Muhammad Mazhar Hussain Official
Muhammad Mazhar Hussain Official
June 18, 2025 at 01:12 PM
*نیک غلام* ایک شخص کہتاہے کہ: میں غلام خریدنے کے لیے بازارِ غلاماں گیا تاکہ اپنے لیے ایک ایسا غلام خریدوں جو میری خدمت کرے۔ وہاں ایک شخص کو دیکھا جو ایک غلام بیچ رہا تھا اور آواز لگا رہا تھا: ‘کون خریدے گا یہ غلام اس کے عیب کے ساتھ؟’ میں نے اس سے پوچھا: ‘اے میرے آقا! اس غلام میں کیا عیب ہے؟’ اس نے کہا: ‘غلام سے خود پوچھ لو’ میں نے غلام سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: ‘میرے عیب بہت زیادہ ہیں، مجھے معلوم نہیں لوگوں نے مجھے کس عیب کی وجہ سے مشہور کر رکھا ہے۔’ میں پھر مالک کے پاس آیا اور کہا: ‘اللہ تم پر رحم کرے، ذرا بتاؤ تو سہی اس غلام کا عیب کیا ہے؟’ مالک نے کہا: ‘یہ عقل میں کچھ کمزور ہے، اور کبھی کبھار اسے مرگی کا دورہ پڑتا ہے۔’ میں نے غلام سے پوچھا: ‘کیا یہ دورہ تمہیں روز آتا ہے یا ہر ہفتے؟’ غلام نے “انا للہ و انا الیہ راجعون” پڑھا اور رونے لگا، پھر کہا اے میرے آقا! جب محبت کی بیماری دل پر قابض ہو جائے تو وہ پورے بدن میں سرایت کر جاتی ہے، اور جب وہ تمام جسم پر چھا جائے تو محبوب کی یاد سے عقل حیران ہو جاتی ہے، دل استغراق میں ڈوب جاتا ہے، اور جسم پر سکون طاری ہو جاتا ہے۔ یہ حالت دیکھنے والوں کو پاگل پن یا جنون محسوس ہوتی ہے۔ تاجر کہتا ہے: میں سمجھ گیا کہ یہ غلام اللہ کے نیک بندوں میں سے ہے۔ میں نے اس کے مالک سے کہا: ‘اس غلام کی قیمت کتنی ہے؟’ اس نے کہا:سو درہم۔ میں نے کہا: میں تمہیں سو کے ساتھ بیس درہم اور دوں گا۔ پھر میں اسے اپنے گھر لے آیا۔ وہ دن کو روزے رکھتا، رات کو قیام کرتا، اور ایک لمحے کے لیے بھی اللہ کی عبادت اور قرآن کی تلاوت سے غافل نہ ہوتا۔ ایک رات میں اس کے کمرے میں گیا تو دیکھا وہ نماز پڑھ رہا ہے اور رو رہا ہے۔ سجدے میں تھا اور اپنے رب سے مناجات کر رہا تھا۔ میں نے اس کی دعا کے کچھ الفاظ یاد کر لیے: “اے میرے رب! بادشاہوں نے اپنے دروازے بند کر لیے، اور تیرا دروازہ سائلوں کے لیے کھلا ہے۔ اے اللہ! ستارے غروب ہو چکے، آنکھیں سو چکی ہیں، اور تو زندہ و قائم ہے، تجھے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ اے اللہ! بستریں بچھ گئیں، ہر محبوب اپنے محبوب کے ساتھ ہے، اور تو ہے مجاہدوں کا محبوب، تنہا لوگوں کا انیس۔ اے اللہ! اگر تو نے مجھے اپنے در سے نکال دیا تو پھر کس کے در پر جاؤں؟ اگر تو نے مجھے اپنے دامن سے کاٹ دیا تو میں کس کی پناہ لوں؟ اے اللہ! اگر تو نے مجھے عذاب دیا تو میں اس کے لائق ہوں، اور اگر تو نے مجھے معاف کر دیا تو تو کریم ہے۔ اے میرے آقا! تیرے ہی لیے عارفین نے اخلاص اختیار کیا، تیرے فضل سے صالحین نجات پائے، اور تیری رحمت سے گناہگار پلٹے۔ اے معاف کرنے والے! مجھے اپنی معافی کی ٹھنڈک چکھا، اور اپنی بخشش کی مٹھاس عطا کر۔ اگر میں اس کا اہل نہیں، تو تو تو اہل ہے۔ تو اہلِ تقویٰ ہے اور اہلِ مغفرت۔ جب صبح ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا: “اے بھائی! رات کیسی گزری؟” اس نے کہا: جو جہنم اور اللہ کے سامنے پیشی سے ڈرتا ہو وہ کیسے سو سکتا ہے؟ پھر وہ رونے لگا۔ میں نے کہا: جاؤ! تم اللہ کے لیے آزاد ہو۔ لیکن وہ خوش نہ ہوا، اور کہا: “اے آقا! مجھے دو اجر مل رہے تھے: ایک غلامی کا اور دوسرا خدمت کا، اب تم نے مجھے ایک اجر سے محروم کر دیا۔ اللہ تمہیں جہنم کی گرمی سے آزاد کرے!” میں نے اسے کچھ خرچ دینا چاہا، لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا، اور کہا: “جس نے میرے رزق کی ضمانت لی ہے وہ زندہ ہے، وہ کبھی نہیں مرے گا۔” پھر وہ مجھ سے جدا ہو گیا۔ تاجر کہتا ہے: میں جب بھی اس کے الفاظ یاد کرتا ہوں، میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ *📌پیغام حکایت:* یہ کہانی محبتِ الٰہی، توکل، عبادت اور بندگی کی حقیقی روح کو ظاہر کرتی ہے۔ اس میں یہ درس ہے کہ حقیقی آزادی اللہ کی بندگی میں ہے، اور جو لوگ اللہ سے سچی محبت رکھتے ہیں، وہ دنیاوی غلامی یا آزادی سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ كُلِّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنَا إِلَى حُبِّكَ.آمین! *✍🏻:مظہر قادری* اس تحریر کو شیئر کریں اور ہمارے چینل کو فالو کریں۔
❤️ 👍 😢 🤲 😭 🇳🇵 💚 😂 197

Comments