گھرا ہوا شخص موت کی طرف مائل ہوا، لیکن نہیں! یہاں بات اس سے کہیں زیادہ وسیع، مہیب اور خجل کن ہے۔ یہاں ایک ایسا شخص اپنی جان سے گیا، جو دوسروں کو دین کی راہ دکھاتا تھا، جو مسجد کا امین تھا، جو بچوں کو قرآن پڑھاتا، بڑوں کو نماز پڑھاتا، جنازے پڑھاتا، خطبے دیتا، نکاح پڑھاتا، اور ہر دردناک گھڑی میں ملت کے ساتھ کھڑا ہوتا لیکن جب اس کے اپنے سینے میں درد نے پناہ مانگی، جب اس کی پیٹھ قرض کے کوڑے سے لہولہان ہوئی، جب اس کے دل نے فاقوں کی مار سہتے سہتے تھک ہار کر آخری ہچکی لی، تو وہاں نہ کوئی نمازی تھا، نہ کوئی متولی، نہ کوئی مخلص، نہ کوئی دوست بس ایک رسّی تھی، اور ایک تنہا امام، جو مسجد کے کمرے میں اپنے آپ کو سونپ چکا تھا، اس اندھیری موت کے حوالے، جسے خود اس نے ہزار بار حرام کہا ہوگا۔*
*ہائے افسوس! وہ جو خودکشی کو حرام کہتا رہا، وہ جو کہتا تھا کہ اللہ پر توکل کرو، وہ جو کہتا تھا کہ زندگی امانت ہے، اس نے آخر یہ قدم کیوں اٹھایا؟ اس سوال کا جواب صرف اس کے آخری کلمات میں نہیں، بلکہ ہمارے اجتماعی کردار میں چھپا ہوا ہے۔ وہ لکھتا ہے: "میں نے سوچ سمجھ کر یہ قدم اٹھایا ہے، میری بیوی نے مجھے نہیں چھوڑا، میرے بچے میرے ساتھ ہیں، لیکن میں ان کا خرچ نہیں اٹھا سکتا، اس لیے میں جا رہا ہوں..." اور میرے اللہ! یہ کیسا المیہ ہے کہ وہ شخص جس کے پیچھے پوری قوم صف باندھ کر نماز پڑھتی تھی، وہ اپنے بچوں کی فیس، دو وقت کی روٹی، اور بیوی کے علاج کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ کیسا نظام ہے ہمارا؟ کیسا معاشرہ ہے یہ؟ کیسی امت ہے یہ؟ جس کے امام کی تنخواہ مزدوروں سے کم، وقار خاک میں، اور خدمت کو صرف ثواب کا ذریعہ سمجھ کر ہم نے اس کی دنیا برباد کر دی؟*
*ہمارے واعظین جمعہ کے منبر سے بارہا یہ حدیث سناتے رہے: "خودکشی کرنے والا جہنم میں جائے گا"، اور ہم سب نے مل کر اپنے اپنے گریبان سے جھانک کر اس بات پر "آمین" بھی کہی، لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے کی رسی ہم سب نے مل کر بَٹی ہوتی ہے کبھی مسجد کمیٹی کی کنجوسی نے، کبھی اہلِ محلہ کی بے حسی نے، کبھی انتظامیہ کی لاپرواہی نے، اور کبھی ہمارے ان رویوں نے، جن سے ہم نے امام کو صرف نماز پڑھانے والا سمجھا، مگر زندہ انسان نہ مانا۔*
*آج اگر شاہباز انصاریؒ کی لاش مسجد سے نکلی ہے، تو وہ لاش اس معاشی ناانصافی کی بھی ہے، جو دینی خدام کے حصے میں برسوں سے آ رہی ہے۔ وہ لاش ہمارے اس عقیدے کی بھی ہے جو زبان سے تو امام کو روحانی باپ کہتا ہے، مگر عمل سے اسے وقت پر تنخواہ دینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ وہ لاش ہماری اجتماعی ندامت کا اعلان ہے لیکن کیا یہ ندامت عارضی ہے؟ یا ہم واقعی بدلنے کو تیار ہیں؟*
*ذرا ایک لمحے کو تصور کیجیے اس کی بیوی، جو آج بھی کہہ رہی ہے: "میں نے کبھی اسے چھوڑا نہیں، وہ تو میرے بچوں کے لیے جیتا تھا…"؛ اس کے بچے، جو باپ کی لٹکی ہوئی لاش دیکھ کر بھی اس کے کفن کا خرچ مانگنے کے قابل نہ تھے؛ اور وہ مسجد، جو روز نماز سے پہلے صفیں درست کرنے کا اعلان کرتی ہے، مگر خود اپنے امام کی زندگی کے صفحے کو بکھرنے سے نہ روک سکی۔ معذرت کے ساتھ کیا ایسی مسجدوں کو اب بھی ہم فخر سے "اللہ کا گھر" کہیں گے، جبکہ ان کے در و دیوار خودکشی کی بدبو سے آلودہ ہو چکے ہیں؟*
*اے امتِ مسلمہ! اے ملت کے صاحب فہم و فراست ذی روح انسانو! اٹھو، جاگو، اور کچھ ایسا کرو کہ پھر کسی مسجد میں امام کی لاش نہ جھولے، پھر کسی مؤذن کو علاج نہ ملنے کے باعث قبر کی آغوش میں نہ جانا پڑے، پھر کوئی عالمِ دین اپنی عزتِ نفس کی حفاظت میں رسّی سے جھولنے پر مجبور نہ ہو، اور پھر کوئی شاگرد یہ نہ کہے کہ میرے استاد کا جنازہ میں نے پڑھایا، مگر اس کے بچوں کا خرچ اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔*
*یہ مضمون محض اشکوں کا تقاضا نہیں کرتا، یہ قلوب کی بیداری، مسجدوں کی تطہیر، اور ملت کے اس اجتماعی احساسِ جرم کا اعلان ہے، جو دیر سے سہی، مگر اب ہر منبر، ہر مدرسہ، ہر مجلس، ہر گھر تک پہنچنا چاہیے۔*
*والسلام*

😢
😭
7