
Muhammad Mazhar Hussain Official
June 19, 2025 at 03:21 PM
*پانچ سونے کے سکے اور سیب*
ایک دن ایک حکمران اپنے محل کے بلند و بالا کمرے میں آرام فرما رہا تھا کہ باہر سے ایک دیہاتی کی صدا سنائی دی:
“سیب لیجیے! تازہ سیب!”
حاکم نے کھڑکی سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک یمنی کسان چہرے پر دھوپ سے جھلسی جھریاں، سادہ عمامہ اور گرد آلود چغہ پہنے اپنے نحیف گدھے پر دونوں طرف دو ٹوکریاں لادے بازار کی طرف جا رہا ہے، جن میں سرخ و رسیلے سیب بھرے ہوئے ہیں۔
بادشاہ کے دل میں سیب کھانے کی خواہش جاگی۔ اُس نے وزیر کو بلایا اور حکم دیا:
“خزانے سے پانچ سونے کے سکے لے لو اور میرے لیے ایک بہترین سیب لاؤ!”
وزیر نے خزانے سے پانچ سکے نکالے اور اپنے معاون سے کہا:
“یہ چار سونے کے سکے لے لو، اور بادشاہ سلامت کے لیے ایک سیب خرید لاؤ۔”
معاون نے تین سکے رکھے، باقی محل کے منتظم کو دیے اور کہا:
“یہ تین سونے کے سکے لے لو، اور ایک سیب لاؤ۔
محل کے منتظم نے دو سکے رکھے، اور چوکیداری کے منتظم کو بلایا اور کہا:
“یہ دو سکے لے جاؤ اور فوراً ایک سیب لاؤ۔”
چوکیدار کے منتظم نے ایک سکہ گیٹ پر موجود سپاہی کو دیا اور کہا:
“سنو! یہ لو ایک سونے کا سکہ، اور وہ جو گلی کے کونے میں سیب بیچ رہا ہے، اُس سے سارے سیب خرید لو!”
سپاہی تیزی سے باہر نکلا، مگر سکہ دینے کے بجائے سیب فروش کو گریبان سے پکڑ کر دہاڑا:
“او نادان دیہاتی! تجھے خبر نہیں کہ یہ شاہی محل ہے؟ تیری بلند آواز نے حضورِ والا کی نیند میں خلل ڈال دیا ہے۔ اب مجھے حکم ہے کہ تجھے قید کر دوں!”
بیچارہ دیہاتی تھر تھر کانپنے لگا، اور ہاتھ جوڑ کر گِڑگڑایا:
“حضور! میری خطا معاف کیجیے… یہ گدھا میری ایک سال کی محنت سے کمائے گئے سیبوں کا بوجھ اٹھا رہا ہے۔ یہ سیب لے لیجیے مگر مجھے قید نہ کیجیے!”
سپاہی نے جلدی سے دونوں ٹوکریاں قبضے میں لیں، کچھ سیب خود رکھے، باقی چوکیدار کے منتظم کو دیے۔
اس نے اُن میں سے چند سیب رکھے اور باقی اوپر کے افسر کو دے دیے، ساتھ کہا:
“یہ وہ سیب ہیں جو ایک سونے کے سکے میں خریدے گئے ہیں۔”
افسر نے سیبوں میں سے کچھ اپنے لیے چُنے اور باقی محل کے منتظمِ اعلیٰ کو بھیجے، کہہ کر:
“یہ دو سونے کے سکوں والے سیب ہیں۔
منتظمِ اعلیٰ نے سیبوں کو دیکھا، کچھ چکھا، باقی اسسٹنٹ وزیر کو دیے اور کہا:
“یہ تین سکوں کے سیب ہیں۔”
اسسٹنٹ وزیر نے کچھ سیب رکھے، باقی وزیر کے حوالے کیے اور کہا:
“یہ سیب چار سونے کے سکوں کے بدلے حاصل کیے گئے ہیں۔”
وزیر نے آخری پانچ سیب بچا کر حکمران کی خدمت میں پیش کیے اور عرض کیا:
“بادشاہ سلامت! آپ نے ایک سیب کا کہا تھا، مگر اس نے پانچ سونے کے سکوں کے بدلے یہ پانچ سیب دیے ہیں!”
حاکم نے سیبوں کو دیکھ کر مسکرا کر کہا:
“میرے دور میں کسان واقعی خوشحال ہیں! ہر سونے کے سکے کے بدلے ایک سیب! اب وقت آ گیا ہے کہ ٹیکس میں مزید اضافہ کیا جائے تاکہ ہم شاہی اخراجات پورے کر سکیں!”
چند ہی دنوں میں عوام پر ایسے بھاری ٹیکس لگے کہ مزدور روٹی کو ترسنے لگے، کسان قرض میں ڈوبنے لگے، اور بازار بے رونق ہو گئے۔
اور پھر… عوام میں غربت بڑھتی چلی گئی۔
پیغام حکایت لکھ دیں
*📌پیغامِ حکایت:*
یہ حکایت دراصل بدعنوانی، بدانتظامی، اور طاقت کے ایوانوں میں موجود “وسیلہ در وسیلہ” کے نظام پر ایک طنزیہ تبصرہ ہے۔ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک سیدھی سادی چیز جیسے ایک دیہاتی کا بیچا ہوا سیب طاقت کے مراکز سے گزرتے گزرتے اصل حقیقت سے بہت دور ہو جاتی ہے۔
ہر درمیانی فرد اپنے فائدے کے لیے کچھ نہ کچھ حصہ رکھتا گیا، اور انجامِ کار جو چیز بادشاہ تک پہنچی، وہ نہ صرف حقیقت سے ہٹ چکی تھی بلکہ اس پر کیے گئے فیصلے بھی غیر منصفانہ تھے۔
جب طاقتور عوام کی حالت کو نیچے اتر کر نہیں دیکھتے، بلکہ جھوٹے اعداد و شمار اور خوشامدی طبقات کے ذریعے فیصلہ کرتے ہیں، تو نتیجہ ہمیشہ ظلم، غربت اور بدحالی کی صورت میں نکلتا ہے۔
یہ حکایت اہلِ اقتدار کو جھنجھوڑتی ہے کہ:
• اپنے فیصلے خود دیکھ کر کریں، محض رپورٹوں پر نہ جائیں۔
• نظام میں موجود کرپشن کا تدارک کریں ورنہ اصل قیمت عوام کو چکانی پڑتی ہے۔
• اور سب سے اہم بات:
عوام کی آواز کو دبانا نہیں، سمجھنا چاہیے… کیونکہ جب ایک دیہاتی کی پکار جرم بن جائے تو سمجھ لو کہ انصاف مر چکا ہے۔
*✍🏻:مظہر قادری*
اگر آپ نے تحریر مکمل پڑھ لی تو ری ایکٹ کریں۔
👍
❤️
😢
💯
🇵🇰
🙏
❤
♥
👏
👌
243