
Muhammad Mazhar Hussain Official
28.2K subscribers
Verified ChannelAbout Muhammad Mazhar Hussain Official
*It’s Mazhar Qadri Channel* Allah Prophet Quran Hadith Muslim Dawateislami Global Latest Updates Official Madani Channel Live TV Aala Hazrat Imam Ahmad Raza Khan Maulana ilyas Qadri Ubaid Raza Haji Imran Abdul Habib Shahid Soban Fuzail Attari Science Technology Tech Online Darul Ifta AhleSumnat Mufti Qasim Ali Asghar Shafiq Hassan Kafeel Irfan USA UK UAE English Australia Africa Maktaba Tul Madinah Baghdad Raza Asad Naat Production Studio Islamic Status Reels Short Clips Dar-ul-Madinah International School System FGRF -Faizan Global Relief Alkhidmat Foundation Rehabilitation Center Muhammad Ajmal Raza Qadri Zehni Azmaish Quiz 6 Questions And Answers Learn With Knowledge Research Writer Jamat Deen Sad Emotional Story Stories Poetry Stickers Links Vlog Haji Umrah Social Media Internet 4G 5G Google ChatGPT DeepSeek Facebook WhatsApp Business Instagram Telegram Twitter X YouTube Tik Tok Reddit Snapchat Trending Digital Services Blood Donation PDF Book Audio Video Bayan Hospital Welfare Academy Coaching Course Dars Nizami Magazine Daily Weekly Monthly Education Math Urdu Library Tabligh Youth IT Leadership Tariq Jameel Mufti Tariq Masood Dr Israr Ahmad Culture Spirituality Motivational Birthday Milad un Nabi Rabi ul Awwal Ramadan Best Food Jummah Mubarak Jamia Islamia University College Nadra Helpline Police Karachi Sindh Islamabad Quetta Lahore Multan Punjab Khyber Kashmir Balochistan Ghulam Rasool Cartoon Funny Comedy Kids Land Love Quotes Poems EA Sports Geo GNN ARY Today News 18 Job TRT BBC India Bangladesh Pakistan Chaina Mosque Masjid Navy 14 August History Sufi Health Zong Ufone Jazz Telenor Onic PTCL Fiber Free Internet PTA iPhone Samsung Shipping Traveling PSL IPL Cricket Babar Azam Zeeshan Football Club Student Network Memes Pic Picture Photo Gallery Arabic Qurbani Eid ul Adha Azha et i j u e Eld-e-Qurban Bakra Eid Eid-ul-Fitr Eid-e-Saeed Celebration Save Family Community Web Series Namaz Salah Prayer Times ENDING قرآن حدیث الأزھر مظہر
Similar Channels
Swipe to see more
Posts

*خوش فہمیاں مت پالیئے* بیل گاڑی گاؤں دیہات کی سواری ہے جو چھوٹا موٹا سامان یہاں سے وہاں لے جانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس میں ایک یا دو بیل تو ہوتے ہی ہیں لیکن ساتھ میں ایک درمیانے سائز کا کتا بھی ہوتا ہے جو بیل گاڑی کے نیچے نیچے بھاگتا ہے۔ اس کی ڈیوٹی یہ ہوتی ہے کہ جہاں بیل گاڑی کھڑی کر دی جائے وہاں سامان اور بیلوں کی حفاظت کرے۔ بیل گاڑی کے نیچے دوڑنے بھاگنے والے اسی قسم کے ایک کتے کو خوش فہمی ہو گئی کہ بیل گاڑی تو میں چلاتا ہوں، اس کا سارا بوجھ میں اٹھاتا ہوں لیکن کسان جہاں رکتا ہے وہاں پہلے بیلوں کو چارا کھلاتا ہے، پھر خود کھانا کھاتا ہے اور آخر میں مجھے دیتا ہے، اسے میری اہمیت کا احساس ہی نہیں، یہ سوچ سوچ کر وہ غم زدہ رہنے لگا، ایک دن اس نے کسان پر اپنی اہمیت جتانے کا پلان بنایا کہ جب وہ تپتی دھوپ میں بیل گاڑی میں کہیں جارہا ہو گا تو میں بیل گاڑی چلانے سے انکار کر دوں گا، تب وہ میری منت سماجت کرے گا، تب اسے پتا چلے گا کہ میں کتنا اہم ہوں ! اگلے ہی دن جب کسان کو دوسرے گاؤں جانا تھا، آدھے راستے میں کتے نے بیل گاڑی کے نیچے دوڑنے کے بجائے آنکھیں بند کیں اور بیٹھ گیا، اب اسے کسان کی منت سماجت کا انتظار تھا لیکن تھوڑی ہی دیر گزری تھی اسے دھوپ کی تپش اور شدید گرمی محسوس ہوئی، آنکھیں کھول کر دیکھا تو بیل گاڑی چلتی ہوئی دور جا چکی تھی، اب اسے احساس ہوا: ”میں اہم تھا : تھا یہ وہم تھا۔ *📌پیغام حکایت:* خوش فہمی میں خوش رہنے والے کئی قسم کے نقصانات اٹھاتے ہیں مثلاً وہ اپنی صلاحیتوں میں بہتری نہیں لا سکتے، عاجزی کر کے ثواب نہیں کما سکتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں ہم سے بہتر کوئی نہیں، یہ خوش فہمی عجب (خوبی کو اپنا کمال سمجھنا)، حُب جاہ (عزت و شہرت کی محبت ) اور تکبر (خود کو اعلیٰ دوسرے کو حقیر جاننا) جیسی باطنی بیماریوں میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اپنی اہمیت کے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہو کر بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ یوں تو فرش کی ہر ٹائل کہے گی کہ میں ہی فرش ہوں حالانکہ اسے نکال کر دوسری ٹائل لگا دی جائے تو فرش کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح دریا کی ہر موج کہے گی میں ہی دریا ہوں حالانکہ ”موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔“ *یاد رکھئے !* ہم سب ایک سسٹم کے تحت اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اس لئے ہم حجز (Part) ہیں گل نہیں ! اگر ہم کام نہیں کریں گے تو کوئی اور کرلے گا، دنیا میں کیسے کیسے اہم لوگ آئے اور چلے گئے لیکن دنیا کے کام نہیں رُکے ان کی جگہ کسی اور نے سنبھال لی، ایک دن ہم بھی مر جائیں گے لیکن کام چلتا رہے گا۔ اس لئے رب کریم ہم سے جتنا کام لے لے یہ اس کا کرم ہے ہمارا اس میں کوئی کمال نہیں ہے۔ خوش فہمی سے جان چھڑانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اپنے ہی شعبے کے کسی اہم فرد سے اپنا تقابل کر کے دیکھیں، آپ کو اپنی حیثیت کا اندازہ ہو جائے گا کیونکہ اونٹ جب تک پہاڑ کے نیچے نہیں آتا وہ اپنے آپ کو سب سے اونچا سمجھتا ہے۔ *✍🏻:مظہر قادری*

*ذھنی سکون* طارق شہر کے کنارے اُداس بیٹھا لہروں کو دیکھ رہا تھا کہ اس کا ایک دوست وہاں سے گزرا۔ طارق پر نظر پڑی تو اس کی خیر خیریت پوچھی، طارق نے اس کے سامنے اپنا دل کھول کر رکھ دیا کہ یار سکون کی تلاش میں ہوں، گھر میں بیوی بچوں کے شور سے تنگ آگیا ہوں، اب تو کان بجنے لگے ہیں، ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا اور نیند بھی پوری نہیں ہوتی، جب دل زیادہ گھبراتا ہے تو نہر کے کنارے پہنچ جاتا ہوں۔ دوست نے مشورہ دیا کہ ساتھ والے گاؤں میں ایک بڑے حکیم صاحب ہیں ان سے ملو، شاید وہ تمہارا مسئلہ حل کر دیں۔ طارق اسی دن حکیم صاحب کے پاس پہنچ گیا اور اپنا مسئلہ بیان کیا، انہوں نے اس کی نبض چیک کی اور کہنے لگے کہ تمہار اعلاج ہو جائے گا مگر میں جو کہوں، وہ کرنا ہو گا ! طارق نے ہامی بھر لی تو بڑے حکیم صاحب نے کہا: گھر میں مر غار کھ لو اور تین دن بعد میرے پاس آنا۔ طارق نے دل میں سوچا کہ پہلے ہی بچوں کے شور سے تنگ ہوں اوپر سے مرغا بھی ! خیر ! وہ گھر جاتے ہوئے کریم بخش سے مرغا خرید کر لے گیا۔ مرغا د یکھ کر بچوں کی تو عید ہو گئی ، وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگے۔ شور وغل بڑھا تو طارق کی بے سکونی بھی بڑھ گئی، تین دن بعد پھر حکیم صاحب کے پاس پہنچ گیا اور سارا حال کہہ سنایا، اب کی بار حکیم صاحب نے کہا: ایک کتا بھی رکھ لو۔ طارق کے جی میں آئی کہ حکیم کو گھری گھری سنادے مگر مُرو تا خاموش رہا اور کتا لے جا کر گھر کے باہر باندھ دیا، بچوں کا شور تھمتا تو کتا بھونکنے لگتا، وہ چپ ہو تا تو مر غا شروع ہو جاتا۔ سخت بے سکونی کے عالم میں تیسری بار حکیم صاحب سے ملا تو حکم ہوا: ایک گدھا بھی رکھ لو۔ مرتا کیا نہ کرتا، اُدھار پر گدھا خریدا اور گھر لے جا کر کھونٹے سے باندھ دیا۔ اب تو محلے والے بھی اس کے گھر پہنچ گئے کہ کچھ ہمارا بھی خیال کرو، تمہارے جانوروں اور بچوں نے مل کر ہمارا سکون برباد کر رکھا ہے۔ طارق نے حکیم صاحب سے فریاد کی تو فرمایا: گدھے کو فوراً بیچ دو، آدھی قیمت پر گدھے سے جان چھڑائی تو اس رات کچھ بہتر نیند دو، آئی، دوسرے دن حکیم صاحب سے ملا تو حکم ہوا: کتے کو بھی چلتا کرو، ایسا ہی کیا تو گھر میں مزید خاموشی ہو گئی، اب کی بار حکیم صاحب سے ملا تو فرمایا کہ مرغا ذبح کر کے کھالو، طارق نے ہمت کر کے کہا: حکیم صاحب ! ٹھیک ہے میں نے آپ کی ہر بات ماننے کا وعدہ کیا تھا مگر مرغا ہمارے گھر کی رونق بن چکا ہے، بچے اس کی وجہ سے خوش ہیں، جب تک وہ بانگ نہ دے لگتا ہی نہیں کہ دن نکل آیا ہے، حکیم صاحب نے اپنا حکم دہرایا تو طارق نے بجھے دل سے اس پر بھی عمل کر ڈالا، پھر سے حکیم صاحب کے پاس پہنچا تو کہنے لگے : بیوی بچوں سے جان چھڑاؤ اور ان کو نانا کے گھر بھیج دو پھر تمہیں مکمل سکون مل جائے گا۔ طارق رونے کے قریب ہو گیا اور کہنے لگا کہ حکیم صاحب بس اتنا کافی ہے، میر اعلاج مکمل ہوا، اب مجھے سکون ہے۔ حکیم صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے : *📌سبق:* میں تمہیں یہی سمجھانا چاہتا تھا کہ سکون ہمارے اندر ہوتا ہے اور ہم اسے باہر تلاش کرتے رہتے ہیں، اگر ہم اپنا ذہن بنالیں تو خلاف مزاج باتوں کو برداشت کرنے کی عادت بھی بن سکتی ہے ورنہ ہم بے سکونی کا شکار رہتے ہیں، جاؤ! اب اپنے گھر میں سکون سے رہو۔ *✍🏻:مظہر قادری*

*عربی ماں کی دلسوز کہانی* عرب نوجوان لکھتے ہیں میں میڈیکل کی تعلیم سے فراغت کے بعد گھر لوٹ چکا تھا،اس رات میں اپنی والدہ اور بیوی کو لیکر ایک اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے چلا گیا. ماں جی بہت خوش تھی کھانے کے دوران ہی کہا اگلی اتوار کو تم دونوں کے لیے اسی ریسٹورنٹ میں میری طرف سے دعوت ہے اور پھر پوچھا یہاں کھانے کا خرچہ کتنا آتا ہے میں نے بتا دیا یہی کوئی 150 ریال. جمعہ کے دن ماں جی کا انتقال ہوگیا، ماں جی ہمیں چھوڑ کر چلی گئی کچھ دن بعد ہم ماں جی کے کمرے میں ان کی یادوں کو سنبھال رہے تھے کہ ماں جی کے تکیے کے نیچے 150 ریال پڑے مل گیے ساتھ ایک پرچی میں لکھا ہوا تھا "محمد(بیٹا) اور بہو کی دعوت کے لیے" *📌پیغامِ حکایت:* ماں کی محبت بےلوث، خالص اور بے حساب ہوتی ہے۔ وہ اپنی اولاد کی خوشی کے لیے چھوٹے چھوٹے خواب سمیٹتی ہے، اپنی خواہشات قربان کرتی ہے اور چپکے چپکے اپنے حصے کا سکون بھی اولاد پر نچھاور کر دیتی ہے۔ یہ چھوٹا سا واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ماں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ ایک دعا ہے، ایک سایہ ہے جو زندگی کے ہر لمحے میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ وہ چلی جائے تو بھی اپنے حصے کا پیار ہمارے لیے چھوڑ جاتی ہے۔ زندگی کی مصروفیات میں ماں کو مت بھولیں۔ اُس کی باتوں، اُس کی خواہشوں، اُس کی قربانیوں کی قدر کریں جب وہ آپ کے ساتھ ہو۔ کیونکہ کل کو شاید صرف یادیں رہ جائیں… *✍🏻:مظہر قادری*

*رُخِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابشیں* كَانَ رَسُولُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ .. ترجمہ: رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تو چہرہ مبارک ایسے دمک اٹھتا گویا چاند کا ٹکڑا ہو ..[صحیح البخاری، رقم الحدیث: 3556] شہنشاہِ بریلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: *رُخ دن ہے یا مہرِ سما، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں* *شب زلف یا مشکِ خَتا، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں*


راستے میں آتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک رکشے والا دوسرے رکشے والے سے لڑ رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر دو موٹر سائیکل سوار بھی آپس میں جھگڑ رہے تھے اور لوگ بیچ بچاؤ کر رہے تھے۔ وہ لوگ سمجھا رہے تھے کہ بات کو لڑائی کے بغیر بھی حل کیا جا سکتا ہے، مسئلے کا حل صرف لڑنا نہیں۔ میں نے سوچا، اگر یہی لوگ جو اس وقت چھڑوا رہے ہیں، خود ایسی ہی صورت میں ہوتے تو شاید یہ بھی لڑ رہے ہوتے اور انھی باتوں کو بھول جاتے جو اس وقت دوسروں کو سمجھا رہے ہیں۔ انسان جب خود کسی مسئلے کا شکار نہیں ہوتا تو بہت کچھ سوچتا اور سمجھاتا ہے، لیکن جب خود پر وہی کیفیت آتی ہے تو اکثر جذبات غالب آ جاتے ہیں، اور عقل اور دلیل پیچھے رہ جاتی ہے۔ اسی لیے اصل عقل مندی یہ ہے کہ انسان مشکل وقت میں بھی اپنے اصول اور باتیں یاد رکھے، وہی کرے جو وہ دوسروں کو کہتا ہے۔ یہی کردار کی سچائی ہے۔

*ادلـے کا بدلـہ* ایک شخص جو اپنے بوڑھے باپ سے بڑا تنگ تھا ، ایک دن اسے کمر پر لاد کر اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے اور چلتے چلتے وہ دونوں دریا پر پہنچ جاتے ہیں ۔ وہ شخص پانی میں اترتا ہے اور گہرے پانی میں جانے لگتا ہے ۔ اور ایک مقام پر اس کا بوڑھا باپ اپنے بیٹے سے پوچھتا ہے کہ " بیٹا کیا کر رہے ہو " ؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیری روز روز کی بڑ بڑ سے تنگ آ کر تجھے دریا برد کرنے آیا ہوں ۔ (یا ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کو کوئی اور جواب دیا ہو ) اور سوچ رہا ہوں کہ تجھے ذرا گہرے پانی میں پھینکوں تاکہ تو جلدی ڈوب جائے تو اس کا بوڑھا باپ جواب دیتا ہے " بیٹا جس جگہ تو مجھے پھینک رہا ہے یہاں نہ پھینکنا بلکہ ذرا اور آگے اور گہرے پانی میں پھینکنا ۔" بیٹا پوچھتا ہے کہ " کیوں ، یہاں کیوں نہ پھینکوں ؟" اس کا باپ کہتا ہے کہ " اس جگہ میں نے تیرے دادا اور اپنے باپ کو پھینکا تھا ۔" یہ سن کر اس کا بیٹا اپنے باپ کو واپس گھر لے آتا ہے کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ جب وہ بوڑھا ہوگا تو اس کی منزل اس سے بھی گہرا پانی ہوگا ، جہاں وہ اپنے باپ کو پھینکنے والا تھا ۔ *📌پیغامِ حکایت:* یہ حکایت ہمیں ایک نہایت اہم اخلاقی سبق دیتی ہے کہ والدین کے ساتھ ہمارا سلوک ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔ جیسے ہم اپنے والدین کے ساتھ پیش آتے ہیں، ویسا ہی سلوک ہمارے بچے کل ہمارے ساتھ کریں گے۔ یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انسان کو اپنے والدین کی قدر کرنی چاہیے، خصوصاً بڑھاپے میں جب وہ سب سے زیادہ کمزور اور بے سہارا ہوتے ہیں۔ جو بوئے گا، وہی کاٹے گا — اگر ہم آج اپنے بڑوں کو رسوا کریں گے، تو کل ہمارے بچے ہمیں عزت نہیں دیں گے۔ *✍🏻:مظہر قادری* مزید ایسی تحاریر کے لیے اس چینل کو فالو کریں👇🏻

*لا تتحدث عن المحبة مع القلوب المحطمة،* *لا تذكر المنازل أمام من لا مأوى له.💔* ٹوٹے ہوئے دلوں سے نہ الفت کی بات چھیڑ ذکرِ مکاں اچھا نہیں کسی بے گھر کے سامنے❤️🩹۔ *✍🏻:مظہر قادری*


*تمہاری کِشتِ زار پر اِمسال تٙقٙاطُرِ اٙمطٙار ہوا یا نہیں؟* ایک بار وزیر زراعتِ آب پاشی ایک گاؤں کے دورے پر تھے ، کسانوں کا ایک وفد ملنے آیا ، ان لوگوں نے وزیر سے اجازت لینے کے لئے ایک کسان کو اندر بھیجا ، وزیر صاحب نے سر اٹھا کر دیکھا اور پوچھا: ” تمہاری کِشتِ زار پر اِمسال تٙقٙاطُرِ اٙمطٙار ہوا یا نہیں؟ ان پڑھ کسان نے جب یہ جملہ سنا تو فوراً باہر نکل آیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا: وزیر صاحب تلاوت فرمارہے ہیں۔ وزیر صاحب اگر مشکل زبان نہ بولتے تو کسان پریشان نہ ہوتا، حالانکہ وہ تلاوت نہیں تھی ، بات ذرا بنا سجا کر پیش کی گئی تھی ، وزیر کے جملے کا معنی ہے: ” تمہارے کھیت پر اس سال بارش ہوئی یا نہیں؟ لہذا جب بھی کسی سے بات چیت کریں یا تقریر و بیان فرمائیں یا مضمون و کتاب وغیرہ لکھنے کی ترکیب کریں تو سننے پڑھنے والوں کی سمجھ میں آسکیں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش فرمائیں۔ اور بولنے میں الفاظ سادہ اور صاف صاف ہونے چاہئیں ، مشکل الفاظ استعمال کرنے میں ہو سکتا ہے کہ اگلے پر آپ کی زبان دانی کی دھاک تو بیٹھ جائے مگر آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں وہ اس کی سمجھ میں ہی نہ آئے اس لیے ہمیں سادہ اور عام فھم تحریر و کتابت اور گفتگو کرنی چاہیے۔ اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں تاکہ مزید لوگ بھی مستفیض ہو سکیں۔ *✍🏻:مظـــہر قــادری*

*سونا، چاندی اور شلجم* ایک مسافر کسی بڑے ریگستان میں راستہ بھول گیا ۔ بد قسمتی سے کھانا بھی ختم ہو چکا تھا اور برداشت کی طاقت نہ رہی تھی۔ ہاں کمر سے کچھ روپے بندھے تھے ۔ جب اردگرد پھر کر غریب نے کہیں راہ نہ پائی تو بے چینی سے جان دے دی ۔ کچھ عرصے بعد اس طرف کسی قافلے کا گزر ہوا تو دیکھا کہ مرنے والے کے سامنے روپیوں کی ہمیانی رکھی ہے اور زمین پر یہ لکھا ہوا ہے۔ ”مال و دولت سے پیٹ نہیں بھرتا۔ سونے چاندی سے شلجم اچھے ہیں جن سے پیٹ تو بھر سکتا ہے“۔ *پیغام حکایت:* یہ حکایت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دولت و ثروت اُس وقت بے معنی ہو جاتی ہے جب بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں۔ انسان کی اصل ضرورت کھانا، پانی اور زندگی کی بقا ہے، نہ کہ سونا چاندی۔ مال کی اہمیت اُس وقت تک ہے جب تک وہ ضرورتوں کو پورا کر رہا ہو، وگرنہ بھوک میں چند شلجم بے وقعت سونے کے ڈھیر سے کہیں بہتر ہیں۔ مت ٹٹولا کیجیے میرے لفظوں سے میری ذات اپنی ہر تحریر کا عنوان نہیں ہوں میں۔ *✍🏻:مظہر قادری*

حاجیوں کے بن رہے ہیں قافلے پھر یا نبی پھر نظر میں پھر گئے حج کے مناظر یا نبی❤️🩹 *Feel These Deep Lines*