Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
Mufti Touqueer Badar Alqasmi Alazhari
June 18, 2025 at 05:43 AM
_*یہ صرف ایک جنگ نہیں،بلکہ انسانیت کو دھتکارنا بھی ہے*_ _✍️توقیر بدرالقاسمی الازہری_ --- دنیا کی تاریخ میں _قوم یہود_ ایک ایسا کردار ہے، جو نہ صرف الہامی کتب میں مذکور ہے، بلکہ عالمی سیاسی حرکیات میں بھی مسلسل سرگرم رہا ہے۔ قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا تذکرہ بارہا آیا، جہاں ان کی ذہنی ساخت، اللہ کے انعامات کی ناشکری، اور اپنی قوم کو ’’منتخب‘‘ سمجھنے کے خبط پر بارہا روشنی ڈالی گئی: "وَقَالُوا نَحْنُ أَبْنَاءُ اللّٰہِ وَأَحِبَّاؤُہُ" "اور وہ (یہود)کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں" (المائدہ: 18) چناچہ دنیا جانتی ہے کہ یہود کی نفسیات میں برتری کا زعم، دوسروں کو کمتر سمجھنے کی جبلت، اور "غیر" کو بے وقعت جاننے کا جذبہ ہمیشہ غالب رہا ہے۔ یہی وہ ذہنیت ہے جس نے انہیں انبیاء کو قتل کرنے، توریت میں تحریف کرنے، اور ہر پیغمبر کے راستے میں رکاوٹ بننے پر آمادہ کیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب یہود نے بیت المقدس میں انبیاء کے پیغام کو ٹھکرایا، تو وہ نہ صرف سیاسی طور پر محکوم ہوئے، بلکہ ان پر بار بار عذابِ الٰہی نازل ہوا۔ قرآن میں ان پر لگائی گئی ذلت اور مسکنت کی مہر دراصل ان کی اندرونی اخلاقی کمزوریوں اور نسلی تکبر کا ہی مظہر ہے۔ "وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ" (البقرہ: 61)ان یہودیوں پر ذلت و بیچارگی کی مہر لگادی گئی ہے۔ ان کا یہ مزاج کہ ہمیشہ خود کو خدا کا منظور نظر سمجھنا اور باقی انسانوں کو محض خدمت گزار یا دشمن، ان کے آج کے عالمی رویے میں بھی خوب خوب جھلکتا ہے۔ آج جب ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی نے عسکری شکل اختیار کی ہے، اور فلسطین، لبنان، شام کے پس منظر میں ایک وسیع جنگی منظر بنتا جا رہا ہے، تو ایک نئی خبر نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا: "اسرائیل نے غیر ملکی(خواہ وہ ہندوستانی ہو )مزدوروں اور تارکین وطن کو جنگی حالات میں پناہ گاہوں (بنکر) میں اپنے ساتھ داخل ہونے سے روک دیا!" شاید یہ حرکات بھی بیجا حمایت کنندگان بھکتوں کی آنکھیں نہ کھول سکیں! یہ محض ایک وقتی فیصلہ نہیں بلکہ نسل پرستانہ ذہنیت کی وہ پرچھائی ہے،جو صدیوں سے یہود کے اندر رچی بسی ہے۔ ان کے بنکر — جو بظاہر انسانی جان بچانے کے لیے ہوتے ہیں — وہاں بھی نسلی چھانٹی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ دراصل یہود کے نزدیک "غیر یہودی" محض ایک عدد ہے، جس کی جان کی کوئی وقعت نہیں،چاہے وہ اسرائیل ہی میں مقیم کیوں نا ہو۔ مذکورہ خبر سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ جب ریاستی سطح پر پناہ گاہوں کے دروازے نسل، قوم، اور مذہب کی بنیاد پر بند کر دیے جائیں، تو یہ صرف ایک انسان دوست نظام کی ناکامی نہیں بلکہ انسانی ضمیر کا جنازہ بھی ہے۔ مغربی دنیا جو ہر لمحہ انسانی حقوق کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے، وہ آج خاموش ہے، کیونکہ یہ نسلی تفریق کسی مسلم ملک میں نہیں بلکہ اسرائیل میں ہو رہی ہے — اس "منتخب قوم" کے ہاتھوں، جسے وہ اپنے دفاع کی علامت سمجھتے ہیں۔ یہودی نفسیات کا یہ پہلو — جو الہامی کتب، تاریخ، اور موجودہ سیاست تینوں میں نمایاں ہے — ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب کسی قوم کو اپنے "منتخب شدہ" ہونے کا خبط لاحق ہو جائے، اور وہ دنیا کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھے، تو وہاں انسانیت دم توڑتی ہے، اور ظلم کا نظام ہر سو مسلط ہو جاتا ہے۔ بہرحال ایران اسرائیل جنگ بھلے ایک سیاسی مظہر ہے، مگر اس میں چھپی ہوئی تہذیبی، نسلی اور دینی تفریق کی بو، آنے والے عالمی منظرنامے کے لیے ایک خطرناک الارم ہے۔ جس کی بنیاد پر ہر ایک صاحب شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ "یہ صرف جنگ نہیں، انسانیت کو پناہ گاہوں سے دھتکار دیے جانے کا آغاز ہے" ======= ڈایریکٹر المرکز العلمی للافتاء والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار انڈیا [email protected] +918789554895

Comments